Tuesday, August 2, 2022
سوشل میڈیا کی جنگ
یہ 90 کی دہائی کے آخری سالوں کی بات ہے کہ ہم انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہوئے۔ کمپیوٹر کی ڈیسک ٹاپ شکل پاکستان میں 80 کی دہائی کے اواخر میں آ چکی تھی اور اس کا کارپوریٹ اداروں میں استعمال بھی شروع ہو چکا تھا تاہم انٹرنیٹ کا استعمال محدود تھا کیونکہ پاکستان پر ان دنوں تجارتی پابندیوں کے باعث کمپیوٹر کے اس وقت کے جدید ورژن کی امپورٹ ممنوعہ کیٹیگری میں آتی تھی۔ خیر لمبی کہانی ہے۔ ہم اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا ڈومیسٹک استعمال 1998 میں بہت محدود تھا اور چیٹ صرف MIRC نامی سافٹ وئیر سے ہی ممکن ہو پاتی تھی لیکن پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک طوفان شروع ہوا اور اس کی شروعات یاہو اور ایم ایس این کے چاٹ رومز تھے۔ یہ سوشل میڈیا کی ابتدا تھی۔
چیٹ رومز سے بات یاہو اور ایم ایس این گروپس اور میسینجرز تک پہنچی اور جب گوگل اس میدان میں آیا تو اس نے بھی اپنے میسنجر اور گروپس سے ہی اپنی ابتدا کی۔ 
یہ پہلا موقع تھا کہ عالمی کمیونٹی کو ہر ملک کے شہریوں کے رہن سہن، عادات، بات چیت اور پسند ناپسند سے آشنائی ہوئی، دوستیاں ہوئیں اور گروپس کا تصور راسخ ہونا شروع ہوا۔
انسان جب سے تہذیب کے جامے میں آیا ہے تب سے گروہوں کی شکل میں رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ گروپ معاشرے کی بنیاد بنے، قبیلے وجود میں آئے، شہروں کی بنیاد پڑی اور بالآخر ملکوں، براعظموں اور رنگ و نسل کی شکل میں گروپنگ ہوئی۔ انٹرنیٹ کمیونٹی چونکہ زبان، نسل، رنگ، شہر، ملک اور یہاں تک کہ براعظم سے ماورا تھی اس لئے یہاں رجحانات کی بنیاد پر گروپنگ ہوئی۔ جیسے جیسے انٹرنیٹ کی مختلف ایڈوانس شکلیں سامنے آئیں ویسے ویسے رجحانات کا تنوع بھی بڑھا۔ اب یہاں سے ان رجحانات اور ترجیحات کا مطالعہ بھی شروع ہوا۔ چونکہ یہ ایجاد اور اس میں مزید اختراعات ترقی یافتہ ممالک سے آ رہی تھیں اس لئے وہ اس پہ محتاط بھی تھے کیونکہ ہر ایجاد کا مثبت و منفی استعمال انسان کی سرشت میں ہے اس لئے انہوں نے پہلے پہل ان اختراعات کے صرف قانونی پہلووں پر توجہ کی مثلا آپ جب بھی کوئی سافٹ وئیر اپنے کمپیوٹر پر انسٹال کرتے ہیں تو ایک لمبا ایگریمنٹ سامنے آتا ہے اور جب تک آپ اسے قبول نا کرلیں سوفٹ وئیر کھلتا نہیں اسی طرح تقریبا سب سوشل میڈیا ایپس آپ کو کسی غیر قانونی/ غیر اخلاقی مواد کو رپورٹ کرنے کی نا صرف سہولت دیتے ہیں بلکہ اس کیلئے حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ بلاک کرنے کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ یہ سب تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ مسائل سامنے آنے کے بعد ہوئیں اور انٹرنیٹ کمیونٹی نے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا اور اس کے مطابق انٹر نیٹ کے استعمال کنندگان کیلئے سہولیات اور فرائض کی جانب مائل کرتے گئے۔
لیکن ان ممالک کے کمپیوٹر ماہرین، نفسیات دان حضرات اور سائینسدانوں نے جس پہلو پر کام کیا وہ رجحانات کا مطالعہ اور اس کا منفی/ مثبت استعمال بھی ہے۔ اس اسٹڈی کے مطابق چونکہ انسان اپنی طبع کے مطابق گروہوں میں رہنے کا عادی ہے اس لئے اس کی ترجیح اپنے رجحان کے لوگوں کے ساتھ میل جول ہوتا ہے اس وقت آپ اگر غور کریں تو تمام سوشل میڈیا ایپس چاہے وہ فیس بک ہو، چاہے ٹوٹر یا پھر ان سے ملتے جلتے دوسرے انٹر نیٹ پروگرام، آپ کی ترجیح اپنے پروفائل میں انہی لوگوں کو جمع کرنا ہوتا ہے جن سے آپ کی دوستی ہوتی ہے یا عزیز داری اور ان میں سے بھی آپ کی ٹائم لائن پہ بھی وہی لوگ اوپر ہوتے ہیں جن سے آپ کا میل جول زیادہ رہتا ہے۔ اس دائرے کے علاوہ آپ ان لوگوں کو اپنے حلقے میں لاتے ہیں جن سے آپ متاثر ہوتے ہیں اور انہیں فالو کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں ماہرین کا اجماع ہے کہ انسان ایک ایکو چیمبر میں چلا جاتا ہے۔ ایکو چیمبر کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے آئیے آپ کو اس سے متعارف کرائیں
ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ: "انٹرنیٹ نے قابل رسائی سیاسی معلومات کی تنوع اور مقدار کو بڑھا دیا ہے۔ مثبت پہلو پر، یہ عوامی بحث کیلئے زیادہ بڑا پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔ منفی پہلو پر، معلومات تک زیادہ رسائی نظریاتی طور پر ایک ہی نظریے کے لوگوں کے لیے ایک ہی جگہ اکٹھے ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔ 
ایک انتہائی "ایکو چیمبر" میں، اپنے نظریے کے حق میں معلومات کا حامل ایک شخص دعویٰ کرے گا، جسے بہت سے ہم خیال لوگ پھر دہراتے ہیں، سنتے ہیں اور دوبارہ دہراتے ہیں (اکثر مبالغہ آمیز یا دوسری صورت میں مسخ شدہ شکل میں) جب تک زیادہ تر لوگ یہ فرض نہ کر لیں کہ کہانی سچ ہے۔ 
ایکو چیمبر ایک ایسا ماحول ہے جہاں کسی شخص کو صرف ایسی معلومات یا آراء کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی اپنی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں اور ان کو تقویت دیتی ہیں۔ ایکو چیمبر اصطلاح ایک استعارہ ہے جس کی بنیاد ایک صوتی ایکو چیمبر پر ہوتی ہے، جس میں کھوکھلی دیوار میں آوازیں گونجتی ہیں۔ 
انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کمیونٹیز کے اندر اس بازگشت اور یکساں اثر کے لیے ایک اور ابھرتی ہوئی اصطلاح ثقافتی قبائلیت ہے۔ 
بہت سے اسکالرز ان اثرات کو نوٹ کرتے ہیں جو گونجتے ہیں۔ ایکو چیمبر شہریوں کے موقف اور نقطہ نظر پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، اور خاص طور پر سیاست پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایکو چیمبر میں حصہ لے کر، لوگ ایسی معلومات حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو مخالف آراء کا سامنا کیے بغیر ان کے موجودہ خیالات کو تقویت دیتی ہے، جس کے نتیجے میں تصدیقی تعصب کی غیر ارادی مشق ہو سکتی ہے۔ ایکو چیمبرز سماجی اور سیاسی پولرائزیشن اور انتہا پسندی کو بڑھا سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایکو چیمبر متنوع نقطہ نظر کی نمائش کو محدود کرتے ہیں، اور مفروضہ بیانیوں اور نظریات کی حمایت اور تقویت کرتے ہیں۔"
میں نے کوشش کی ہے کہ قابل فہم زبان میں آپ کو ایکو چیمبرز تھیوری سے متعارف کرایا جائے چلیں اب عام فہم انداز میں سمجھاتے ہیں کہ ایکو چیمبر کا تصور کیا ہے۔ ایکو چیمبر کی صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ ایک ہی جیسے خیالات و نظریات کے لوگوں کے درمیان گم ہو جاتے ہیں ایک ہی نظریے کے لوگوں کی باتیں سنتے ہیں اور انہی پر یقین کر کے اسے سچ سمجھ کے اس کی ترویج کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ایکو چیمبر میں مخالف آواز یا تو داخل نہیں ہونے دی جاتی یا پھر اسے نکال دیا جاتا ہے۔ اس وقت آپ دیکھیں گے کہ فیس بک، ٹوٹر پر یا تو آپ ہم خیال لوگوں کی فیڈ دیکھ رہے ہوتے ہیں یا پھر اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر کسی مخالف آواز کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال ایک پرتشدد معاشرت کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور جب آپ اس آن لائن ایکو چیمبر سے اپنی حقیقی دنیا میں اس صورت  واپس واپس آتے ہیں کہ آپ ایک بار بار گونجتی آواز کو سچ سمجھ چکے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت بدتر ہو جاتی ہے جب آپ ہم خیالوں کے ایک گروپ کو جوائن کرتے ہیں۔
اگلے مرحلے میں ہم سرچ ببل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
 سرچ ببل منظم پراپوگنڈہ کی ایک ایسی طاقت ہے جسے مارکیٹنگ کی دنیا میں سب سے خطرناک ہتھیار مانا جاتا ہے 
ماہرین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی میسج جب آپ کو تین سے زیادہ ذرائع سے ملے تو آپ کے اسے ماننے اور یقین کرنے کا چانس بڑھ جاتا ہے جب ٹک ٹاک، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، ٹی وی ہر جگہ پر ایک ہی پیغام آئے گا تو کیا نتیجہ ہوگا؟
کہنے کو تو آج کی دنیا ”انفارمیشن ایج” ہے مگر سوشل میڈیا کی سائنس ایسی کہ ہر بندے کا ایک search bubble ہے جو اس کی آن لائن ایکٹویٹی کے algorithm سے بنتا ہے 
فیک نیوز میں ہمیشہ ایسا عنصر ہوتاہے جو آپ کو جذباتی کر دے ماہرین سوشل میڈیا کا ماننا ہے کہ فیک نیوز کو پھیلانے اور قائل کرنے میں جذباتی کردینے والے چیزیں اہم کردار ادا کرتی ہیں جیسا کہ آپ کچھ دن سوشل میڈیا پر جانور بھی سرچ کریں تو ہر سوشل میڈیا پر آپ وائلڈ لائف ہی ملے گا چاہے میڈیم کوئی بھی ہو یہی وہ پہلو ہے، جن پر ماہرین نفسیات، آئی ٹی کے ماہرین اور مارکیٹنگ کے ماہرین مل بیٹھ کر ایک بہترین سٹریٹجی بنا تے ہیں۔
آخری مرحلے میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کی جنگ کیسے لڑی جا رہی ہے اور کن حربوں سے اپنے اور مخالفین کو متاثر کیا جا رہا ہے 
یوں تو اس وقت تمام سیاسی جماعتوں اور انکے چھوٹے سے بڑے رہنماوں کے چھوٹے بڑے میڈیا سیل کام کر رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے سوشل میڈیا کو اتنا منظم نہیں کیا جتنا اس نے ادارہ جاتی طور پر اس میڈیم کو استعمال کیا ہے۔ باقی جماعتیں روایتی طور پر زیادہ تر مین اسٹریم میڈیا پر فوکس رکھتی ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف ان سے ایک قدم آگے ہے۔ 
2013 کے الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کا سوشل میڈیا زیادہ تر مخالفین کی ٹرولنگ اور بعض الزامات کے مطابق گالم گلوچ کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ لیکن بعد ازاں اس جماعت نے اس میڈیم کو باقاعدہ ادارہ جاتی شکل دی اور اسے اپنے پراپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال شروع کیا۔ چونکہ اس جماعت میں کارپوریٹ کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوئی جو نا صرف پڑھی لکھی بلکہ جدید علوم سے آشنا تھی اس لئے تحریک انصاف نے نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا ماہرین کی مدد سے ایسے جذباتی میسج تخلیق کیے کہ وہ ان کا Search Bubble اس طرح بن گئے کہ وہ صرف ایک ہی طرح کے پیغامات ہی دیکھ سکتے ہیں یعنی ان کی سوشل میڈیا اور معلومات Algorithms کی مدد سے محدود کر دی گئی ہیں۔ یہ کارنامہ باقاعدہ ایکو چیمبر اور سرچ ببل کی مہارت کو استعمال کر کے سرانجام دیا گیا۔ اس پارٹی نے اپنے دور حکومت میں ترجمانوں کی ایک پوری فوج بھرتی کی جو مختلف ایشوز پہ ایک بیانیہ تشکیل دیتی جو ایک دوسری سوشل میڈیا ٹیم جس کے ہیڈ کا دفتر پرائم منسٹر ہاوس میں ہی تھا، پھیلانے کا فریضہ سرانجام دیتی۔ اس سوشل میڈیا ٹیم کو باقاعدہ سرکاری نوکریاں دی گئیں بلکہ ان کیلئے ایک سپیشل بجٹ منظور کیا گیا
پاکستان کی 63 فیصد آبادی نوجوان ہے جو بچہ 2000 میں پیدا ہوا، آج 22 سال کا ہے اس نے اپنے سارے بچپن اور لڑکپن میں پاکستان کے سارے سیاستدانوں کو نہی دیکھا بلکے یہ سنتے گزارا کہ سوائے عمران خاں کے باقی سارے چور ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دنیا بھر کی نفسیات کی تحقیق اٹھا لیجئے ٹین ایج ہی وہ عمر ہے کہ جب آپ کی سوچ کی تشکیل ہوتی ہے جب آپ نظریات بدلتے ہیں
جب آپکو چیزوں کی پہچان ہوتی ہے اس عمر کو پی ٹی آئی نے ہر اس سورس سے اپروچ کیا جو ممکن تھی ٹک ٹاک، یو ٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام، وٹس ایپ اور دیگر تمام سوشل میڈیا کے ادارے جو لوگو ں کے اذہان پر اثر انداز ہوسکتے ہیں انہیں استعمال کیا گیا۔ 
ٹین ایج کی آفاقی حقیقت یہ ہے کہ میرے دوست جو نظریہ رکھتے ہیں وہی میرا ہو گا۔ اس سب کو ڈیل کرنے کے لیے ماسوائے پی ٹی آئی کے کسی اور جماعت نے اس پر کام نہی کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے  کہ نوجوانوں کی سوچ یکطرفہ ہوگئی ہے اور نوجوانوں کا ذہن اس یک طرفہ سوچ سے اس قدر متاثر ہوچکا ہے کہ وہ کوئی دوسری بات سننے کو سرے سے تیار ہی نہی۔ ان کے سامنے ہے کہ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور پچھلے پونے چار سال میں پی ٹی آئی حکومت نے اس ملک کا جو ستیاناس کیا ہے وہ اسے ماننے کو تیار ہی نہیں۔ 
پچھلے کچھ سالوں میں جس طرح ذہن تیار کئے گئے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب ساری صورتحال جرمن قوم کے حالات سے مماثلت اختیار کرتی جارہی ہے۔  سب کو یاد ہوگا کہ نوے سال پہلے کی جرمن قوم ہم سے کہیں زیادہ باشعور اور پڑھی لکھی تھی۔ دنیاکے بہت سے بڑے مفکر اور فلاسفر وہیں پیدا ہو چکے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک  شخص نے اسے اپنے حصولِ اقتدار کے خوشنما جال میں ایسا پھنسایا کہ پوری قوم اس پر مر مِٹی۔ انجام ٹوٹل تباہی۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
پہلگام کہانی
پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...
- 
ٹرمپ کیا کرنا چاہیں گے پہلا حصہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کا پروجیکٹ 2025 اظہر عباس پروجیکٹ 2025 ایک 922 صفحات پر مشتمل بلیو پرنٹ ہے جسے ہیریٹیج فاؤ...
- 
"Worry, like a rocking chair," said Vance Havner, "will give you something to do, but it won't get you anywhere."...
- 
جھوٹ اور انتشار کی جنگ اظہر عباس (حصہ اول) جنگ کی نوعیت صدیوں کے دوران ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ارتقا و پھیلاو، معاشرے او...
 
 
 
No comments:
Post a Comment