Thursday, July 21, 2022

معاشی استحکام کی سیاسی قیمت

معاشی استحکام کی سیاسی قیمت اظہر عباس یوکرین پر روس کے حملے نے نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر کو اقتصادی زلزلوں کا شکار کیا ہے۔ پاکستان، جس کی معیشت دہائیوں کی غیر مستحکم طرز حکمرانی کی وجہ سے پہلے ہی کمزور ہے، خاص طور پر اسکا شکار ہوئی۔ اگرچہ بہت سے ممالک یوکرائنی یا روسی گندم یا غیر ملکی توانائی کی درآمدات پر انحصار کرتے ہیں، لیکن پاکستان دونوں کی کمی یوکرائن، روس اور مشرق وسطی سے پورا کرتا ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2020/ 2021 کے دوران پاکستان یوکرائنی گندم کی برآمدات کا تیسرا سب سے بڑا گاہک تھا۔ پاکستانی معیشت کو دوسرا بڑا جھٹکا تیل اور ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے سے لگا، جس سے اس کی درآمدات تقریباً 5 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ پاکستانی معیشت کے لیے یہ ایک بد ترین صورتحال ہے۔ 30 جون 2022 کو پاکستان کے مالی سال کے اختتام پر، اس کا تجارتی خسارہ 50 بلین ڈالر کے قریب پہنچ گیا ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 57 فیصد زیادہ ہے۔ جون میں مہنگائی کی شرح 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی جو کہ ماضی قریب میں سب سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے سبسڈی ختم کرنے کی ہدایت نے بجلی اور گیس دونوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستانی روپے کی گراوٹ نے خاص طور پر متوسط ​​طبقے کو نقصان پہنچایا ہے اور موجودہ صورتحال میں متوسط ​​طبقہ مہنگائی کی صورتحال برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ ان حالات میں جبکہ ملک اقتصادی بحران کی بدترین لپیٹ میں ہے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں 20 سیٹس پر ضمنی الیکشن نے سیاسی سطح پر ایک نئے طوفان کو جنم دیا ہے۔ عمران خان جو عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخل ہوگئے تھے شروع دن سے ہی ایک ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کہ سیاسی بحران کو شدید کر کے نئے الیکشن کی راہ ہموار کر سکیں ان 20 صوبائی سیٹس میں سے 15 جیتنے کے بعد سیاسی بحران میں شدت پیدا کر کے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ عمران خان نے اپنی ساری کارکردگی ایک خط میں لپیٹ کر اپنے ووٹ بینک کو دی جس نے اس کو قبول کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اینٹی امریکا نعرہ بھی بیچا۔ اور ان کے ووٹ بینک نے اس کو بھی ہاتھوں ہاتھ خریدا۔ یاد رہے عمران خان کے بیانیے کا خریدار ان کا ووٹ بینک اور اس کے علاوہ وہ نوجوان ووٹر ہے جس کی ہر حلقے میں 20/25 ہزار کے قریب نمائندگی ہے اور گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستانی انتخابی سیاست میں نیا آیا ہے یہ نوجوان ووٹر سسٹم سے باغی ہے، اپنے آپ کو تبدیلی کا نمائندہ سمجھتا ہے اور اسے سوشل میڈیا سے رغبت ہے۔ اسے کوئی بھی بیانیہ دینا آسان ہے بقول ہمارے دوست عظمت افروز خان: ‏"نوجوان Fiction اور Thrill کے دلدادہ ہوتے ہیں، بچپن ہی سے بڑے بڑے خواب دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں جبکہ چالیس پچاس سال کے لوگ بیشتر خواب ٹوٹنے کے بعد Pragmatic ہو چکے ہوتے ہیں, تجربہ کار ہو چکے ہوتے ہیں سو اُنہیں جھوٹے خواب بیچے نہیں جا سکتے، جبکہ نوجوان کے یہ جاگتے خواب اُسے سکون دیتے ہیں ، اسی لئے نیازی کے بیشتر ووٹر اٹھارہ سے پچیس سال کے وہ نوجوان ہیں جنہیں نیازی مسلسل جھوٹے خواب بیچ رہا ہے اور تاریخ سے نابلد نوجوان اس کے چنگل میں آسانی سے آ رہے ہیں، پھر نیازی کی ‏سوشل میڈیا ٹیمیں بھی اسی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہیں جو اُن نوجوانوں کو اُن ہی کی “کھُلی ڈُلی” زبان میں بات سمجھاتے ہیں، مخالفین کو گالیاں دھمکیاں دلواتے ہیں نوجوانوں کو طاقتور ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔" سیاسی میدان میں نووارد اس طبقے نے عمران خان کے بیانیے کو قبول کیا ہے اور اس وقت پاکستانی کی سیاست میں جو جوشیلا پن نظر آتا ہے وہ یہی نوجوان ووٹر ہے ‏اس سارے سیاسی غل غپاڑے میں ہم یہ بھول رہے ہیں کہ 2018 کے عام انتخابات میں یہ 20 سیٹس پی ٹی آئی نے جیتی تھیں۔ ان میں سے 4 نون لیگ نے جیت لی ہیں جبکہ 1 آزاد رکن نے نون لیگ میں شمولیت/ حمایت کا اعلان کر دیا ہے اس حکومت کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں ہے کہ وہ ڈالر کو 120 اور پٹرول کو 100 روپے پر لا سکے۔ اس کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں جو لوڈشیڈنگ کو فوری طور پر صفر کرسکے۔ یہ غیر یقینی کی صورتحال اب ڈالر کو مزید بے قابو کرے گی اور اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ذرا سی بھی اوپر گئیں تو حکومت کو یہاں بھی بڑھانا پڑیں گی۔ لیکن بقول وجاہت مسعود "پاکستان میں نئے ووٹروں کی اکثریت ہماری سیاسی اور جمہوری تاریخ سے نابلد ہے۔ معیشت کی نزاکتیں نہیں سمجھتی۔ اس نئی سوچ کا ماضی کی سیاسی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ ماننا چاہیے کہ پاکستان کا عام شہری مہنگائی کے حالیہ بحران سے سخت نالاں ہوا ہے۔ اسے آئی ایم ایف کی شرائط، زرمبادلہ کے ذخائر یا عالمی معیشت کے اتار چڑھائو سے غرض نہیں۔ وہ آٹے اور گھی کی قیمت جانتا ہے۔" سٹی گروپ کے ایمرجنگ مارکیٹس ڈویژن کے سابق چیف سٹریٹجسٹ یوسف نظر کا اندازہ ہے کہ فروری سے اب تک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر نصف کم ہو کر صرف 6.3 بلین ڈالر رہ گئے ہیں، یوسف نذر کے مطابق، پاکستان کو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے بیل آؤٹ ملے ہیں۔ ورلڈ بینک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو جلد ہی "میکرو اکنامک عدم استحکام" کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سماجی عدم استحکام اس کے علاوہ ہے پاکستان کے نجی شعبے نے لیبر پول کو جذب کرنے کے لیے اتنی ملازمتیں پیدا نہیں کیں۔ غصہ عروج پر پہنچ رہا ہے، اور بڑھتے ہوئے جرائم معاشرتی خرابی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...