Wednesday, August 24, 2022

انتشار کی سیاست

عین اس وقت جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا کے گھر کی ایف بی آئی کی تلاشی کے تناظر میں، کچھ انتہائی دائیں بازو کی شخصیات آن لائن پرتشدد بیان بازی کر رہی ہیں اور وہاں ایک اور قسم کی سول وار کے خطرات کے بارے میں وہاں کے ماہرین سیاست تجزئے کر رہے ہیں اسی ہفتے پاکستان میں عمران خان کی گرفتاری کے خدشے نے ان کے ورکرز کو انکی رہائش گاہ بنی گالا پر اکٹھا ہونے پر مجبور کیا اور وہ کھلم کھلا عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹرینڈ چلا رہے ہیں جو اب تک ٹوٹر پر ٹاپ میں سے ایک ٹرینڈ ہے آئیے، دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں کیا ہو رہا ہے۔ بزنس انسائیڈر کی حالیہ اشاعت میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے: ریپبلکن پارٹی نے طویل عرصے سے خود کو "امن و امان" کے محافظ کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن ٹرمپ کے گھر چھاپے کے نتیجے میں ریپبلکن قانون ساز مارجوری ٹیلر گرین نے FBI کو نشانے پر لے لیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر "سول وار" کا حوالہ بھی دیا۔ کیونکہ ان کے ریپبلکن ساتھی ایف بی آئی کا موازنہ گیسٹاپو سے کرتے ہیں اور چھاپے کو اس طرح کی چیز کے طور پر پیش کرتے ہیں جو صرف "تیسری دنیا" کے ممالک میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ/ ریپبلکن پارٹی کے لاکھوں ووٹرز اس غلط تصور پر یقین کرتے رہتے ہیں کہ 2020 کے صدارتی انتخابات ٹرمپ سے چوری کیے گئے تھے۔ انہوں نے پچھلے سال 6 جنوری کو امریکی کیپیٹل میں مہلک فسادات کو متحرک کیا تھا، اور تاریخ دان اور جمہوریت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ جھوٹ مزید تشدد کے امکانات کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے خانہ جنگی دیکھی تو یہ پہلی جیسی نہیں ہوگی۔ فیونا ہل، جنہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے دوران قومی سلامتی کونسل میں روس کے سرکردہ ماہر کے طور پر خدمات انجام دیں، نے گزشتہ ماہ انسائیڈر کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ ملک ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں "مختلف برادریوں اور حکام پر اعتماد" اس حد تک ختم ہو گیا ہے کہ لوگ صرف ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹرمپ کے گھر پر چھاپے کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت بعد، ایک مسلح شخص نے سنسناٹی میں ایف بی آئی کے فیلڈ آفس میں گھسنے کی کوشش کی۔ حکام نے کسی مقصد کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن مبینہ طور پر اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس شخص نے جو بالآخر پولیس کے ہاتھوں مارا گیا تھا کا انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی سے تعلق تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ مشتبہ بندوق بردار رکی شیفر نے ٹرمپ کے سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹروتھ سوشل پر ایف بی آئی کے خلاف جنگ اور تشدد کی کال پوسٹ کی تھی۔ سان ڈیاگو کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر باربرا ایف والٹر نے جو سیاسی تشدد پڑھانے میں مہارت رکھتی ہیں، نے پوسٹ کو بتایا، "جب لوگ خانہ جنگی کے بارے میں سوچتے ہیں، تو وہ پہلی خانہ جنگی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اور ان کے ذہن میں، دوسری جنگ کی طرح نظر آئے گی۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے،" والٹر نے پوسٹ کو بتایا۔ "ہم جس چیز کی طرف بڑھ رہے ہیں وہ ایک شورش ہے، جو کہ خانہ جنگی کی ایک شکل ہے۔ یہ خانہ جنگی کا 21 ویں صدی کا ورژن ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں طاقتور حکومتیں اور طاقتور فوجیں ہیں، جیسا کہ امریکہ ہے۔ " واشنگٹن پوسٹ نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ وائٹ ہاؤس میں ایک حالیہ ملاقات کے دوران، تاریخ دانوں کے ایک گروپ نے صدر جو بائیڈن کو خبردار کیا کہ امریکہ کو ایسے خطرات کا سامنا ہے جو خانہ جنگی سے پہلے کے دور میں ملک نے دیکھے ادھر اپنے ملک میں دیکھئے تو ٹائم کی تازہ رپورٹ کے مطابق: یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں سنٹر فار مسلم سٹیٹس اینڈ سوسائٹیز کی ڈائریکٹر ثمینہ یاسمین کہتی ہیں کہ مرکزی دائیں بازو کی مسلم لیگ (ن) پارٹی کے وزیر اعظم شہباز شریف کی نئی حکومت نے جو خان کے دیرینہ دشمن نواز شریف کے بھائی ہیں، نے خان کو "ہسٹیریا بڑھانے" کی اجازت دینے کی غلطی کی ہے۔ لیکن اب اناڑی طریقے سے کریک ڈاؤن کرکے "اور بھی عدم استحکام" کا سامنا ہے۔" پاکستانی معاشرہ شاذ و نادر ہی اس قدر پولرائزڈ ہوا ہے، جس میں آدھا ملک خان کو نجات دہندہ اور آدھا شیطان کا اوتار سمجھتا ہے۔ یاسمین کہتی ہیں، ’’مؤثر طریقے سے، اس نے جو کچھ کیا اس سے ملک تقسیم ہو گیا ہے۔ یہ بہت زیادہ ٹرمپ کی طرح ہے [امریکہ میں] اور اگر امریکہ ابھی تک مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوا تو پاکستان جیسا ملک کیسے سنبھل سکتا ہے؟" میں کہتا رہا ہوں کہ عمران خان اور امریکی ریپبلیکن پارٹی/ ٹرمپ کے درمیان مکمل ذہنی ہم آہنگی ہے اور دونوں کے انداز سیاست کا رنگ اس وقت نظر آیا جب خان نے اپنی پارٹی میں امریکی رائٹ ونگ گروپ پراوڈ بوائز کی طرز پر ٹائیگر فورس کی تشکیل کرنی شروع کی۔ یاد رہے کہ یہی پراوڈ بوائز تھے جو امریکی کیپیٹل ہل پر حملے میں پیش پیش تھے۔ اور اب جبکہ خان نے امریکہ میں ایک نئی پی آر او کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں انٹر نیشنل کمیونٹی میں ایک نئی کمپین کی توقع ہے جس کا آغاز اقوام متحدہ سے بیان، موقر جریدوں میں آرٹیکلز اور ٹوٹر پیغامات کی صورت میں ہو چکا ہے۔ کیا کہیں گھنٹیاں بج رہی ہیں ؟

No comments:

Post a Comment

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...