Wednesday, August 31, 2022
انتشار اور تعمیر
انتشار اور تعمیر 
عین اس وقت جب پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ملک کی آبادی کا ایک تہائی سیلاب کی زد میں تھا، آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس سے پہلے پی ٹی آئی کی خیبر پختون خواہ حکومت کے وزیر خزانہ نے پاکستان کی آئی ایم ایف سے ڈیل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے کہنے پر ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ سرپلس دینے سے قاصر ہوں گے جس کا وہ پہلے وعدہ کر چکے تھے۔ اسی دن دوپہر کو تمام نیشنل میڈیا ان خفیہ کالوں سے گونج رہا تھا جس میں شوکت ترین پنجاب اور کے پی کے کے وزرا خزانہ کو فون کر کے گائیڈ کر رہے تھے کہ وہ خط لکھیں تاکہ اس حکومت کو سبق سکھایا جا سکے جو پی ٹی آئی کے چئیرمین کو تنگ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ انہیں یہ مسئلہ نہیں تھا کہ اس سے ریاست نقصان اٹھائے گی بلکہ وہ حکومت کو سبق سکھانے پر تلے نظر آئے۔ 
لیکن رات آنے تک آئی ایم ایف اپنے بورڈ اجلاس میں ڈیل کی منظوری دے چکا تھا۔
پاکستان میں غیرمعمولی مون سون بارشوں اور برفانی گلیشئیر پگھلنے کی وجہ سے آنے والے تباہ کن سیلاب نے اب تک 1,000 سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا ہے اور لاکھوں گھر اور لاکھوں ایکڑ فصلوں کو تباہ کیا ہے، جس سے 30 ملین سے زیادہ پاکستانی متاثر ہوئے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ملک بھر میں بارش اوسط سے تقریباً تین گنا زیادہ اور صوبہ سندھ جیسے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں، پانچ گنا زیادہ ہوئی ہے۔ 
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اسے عالمی اوسط سے کافی زیادہ گرمی کی شرح اور ممکنہ طور پر زیادہ، بار بار اور شدید موسمیاتی واقعات کا سامنا ہے۔ یہ واقعات خاص طور پر پسماندہ اور خطرے سے دوچار آبادیوں کے لیے خطرہ ہیں، بشمول بوڑھے، معذور افراد، غربت میں مبتلا افراد، اور دیہی آبادی۔ 
 پاکستان کے تباہ کن سیلاب ایک گہرے معاشی بحران کے درمیان آئے ہیں۔ اس کے 230 ملین میں سے چالیس فیصد لوگوں کو 2020 میں غذائی عدم تحفظ کا سامنا تھا، اس کے باوجود صرف 8.9 ملین خاندانوں کو مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے امداد ملی۔ غربت دیہی علاقوں میں مرکوز ہے، خاص طور پر سیلاب سے سخت متاثر علاقوں میں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے بورڈ نے 29 اگست کو میٹنگ کی اور، پاکستانی حکام کے مطابق، جولائی 2019 میں منظور شدہ رکے ہوئے قرض پروگرام کو بحال کرنے اور پاکستان کی آبادی پر معاشی بحران کے کچھ بوجھ کو کم کرنے کے لیے تقریباً 1.17 بلین امریکی ڈالر کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ 
حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت کو فنڈز کی آمد کو متاثرہ لوگوں کی مدد کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور IMF کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے پاس پائیدار، جامع اور حقوق پر مبنی بحالی کے لیے وقت اور لچک ہو۔
سیلاب کے بعد کی صورتحال کے بارے میں نیوز اور جنگ کے معاشی تجزیہ نگار مہتاب حیدر لکھتے ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے رواں مالی سال کیلئے پاکستان کیلئے 3.5 فیصد کی کم جی ڈی پی کی شرح نمو اور اوسطاً 19.9 فیصد مہنگائی کے ساتھ ’جمود‘ کی پیش گوئی کی تھی۔ اس نسخے سے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت پاکستان میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ ایسا کوئی نسخہ دستیاب نہیں ہے کہ جون 2023 میں موجودہ پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے بعد کاؤنٹی آئی ایم ایف پروگرام سے باہر آجائے گی۔ اگر جون 2023 کے آخر تک زرمبادلہ کے ذخائر 16.2 ارب ڈالرز کی مطلوبہ سطح تک نہ بڑھ سکے تو ملک کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہو گی۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے یہ تجزیہ جات سیلابی صورتحال سے پہلے کے ہیں اور موجود وسائل اور سیلاب کے بعد کی صورتحال میں ان میں اضافے کی توقع ہے
اس معاشی اور سماجی بحران میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ عظمت افروز خان کا خیال ہے کہ "خان اب تک کئی ریڈ لائنز کراس کر چکے ہیں جن میں شہباز گل کی بلاوجہ مداخلت اور تازہ ترین آئی ایم ایف ڈیل کو سبوتاژ کرکے ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش۔ ان کے خیال میں اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب ہر ادارے میں تقسیم پیدا کرنے کوشش کر کے اس تقسیم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اب شاید ریاست اب اس سلسلے کو مزید برداشت نا کر سکے۔"
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کی ڈیل کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کامیاب ہو جاتی تو موجودہ سیلابی کیفیت میں حکومت ایک اندھیری گلی میں کیسے کھڑی نظر آتی جو ڈیفالٹ سامنے دیکھ رہی ہو ؟ 
میں نے گزشتہ کالم میں گزارش کی تھی کہ انتشار کی سیاست نا تو ٹرمپ کو راس آئی ہے اور نا ہی عمران خان صاحب کو راس آئے گی۔ کیونکہ ریاستیں انتشار نا افورڈ کیا کرتی ہیں اور نا ہی برداشت۔ شوکت ترین کی کالز کا منظر عام پر آنا بتاتا ہے کہ بجنے والی گھنٹیاں کہیں نا کہیں سن لی گئی ہیں۔
مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے ایک اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور متعدد این جی اوز سے تعلق رکھنے والے خالد سیف اللہ جو آج کل جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی سے منسلک ہیں، کا خیال ہے کہ "تحریک انصاف اگر اپنی بقا چاھتی ھے اور اس ملک کے سیاسی منظر نامے پہ اپنا وجود برقرار رکھنا چاھتی ھے تو اسے تنگ نظری کی سیاست پہ نظر ثانی کر نا ھو گی۔ اور سمجھنا ھو گا کہ ان آڈیو لیکس کا نتیجہ تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کیلیے کتنا نقصان دہ ہو سکتا ھے۔ خان صاحب کیلئے ابھی بھی موقع ھے کہ سیاسی تنہائی سے نکلیں اور دوسری سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کر کے ملک کی بہتری کی سوچ اپنائیں۔ میثاق معیشت ہی اس ملک کی ترقی کا واحد حل ھے اگر تمام اسٹیک ہولڈرز  بیس سے پچیس سال کے کسی بھی منصوبے پہ اتفاق کر لیں اور مل بیٹھ کر اس ملک کے معاشی مستقبل پر سیاست نہ کرنے کا عہد کرلیں تو معاشی خوشحالی کے نتیجہ میں سیاسی نظام میں خلل کا راستہ بھی روکا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کیلیے ریاست کے تمام ستونوں کو مل بیٹھ کر کچھ سخت فیصلے کرنا ھوں گے۔"
Wednesday, August 24, 2022
انتشار کی سیاست
عین اس وقت جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا کے گھر کی ایف بی آئی کی تلاشی کے تناظر میں، کچھ انتہائی دائیں بازو کی شخصیات آن لائن پرتشدد بیان بازی کر رہی ہیں اور وہاں ایک اور قسم کی سول وار کے خطرات کے بارے میں وہاں کے ماہرین سیاست تجزئے کر رہے ہیں اسی ہفتے پاکستان میں عمران خان کی گرفتاری کے خدشے نے ان کے ورکرز کو انکی رہائش گاہ بنی گالا پر اکٹھا ہونے پر مجبور کیا اور وہ کھلم کھلا عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹرینڈ چلا رہے ہیں جو اب تک ٹوٹر پر ٹاپ میں سے ایک ٹرینڈ ہے
آئیے، دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں کیا ہو رہا ہے۔ بزنس انسائیڈر کی حالیہ اشاعت میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے: ریپبلکن پارٹی نے طویل عرصے سے خود کو "امن و امان" کے محافظ کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن ٹرمپ کے گھر چھاپے کے نتیجے میں ریپبلکن قانون ساز مارجوری ٹیلر گرین نے FBI کو نشانے پر لے لیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر "سول وار" کا حوالہ بھی دیا۔ کیونکہ ان کے ریپبلکن ساتھی ایف بی آئی کا موازنہ گیسٹاپو سے کرتے ہیں اور چھاپے کو اس طرح کی چیز کے طور پر پیش کرتے ہیں جو صرف "تیسری دنیا" کے ممالک میں ہوتا ہے۔ 
یاد رہے کہ ٹرمپ/ ریپبلکن پارٹی کے لاکھوں ووٹرز اس غلط تصور پر یقین کرتے رہتے ہیں کہ 2020 کے صدارتی انتخابات ٹرمپ سے چوری کیے گئے تھے۔
انہوں نے پچھلے سال 6 جنوری کو امریکی کیپیٹل میں مہلک فسادات کو متحرک کیا تھا، اور تاریخ دان اور جمہوریت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ جھوٹ مزید تشدد کے امکانات کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے خانہ جنگی دیکھی تو یہ پہلی جیسی نہیں ہوگی۔
فیونا ہل، جنہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے دوران قومی سلامتی کونسل میں روس کے سرکردہ ماہر کے طور پر خدمات انجام دیں، نے گزشتہ ماہ انسائیڈر کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ ملک ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں "مختلف برادریوں اور حکام پر اعتماد" اس حد تک ختم ہو گیا ہے کہ لوگ صرف ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
ٹرمپ کے گھر پر چھاپے کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت بعد، ایک مسلح شخص نے سنسناٹی میں ایف بی آئی کے فیلڈ آفس میں گھسنے کی کوشش کی۔ حکام نے کسی مقصد کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن مبینہ طور پر اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس شخص نے جو بالآخر پولیس کے ہاتھوں مارا گیا تھا کا انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی سے تعلق تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ مشتبہ بندوق بردار رکی شیفر نے ٹرمپ کے سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹروتھ سوشل پر ایف بی آئی کے خلاف جنگ اور تشدد کی کال پوسٹ کی تھی۔
سان ڈیاگو کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر باربرا ایف والٹر نے جو سیاسی تشدد پڑھانے میں مہارت رکھتی ہیں، نے پوسٹ کو بتایا، "جب لوگ خانہ جنگی کے بارے میں سوچتے ہیں، تو وہ پہلی خانہ جنگی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اور ان کے ذہن میں، دوسری جنگ کی طرح نظر آئے گی۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے،" والٹر نے پوسٹ کو بتایا۔ "ہم جس چیز کی طرف بڑھ رہے ہیں وہ ایک شورش ہے، جو کہ خانہ جنگی کی ایک شکل ہے۔ یہ خانہ جنگی کا 21 ویں صدی کا ورژن ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں طاقتور حکومتیں اور طاقتور فوجیں ہیں، جیسا کہ امریکہ ہے۔ "
واشنگٹن پوسٹ نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ وائٹ ہاؤس میں ایک حالیہ ملاقات کے دوران، تاریخ دانوں کے ایک گروپ نے صدر جو بائیڈن کو خبردار کیا کہ امریکہ کو ایسے خطرات کا سامنا ہے جو خانہ جنگی سے پہلے کے دور میں ملک نے دیکھے
 ادھر اپنے ملک میں دیکھئے تو ٹائم کی تازہ رپورٹ کے مطابق: یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں سنٹر فار مسلم سٹیٹس اینڈ سوسائٹیز کی ڈائریکٹر ثمینہ یاسمین کہتی ہیں کہ مرکزی دائیں بازو کی مسلم لیگ (ن) پارٹی کے وزیر اعظم شہباز شریف کی نئی حکومت نے جو خان کے دیرینہ دشمن نواز شریف کے بھائی ہیں، نے خان کو "ہسٹیریا بڑھانے" کی اجازت دینے کی غلطی کی ہے۔  لیکن اب اناڑی طریقے سے کریک ڈاؤن کرکے "اور بھی عدم استحکام" کا سامنا ہے۔"
پاکستانی معاشرہ شاذ و نادر ہی اس قدر پولرائزڈ ہوا ہے، جس میں آدھا ملک خان کو نجات دہندہ اور آدھا شیطان کا اوتار سمجھتا ہے۔ یاسمین کہتی ہیں، ’’مؤثر طریقے سے، اس نے جو کچھ کیا اس سے ملک تقسیم ہو گیا ہے۔ یہ بہت زیادہ ٹرمپ کی طرح ہے [امریکہ میں] اور اگر امریکہ ابھی تک مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوا تو پاکستان جیسا ملک کیسے سنبھل سکتا ہے؟"
میں کہتا رہا ہوں کہ عمران خان اور امریکی ریپبلیکن پارٹی/ ٹرمپ کے درمیان مکمل ذہنی ہم آہنگی ہے اور دونوں کے انداز سیاست کا رنگ اس وقت نظر آیا جب خان نے اپنی پارٹی میں امریکی رائٹ ونگ گروپ پراوڈ بوائز کی طرز پر ٹائیگر فورس کی تشکیل کرنی شروع کی۔ یاد رہے کہ یہی پراوڈ بوائز تھے جو امریکی کیپیٹل ہل پر حملے میں پیش پیش تھے۔ اور اب جبکہ خان نے امریکہ میں ایک نئی پی آر او کمپنی کی خدمات حاصل کی ہیں انٹر نیشنل کمیونٹی میں ایک نئی کمپین کی توقع ہے جس کا آغاز اقوام متحدہ سے بیان، موقر جریدوں میں آرٹیکلز اور ٹوٹر پیغامات کی صورت میں ہو چکا ہے۔
کیا کہیں گھنٹیاں بج رہی ہیں ؟
خوش رہنے کا ہنر
اگست 2016 میں، میں فیروز پور روڈ لاہور پہ واقع اپنے دفتر سے نکلا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس دن میری زندگی بدلنے والی ہے۔ میں ان دنوں اپنی کمپنی کیلئے کچھ اہم پوزیشنز پر ہیڈ ہنٹنگ کر رہا تھا اور مجھے ایک اہم پوزیشن کو فل کرنے کیلئے اس شام ایک صاحب سے ملاقات کرنی تھی۔ پاک عرب سوسائیٹی سے ان سے مل کر نکلا تو رات کے 8 بج چکے تھے۔ گھر پہنچا تو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی بند تھی جبکہ میں گاڑی میں مسلسل اے سی میں ہونے کی وجہ سے اس چکر میں تھا کہ گرمی میں کیسے ٹائم گزرے تو اپنے ساتھی کو باہر سے ہی فون کر کے بلا لیا کہ چلو کچھ کھا کر واپس آتے ہیں اتنی دیر میں بجلی بھی آ جائے گی۔ خیر وہاں سے ایک لانگ ڈرائیو اور کھانا کھا کر قینچی امر سدھو کے ایل شیپ ٹرن پر پہنچے تو فروٹ کی ریہڑیوں پر رک گئے۔ اب جو لوگ لاہور سے واقف ہیں انہیں اچھی طرح اس اسپاٹ کا معلوم ہے کہ یہاں ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کا کتنا ہجوم ہوتا ہے اور یہ کتنی پر ہجوم جگہ ہے۔ خیر میں نے گاڑی روکی اور اپنے ساتھی کو پرس سے پیسے نکال کر کچھ فروٹس لینے کیلئے کہا۔ پرس آلسی میں ڈیش بورڈ پر رکھا جہاں موبائل پہلے پی پڑا تھا اور سیٹ سے سر ٹکا کر دن بھر کی تھکن مٹانے کو آنکھیں موندی ہی تھیں کہ میری سائیڈ کی کھڑکی کا شیشہ بجا۔ سستی میں ادھر گردن موڑی۔ میرا خیال تھا کہ کوئی مانگنے والا ہے لیکن جیسے ہی گردن مڑی تو ایک پستول بردار پر نظر پڑی اور ایک اشارہ کہ شیشہ نیچے کرو۔ سمجھ آ گئی کہ جناب ان ڈاکو صاحبان کے نشانے پر آ ہی گئے ہیں جنکے قصے بہت سارے دوست سنا چکے تھے۔  میکانکی انداز میں شیشہ نیچے کیا اور انتہائی دوستانہ انداز میں اسے کہا کہ جی باو جی کیا چاہئیے ؟ جواب ملا کہ پرس اور موبائل۔ اچھا یاد دلا دوں کہ میرے پاس ہمیشہ سے ہی دو موبائل رہے ہیں ایک گھر اور پرسنل استعمال کیلئے اور دوسرا آفیشل کالوں کیلئے۔ ایک ڈیش بورڈ پہ دھرا تھا اور دوسرا جیب میں۔ خیر اسے جیب والا سب سے پہلے دیا اور جیسے ہی ڈیش بورڈ سے دوسرا موبائل اور پرس اٹھانے کو ڈیش بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا اس بھائی کو جانے کیا سوجھی کہ یکدم فائر کی آواز آئی، شیشہ ٹوٹنے اور جسم میں دھکا لگنے کی کیفیت محسوس کی اور میں ساتھ والی سیٹ پر گر سا گیا۔ اب اس سیدھا ہونے کے مرحلے میں ہی ہمیں پتا چل گیا تھا کہ ہمیں گولی لگ چکی ہے۔ خیر باہر نکلے تو سب سے پہلے سینے اور پھر سر کو ٹٹولنے کی کوشش کی تو دائیں بازو نے ہلنے سے انکار کیا اور ایک ٹیس سے اٹھی۔ بائیں ہاتھ سے ٹٹولا تو پتا چلا کہ گولی کندھے میں دھنس چکی ہے۔ اتنے میں لوگ جمع ہونے شروع ہوئے میرا ساتھی بھی بھاگ کر آیا اور میں نے اسے بتایا کہ موبائل اسنیچر گولی مار کر بھاگ گیا ہے۔ تم بجائے ایمبولینس بلانے کے گاڑی چلاو اور نزدیکی جناح ہسپتال میں چلو۔ خیر اگلے چند لمحوں میں ہم جناح کے ایمرجنسی سرجیکل یونٹ میں تھے اور ہمارا گولی نکالنے کیلئے آپریشن ہوا تو سرجن نے بتایا کہ گولی کندھے میں لگی اور ٹریول کر کے کمر سے نکلی اور شکر ہے کہ ڈھائی سنٹی میٹر کے فاصلے سے پھیپھڑے بچ گئے کیونکہ ڈھائی سنٹی میٹر دور سے گولی نے راستہ بدل دیا۔
یقین مانیں ان ڈھائی سنٹی میٹرز نے ہماری زندگی بدل دی۔ اس آپریشن کے بعد ہمارے مزید کئی آپریشن ہوئے کیونکہ کندھے کی ہڈی کرچی کرچی ہو چکی تھی۔ اور کئی وریدیں ڈیمیج ہوئی تھیں بازو بے جان تھا اور اسے کام میں لانے کیلئے بہت مدت درکار تھی۔ بازو  میں راڈ ڈالی گئی، اور ہم کئی ماہ بستر کے ہو گئے۔ زخم کو بھرنے اور بازو کو اس قابل بنانے میں کہ یہ کام کرے مزید 6 ماہ لگے لیکن ان دنوں میں ہمیں سوچنے اور زندگی کے بارے میں غور کرنے کا جو نادر موقع ملا اس کو میں اپنی زندگی کا ایک ٹرننگ پوائینٹ سمجھتا ہوں۔
زندگی دکھوں اور خوشیوں کا ایک مجموعی پیکیج ہے۔ آپ ہر وقت خوش بھی نہیں رہ سکتے اور نا ہی ہر وقت ناخوش۔ لیکن آپ کیسے اپنے اندر سے خوشی نچوڑ سکتے ہیں اس پر میری زندگی کے تجربات کے بعد ایک نظریہ ہے جو میں سادہ الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
خوشی بہت سے لوگوں کے لئے ایک جیسی نہیں ہوتی بلکہ ہر انسان کی خوشی کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے۔  
سب سے پہلے وقت نکالئے اور اپنے ساتھ مانوس ہونے میں اسے خرچ کیجئے۔ خود کو جاننا اور قبول کرنا کہ آپ کون ہیں خود شناسی کہلاتا ہے۔ اپنی ذات سے تعلق رکھئے خود سے محبت کرنا سیکھئے اور خود کو جس حالت میں ہیں اسے قبول کیجئے۔ یہ مرحلہ سب سے اہم ہے۔
دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے جو شخص صرف اپنے لیے جیتا ہے وہ نادان اور عموماً دکھی ہوتا ہے۔ 
آپ کا کردار اور بے داغ ضمیر پائیدار خوشی کے لیے اہم ہیں۔ ماضی میں کی گئی غلطیوں کے احساس کے لیے توبہ اور اپنے آپ کو معاف کر دینے سے خود کو معافی ملنا اور اسے محسوس کرنا احساس گناہ سے آزادی کا گہرا احساس دیتا ہے۔ لہذا، ہم نے جو بھی غلطیاں کی ہیں اسے درست کرنے اور کسی سے بھی خراب تعلقات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنے جیسے کسی انسان سے معافی مانگنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئیے بلکہ خدا سے توبہ میں بھی۔ جب ہم اللہ کے سامنے اپنے گناہوں اور غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں، تو وہ ہمیشہ ہمیں معاف کرتا ہے۔ اس کے بعد پھر ہمیں اپنے آپ کو معاف کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ 
یاد رکھیں، خوشی ایک عمل ہے واقعہ نہیں۔ تندہی سے عمل کی پیروی کریں اور خوشی/ اطمینان کا احساس بھرپور انعام ہوگا۔
خوشی کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے ذاتی حالات کو قبول کرنا سیکھیں۔ ان میں سے کچھ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن آپ تمام معاملات تبدیل نہیں کر سکتے۔ جب تک آپ ان معاملات کو قبول نہیں کرتےجو تبدیل نہیں ہوسکتے، آپ کبھی خوش یا مطمئن نہیں رہیں گے۔ جیسا کہ نابینا ہیلن کیلر نے کہا، "میں اپنی معذوری کے لیے خدا کا شکر ادا کرتی ہوں، کیونکہ ان کے ذریعے میں نے اپنے آپ کو، اپنے کام کو اور اپنے خدا کو پایا ہے۔"
اسکے بعد کا مرحلہ اپنے ارد گرد اور اپنے رشتوں کی قدر کرنا ہے۔
رشتے درختوں کی مانند  ہوتے ہیں بعض اوقات ہم اپنی ضرورتوں کی خاطر انہیں کاٹتے چلے جاتے ہیں اورآخر کار  خود کو گھنے سائے سے محروم کر دیتے ہیں۔ رشتے اور دوستی نبهانے کیلئےوعدوں اور قسموں کی ضرورت نہیں صرف دو خوبصورت دلوں کی ضرورت ہوتی ہے نمبر ایک اعتماد والا دل اور دوسرا احساس والا دل۔  سچے رشتے اور سچے دوست خوشیوں میں زینت اور دکھوں میں سہارا ہوتے ہیں پروردگار کی نعمتوں میـں سے ایک نعمت  محبت کرنے اور سمیٹنےکی خوبی ہے- کیونکہ یہ خوبی انسانی رشتوں میــــں بگاڑ کو روکتی ہے- 
آسانیاں بانٹیئے، خوشیاں پائیے
Monday, August 8, 2022
امام حسین - امام شہدا
 
ابو عبد اللہ الحسین ابن علی ابن ابی طالب-  10 جنوری 626 - 10 اکتوبر 680، جنہیں  حسین ابن علی یا امام حسین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پیغمبر اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل محمد کے نواسے تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب و محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی بیٹی فاطمہ الزہراہ کے بیٹے اور ساتھ ساتھ امام حسن ابن علی کے چھوٹے بھائی۔ عابدین۔ انہیں اہل بیت کے ساتھ ساتھ اہل الکیسہ کا رکن بھی سمجھا جاتا ہے، اور وہ مباہلہ کی تقریب میں بھی شریک تھے۔ پیغمبر اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے امام حسین اور ان کے بھائی امام حسن کو "جنت کے نوجوانان کے سردار" کا لقب دیا ہے[9][10]
ابتدائی زندگی
روایات کے مطابق، امام حسین 5 شعبان 4 ہجری (10 جنوری 626 عیسوی) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ابھی بچے ہی تھے کہ ان کے دادا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا انتقال ہو گیا۔[17] وہ امام علی المرتضی کے چھوٹے بیٹے تھے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے چچازاد بھائی تھے، اور انکی والدہ فاطمہ الزہراہ، حضرت  محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی بیٹی، دونوں قریش کے قبیلہ بنو ہاشم سے تھے۔[18] حسن اور حسین دونوں کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے رکھا تھا، حالانکہ حضرت علی المرتضی کے ذہن میں "حرب" جیسے دوسرے نام بھی تھے۔ امام حسین کی ولادت کا جشن منانے کے لیے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل سلم نے ایک مینڈھے کی قربانی دی، اور حضرت فاطمہ الزہراہ نے اپنا سر منڈوایا اور اپنے بالوں کے برابر وزن چاندی میں بطور صدقہ دیا۔[19] روایات کے مطابق، امام حسین کا ذکر تورات میں "شبیر" اور انجیل میں "تب" کے نام سے ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ کے بھائی حضرت ہارون نے اپنے بیٹوں کے وہی نام رکھے جو اللہ نے حضرت علی المرتضی کے بچوں کے لیے چنے تھے۔[20]
امام حسین کی پرورش سب سے پہلے محمد مصطفی صلی علیہ و آل وسلم کے گھرانے میں ہوئی تھی۔ حضرت علی المرتضی اور حضرت فاطمہ الزاہراہ کی شادی سے بننے والے خاندان کی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے کئی بار تعریف کی۔ مباہلہ اور حدیث اہل کسیہ جیسے واقعات میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے اس خاندان کو اہل بیت کہا ہے۔ قرآن کریم  میں بہت سی سورتوں میں، جیسے آیت تزکیہ میں، اہل بیت کی تعریف کی گئی ہے[21]۔ تاریخ نویس میڈلونگ جو ایک جرمن سکالر ہیں کے مطابق، حسن اور حسین سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی محبت کو ظاہر کرنے والی متعدد روایات ہیں، جیسے کہ انہیں اپنے کندھوں پر اٹھانا، یا اپنے سینے پر رکھنا اور پیٹ پر بوسہ دینا۔ میڈیلونگ کا خیال ہے کہ ان میں سے کچھ روایات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ حسن اپنے دادا سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ اس قسم کی دوسری احادیث یہ ہیں: "جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا" اور "الحسن و الحسین جنت کے جوانوں کے سید ہیں"۔ یہ بھی روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے حضرت علی المرتضی، حضرت فاطمہ الزاہراہ، امام حسن اور امام حسین کو اپنی چادر کے نیچے لے لیا اور انہیں اہل بیت کہا اور کہا کہ وہ ہر قسم کے گناہ اور آلودگی سے پاک ہیں۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے کئی مواقع پر واقعہ کربلا کی اطلاع دی۔ مثال کے طور پر، انہوں نے حضرت ام سلمہ کو مٹی کی ایک چھوٹی سی بوتل دی اور بتایا کہ امام حسین کے قتل کے بعد بوتل کے اندر کی مٹی خون میں بدل جائے گی۔[23]
مباہلہ کا واقعہ
10 ہجری (631-632) میں نجران (جو اب شمالی یمن میں ہے) سے ایک عیسائی ایلچی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے پاس آیا، اس بحث کے لیے کہ دونوں فریقوں میں سے کس نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں اس کے نظریے میں غلطی کی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کو آدم کی تخلیق سے تشبیہ دینے کے بعد — جو نہ تو کسی ماں کے ہاں پیدا ہوا تھا اور نہ ہی کسی باپ سے — اور جب عیسائیوں نے عیسیٰ کے بارے میں اسلامی نظریے کو قبول نہیں کیا تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو ایک وحی موصول ہوئی جس میں انہیں عیسائیوں کو مباہلہ میں بلانے کی ہدایت کی گئی تھی، جہاں ہر فریق خدا سے دعا کرتا کہ وہ جھوٹی جماعت اور ان کے خاندانوں کو تباہ کر دے:[24][25][26]
اگر کوئی آپ کے پاس اس علم کے آنے کے بعد [عیسیٰ کے بارے میں] آپ سے جھگڑا کرے تو کہو: آؤ ہم اپنے بیٹوں اور آپ کے بیٹوں کو، اپنی عورتوں کو اور آپ کی عورتوں کو، اپنے آپ کو اور آپ کو بلائیں، پھر ہم قسم کھائیں اور جھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت ہو (قرآن 3:61) [24]
آیت "خدا صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے داغ دھل جائے، اہل خانہ، اور تمہیں بالکل پاکیزہ بنائے" بھی اسی واقعہ کی طرف منسوب ہے، جس میں حضرت علی المرتضی، حضرت فاطمہ الزاہراہ، امام حسن اور امام حسین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی چادر کے نیچے کھڑے تھے۔ (اہل بیت)[25] ] 
اس طرح لقب اہل بیت، چادر کا خاندان، بعض اوقات مباہلہ کے واقعہ سے متعلق ہوتا ہے۔[e][28]24 ذی الحجہ کی صبح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم مقررہ وقت پر نکلے۔ وہ اپنے خاندان کے صرف منتخب افراد کو لے کر آئے تھے، امام حسین کو اپنے بازو میں اٹھائے ہوئے، امام حسن نے ہاتھ پکڑ رکھا تھا، اس کے بعد حضرت فاطمہ الزاہراہ اور حضرت علی المرتضی تھے۔ روایت کے مطابق عیسائی حیران رہ گئے جب انہوں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے خاندان ("علی، فاطمہ، حسن اور حسین") کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے ساتھ دیکھا۔عیسائیوں نے تحفظ کے بدلے میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امن کی درخواست کی۔ 
ام سلمہ نے حدیث الکسا کے ابتدائی نسخہ[1] میں بیان کیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے حضرت علی المرتضی ، حضرت فاطمہ الزاہراہ، امام حسن اور امام حسین کو اپنی چادر کے نیچے جمع کیا، [2][3] ان پانچوں کو اہل بیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ -کسا ('چادر کے لوگ')۔[4] حدیث جاری ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے دعا کی، "اے خدا، یہ میرے اہل بیت (میرے گھر کے لوگ) ہیں اور میرے قریبی رشتہ دار ہیں، ان سے ناپاکی کو دور کر اور ان کو مکمل طور پر پاک کر دے،"  قرآن کی آیت  33:33 [2][3] جسے آیت تزکیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ دوسروں کے علاوہ، اس حدیث کو سنی ابن کثیر (متوفی 1373) اور السیوطی (متوفی 1505) اور شیعہ طباطبائی (متوفی 1981) نے روایت کیا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان عفان کے دور خلافت میں
حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کی خلافت کے دوران ایک روایت میں ہے کہ جب خلیفہ ثانی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے منبر پر بیٹھ کر تقریر کر رہے تھے تو امام حسین نے انکے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے منبر پر بیٹھنے پر اعتراض کیا تو حضرت عمر نے بھی خطبہ روک دیا اور منبر سے نیچے اتر آئے۔ ] 
حضرت عثمان کے دور میں، انہوں نے حضرت ابوذر الغفاری کا دفاع کیا، جس نے ظالموں کے بعض اقدامات کے خلاف تبلیغ کی تھی اور انہیں مدینہ سے جلاوطن کیا جانا تھا۔[31]
متعدد روایات کے مطابق، حضرت علی نے امام حسن اور امام حسین سے کہا کہ وہ حضرے عثمان کے محاصرہ کے دوران تیسرے خلیفہ کا دفاع کریں اور ان کے پاس پانی لے جائیں۔ روایات میں کہا گیا ہے کہ حضرت عثمان عفان نے حضرت علی المرتضی سے مدد مانگی۔ جنہوں نے امام حسین کو بھیجا۔ بعض روایات کے مطابق امام حسین یا امام حسن حضرت عثمان کے دفاع میں زخمی بھی ہوئے تھے۔
حضرت علی المرتضی اور امام حسن کی خلافت کے دوران
حضرت علی المرتضی کی خلافت کے دوران، امام حسین، اپنے بھائیوں امام حسن اور محمد ابن الحنفیہ کے ساتھ، اور اس کے کزن عبداللہ ابن جعفر حضرت علی المرتضی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔[10]، میدان جنگ میں ان کا ساتھ دیا[17]۔ 
حضرت علی المرتضی کی شہادت کے بعد لوگوں نے امام حسن کی بیعت کی۔ امیر معاویہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیعت کریں، جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ خانہ جنگی کی اذیتوں سے بچنے کے لیے، امام حسن نے امیر معاویہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کے مطابق امیر معاویہ اپنے دور حکومت میں کسی جانشین کا نام نہیں لیں گے، اور اسلامی برادری (امت) کو اپنا جانشین چننے دیں گے۔[33] میڈلونگ کا خیال ہے کہ امام حسین نے امام حسن کے ادب میں اس معاہدے کو قبول کر لیا۔ بعد میں جب کئی شیعہ رہنماؤں نے انہیں کوفہ کے قریب امیر معاویہ کے کیمپ پر اچانک حملہ کرنے کا مشورہ دیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ جب تک امیر معاویہ زندہ ہیں وہ صلح کی شرائط کی پابندی کریں گے
 امام حسن کی شہادت کے بعد بھی امام حسین معاہدے کی شرائط پر کاربند رہے[34]
امام حسین کوفہ سے امام حسن اور عبداللہ بن جعفر کے ساتھ مدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔
معاویہ کے دور خلافت میں 41ھ (660ء) میں امام حسن کی تخت نشینی اور 49ھ (669ء) میں ان کی وفات کے درمیان کے نو سال کے عرصے میں، امام حسن اور امام حسین معاویہ کے حق میں یا اس کے خلاف سیاسی مداخلت سے دور رہنے کی کوشش کرتے رہے اور مدینہ واپس چلے گئے۔ [12] اہل بیت کی حکمرانی کے حق میں جذبات کبھی کبھار چھوٹے گروہوں کی شکل میں ابھرتے تھے، جن میں سے زیادہ تر کوفہ سے تھے، امام حسن اور امام حسین سے ملاقات کرتے تھے اور ان سے اپنے لیڈر بننے کی درخواست کرتے تھے- جس کا انہوں نے جواب دینے سے ہمیشہ انکار کیا۔ جب امام حسن کو زہر دیا گیا تو انہوں نے خون خرابے کے خوف سے امام حسین کو اپنے مشتبہ شخص کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ امام حسن کی وفات کے بعد جب عراقیوں نے ایک بغاوت کے لئے امام حسین کی طرف رجوع کیا تو حسین نے انہیں حکم دیا کہ جب تک امیر معاویہ امام حسن کے ساتھ صلح کے معاہدے کی وجہ سے زندہ ہے انتظار کریں[11][17] اسی دوران مروان نے امیر معاویہ کو لوگوں کے امام حسین کے پاس بار بار آنے کی اطلاع دی تو امیر معاویہ نے مروان کو امام حسین سے تصادم نہ کرنے کی ہدایت کی، اسی دوران انہوں نے امام حسین کو ایک خط بھی لکھا جس میں انہوں نے "اسے مشتعل نہ کرنے کے مشورے کے ساتھ فراخدلانہ وعدے بھی کئے" بعد میں جب امیر معاویہ اپنے بیٹے یزید کی بیعت کر رہا تھا تو امام حسین ان پانچ سرکردہ افراد میں سے تھے جنہوں نے اس کی بیعت نہیں کی[17] کیونکہ جانشین مقرر کرنا امیر معاویہ کے ساتھ امام حسن کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ 10] 
اپریل 680 میں اپنی موت سے پہلے، امیر معاویہ نے یزید کو خبردار کیا کہ امام حسین اور عبد اللہ بن الزبیر اس کی حکومت کو چیلنج کر سکتے ہیں اور اسے ہدایت کی کہ اگر وہ ایسا کریں تو انہیں شکست دیں۔ یزید کو مزید نصیحت کی گئی کہ وہ امام حسین کے ساتھ احتیاط سے پیش آئے اور اس کا خون نہ بہائے، کیونکہ وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے نواسے ہیں [38]۔
یزید کی بیعت سے انکار
15 رجب 60 ہجری (22 اپریل 680ء) کو امیر معاویہ کی موت کے فوراً بعد یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ ابن ابو سفیان کو حکم دیا کہ اگر ضروری ہو تو طاقت کے ساتھ حسین سے بیعت لے ۔[39][40] 
یزید کا مقصد شہر کے حالات پر قابو پانا تھا اس سے پہلے کہ لوگ امیر معاویہ کی موت سے آگاہ ہو جائیں۔ یزید کی فکر خاص طور پر خلافت میں اپنے دو حریفوں کے بارے میں تھی۔ حسین اور عبداللہ ابن زبیر جنہوں نے انکار بیعت کیا تھا [41] امام حسین نے سمن کا جواب دیا لیکن ملاقات کے خفیہ ماحول میں بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔[17] 
مروان بن حکم نے ولید کو قید کرنے یا سر قلم کرنے کو کہا، لیکن امام حسین کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے ساتھ رشتے کی وجہ سے ولید ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کچھ دنوں کے بعد امام حسین یزید کی بیعت کئے بغیر مکہ روانہ ہو گئے۔ وہ مئی 680 کے شروع میں مکہ پہنچے [43] اور ستمبر کے شروع تک وہیں رہے۔ ان کے ساتھ ان کی بیویاں، بچے اور بھائی اور حسن کے بیٹے بھی تھے۔[10]
امام حسین کی پہلی شادی حضرت رباب سے ہوئی تھی۔ ان کے والد عمرہ القیس، بنو کلب کے سردار تھے،  حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں مدینہ آئے تھے، اور انہوں نے انہیں قدعہ قبائل کا سردار مقرر کیا تھا۔ حضرت علی المرتضی نے امام حسین کے ساتھ ان کی بیٹی کی شادی کی تجویز پیش کی، لیکن چونکہ امام حسین اور عمراالقیس کی بیٹی اس وقت چونکہ بہت چھوٹی تھیں، اس لیے شادی بعد میں ہوئی۔ امام حسین کی ایک بیٹی تھیں، آمنہ (یا آمنہ یا عمائمہ) جو سکینہ کے نام سے مشہور ہیں۔  حضرت رباب سے ایک بیٹا عبداللہ (یا ذرائع کے مطابق علی الاصغر) پیدا ہوئے۔ امام حسین کی کنیت، ابو عبد اللہ، غالباً انہی بیٹے سے مراد ہے۔ امام حسین کی شہادت کے بعد، حضرت رباب نے ایک سال ان کی قبر پر غم میں گزارا۔ [10]میڈلونگ کے مطابق حسین کے دو بیٹے تھے جن کا نام علی تھا۔ بڑے، علی ابن حسین زین العابدین جو بعد میں چوتھے شیعہ امام بنے، اس وقت 23 سال کے تھے جب ان کا چھوٹا بھائی (علی الاکبر) 19 سال کی عمر میں کربلا کی جنگ میں شہید ہوئے۔ علی الاکبر حضرت لیلیٰ سے پیدا ہوئے، جو ابی مرہ ثقفی کی بیٹی تھی، جو بنو امیہ کا حلیف تھا۔ دوسری طرف زین العابدین کی والدہ غالباً سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک غلام تھیں جن کا نام غزالہ، صوفہ، سلامہ، شہزان یا شہربانو تھا۔ رپورٹوں کے مطابق، جسے عام طور پر شیعہ قبول کرتے ہیں، وہ یزدگرد III کی بیٹی تھی، جو ایران کے آخری ساسانی بادشاہ تھے جسے عربوں کی فتح کے دوران پکڑا گیا تھا۔ 
عصر حاضر کے شیعہ حلقوں نے احتیاط سے سجاد کو علی الاوسط اور علی الاصغر کو کربلا میں شیر خوار کے طور پر شناخت کیا ہے۔ عبد اللہ - جو عاشورہ کے واقعات میں علی اصغر کے نام کے ذکر سے جانا جاتا ہے۔ ام اسحاق، طلحہ کی بیٹی، امام حسین کی دوسری بیوی تھی، جس نے پہلے امام حسن سے شادی کی تھی۔ اور ان سے امام حسین کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ تھا، [135] جس نے بعد میں حسن بن حسن سے شادی کی۔
شخصیت اور ظاہری شکل
امام حسین کا رنگ سفید تھا اور کبھی سبز پگڑی پہنتے تھے اور کبھی کالی پگڑی۔ وہ غریبوں کے ساتھ سفر کرتے اور انہیں اپنے گھر بلا کر کھانا کھلاتے۔ عمرو بن العاص انہیں اہل آسمان کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب سمجھتے تھے۔
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مطابق، امام حسین کی اخلاقی خصوصیات میں سے ایک رواداری، عاجزی، فصاحت اور وہ خصوصیات ہیں جن کا اندازہ ان کے طرز عمل سے لگایا جا سکتا ہے، جیسے موت کو حقیر سمجھنا، شرمناک زندگی سے نفرت، تکبر اور اسی طرح کی دیگر خصوصیات۔ 9] بہت سی روایات میں امام حسین اور ان کے بھائی کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم سے مشابہت بیان کی گئی ہے، اور ان میں سے ہر ایک کو ان کے دادا کے آدھے سے تشبیہ دی گئی ہے۔[136]
امام حسین مدینہ منورہ میں اپنی سخاوت کے لیے مشہور تھے، اور انہوں نے اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو اگر کوئی اچھا سلوک دیکھا تو آزاد کر دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ امیر معاویہ نے امام حسین کے پاس ایک لونڈی بھیجی جس کے ساتھ بہت سا مال اور کپڑا تھا۔ جب نوکرانی نے قرآن کی آیات اور دنیا کے عدم استحکام اور انسان کی موت کے بارے میں ایک نظم پڑھی تو امام حسین نے اسے آزاد کر دیا اور اسے جائیداد دے دی۔ ایک دفعہ امام حسین کے غلاموں میں سے ایک نے کچھ غلط کیا۔ لیکن جب غلام نے آیت "وَالْعافینَ عَنِ النَّاس" پڑھی تو امام حسین نے اسے معاف کر دیا اور اس کے بعد غلام نے آیت "وَلَلَّهُ یُحِبُّ الْمُحِسِينَ" پڑھی تو امام حسین نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔
امام حسین نے اپنے بچوں کے استاد کو بڑی رقم اور کپڑے دیے۔ جبکہ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ اس سے استاد کے کام کی قدر کی تلافی نہیں ہوتی۔
کہا جاتا ہے کہ امام حسین غریبوں کے لیے کھانے کے تھیلوں کی بوریاں اٹھا کر ان کے گھر پہنچایا کرتے اور ان بوریوں کے اٹھانے کی وجہ سے ان کے کندھوں پر جو نشان پڑے وہ عاشورہ کے دن ان کے جسم پر واضح تھے۔
قرآن و حدیث میں
قرآن کی آیات میں
بہت سے سنی اور شیعہ مفسرین، جیسے فخر رازی اور محمد حسین طباطبائی، سورہ الانسان کی اپنی تفسیر میں، اس کے نزول کو حضرت علی اور حضرت فاطمہ الزاہراہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ان کے بچے یا بچوں کی بیماری اور ان کی صحت یابی کے لیے نذر مانتے ہیں۔ 139][140]
تفسیر المیزان میں سید محمد حسین طباطبائی نے کہا ہے کہ مباہلہ کا واقعہ ایک طرف پیغمبر اسلام اور ان کے خاندان اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے درمیان تصادم کی کہانی بیان کرتا ہے۔
طباطبائی کہتے ہیں کہ روایات کے مطابق آیت مباہلہ میں ہمارے بیٹوں کے معنی حسن اور حسین تھے۔[141] بہت سے سنی مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اس میں لوگ علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔
المیزان میں آیت تطہیر کی تفسیر کرتے ہوئے طباطبائی نے اس آیت کے مخاطب کو اہل کساء کہا ہے اور اس کی احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی تعداد ستر سے زیادہ ہے اور زیادہ تر اہل سنت کی ہیں۔[140] فخر رازی اور ابن کثیر جیسے سنی مفسرین نے اپنی تفسیر میں اس آیت میں اہل بیت کی مثال کے بارے میں مختلف روایات نقل کرتے ہوئے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو مثال کے طور پر شمار کیا ہے۔[142]
طباطبائی نے سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 23 کی تفسیر و تشریح میں المیزان میں مفسرین کے مختلف اقوال کی روایت اور تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "قرب" کا معنی اہل بیت کی محبت ہے۔ محمد; یعنی علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ وہ سنیوں اور شیعوں کی مختلف روایات کا حوالہ دیتے ہیں جس نے اس مسئلے کو واضح کیا ہے۔ فخر الرازی اور ابن کثیر جیسے سنی مفسرین نے بھی اس مسئلہ کا حوالہ دیا ہے۔[143][144]
سورہ احقاف کی آیت 15 میں حاملہ عورت کے بارے میں بتایا گیا ہے جو بہت زیادہ تکلیف برداشت کرتی ہے۔ اس آیت کو فاطمہ زہرا کی طرف اشارہ سمجھا جاتا ہے، اور بیٹے کو حسین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جب خدا نے اس نواسے کی قسمت کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم  سے تعزیت کا اظہار کیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سے اس کا اظہار کیا تو وہ بہت پریشان ہوئیں۔
دوسری آیات جو شیعہ حسین کی طرف منسوب کرتے ہیں ان میں سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 6 اور سورہ زخرف کی 28 آیتیں شامل ہیں، جن کی تشریح ان کی نسل سے امامت کے تسلسل سے کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ آیات 77 سورہ نساء، 33 سورہ الاسراء اور 27 ویں سے 30 ویں سورہ الفجر شیعہ کے نقطہ نظر سے بغاوت اور قتل حسین کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔[30]
پیغمبر اسلام کی سیرت میں "ثقلین" سے متعلق روایتوں میں دوسرے وزن کے لیے حسین کو مثال کے طور پر رکھا گیا ہے۔ حسنین سے متعلق روایتوں کے ایک اور گروہ میں ان کا تعارف "جنت کے جوانوں کے سردار" کے طور پر کیا گیا ہے۔ 
امام حسین کے انجام کی خبر
روایات ہیں کہ جبرائیل نے امام حسین کی پیدائش کے وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو اطلاع دی تھی کہ ان کی امت امام حسین کو قتل کرے گی اور امامت حسین کی ہوگی اور محمد نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ امام حسین کو کیسے قتل کیا جانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پچھلے انبیاء کو بھی قتل حسین کی خبر دی تھی۔ حضرت علی کو یہ بھی معلوم تھا کہ امام حسین کو کربلا میں قتل کیا جائے گا اور جب وہ اس علاقے سے گزرے تو وہ رک گئے اور رو پڑے اور محمد کی خبر کو یاد کیا۔ انہوں نے کربلا (کربلا) کو (کرب) کرب اور (بلا) آفت سے تعبیر کیا۔ کربلا کے مقتول بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔
حسین ابن علی سے روایات، خطبات اور خطوط محفوظ ہیں جو سنی اور شیعہ ذرائع میں دستیاب ہیں۔ ان کے متعلق روایات کو امامت سے پہلے اور بعد کے دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں - جو ان کے دادا، والد، والدہ اور بھائی کی زندگی میں ان کی زندگی کا دور ہے - ان کے بارے میں کم از کم دو قسم کی روایتیں ہیں: پہلی، ان کے رشتہ داروں سے روایتیں، اور دوسری، ان کی ذاتی احادیث۔ . سنی منابع میں ان احادیث میں صرف ان کی حدیث کے بیان کے پہلو پر غور کیا گیا ہے۔ ان مسندوں میں پیغمبر اسلام کے صحابہ کی مسند کی طرح ایک مسند بھی ہے جس کا نام حسین ابن علی ہے۔ ابوبکر بزار نے اپنی مسند میں حسین ابن علی کی مسند کو 4 احادیث کے ساتھ اور طبرانی نے ان کی مسند کو بالترتیب 27 احادیث کے ساتھ نقل کیا ہے۔ حسین ابن علی کی مسند میں خود حسین کی احادیث کے علاوہ پیغمبر اسلام اور علی ابن ابی طالب کی بھی احادیث موجود ہیں۔ موجودہ دور میں عزیز اللہ عطاردی نے امام شہید ابی عبداللہ الحسین ابن علی کی دستاویز مرتب کی ہے۔[146]
حسین ابن علی کے خطبات کے زمرے میں ان کے بعض خطبات قبل از امامت کے ہیں جن میں سے بعض بہت مشہور ہیں۔ چنانچہ حسین ابن علی کا خطبہ، علی ابن ابی طالب اور دیگر لوگوں کی عوامی بیعت کے بعد، جنگ صفین میں ان کا خطبہ ہے۔ ایک اور مثال امام حسین کی ایک نظم ہے جو اپنے بھائی امام حسن کی تدفین کے بعد ہونے والے نقصان کے بارے میں ہے۔ امامت میں حسین ابن علی کے خطبات اور خطوط ان سے پہلے سے زیادہ ہیں۔ لوگوں کے نام ان کے خطوط، نیز معاویہ کو ان کے خطوط امن معاہدے کی پاسداری کے حوالے سے، معاویہ کے اقدامات کا سراغ دیتے ہیں، خاص طور پر یزید کے بارے میں، نیز اس کے خطبات اور خطوط شروع میں سفارشی خطوط کی صورت میں۔ یزید کی خلافت کا۔ خطبات اور خطوط کا ایک اہم حصہ حسین بن علی کی رد بیعت کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ کوفیوں، بصریوں اور مسلم ابن عقیل جیسے لوگوں سے خط و کتابت اس طرح ہے۔ فقہ، تفسیر، عقائد، احکام و خطبات، دعاؤں، نصیحتوں اور اشعار کے موضوعات پر احادیث بھی حسین سے باقی ہیں، جو شیعہ اور سنی مآخذ میں بکھری ہوئی ہیں اور مجموعوں کی صورت میں مرتب کر کے شائع کی گئی ہیں۔ حسین ابن علی کی چھوڑی ہوئی دعائیں بھی ہیں جو الصحیفہ الحسین یا امام حسین کی دعائیں کے عنوان سے مجموعوں کی شکل میں شائع ہوئی ہیں۔[147]سب سے مشہور شیعہ دعاؤں میں سے ایک، نیز حسین کے کام، جو کتاب مفاتیح الجنان میں درج ہیں، دعا عرفہ ہے۔ ولیم سی چٹک کے مطابق، یہ دعا اپنی خوبصورتی اور روحانی ساخت کے لحاظ سے سب سے مشہور دعا ہے اور ہر سال عرفہ کے دن اور حج کے موسم میں پڑھی جاتی ہے - یعنی جب اسے حسین ابن علی نے پہلی بار پڑھا تھا۔ - شیعہ زائرین کی طرف سے شیعہ الہیات میں اس دعا کا ایک خاص اور اہم کردار ہے اور فلسفی اور صوفی ملا صدرا نے اپنی تحریروں میں اس دعا کا متعدد بار ذکر کیا ہے۔[148]
تقریباً تمام مسلمان امام حسین کو اس لیے قابل احترام سمجھتے ہیں کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے نواسے تھے اور اس عقیدے کی وجہ سے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ایک آدرش کے لیے قربان کر دیا تھا۔ مورخ ایڈورڈ گبن نے کربلا کے واقعات کو ایک المیہ قرار دیا ہے۔ مورخ سید اکبر حیدر کے مطابق، مہاتما گاندھی نے اسلام کی تاریخی ترقی کو فوجی طاقت کے بجائے "حسین جیسے مسلمان بزرگوں کی قربانیوں" سے منسوب کیا۔[154] انہیں شہداء کے شہزادے (سید الشہداء) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[81] مورخ G.R. Hawting نے کربلا کی جنگ کو "مصیبت اور شہادت" کی ایک اعلیٰ مثال قرار دیا ہے۔[149]
Saturday, August 6, 2022
سوشل میڈیا کی جنگ کے حربے
گزشتہ کالم میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ کیسے سوشل میڈیا کی ابتدا ہوئی اور کیسے سرچ ببل اور ایکو چیمبر آپ کی ذہنی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں نیز کیسے ان ایکو چیمبرز اور سرچ ببلز کو سیاسی سوچ بدلنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آئیے اب آپ کو بتائیں کہ اس سلسلے میں کون سے حربے اب تک استعمال کئے گئے۔
ہم نے پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ یوں تو اس وقت تمام سیاسی جماعتوں اور انکے چھوٹے سے بڑے رہنماوں کے چھوٹے بڑے میڈیا سیل کام کر رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے سوشل میڈیا کو اتنا منظم نہیں کیا جتنا اس نے ادارہ جاتی طور پر اس میڈیم کو استعمال کیا ہے۔ باقی جماعتیں روایتی طور پر زیادہ تر مین اسٹریم میڈیا پر فوکس رکھتی ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف ان سے ایک قدم آگے ہے۔ اس جماعت نے اس میڈیم کو باقاعدہ ادارہ جاتی شکل دی ہے اور اسے اپنے پراپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال شروع کیا ہے۔ چونکہ اس جماعت میں کارپوریٹ کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو نا صرف پڑھی لکھی بلکہ جدید علوم سے آشنا ہے اس لئے تحریک انصاف نے نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا ماہرین کی مدد سے اپنے دور حکومت میں ترجمانوں کی ایک پوری فوج بھرتی کی جو مختلف ایشوز پہ ایک بیانیہ تشکیل دیتی جو ایک دوسری سوشل میڈیا ٹیم جس کے ہیڈ کا دفتر پرائم منسٹر ہاوس میں ہی تھا، پھیلانے کا فریضہ سرانجام دیتی۔ اس سوشل میڈیا ٹیم کو باقاعدہ سرکاری نوکریاں دی گئیں بلکہ ان کیلئے ایک سپیشل بجٹ منظور کیا گیا۔ یہ ٹیمز اب بھی ایکٹو ہیں اور اب انہیں خیبر پختونخواہ سے مینیج کیا جا رہا ہے کیونکہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور اس کے ہیڈ جو پہلے پرائم منسٹر آفس میں بیٹھا کرتے تھے اب پنجاب حکومت کے مشیر برائے اطلاعات ہوں گے۔
اب آئیے ان حربوں کی طرف جو اس سوشل میڈیا کی سیاسی جنگ میں پی ٹی آئی اپنے سوشل میڈیا کے ماہرین کی مدد سے استعمال کر رہی ہے۔
آر اے شہزاد ایک سائکالوجسٹ، چائلڈ پروٹیکشن ایڈوائزر اور ریسرچر ہیں اور ڈنمارک میں مقیم ہیں۔ سوشل میڈیا خاص طور ٹوٹر پہ بہت ایکٹو ہیں۔ وہ ان حربوں کا سائیکو پولیٹیکل انیلسس کرتے ہوئے اپنے سلسلہ وار ٹویٹ تھریڈ میں لکھتے ہیں کہ:
"آپ نے شاید عمران خان کی اس بات کو آسان لیا ہو جس میں اس نے کہا تھا کہ میں مائینڈ گیم کا ماہر ہوں مگر اس کے پیچھے ایک پوری سائنس تھی"
"اس کے لیے ہمیں سمجھنا ہو گا کہ آج کے دور میں کیسے مختلف کمپنیاں اپنی مارکیٹنگ مہمات سے ذہن سازی کرتی اور ذہن بدلتی ہیں۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے بعد اب الیکشن محض ایک ووٹنگ کا عمل نہی رہ گیا بلکے ایک سائنس بن گئی ہے اور مغرب میں اس پر بے شمار ریسرچ اور سکینڈل بھی سامنے آ چکے ہیں ٹرمپ کا الیکشن اور Brexit اس کی بڑی مثال ہیں۔ ٹرمپ کا الیکشن وہ پہلی مثال تھی جس نے بگ ڈیٹا کو استعمال کرتے امریکی ووٹر کے ذہنوں پر قبضہ کیا ٹرمپ نے کیمبرج انیلیٹیکا نامی ایک ڈیٹا فرم ہائر کی اس نے فیس بک کے آٹھ کروڑ لوگوں کا ڈیٹا چوری کر کے ان معلومات سے ایک ٹیکنیک  Psychographic کا استعمال کر کے ایسے سیاسی میسج بنائے جو لوگوں کے تعصبات اور دوسری نفسیاتی کمزوریوں کو سامنے رکھتے انکی رائے کو متاثر کر سکتے تھے۔ Psychographic کیا ہوتا ہے؟ یہ بنیادی طور پر آپ کی نفسیاتی پروفائلنگ ہوتی ہے۔ آپ کیا پسند کرتے ہیں، آپ کی رائے دلچسپیاں اور شخصیت کے دوسرے پہلو ہوتے ہیں۔ مارکیٹنگ سٹریٹجی میں جہاں ڈیموگرافکس انفارمیشن لی جاتی وہاں آپ کا Psychographic پروفائل بھی لیا جاتا تاکہ آپ کی پسند نا پسند اور میلان رویے سب سمجھا جا سکے. کمپیوٹر پر آپ جو وقت گزارتے، جو کلک کرتے ہیں، ان سب کا ڈیٹا جمع ہوتا ہے، پھر اسی کی بنیاد پر آپ کی ایک Psychometric پروفائلنگ ہوتی ہے۔ ایک کمپنی GSR یہ ڈیٹا جمع کرتی ہے۔ یہاں سے ہی کیمبرج اینیلٹیکا نے ڈیٹا خریدا.
28 سال کا Cristopher Wylie رضاکارانہ طور پر سامنے آیا اور ساری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا۔ اس نے بتایا کہ کیسے آن لائن ڈیٹا اور سوشل میڈیا ڈیٹا سے پروفائل وہ طریقہ ہے جسے فوجی جاسوس ایجنسیاں information operations کہتی ہیں۔ یوں سیاست کی دنیا میں وہ کام ہوا کہ جب آپ کا ڈیٹا اور آن لائن psychometric profiling جمع ہو جاتی ہے تو پھر مارکیٹنگ کی تکنیک micro targeting کی جاتی ہے اور یہی کام پی ٹی آئی نے کیا۔ 
انہوں نے برطانیہ میں ایک ایسی فرم ہائر کی جو ان کے لیے پولیٹیکل کمپین ڈیزائن کرتی ہے۔ سوشل میڈیا ہی وہ مین فورم تھا جہاں سے عمران خان نے قوم کے ایک بڑے حصے کو اتنے موثر انداز میں مٹھی میں لیا کہ آج ملک کا تمام نیریٹو بلڈنگ اس کے ہاتھ میں ہے۔ 
مائکرو ٹارگٹ کی تکنیک امریکی الیکشن میں جارج بش نے بھی استعمال کی تھی اور مختلف ڈیٹا کی مدد سے تیس ایسی ووٹر کیٹگری بنائی تھی جو مختلف پسند نا پسند اور میلان رکھتے تھے اور پھر اس کے مطابق ہی انہوں نے ووٹر کے لیے میسج بنائے۔ پی ٹی آئی نے بھی یہی تکنیک اختیار کی۔ مختلف ڈیٹا فرمز یہ دعوی کرتی ہیں کہ ان کے پاس آن لائن اتنا ڈیٹا ہوتا ہے کہ وہ یہ ٹھیک اندازہ لگا سکتے کہ کیا چیز آپ کو خوش کرے گی اور کیا نہیں۔ پی ٹی آئی نے انہی فرمز کی مدد سے پاکستانیوں کی آن لائن پروفائلنگ کروائی پھر مختلف طبقات کے لیے ایسے نعرے بنائے جو ان کے مزاج کے مطابق انہیں خوش کر دیں انہیں لگے کہ یہی وہ لیڈر ہے جو اصل میں انکے مسائل سمجھتا اور انکی زبان میں بات کرتا ہے۔
آج امریکہ میں اس بات پر بحث ہو رہی کہ لوگوں کی نفسیاتی پروفائلنگ سے، ان کی نفسیاتی کمزوریوں کی مدد سے ان کی رائے متاثر کرنا فری اینڈ فئیر الیکشن کے تصور کے خلاف ہے 
مگر پاکستان میں بدقسمتی سے کوئی سیاسی جماعت اس ٹاپک پر بات نہی کر رہی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی ورکرز بشمول سوشل میڈیا صارف سوشل میڈیا سائنس کو سمجھیں۔ یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ آپ کا آن لائن ڈیٹا اب ماہرین نفسیات اور مارکیٹنگ ایکسپرٹ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ کو اسطرح ذہنی طور پر کنٹرول کر لیا جائے کہ آپ کو احساس بھی نا ہو کہ آپ ذہنی غلام بن چکے ہیں۔" 
آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں کہ: "پروپیگنڈہ ایک سائنس ہے اور اس کی جدید تیکنیک ایڈورٹائزنگ  کی صنعت عام طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس وقت ایڈورٹائزنگ میں برانڈ کی مشہوری کے لیے 7 مین ٹیکنیکس استعمال ہوتی ہیں۔ عمران خان کی تقریر اور کمپین دونوں کا میں نے Analysis کیا ہے اس کی کمپین ہو یا تقریر اس میں پروپیگنڈہ کی وہ ساتوں ٹکنیکس موجود ہوتی ہیں۔ عمران خان اکثر کہتے ہیں کہ پی پی اور نون لیگ نے معیشت ڈبو دی اور وہ مزے سے اپنا دور گول کر جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ اکثر باتوں میں کچھ فیکٹ گول کر دیتے ہیں۔ اسے پروپیگنڈہ کی اصطلاح میں Card-Stacking کہتے ہیں۔ اشتہار بازی میں یہ کثرت سے استعمال ہوتی ہیں۔ جیسے اکثر برانڈ بڑا بڑا لکھتے ہیں ستر فیصد ڈسکاونٹ، نیچے کونے میں لکھا ہوتا ہے، منتحب آئٹم پر۔ یعنی مکمل حقائق نہیں بتاتے۔ آپ کو تحریک انصاف والے اکثر ایسے کمپریزن کرتے نظر آتے ہیں جو مکمل حقائق پر مشتمل نہی ہوتے اور یک طرفہ، Biased اور مس لیڈنگ ہوتے ہیں مگر اس کے پیچھے یہی تکنیک ہے۔"
"روح افزا کےلیے مشروب مشرق کا لفظ استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ "ہر پاکستانی کی پسند" بھی اکثر اشتہارات میں ہوتا ہے۔ اس تیکنیک کو Bandwagon Propaganda کہتے ہیں۔ اس پروپیگنڈہ میں آپ ایسا ماحول بناتے ہیں کہ لوگ ایک کراوڈ کا حصہ محسوس ہوں۔ ایسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جیسے trending now کی طرح کے الفاظ ہوتے ہیں کیونکہ انسانی نفسیات بنیادی طور پر یہ ہے کہ وہ سب کے ساتھ Fit in ہونا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف بھی یہی کرتی ہے ان کے نعرے اور سوشل میڈیا مہم اٹھا کر دیکھ لیجئے یوتھ کی پسند، ہر محب وطن پاکستانی، ہر مسلمان اور عاشق رسول وغیرہ جیسے الفاظ بنیادی طور پر Bandwagon Propaganda ہوتے ہیں"
"آپ نے اکثر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر ہر جلسے وغیرہ کے بعد بچوں کے پلے کارڈ یا کسی بوڑھی عورت کا انٹرویو یا کسی مزدور کے پیسے دینے کی فوٹو نظر آتی ہو گی اس تکنیک کو Plain Folks Propaganda کہا جاتا ہے جس میں عام لوگوں کے استعمال سے لوگوں کو persuadکیا جاتا ہے"
"آپ کو ہر دوسرا فنکار یا ٹک ٹاکر وغیرہ تحریک انصاف کا حامی نظر آتا یہ لوگ معاوضے پر endorsements کرتے ہیں پروپیگنڈہ کی زبان میں اسے Testimonial Propaganda کہا جاتا ہے تاکہ عام عوام کو لگے کہ ہر طرف ان کی ہی مقبولیت ہے"
آپ کو عمران خان اپنی تقریروں میں اکثر مخالفین کے نام رکھ کر ان کی تذلیل کر کے مذاق اڑاتا نظر آتا ہیں۔ جیسے ڈیزل، ککڑی، چور، ڈاکو، بیماری وغیرہ۔  یہ بنیادی طور پر پروپیگنڈہ کی ہی تکنیک ہے جسے Name Calling Propaganda کہتے ہیں آپ اگر اشتہار بازی کی صنعت کو دیکھیں تو بڑے برانڈ آپ کو یہ تکنیک استعمال کرتے نظر آئیں گے مثال کے طور پر برگر کنگ اپنے اشتہار میں میکڈانلڈ کا مذاق اڑاتا نظر آتا ہے ان کا نام نہی لیتا مگر انکے بگ میک کا signature box لیا اور کہا کہ ہمارا برگر تو ان کے بڑے برگر کے ڈبے تک میں نہی آتا۔ عمران خان کی تقریر میں یہی تکنیک ہوتی ہے"
"میں اس ٹاپک پر گھنٹوں لکھ سکتا ہوں مگر چند مثالوں سے یہ بتایا کہ تحریک انصاف کی جس کمپین اور باتوں کا ہم مذاق اڑاتے ہیں وہ بنیادی طور پر carefully crafted propaganda techniques ہیں جو جدید ایڈورٹائزنگ میں استعمال ہوتی ہیں اور انہیں ماہرین نے تحریک انصاف کے لیے بنایا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں جتنی مرضی سطحی اور عجیب لگے وہ payback کر رہی ہیں کیونکہ عوام کی نفسیات کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہیں۔" 
 
اب آپ یہ سوچیں کہ باقی سیاسی جماعتیں اس سوشل میڈیا وار میں کہاں کھڑی ہیں؟ کیا وہ اتنی سائنسی بنیادوں پر بنی پروپیگنڈہ کمپین کا مقابلہ کر سکتی ہیں ؟ اور ساتھ یہ بھی سوچیں کہ اربوں روپے کی فارن فنڈنگ کہاں خرچ ہوئی ؟  لیکن اس سب میں سچائی اور حقائق کا جو قتل ہوا ہے اس کا ازالہ کیا ممکن ہے ؟
Tuesday, August 2, 2022
سوشل میڈیا کی جنگ
یہ 90 کی دہائی کے آخری سالوں کی بات ہے کہ ہم انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہوئے۔ کمپیوٹر کی ڈیسک ٹاپ شکل پاکستان میں 80 کی دہائی کے اواخر میں آ چکی تھی اور اس کا کارپوریٹ اداروں میں استعمال بھی شروع ہو چکا تھا تاہم انٹرنیٹ کا استعمال محدود تھا کیونکہ پاکستان پر ان دنوں تجارتی پابندیوں کے باعث کمپیوٹر کے اس وقت کے جدید ورژن کی امپورٹ ممنوعہ کیٹیگری میں آتی تھی۔ خیر لمبی کہانی ہے۔ ہم اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا ڈومیسٹک استعمال 1998 میں بہت محدود تھا اور چیٹ صرف MIRC نامی سافٹ وئیر سے ہی ممکن ہو پاتی تھی لیکن پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک طوفان شروع ہوا اور اس کی شروعات یاہو اور ایم ایس این کے چاٹ رومز تھے۔ یہ سوشل میڈیا کی ابتدا تھی۔
چیٹ رومز سے بات یاہو اور ایم ایس این گروپس اور میسینجرز تک پہنچی اور جب گوگل اس میدان میں آیا تو اس نے بھی اپنے میسنجر اور گروپس سے ہی اپنی ابتدا کی۔ 
یہ پہلا موقع تھا کہ عالمی کمیونٹی کو ہر ملک کے شہریوں کے رہن سہن، عادات، بات چیت اور پسند ناپسند سے آشنائی ہوئی، دوستیاں ہوئیں اور گروپس کا تصور راسخ ہونا شروع ہوا۔
انسان جب سے تہذیب کے جامے میں آیا ہے تب سے گروہوں کی شکل میں رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ گروپ معاشرے کی بنیاد بنے، قبیلے وجود میں آئے، شہروں کی بنیاد پڑی اور بالآخر ملکوں، براعظموں اور رنگ و نسل کی شکل میں گروپنگ ہوئی۔ انٹرنیٹ کمیونٹی چونکہ زبان، نسل، رنگ، شہر، ملک اور یہاں تک کہ براعظم سے ماورا تھی اس لئے یہاں رجحانات کی بنیاد پر گروپنگ ہوئی۔ جیسے جیسے انٹرنیٹ کی مختلف ایڈوانس شکلیں سامنے آئیں ویسے ویسے رجحانات کا تنوع بھی بڑھا۔ اب یہاں سے ان رجحانات اور ترجیحات کا مطالعہ بھی شروع ہوا۔ چونکہ یہ ایجاد اور اس میں مزید اختراعات ترقی یافتہ ممالک سے آ رہی تھیں اس لئے وہ اس پہ محتاط بھی تھے کیونکہ ہر ایجاد کا مثبت و منفی استعمال انسان کی سرشت میں ہے اس لئے انہوں نے پہلے پہل ان اختراعات کے صرف قانونی پہلووں پر توجہ کی مثلا آپ جب بھی کوئی سافٹ وئیر اپنے کمپیوٹر پر انسٹال کرتے ہیں تو ایک لمبا ایگریمنٹ سامنے آتا ہے اور جب تک آپ اسے قبول نا کرلیں سوفٹ وئیر کھلتا نہیں اسی طرح تقریبا سب سوشل میڈیا ایپس آپ کو کسی غیر قانونی/ غیر اخلاقی مواد کو رپورٹ کرنے کی نا صرف سہولت دیتے ہیں بلکہ اس کیلئے حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ بلاک کرنے کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ یہ سب تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ مسائل سامنے آنے کے بعد ہوئیں اور انٹرنیٹ کمیونٹی نے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا اور اس کے مطابق انٹر نیٹ کے استعمال کنندگان کیلئے سہولیات اور فرائض کی جانب مائل کرتے گئے۔
لیکن ان ممالک کے کمپیوٹر ماہرین، نفسیات دان حضرات اور سائینسدانوں نے جس پہلو پر کام کیا وہ رجحانات کا مطالعہ اور اس کا منفی/ مثبت استعمال بھی ہے۔ اس اسٹڈی کے مطابق چونکہ انسان اپنی طبع کے مطابق گروہوں میں رہنے کا عادی ہے اس لئے اس کی ترجیح اپنے رجحان کے لوگوں کے ساتھ میل جول ہوتا ہے اس وقت آپ اگر غور کریں تو تمام سوشل میڈیا ایپس چاہے وہ فیس بک ہو، چاہے ٹوٹر یا پھر ان سے ملتے جلتے دوسرے انٹر نیٹ پروگرام، آپ کی ترجیح اپنے پروفائل میں انہی لوگوں کو جمع کرنا ہوتا ہے جن سے آپ کی دوستی ہوتی ہے یا عزیز داری اور ان میں سے بھی آپ کی ٹائم لائن پہ بھی وہی لوگ اوپر ہوتے ہیں جن سے آپ کا میل جول زیادہ رہتا ہے۔ اس دائرے کے علاوہ آپ ان لوگوں کو اپنے حلقے میں لاتے ہیں جن سے آپ متاثر ہوتے ہیں اور انہیں فالو کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں ماہرین کا اجماع ہے کہ انسان ایک ایکو چیمبر میں چلا جاتا ہے۔ ایکو چیمبر کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے آئیے آپ کو اس سے متعارف کرائیں
ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ: "انٹرنیٹ نے قابل رسائی سیاسی معلومات کی تنوع اور مقدار کو بڑھا دیا ہے۔ مثبت پہلو پر، یہ عوامی بحث کیلئے زیادہ بڑا پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔ منفی پہلو پر، معلومات تک زیادہ رسائی نظریاتی طور پر ایک ہی نظریے کے لوگوں کے لیے ایک ہی جگہ اکٹھے ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔ 
ایک انتہائی "ایکو چیمبر" میں، اپنے نظریے کے حق میں معلومات کا حامل ایک شخص دعویٰ کرے گا، جسے بہت سے ہم خیال لوگ پھر دہراتے ہیں، سنتے ہیں اور دوبارہ دہراتے ہیں (اکثر مبالغہ آمیز یا دوسری صورت میں مسخ شدہ شکل میں) جب تک زیادہ تر لوگ یہ فرض نہ کر لیں کہ کہانی سچ ہے۔ 
ایکو چیمبر ایک ایسا ماحول ہے جہاں کسی شخص کو صرف ایسی معلومات یا آراء کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی اپنی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں اور ان کو تقویت دیتی ہیں۔ ایکو چیمبر اصطلاح ایک استعارہ ہے جس کی بنیاد ایک صوتی ایکو چیمبر پر ہوتی ہے، جس میں کھوکھلی دیوار میں آوازیں گونجتی ہیں۔ 
انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کمیونٹیز کے اندر اس بازگشت اور یکساں اثر کے لیے ایک اور ابھرتی ہوئی اصطلاح ثقافتی قبائلیت ہے۔ 
بہت سے اسکالرز ان اثرات کو نوٹ کرتے ہیں جو گونجتے ہیں۔ ایکو چیمبر شہریوں کے موقف اور نقطہ نظر پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، اور خاص طور پر سیاست پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایکو چیمبر میں حصہ لے کر، لوگ ایسی معلومات حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو مخالف آراء کا سامنا کیے بغیر ان کے موجودہ خیالات کو تقویت دیتی ہے، جس کے نتیجے میں تصدیقی تعصب کی غیر ارادی مشق ہو سکتی ہے۔ ایکو چیمبرز سماجی اور سیاسی پولرائزیشن اور انتہا پسندی کو بڑھا سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایکو چیمبر متنوع نقطہ نظر کی نمائش کو محدود کرتے ہیں، اور مفروضہ بیانیوں اور نظریات کی حمایت اور تقویت کرتے ہیں۔"
میں نے کوشش کی ہے کہ قابل فہم زبان میں آپ کو ایکو چیمبرز تھیوری سے متعارف کرایا جائے چلیں اب عام فہم انداز میں سمجھاتے ہیں کہ ایکو چیمبر کا تصور کیا ہے۔ ایکو چیمبر کی صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ ایک ہی جیسے خیالات و نظریات کے لوگوں کے درمیان گم ہو جاتے ہیں ایک ہی نظریے کے لوگوں کی باتیں سنتے ہیں اور انہی پر یقین کر کے اسے سچ سمجھ کے اس کی ترویج کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ایکو چیمبر میں مخالف آواز یا تو داخل نہیں ہونے دی جاتی یا پھر اسے نکال دیا جاتا ہے۔ اس وقت آپ دیکھیں گے کہ فیس بک، ٹوٹر پر یا تو آپ ہم خیال لوگوں کی فیڈ دیکھ رہے ہوتے ہیں یا پھر اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر کسی مخالف آواز کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال ایک پرتشدد معاشرت کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور جب آپ اس آن لائن ایکو چیمبر سے اپنی حقیقی دنیا میں اس صورت  واپس واپس آتے ہیں کہ آپ ایک بار بار گونجتی آواز کو سچ سمجھ چکے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت بدتر ہو جاتی ہے جب آپ ہم خیالوں کے ایک گروپ کو جوائن کرتے ہیں۔
اگلے مرحلے میں ہم سرچ ببل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
 سرچ ببل منظم پراپوگنڈہ کی ایک ایسی طاقت ہے جسے مارکیٹنگ کی دنیا میں سب سے خطرناک ہتھیار مانا جاتا ہے 
ماہرین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی میسج جب آپ کو تین سے زیادہ ذرائع سے ملے تو آپ کے اسے ماننے اور یقین کرنے کا چانس بڑھ جاتا ہے جب ٹک ٹاک، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، ٹی وی ہر جگہ پر ایک ہی پیغام آئے گا تو کیا نتیجہ ہوگا؟
کہنے کو تو آج کی دنیا ”انفارمیشن ایج” ہے مگر سوشل میڈیا کی سائنس ایسی کہ ہر بندے کا ایک search bubble ہے جو اس کی آن لائن ایکٹویٹی کے algorithm سے بنتا ہے 
فیک نیوز میں ہمیشہ ایسا عنصر ہوتاہے جو آپ کو جذباتی کر دے ماہرین سوشل میڈیا کا ماننا ہے کہ فیک نیوز کو پھیلانے اور قائل کرنے میں جذباتی کردینے والے چیزیں اہم کردار ادا کرتی ہیں جیسا کہ آپ کچھ دن سوشل میڈیا پر جانور بھی سرچ کریں تو ہر سوشل میڈیا پر آپ وائلڈ لائف ہی ملے گا چاہے میڈیم کوئی بھی ہو یہی وہ پہلو ہے، جن پر ماہرین نفسیات، آئی ٹی کے ماہرین اور مارکیٹنگ کے ماہرین مل بیٹھ کر ایک بہترین سٹریٹجی بنا تے ہیں۔
آخری مرحلے میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کی جنگ کیسے لڑی جا رہی ہے اور کن حربوں سے اپنے اور مخالفین کو متاثر کیا جا رہا ہے 
یوں تو اس وقت تمام سیاسی جماعتوں اور انکے چھوٹے سے بڑے رہنماوں کے چھوٹے بڑے میڈیا سیل کام کر رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے سوشل میڈیا کو اتنا منظم نہیں کیا جتنا اس نے ادارہ جاتی طور پر اس میڈیم کو استعمال کیا ہے۔ باقی جماعتیں روایتی طور پر زیادہ تر مین اسٹریم میڈیا پر فوکس رکھتی ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف ان سے ایک قدم آگے ہے۔ 
2013 کے الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کا سوشل میڈیا زیادہ تر مخالفین کی ٹرولنگ اور بعض الزامات کے مطابق گالم گلوچ کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ لیکن بعد ازاں اس جماعت نے اس میڈیم کو باقاعدہ ادارہ جاتی شکل دی اور اسے اپنے پراپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال شروع کیا۔ چونکہ اس جماعت میں کارپوریٹ کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوئی جو نا صرف پڑھی لکھی بلکہ جدید علوم سے آشنا تھی اس لئے تحریک انصاف نے نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا ماہرین کی مدد سے ایسے جذباتی میسج تخلیق کیے کہ وہ ان کا Search Bubble اس طرح بن گئے کہ وہ صرف ایک ہی طرح کے پیغامات ہی دیکھ سکتے ہیں یعنی ان کی سوشل میڈیا اور معلومات Algorithms کی مدد سے محدود کر دی گئی ہیں۔ یہ کارنامہ باقاعدہ ایکو چیمبر اور سرچ ببل کی مہارت کو استعمال کر کے سرانجام دیا گیا۔ اس پارٹی نے اپنے دور حکومت میں ترجمانوں کی ایک پوری فوج بھرتی کی جو مختلف ایشوز پہ ایک بیانیہ تشکیل دیتی جو ایک دوسری سوشل میڈیا ٹیم جس کے ہیڈ کا دفتر پرائم منسٹر ہاوس میں ہی تھا، پھیلانے کا فریضہ سرانجام دیتی۔ اس سوشل میڈیا ٹیم کو باقاعدہ سرکاری نوکریاں دی گئیں بلکہ ان کیلئے ایک سپیشل بجٹ منظور کیا گیا
پاکستان کی 63 فیصد آبادی نوجوان ہے جو بچہ 2000 میں پیدا ہوا، آج 22 سال کا ہے اس نے اپنے سارے بچپن اور لڑکپن میں پاکستان کے سارے سیاستدانوں کو نہی دیکھا بلکے یہ سنتے گزارا کہ سوائے عمران خاں کے باقی سارے چور ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دنیا بھر کی نفسیات کی تحقیق اٹھا لیجئے ٹین ایج ہی وہ عمر ہے کہ جب آپ کی سوچ کی تشکیل ہوتی ہے جب آپ نظریات بدلتے ہیں
جب آپکو چیزوں کی پہچان ہوتی ہے اس عمر کو پی ٹی آئی نے ہر اس سورس سے اپروچ کیا جو ممکن تھی ٹک ٹاک، یو ٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام، وٹس ایپ اور دیگر تمام سوشل میڈیا کے ادارے جو لوگو ں کے اذہان پر اثر انداز ہوسکتے ہیں انہیں استعمال کیا گیا۔ 
ٹین ایج کی آفاقی حقیقت یہ ہے کہ میرے دوست جو نظریہ رکھتے ہیں وہی میرا ہو گا۔ اس سب کو ڈیل کرنے کے لیے ماسوائے پی ٹی آئی کے کسی اور جماعت نے اس پر کام نہی کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے  کہ نوجوانوں کی سوچ یکطرفہ ہوگئی ہے اور نوجوانوں کا ذہن اس یک طرفہ سوچ سے اس قدر متاثر ہوچکا ہے کہ وہ کوئی دوسری بات سننے کو سرے سے تیار ہی نہی۔ ان کے سامنے ہے کہ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور پچھلے پونے چار سال میں پی ٹی آئی حکومت نے اس ملک کا جو ستیاناس کیا ہے وہ اسے ماننے کو تیار ہی نہیں۔ 
پچھلے کچھ سالوں میں جس طرح ذہن تیار کئے گئے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب ساری صورتحال جرمن قوم کے حالات سے مماثلت اختیار کرتی جارہی ہے۔  سب کو یاد ہوگا کہ نوے سال پہلے کی جرمن قوم ہم سے کہیں زیادہ باشعور اور پڑھی لکھی تھی۔ دنیاکے بہت سے بڑے مفکر اور فلاسفر وہیں پیدا ہو چکے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک  شخص نے اسے اپنے حصولِ اقتدار کے خوشنما جال میں ایسا پھنسایا کہ پوری قوم اس پر مر مِٹی۔ انجام ٹوٹل تباہی۔
Subscribe to:
Comments (Atom)
پہلگام کہانی
پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...
- 
ٹرمپ کیا کرنا چاہیں گے پہلا حصہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کا پروجیکٹ 2025 اظہر عباس پروجیکٹ 2025 ایک 922 صفحات پر مشتمل بلیو پرنٹ ہے جسے ہیریٹیج فاؤ...
- 
"Worry, like a rocking chair," said Vance Havner, "will give you something to do, but it won't get you anywhere."...
- 
جھوٹ اور انتشار کی جنگ اظہر عباس (حصہ اول) جنگ کی نوعیت صدیوں کے دوران ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ارتقا و پھیلاو، معاشرے او...
 
 
