Wednesday, August 31, 2022
انتشار اور تعمیر
انتشار اور تعمیر 
عین اس وقت جب پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ملک کی آبادی کا ایک تہائی سیلاب کی زد میں تھا، آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس سے پہلے پی ٹی آئی کی خیبر پختون خواہ حکومت کے وزیر خزانہ نے پاکستان کی آئی ایم ایف سے ڈیل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے کہنے پر ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ سرپلس دینے سے قاصر ہوں گے جس کا وہ پہلے وعدہ کر چکے تھے۔ اسی دن دوپہر کو تمام نیشنل میڈیا ان خفیہ کالوں سے گونج رہا تھا جس میں شوکت ترین پنجاب اور کے پی کے کے وزرا خزانہ کو فون کر کے گائیڈ کر رہے تھے کہ وہ خط لکھیں تاکہ اس حکومت کو سبق سکھایا جا سکے جو پی ٹی آئی کے چئیرمین کو تنگ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ انہیں یہ مسئلہ نہیں تھا کہ اس سے ریاست نقصان اٹھائے گی بلکہ وہ حکومت کو سبق سکھانے پر تلے نظر آئے۔ 
لیکن رات آنے تک آئی ایم ایف اپنے بورڈ اجلاس میں ڈیل کی منظوری دے چکا تھا۔
پاکستان میں غیرمعمولی مون سون بارشوں اور برفانی گلیشئیر پگھلنے کی وجہ سے آنے والے تباہ کن سیلاب نے اب تک 1,000 سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا ہے اور لاکھوں گھر اور لاکھوں ایکڑ فصلوں کو تباہ کیا ہے، جس سے 30 ملین سے زیادہ پاکستانی متاثر ہوئے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ملک بھر میں بارش اوسط سے تقریباً تین گنا زیادہ اور صوبہ سندھ جیسے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں، پانچ گنا زیادہ ہوئی ہے۔ 
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اسے عالمی اوسط سے کافی زیادہ گرمی کی شرح اور ممکنہ طور پر زیادہ، بار بار اور شدید موسمیاتی واقعات کا سامنا ہے۔ یہ واقعات خاص طور پر پسماندہ اور خطرے سے دوچار آبادیوں کے لیے خطرہ ہیں، بشمول بوڑھے، معذور افراد، غربت میں مبتلا افراد، اور دیہی آبادی۔ 
 پاکستان کے تباہ کن سیلاب ایک گہرے معاشی بحران کے درمیان آئے ہیں۔ اس کے 230 ملین میں سے چالیس فیصد لوگوں کو 2020 میں غذائی عدم تحفظ کا سامنا تھا، اس کے باوجود صرف 8.9 ملین خاندانوں کو مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے امداد ملی۔ غربت دیہی علاقوں میں مرکوز ہے، خاص طور پر سیلاب سے سخت متاثر علاقوں میں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے بورڈ نے 29 اگست کو میٹنگ کی اور، پاکستانی حکام کے مطابق، جولائی 2019 میں منظور شدہ رکے ہوئے قرض پروگرام کو بحال کرنے اور پاکستان کی آبادی پر معاشی بحران کے کچھ بوجھ کو کم کرنے کے لیے تقریباً 1.17 بلین امریکی ڈالر کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ 
حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت کو فنڈز کی آمد کو متاثرہ لوگوں کی مدد کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور IMF کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے پاس پائیدار، جامع اور حقوق پر مبنی بحالی کے لیے وقت اور لچک ہو۔
سیلاب کے بعد کی صورتحال کے بارے میں نیوز اور جنگ کے معاشی تجزیہ نگار مہتاب حیدر لکھتے ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے رواں مالی سال کیلئے پاکستان کیلئے 3.5 فیصد کی کم جی ڈی پی کی شرح نمو اور اوسطاً 19.9 فیصد مہنگائی کے ساتھ ’جمود‘ کی پیش گوئی کی تھی۔ اس نسخے سے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت پاکستان میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ ایسا کوئی نسخہ دستیاب نہیں ہے کہ جون 2023 میں موجودہ پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے بعد کاؤنٹی آئی ایم ایف پروگرام سے باہر آجائے گی۔ اگر جون 2023 کے آخر تک زرمبادلہ کے ذخائر 16.2 ارب ڈالرز کی مطلوبہ سطح تک نہ بڑھ سکے تو ملک کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہو گی۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے یہ تجزیہ جات سیلابی صورتحال سے پہلے کے ہیں اور موجود وسائل اور سیلاب کے بعد کی صورتحال میں ان میں اضافے کی توقع ہے
اس معاشی اور سماجی بحران میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ عظمت افروز خان کا خیال ہے کہ "خان اب تک کئی ریڈ لائنز کراس کر چکے ہیں جن میں شہباز گل کی بلاوجہ مداخلت اور تازہ ترین آئی ایم ایف ڈیل کو سبوتاژ کرکے ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش۔ ان کے خیال میں اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب ہر ادارے میں تقسیم پیدا کرنے کوشش کر کے اس تقسیم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب شاید ریاست اب اس سلسلے کو مزید برداشت نا کر سکے۔"
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کی ڈیل کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کامیاب ہو جاتی تو موجودہ سیلابی کیفیت میں حکومت ایک اندھیری گلی میں کیسے کھڑی نظر آتی جو ڈیفالٹ سامنے دیکھ رہی ہو ؟ 
میں نے گزشتہ کالم میں گزارش کی تھی کہ انتشار کی سیاست نا تو ٹرمپ کو راس آئی ہے اور نا ہی عمران خان صاحب کو راس آئے گی۔ کیونکہ ریاستیں انتشار نا افورڈ کیا کرتی ہیں اور نا ہی برداشت۔ شوکت ترین کی کالز کا منظر عام پر آنا بتاتا ہے کہ بجنے والی گھنٹیاں کہیں نا کہیں سن لی گئی ہیں۔
مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے ایک اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور متعدد این جی اوز سے تعلق رکھنے والے خالد سیف اللہ جو آج کل جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی سے منسلک ہیں، کا خیال ہے کہ "تحریک انصاف اگر اپنی بقا چاھتی ھے اور اس ملک کے سیاسی منظر نامے پہ اپنا وجود برقرار رکھنا چاھتی ھے تو اسے تنگ نظری کی سیاست پہ نظر ثانی کر نا ھو گی۔ اور سمجھنا ھو گا کہ ان آڈیو لیکس کا نتیجہ تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کیلیے کتنا نقصان دہ ہو سکتا ھے۔ خان صاحب کیلئے ابھی بھی موقع ھے کہ سیاسی تنہائی سے نکلیں اور دوسری سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کر کے ملک کی بہتری کی سوچ اپنائیں۔ میثاق معیشت ہی اس ملک کی ترقی کا واحد حل ھے اگر تمام اسٹیک ہولڈرز  بیس سے پچیس سال کے کسی بھی منصوبے پہ اتفاق کر لیں اور مل بیٹھ کر اس ملک کے معاشی مستقبل پر سیاست نہ کرنے کا عہد کرلیں تو معاشی خوشحالی کے نتیجہ میں سیاسی نظام میں خلل کا راستہ بھی روکا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کیلیے ریاست کے تمام ستونوں کو مل بیٹھ کر کچھ سخت فیصلے کرنا ھوں گے۔"
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
پہلگام کہانی
پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...
- 
ٹرمپ کیا کرنا چاہیں گے پہلا حصہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کا پروجیکٹ 2025 اظہر عباس پروجیکٹ 2025 ایک 922 صفحات پر مشتمل بلیو پرنٹ ہے جسے ہیریٹیج فاؤ...
- 
"Worry, like a rocking chair," said Vance Havner, "will give you something to do, but it won't get you anywhere."...
- 
جھوٹ اور انتشار کی جنگ اظہر عباس (حصہ اول) جنگ کی نوعیت صدیوں کے دوران ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ارتقا و پھیلاو، معاشرے او...
 
 
 
No comments:
Post a Comment