Wednesday, August 24, 2022
خوش رہنے کا ہنر
اگست 2016 میں، میں فیروز پور روڈ لاہور پہ واقع اپنے دفتر سے نکلا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس دن میری زندگی بدلنے والی ہے۔ میں ان دنوں اپنی کمپنی کیلئے کچھ اہم پوزیشنز پر ہیڈ ہنٹنگ کر رہا تھا اور مجھے ایک اہم پوزیشن کو فل کرنے کیلئے اس شام ایک صاحب سے ملاقات کرنی تھی۔ پاک عرب سوسائیٹی سے ان سے مل کر نکلا تو رات کے 8 بج چکے تھے۔ گھر پہنچا تو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی بند تھی جبکہ میں گاڑی میں مسلسل اے سی میں ہونے کی وجہ سے اس چکر میں تھا کہ گرمی میں کیسے ٹائم گزرے تو اپنے ساتھی کو باہر سے ہی فون کر کے بلا لیا کہ چلو کچھ کھا کر واپس آتے ہیں اتنی دیر میں بجلی بھی آ جائے گی۔ خیر وہاں سے ایک لانگ ڈرائیو اور کھانا کھا کر قینچی امر سدھو کے ایل شیپ ٹرن پر پہنچے تو فروٹ کی ریہڑیوں پر رک گئے۔ اب جو لوگ لاہور سے واقف ہیں انہیں اچھی طرح اس اسپاٹ کا معلوم ہے کہ یہاں ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کا کتنا ہجوم ہوتا ہے اور یہ کتنی پر ہجوم جگہ ہے۔ خیر میں نے گاڑی روکی اور اپنے ساتھی کو پرس سے پیسے نکال کر کچھ فروٹس لینے کیلئے کہا۔ پرس آلسی میں ڈیش بورڈ پر رکھا جہاں موبائل پہلے پی پڑا تھا اور سیٹ سے سر ٹکا کر دن بھر کی تھکن مٹانے کو آنکھیں موندی ہی تھیں کہ میری سائیڈ کی کھڑکی کا شیشہ بجا۔ سستی میں ادھر گردن موڑی۔ میرا خیال تھا کہ کوئی مانگنے والا ہے لیکن جیسے ہی گردن مڑی تو ایک پستول بردار پر نظر پڑی اور ایک اشارہ کہ شیشہ نیچے کرو۔ سمجھ آ گئی کہ جناب ان ڈاکو صاحبان کے نشانے پر آ ہی گئے ہیں جنکے قصے بہت سارے دوست سنا چکے تھے۔  میکانکی انداز میں شیشہ نیچے کیا اور انتہائی دوستانہ انداز میں اسے کہا کہ جی باو جی کیا چاہئیے ؟ جواب ملا کہ پرس اور موبائل۔ اچھا یاد دلا دوں کہ میرے پاس ہمیشہ سے ہی دو موبائل رہے ہیں ایک گھر اور پرسنل استعمال کیلئے اور دوسرا آفیشل کالوں کیلئے۔ ایک ڈیش بورڈ پہ دھرا تھا اور دوسرا جیب میں۔ خیر اسے جیب والا سب سے پہلے دیا اور جیسے ہی ڈیش بورڈ سے دوسرا موبائل اور پرس اٹھانے کو ڈیش بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا اس بھائی کو جانے کیا سوجھی کہ یکدم فائر کی آواز آئی، شیشہ ٹوٹنے اور جسم میں دھکا لگنے کی کیفیت محسوس کی اور میں ساتھ والی سیٹ پر گر سا گیا۔ اب اس سیدھا ہونے کے مرحلے میں ہی ہمیں پتا چل گیا تھا کہ ہمیں گولی لگ چکی ہے۔ خیر باہر نکلے تو سب سے پہلے سینے اور پھر سر کو ٹٹولنے کی کوشش کی تو دائیں بازو نے ہلنے سے انکار کیا اور ایک ٹیس سے اٹھی۔ بائیں ہاتھ سے ٹٹولا تو پتا چلا کہ گولی کندھے میں دھنس چکی ہے۔ اتنے میں لوگ جمع ہونے شروع ہوئے میرا ساتھی بھی بھاگ کر آیا اور میں نے اسے بتایا کہ موبائل اسنیچر گولی مار کر بھاگ گیا ہے۔ تم بجائے ایمبولینس بلانے کے گاڑی چلاو اور نزدیکی جناح ہسپتال میں چلو۔ خیر اگلے چند لمحوں میں ہم جناح کے ایمرجنسی سرجیکل یونٹ میں تھے اور ہمارا گولی نکالنے کیلئے آپریشن ہوا تو سرجن نے بتایا کہ گولی کندھے میں لگی اور ٹریول کر کے کمر سے نکلی اور شکر ہے کہ ڈھائی سنٹی میٹر کے فاصلے سے پھیپھڑے بچ گئے کیونکہ ڈھائی سنٹی میٹر دور سے گولی نے راستہ بدل دیا۔
یقین مانیں ان ڈھائی سنٹی میٹرز نے ہماری زندگی بدل دی۔ اس آپریشن کے بعد ہمارے مزید کئی آپریشن ہوئے کیونکہ کندھے کی ہڈی کرچی کرچی ہو چکی تھی۔ اور کئی وریدیں ڈیمیج ہوئی تھیں بازو بے جان تھا اور اسے کام میں لانے کیلئے بہت مدت درکار تھی۔ بازو  میں راڈ ڈالی گئی، اور ہم کئی ماہ بستر کے ہو گئے۔ زخم کو بھرنے اور بازو کو اس قابل بنانے میں کہ یہ کام کرے مزید 6 ماہ لگے لیکن ان دنوں میں ہمیں سوچنے اور زندگی کے بارے میں غور کرنے کا جو نادر موقع ملا اس کو میں اپنی زندگی کا ایک ٹرننگ پوائینٹ سمجھتا ہوں۔
زندگی دکھوں اور خوشیوں کا ایک مجموعی پیکیج ہے۔ آپ ہر وقت خوش بھی نہیں رہ سکتے اور نا ہی ہر وقت ناخوش۔ لیکن آپ کیسے اپنے اندر سے خوشی نچوڑ سکتے ہیں اس پر میری زندگی کے تجربات کے بعد ایک نظریہ ہے جو میں سادہ الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
خوشی بہت سے لوگوں کے لئے ایک جیسی نہیں ہوتی بلکہ ہر انسان کی خوشی کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے۔  
سب سے پہلے وقت نکالئے اور اپنے ساتھ مانوس ہونے میں اسے خرچ کیجئے۔ خود کو جاننا اور قبول کرنا کہ آپ کون ہیں خود شناسی کہلاتا ہے۔ اپنی ذات سے تعلق رکھئے خود سے محبت کرنا سیکھئے اور خود کو جس حالت میں ہیں اسے قبول کیجئے۔ یہ مرحلہ سب سے اہم ہے۔
دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے جو شخص صرف اپنے لیے جیتا ہے وہ نادان اور عموماً دکھی ہوتا ہے۔ 
آپ کا کردار اور بے داغ ضمیر پائیدار خوشی کے لیے اہم ہیں۔ ماضی میں کی گئی غلطیوں کے احساس کے لیے توبہ اور اپنے آپ کو معاف کر دینے سے خود کو معافی ملنا اور اسے محسوس کرنا احساس گناہ سے آزادی کا گہرا احساس دیتا ہے۔ لہذا، ہم نے جو بھی غلطیاں کی ہیں اسے درست کرنے اور کسی سے بھی خراب تعلقات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنے جیسے کسی انسان سے معافی مانگنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئیے بلکہ خدا سے توبہ میں بھی۔ جب ہم اللہ کے سامنے اپنے گناہوں اور غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں، تو وہ ہمیشہ ہمیں معاف کرتا ہے۔ اس کے بعد پھر ہمیں اپنے آپ کو معاف کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ 
یاد رکھیں، خوشی ایک عمل ہے واقعہ نہیں۔ تندہی سے عمل کی پیروی کریں اور خوشی/ اطمینان کا احساس بھرپور انعام ہوگا۔
خوشی کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے ذاتی حالات کو قبول کرنا سیکھیں۔ ان میں سے کچھ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن آپ تمام معاملات تبدیل نہیں کر سکتے۔ جب تک آپ ان معاملات کو قبول نہیں کرتےجو تبدیل نہیں ہوسکتے، آپ کبھی خوش یا مطمئن نہیں رہیں گے۔ جیسا کہ نابینا ہیلن کیلر نے کہا، "میں اپنی معذوری کے لیے خدا کا شکر ادا کرتی ہوں، کیونکہ ان کے ذریعے میں نے اپنے آپ کو، اپنے کام کو اور اپنے خدا کو پایا ہے۔"
اسکے بعد کا مرحلہ اپنے ارد گرد اور اپنے رشتوں کی قدر کرنا ہے۔
رشتے درختوں کی مانند  ہوتے ہیں بعض اوقات ہم اپنی ضرورتوں کی خاطر انہیں کاٹتے چلے جاتے ہیں اورآخر کار  خود کو گھنے سائے سے محروم کر دیتے ہیں۔ رشتے اور دوستی نبهانے کیلئےوعدوں اور قسموں کی ضرورت نہیں صرف دو خوبصورت دلوں کی ضرورت ہوتی ہے نمبر ایک اعتماد والا دل اور دوسرا احساس والا دل۔  سچے رشتے اور سچے دوست خوشیوں میں زینت اور دکھوں میں سہارا ہوتے ہیں پروردگار کی نعمتوں میـں سے ایک نعمت  محبت کرنے اور سمیٹنےکی خوبی ہے- کیونکہ یہ خوبی انسانی رشتوں میــــں بگاڑ کو روکتی ہے- 
آسانیاں بانٹیئے، خوشیاں پائیے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
پہلگام کہانی
پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...
- 
ٹرمپ کیا کرنا چاہیں گے پہلا حصہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کا پروجیکٹ 2025 اظہر عباس پروجیکٹ 2025 ایک 922 صفحات پر مشتمل بلیو پرنٹ ہے جسے ہیریٹیج فاؤ...
- 
"Worry, like a rocking chair," said Vance Havner, "will give you something to do, but it won't get you anywhere."...
- 
جھوٹ اور انتشار کی جنگ اظہر عباس (حصہ اول) جنگ کی نوعیت صدیوں کے دوران ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ارتقا و پھیلاو، معاشرے او...
 
 
 
No comments:
Post a Comment