Sunday, November 28, 2021

کالے خیالات

 

حسن نثار کے نام 


یہی لیڈر کہتا تھا کہ خودکشی کرلے گا لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گا ۔۔

بہتر ہے کہ خودکشی کر ہی لے اب بجائے اس کے کہ تمام ملک اور عوام کو خود کشی پر مجبور کرے 


نا اس کی کوئی تیاری تھی نا اس بندے کے پاس کوئی وژن ہے اور نا مستقبل کیلئے کوئی پلان ۔۔ بس قرض لے کر ملک چلا رہا ہے، عوام پس رہے ہیں 


اب تک کوئی پلان بنایا ہے اس نے کہ ملک کی جی ڈی پی کیسے بڑھانی ہے ؟


اب تک حال یہ ہے کہ پانچ سالہ منصوبہ تک بنانے میں ناکام رہا ہے ۔ یہ اس قابل ہی نہیں کہ ملک کا کچھ سوچ سکے


اس سے کہیں کہ کرے ۔۔ کچھ تو کرے ۔۔ اس کی حکومت ہے ۔۔ پلان کرے اور Execute کرے


نا کوئی وژن نا کوئی پلان ایک Dumb انسان کی طرح کرپشن کرپشن کرتا رہتا ہے ۔۔ ارے اب تو جسمانی کرپشن عروج پر ہے ۔۔ جب روزگار نہیں ہو گا تو لوگ وہی بیچیں گے جو ان کے پاس ہے


ہر وزارت کی ایک پالیسی ہوتی ہے جو وہ ایشو کرتی ہیں اور اس کو Execute کرتی ہیں ۔۔ کوئی ایک تجارتی پالیسی، ٹیکسٹائل پالیسی یا صنعتی پالیسی جو اس حکومت نے دی ہو ؟ اور یہ بھی بتائیں کہ کتنا Achieve کیا ہے اس پالیسی کو


اصل میں پی ٹی آئی والوں کو اب تک یقین ہی نہیں آیا کہ انہیں حکومت مل چکی ہے ۔۔ وہ پتا نہیں کب کنٹینر سے اتریں گے


اصل میں 3 سال میں لوئر کلاس کو بھی سبسڈی ملی ہے اور اپر کلاس کو بھی ۔۔ صرف تنخواہ دار طبقہ پسا ہے جن پر انکم ٹیکس کا بوجھ بھی بڑھا ہے، انفلیشن کا بھی اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کا بھی ۔۔ ٹیک ہوم نا ہونے کے برابر رہ گئی ہے


ہر ملک کی حکومت سبسڈی دیتی ہے لیکن یکساں۔۔ یہاں طبقاتی ہوتی ہے


سبسڈی ہر حکومت Deserving کلاسز کو اپ لفٹ کرنے کیلئے دیتی ہے لیکن یہاں طبقاتی بنیاد پہ دی جاتی ہے جو برائی کی جڑ ہے


ٹیکس کی وصولی میں کرپشن ہوتی ہے اور ٹیکس بھی ایس آر او کے ذریعے معاف ہوکر دوبارہ لگا دئے جاتے ہیں


آخری بات ۔۔ آیا نہیں لایا گیا ہے ۔۔

Thursday, August 26, 2021

Strength out of Weakness



In his book, Confidence, Alan Loy McGinnis talks about a famous study entitled "Cradles of Eminence" by Victor and Mildred Goertzel, in which the family backgrounds of 300 highly successful people were studied.

Many of the names of those in the study were well-known to most of us--including Franklin D. Roosevelt, Helen Keller, Winston Churchill, Albert Schweitzer, Gandhi, and Einstein--all of whom were brilliant in their field of expertise.

The results of this study are both surprising and encouraging for many of us who came from a less than desirable home life. For example: "Three-quarters of the children were troubled either by poverty, by a broken home, or by rejecting, over-possessive or
dominating parents.

"Seventy-four of 85 writers of fiction or drama and 16 of the 20 poets came from homes where, as children, they saw tense psychological drama played out by their parents.

"Physical handicaps such as blindness, deafness, or crippled limbs characterized over one-quarter of the sample."

These people who had confidence in their abilities and put them to creative use had more weaknesses and handicaps than many who have all of their faculties intact and who had a reasonably good home life background. So, what made the difference? Probably by compensating for their weaknesses they excelled in other areas.

One man reported, "What has influenced my life more than any other single thing has been my stammer. Had I not stammered I would probably have gone to Cambridge as my brothers did, perhaps have become a don and every now and then published a dreary book about French literature." The speaker who stammered until his death was W. Somerset Maugham, as he looked back on his life at age 86.

"By then he had become a world-renowned author of more than 20 books, 30 plays, and scores of essays and short
stories."

It's not what we have or don't have that matters in life but what we do with what we have. All God expects of us is that we don't allow our past to determine our future, and that with his help we use what we have to the best of our ability.

Wednesday, August 25, 2021

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے 2 سبق

اس قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے 1971 کے بعد اور روس کے زوال کے بعد 2 سبق  سیکھے ہیں:

۔ سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنا

۔ وسائل کو اپنے کنٹرول میں رکھنا

لمبی بحث ہو جائے گی لیکن آپ دیکھیں گے کہ یہی 2 اسباب تمام مسائل کی جڑ ہیں جب تک ان کا حل نہیں نکلے گا تب تک یہ ملک ایسے ہی چلے گا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے والوں کے وارے نیارے اور قوم خستہ حال ہی رہے گی ۔۔ اب ان سے نکلنے کیلئے جو بھی کوشش کرے گا اسکا حال "مجھے کیوں نکالا" ہو گا یا پھانسی لگے گا یا گولی کھائے گا ۔۔ اس کے کارکن کوڑے کھائیں گے یا وطن بدری ان کا مقدر ٹھہرے گی ۔۔ آپ یقین رکھیں جس طرح اس ملک میں اشرافیہ، عام عوام اور غریب عوام کی کلاس ابھر کر سامنے آ رہی ہے جلد اس کا نتیجہ سامنے آنے والا ہے - اس ملک میں ایک لا وارث  نسل بھی تیار ہو رہی ہے جس کی نا تربیت کی گئی ہے نا یہ تعلیم و دین کے نام سے واقف ہے اور یہ ایک سروے کے مطابق 6% ہے ۔۔ یہی 6% آپ کو ہر اخلاقی برائی اور سانحے کی ذمہ دار نظر آئے گی ۔۔ 

یہ ملک بہت تیزی کے ساتھ ایک معاشرتی بحران کیطرف جا رہا ہے اور اس کے ذمہ دار آپ میں اور یہ معاشرہ ہے

Thursday, July 15, 2021

طالبان، امریکہ اور پاکستان

 طالبان، امریکہ اور پاکستان


میرے ذاتی خیال میں جو نقشہ جیو پولیٹیکل بن رہا ہے اس میں نون لیگ یا پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنا مہنگا پڑے گا ۔۔ افغانستان، چین امریکا کے درمیان سینڈوچ ہونا، کشمیر پہ مستقبل میں ہونے والی سیٹلمنٹ، سعودیہ میں اقتدار کی تبدیلی کی امریکی خواہش اور سب سے بڑھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ۔۔ ان سب کا بوجھ اٹھانے کی سکت ان دونوں میں نہیں نا ہی اسٹیبلشمنٹ یہ سب اکیلے کر سکتی ہے ۔۔ اسے کوئی سیاسی مہرہ چاہئے ہوگا اور ان سب کیلئے نیازی فٹ ہے ۔۔ جلد کچھ بڑے واقعات رونما ہونے کی بھی توقعات بڑھ گئی ہیں


امریکہ ایک اسٹریٹیجی کے تحت طالبان کو باہر لا کر کچھ کرنا چاہتا ہے ۔۔ وہ جب آیا تو افغانستان اس کیلئے اور نیٹو کیلئے اجنبی تھا لیکن اب وہ اس کے چپے چپے سے واقف ہے اور اس کی میپنگ کے علاوہ لوگوں سے بھی واقف ہو چکا ہے ۔۔ اور اس کیلئے یہ ملک اب ایک عام ریاست ہے جس کے جنگجو اب شہروں میں آسان ٹارگٹ ہیں ۔۔ میرا خیال غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن شاید وہ اب ان کو روس، چین، پاکستان اور ایران کے خلاف استعمال کرے گا ۔۔ یہ اس کی پراکسی کے طور پر استعمال ہوں گے ۔۔ ان کے ہوتے ہوئے اسے کسی بیس یا اڈے کی ضرورت نہیں ہو گی


بقول سلیم صافی "وہ وقت دور نہیں جب ان سب کی عقل ٹھکانے آجائےگی کیونکہ طالبان ہم پاکستانیوں کی طرح دوغلے پن کا شکار نہیں ۔ ان کے ہاں منافقت نہیں۔ وہ جو نظام اپنے لئے پسند کرتے ہیں، وہی پاکستانی بھائیوں کے لئے بھی چاہتے ہیں اور وہ اپنے اس نظام کا سلسلہ پاکستان تک دراز کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے"


جو بائیڈن امریکا میں معیشت کو دوبارہ ریوائیو کرنے کیلئے کنسٹریکشن کے کام شروع کرا رہا ہے اور اس کیلئے اسے ورک فورس کی ضرورت ہے جو وہ اپنے سسٹم سے لے گا ۔۔ خارجی طور پر وہ 80 اور 90 کے سسٹم پر واپس جا رہا ہے جب کولڈ وار اور روایتی سفارتکاری کے ذریعے اشارے/ دھمکی دے کر اور باز نا آنے پر پراکسی کا استعمال یا خفیہ آپریشن سے اپنا مقصد پورا کرتا تھا ۔۔ مثالیں بہت ہیں لیکن صرف سعودیہ میں اس نے پہلے ایم بی ایس کو نا پسندیدہ قرار دیا، پھر رپورٹ جاری کی اور اب اس کے دوسرے بھائی کو امریکہ بلا کر ریڈ کارپٹ استقبال کیا ۔۔ مطلب ایم بی ایس کو راہ راست پر لانا یا ہٹانا ہے اور آپ دیکھیں گے کہ یہ سلسلہ بڑھے گا ۔۔

اسی طرح اس نے نیازی کا فون لینے سے انکار کیا، پھر عباسی اور مراد علی شاہ کو بلایا اور اب شارٹ لسٹ کر کے مراد علی شاہ اور بلاول کو پھر بلا لیا ۔۔ مطلب یہاں بھی وہ ابھی اشارے دے رہا ہے کوئی سمجھے یا نا سمجھے ۔۔ اب امریکا روایتی طریقوں پہ جائے گا تاکہ ہاٹ پرسوٹ سے بچ کر اپنا مقصد نکالے کیونکہ ان مہمات نے اس کی معیشت کا بھٹا دیا ہے ۔۔ بائیڈن پہلے اپنی معیشت کو درست کرے گا اور پھر کسی نئی مہم پر نظریں جمائے گا ۔۔ اس دوران وہ عالمی بساط پر اپنے مہروں سے کام لے گا ۔۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہمیں کچھ واقعات کیلئے تیار رہنا ہو گا اور اس کے بچاو کیلئے اپنی ترجیحات ابھی سے طے کرنی ہوں گی ورنہ سانحات رونما ہوں گے (اللہ نا کرے)

Tuesday, July 13, 2021

گنتے رہا کریں

 ’’تم یقین کرو میں سانس کی نعمت سے واقف ہی نہیں تھا‘ کورونا کا بھلا ہو‘ یہ آیا اور اس نے مجھے نعمتوں سے جوڑ دیا‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ یہ ’’موسٹ پریکٹیکل‘‘انسان ہیں‘ قسمت‘ قدرت اور خدا پر یقین نہیں رکھتے‘کوشش کو بے انتہا اہمیت دیتے ہیں‘ بزنس مین ہیں‘ پوری زندگی پیسہ کمایا اور پیسہ جوڑا لیکن پھر اچانک ان کا رویہ 180 درجے بدل گیا‘ یہ اب روز اللہ کا نام بھی لیتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا ورد بھی کرتے ہیں‘ نماز بھی پڑھتے ہیں اوران کا دل بھی بہت نرم ہو چکا ہے۔

اتوار کے دن میرے پاس تشریف لائے اور دوگھنٹے میرے پاس بیٹھے رہے‘ ہر لمبی سانس کے ساتھ ’’یا اللہ تیرا شکر ہے‘‘ کہتے تھے اور اوپر دیکھتے تھے‘ میں نے ان سے پوچھا’’عزیز بھائی خیریت ہے‘ آپ بالکل ہی تبدیل ہو گئے ہیں‘‘ وہ بولے ’’کورونا کی مہربانی ہے‘ میں وبا کا شکار ہوا‘ سانس بند ہونے لگی‘ بچے اسپتال لے گئے‘ علاج ہوتا رہا‘ ڈاکٹروں نے آخر میں آئی سی یو میں ڈال دیا‘ اسپتال پرائیویٹ تھا‘ روزانہ ایک لاکھ سولہ ہزار روپے خرچ ہوتے تھے۔

میں بیس دن اسپتال رہا‘ اللہ نے رحم کیا‘ موت کی سرحد چھو کر واپس آگیا‘ ڈس چارج ہوتے وقت بل دیکھا تو 31 لاکھ روپے تھا‘ میں نے ڈاکٹر سے کہا‘ آپ مجھے 20 دنوں میں جو ادویات اور سہولتیں دیتے رہے کیا آپ مجھے اس کا بریک ڈاؤن دے سکتے ہیں‘ڈاکٹر پریشان ہو گئے‘ میں نے زور دیا تو وہ مان گئے۔ بل سامنے آیا تو پتا چلا مجھے 9 لاکھ روپے کی آکسیجن لگی تھی بس یہ دیکھنے کی دیر تھی‘ میں نے وضو کیا‘ دو نفل پڑھے اور اپنے پروردگار کا شکر ادا کیا‘ یہ روز مجھے550لیٹر آکسیجن بھی دیتا ہے اور اس آکسیجن کو پھیپھڑوں تک پہنچانے اور واپس نکالنے کا بندوبست بھی کرتا ہے اوراس کے بعد مجھے کوئی بل بھی نہیں بھجواتا‘ آپ جاوید تصور کرو 20 دن تک آکسیجن پھیپھڑوں تک پہنچانے اور نکالنے کا خرچ 9 لاکھ روپے اور ٹوٹل خرچ 31 لاکھ روپے تھا جب کہ ہمارا اللہ ہمیں یہ سہولت روزانہ مفت دیتا ہے‘ ہم پر اس کا کتنا کرم کتنی مہربانی ہے؟‘‘ میں نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگایا‘ آسمان کی طرف دیکھا اور دیر تک اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہا۔

میرے ایک سینئر دوست ہیں‘ سیاست دان ہیں‘ سینیٹر ہیں‘ بہت پڑھے لکھے‘ تجربہ کار اور سمجھ دار انسان ہیں‘ میں ہفتے دس دن بعد کافی کے دو مگ لے کر ان کے پاس پہنچ جاتا ہوں‘ ان کے ساتھ ان کے لان میں بیٹھتا ہوں‘ کافی اور ان کی گفتگو انجوائے کرتا ہوں‘ میں پچھلے ہفتے ان کے پاس گیا تو شاہ صاحب نے ارشاد احمد حقانی مرحوم کے بارے میں ایک واقعہ سنایا‘ ارشاد احمد حقانی پاکستان کے سینئر صحافی اور کالم نگارتھے‘ ایک معاصر میں کالم لکھتے تھے‘ میری پوری نسل ان کے کالم پڑھ کر جوان ہوئی اور ان سے لکھنا سیکھا‘ شاہ صاحب نے بتایا میں 1998 میں ایران جا رہا تھا‘ ارشاد احمد حقانی سے ملاقات ہوئی۔

انھوں نے پوچھا‘ کیا آپ مشہد بھی جائیں گے؟ میں نے عرض کیا ’’جی جاؤں گا‘‘ انھوں نے فرمایا ’’آپ میرے لیے وہاں خصوصی دعا کیجیے گا‘‘ میں نے وعدہ کر لیا لیکن اٹھتے ہوئے پوچھا ’’آپ خیریت سے تو ہیں؟‘‘ حقانی صاحب دکھی ہو کر بولے ’’میری بڑی آنت کی موومنٹ رک گئی ہے‘ پاخانہ خارج نہیں ہوتا‘ میں روز اسپتال جاتا ہوں اور ڈاکٹر مجھے بیڈ پر لٹا کر مشین کے ذریعے میری بڑی آنت سے پاخانہ نکالتے ہیں اور یہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے‘‘ شاہ صاحب نے اس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگایا‘ توبہ کی اور کہا ’’ہمیں روز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

ہم اپنے منہ سے کھا بھی سکتے ہیں اور ہمارا کھایا ہوا ہمارے پیٹ سے نکل بھی جاتا ہے ورنہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں اور نہ نکال سکتے ہیں‘‘ یہ بات سن کر مجھے بے اختیار چوہدری شجاعت حسین یاد آگئے‘ چوہدری صاحب خاندانی اور شان دار انسان ہیں‘ میرے ایک دوست چند دن قبل ان کی عیادت کے لیے گئے‘ چوہدری صاحب خوش تھے اور بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے‘ میرے دوست نے صحت کے بارے میں پوچھا تو چوہدری صاحب نے جواب دیا ’’میں بہت امپروو کر رہا ہوں‘ میں اب اپنے منہ سے کھا بھی لیتا ہوں اور اپنے پاؤں پر کھڑا بھی ہو جاتا ہوں‘‘ دوست نے پوچھا ’’ آپ کی حالت اس سے پہلے کیسی تھی؟‘‘ چوہدری صاحب بولے ’’میری ٹانگیں میرا بوجھ نہیں اٹھاتی تھیں اور میرے پیٹ میں ٹیوب لگی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر مجھے اس کے ذریعے کھلاتے تھے‘ میں منہ کے ذائقے کو ترس گیا تھا‘ الحمد للہ میں اب تھوڑا تھوڑا کر کے کھا بھی لیتا ہوں اور چل پھر بھی سکتا ہوں‘‘ چوہدری صاحب میٹنگ کے بعد اٹھے اور مہمان کو دروازے تک چھوڑ کر آئے اور وہ اس سے بے انتہا خوش تھے‘ مجھے اسی طرح ملک کے ایک اور نامور سیاست دان نے بتایاتھا‘ آصف علی زرداری نے انھیں کھانے کی دعوت دی‘ یہ دعوت پر پہنچے تو ٹیبل پر درجنوں کھانے لگے تھے۔

ان کے بقول میں نے اپنی پلیٹ اٹھائی تو زرداری صاحب کا سیکریٹری آیا اور ان کا کھانا ان کے سامنے رکھ دیا‘ چھوٹی چھوٹی کولیوں میں تھوڑی سی بھنڈی‘ دال‘ ابلے ہوئے چاول اور آدھی چپاتی تھی‘ زرداری صاحب نے چند لقمے لیے اور خانساماں ٹرے اٹھا کر لے گیا‘ میں نے ان سے ان کی سادہ خوراک کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنس کر بولے ’’میری خوراک بس بھنڈی اور سادہ چاول تک محدود ہے‘ میں ان کے علاوہ کچھ نہیں کھا سکتا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیاآپ گوشت نہیں کھاتے‘‘ وہ دوبارہ ہنسے اور بولے ’’میں گوشت کھا ہی نہیں سکتا‘‘ میرا بہت دل چاہا میں ان سے وجہ پوچھوں لیکن احترام کی وجہ سے خاموش رہا‘ میں کھانا کھا کر واپس آگیا لیکن آپ یقین کریں میں اس کے بعد جب بھی کھانا کھانے لگتا ہوں تو مجھے زرداری صاحب کی ٹرے یاد آ جاتی ہے اور میں کھانا بھول جاتا ہوں۔

میں بے شمار ایسے لوگوں سے واقف ہوں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اقتدار‘ شہرت اور پیسے سے نوازا‘ ان کی ہاں سے سیکڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل جاتی ہیں اور ناں سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے قدموں سے زمین کھینچ لیتی ہے لیکن یہ خود اپنی قمیص پہن سکتے ہیں اور نہ اتار سکتے ہیں‘ یہ جھک کر اپناجوتا بھی نہیں پہن سکتے‘ میں بینک کے ایک مالک کو جانتا ہوں‘ یہ صبح جاگتا ہے تو چار بندے ایک گھنٹہ لگا کر اسے بیڈ سے اٹھنے کے قابل بناتے ہیں‘ یہ اس کے پٹھوں کا مساج کر کے انھیں اس قابل بناتے ہیں کہ یہ اس کے جسم کو حرکت دے سکیں۔

اس کی گاڑی کی سیٹ بھی مساج چیئر ہے‘ یہ سفر کے دوران اسے ہلکا ہلکا دباتی رہتی ہے اوران کے دفتر اور گھر دونوں جگہوں پر ایمبولینس ہر وقت تیار کھڑی رہتی ہے‘ آپ دولت اور اثرورسوخ دیکھیں تو آپ رشک پر مجبور ہوجائیں گے اور آپ اگر اس کی حالت دیکھیں تو آپ دو دوگھنٹے توبہ کرتے رہیں‘ پاکستان میں ہوٹلز اور موٹلز کے ایک ٹائی کون ہیں‘ صدرالدین ہاشوانی‘ یہ پانچ چھ برسوں سے شدید علیل ہیں‘ ڈاکٹر اورفزیو تھراپسٹ دونوں ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں‘ ان کے پرائیویٹ جہاز میں ان کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔

فزیو تھراپسٹ دنیا جہاں سے ان کے لیے فزیو تھراپی کی مشینیں تلاش کرتے رہتے ہیں‘ مجھے جرمنی کے شہر باڈن جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ مساج اوردیسی غسل کا ٹاؤن ہے‘ شہر میں مساج کے دو دو سو سال پرانے سینٹرہیں اور دنیاجہاں سے امیر لوگ مالش کرانے کے لیے وہاں جاتے ہیں‘ چھ چھ ماہ بکنگ نہیں ملتی ‘ آپ وہاں لوگوں کی حالت دیکھیں تو آپ کی نیند اڑ جائے گی‘ مریض کے پروفائل میں دس دس بلین ڈالر کی کمپنی ہوتی ہے لیکن حالت دیکھیں گے تو وہ سیدھا کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں ہوتا‘ہم انسان ایک نس کھچ جانے کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتے‘ ہم چمچ تک نہیں اٹھا پاتے اور نگلنے کے قابل نہیں رہتے‘ یہ ہماری اصل اوقات ہے۔

میں ایک بہت ہی عام انسان ہوں‘ میری اچیومنٹس اے کے برابر بھی نہیں ہیں لیکن چند دن قبل میرے ساتھ بھی دو واقعات پیش آئے اور انھوں نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا‘ میں 22 سال سے مسلسل واک کر رہا ہوں‘ میرے لیے دس پندرہ کلومیٹر عام سی بات ہوتی تھی‘ میں خود کو ’’سپر فٹ‘‘ بھی سمجھتا تھا‘ خوراک انتہائی کم تھی اور دماغ پر سکون‘ لائف اسٹائل پیس فل اور دن میں دو بار ایکسرسائز اور رات کے وقت واک لیکن پھر ایک دن چلتے چلتے میرے گھٹنے نے میرا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا‘ ٹانگ میں شدید درد ہوا اور میں چلنے پھرنے سے تقریباً لاچار ہو گیا۔

اللہ کا کرم اور رحم ہے فزیو تھراپی کی وجہ سے میں اب نارمل ٹریک پر واپس آ رہا ہوں لیکن یہ واقعہ مجھے میری اوقات سمجھاگیا‘ مجھے چند منٹوں میں پتا چل گیا اللہ کے اس سسٹم میں میری فٹ نس اور احتیاط دونوں بے معنی ہیں‘ دوسرا واقعہ اس سے بھی خوف ناک تھا‘ میں نے گولی نگلنے کی کوشش کی اوروہ میرے حلق میں اٹک گئی‘ وہ دس سیکنڈ میرے گلے میں پھنسی رہی‘ آپ یقین کریں وہ دس سیکنڈ میری زندگی کا مشکل ترین دورانیہ تھا۔

میں نے اس دوران موت کو بالکل اپنے سامنے دیکھا ‘ وہ مشکل وقت بھی گزر گیا‘ گولی بھی حلق سے پیٹ میں چلی گئی لیکن وہ دس سیکنڈ مجھے میری اہمیت‘ وقعت اور اوقات سب کچھ بتا گئے‘ میں اس کے بعد ہر لمحہ اٹھتے بیٹھتے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور روز صبح جاگتے ہوئے اور رات سوتے وقت اللہ کی نعمتیں شمار کر کے سوتا اور جاگتا ہوں‘ آپ بھی اللہ کی مہربانیاں گنتے رہا کریں اور ان لوگوں سے بھی ملتے رہا کریں جن کو دوا‘ ڈاکٹر اور اسپتال تینوں سہولتیں دستیاب ہیں لیکن وہ اللہ کے رحم سے محروم ہیں چناں چہ کھا سکتے ہیں‘ اٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی بیٹھ سکتے ہیں‘صرف بے چارگی سے دائیں بائیں دیکھ سکتے ہیں۔

Thursday, June 24, 2021

ہم نے معاشرے کو عورت کے لیے غیر محفوظ بنا دیا ہے

 میں الحمد للہ شریعت کے تمام احکامات کو لازم سمجھتا ہوں لیکن جہاں تک پردے‘فحاشی اور جنسی زیادتی کا معاملہ ہے میں ان تینوں کے تعلق کو سمجھنے سے قاصر ہوں‘ رسول اللہﷺ کے زمانے میں زنا کی تین سزائوں پر عمل ہوا تھا‘ میری علماء کرام سے درخواست ہے آپ یہ بتا دیں وہ لوگ کون تھے؟ یہ واقعہ کہاں پیش آیا‘ یہ سزائیں کس نے دیں اور یہ گناہ کس کے دور میں ہوا ؟ آپ کو اس کے بعد معاملے کو سمجھنے میں دقت نہیں ہو گی۔

دوسرا ملک میں زینب‘ مروہ‘ سیما اورحریم جیسی بچیوں کی آبروریزی ہوتی ہے‘ کیا یہ وارداتیں فحش لباس کی وجہ سے ہوتی ہیں؟ لاہور میں عزیزالرحمن نام کے ایک نام نہاد مذہبی رہنما نے مدرسے کے باریش طالب علم سے اغلام بازی کی‘ طالب علم نے دعویٰ کیا اس کے ساتھ تین سال تک یہ فعل ہوتا رہا‘ ملزم عزیز نے اپنے ویڈیو بیان میں تسلیم کر لیا یہ فعل جبراً نہیں ہوا تھا اور یہ واقعہ اڑھائی تین سال پرانا ہے۔

ملزم شاید یہ کہنا چاہتا تھا اغلام بازی رضا مندی سے ہو تو یہ جائز ہو جاتی ہے اور یہ واقعہ اگراڑھائی تین سال پرانا ہو تو اسے درگزر کر دینا چاہیے‘ سوال یہ ہے مدرسے کے باریش نوجوان نے کون سے فحش کپڑے پہن رکھے تھے جن کی وجہ سے ملزم عزیز روبوٹ سے انسان بن گیا اور اسے ترغیب (Temptation)مل گئی‘9ستمبر 2020کو موٹروے ریپ کیس ہوا تھا‘ دو درندہ صفت ڈاکوئوں نے بچوں کے سامنے ماں کو ریپ کر دیا۔

اس عورت نے کون سا فحش لباس پہن رکھا تھا اور ان ڈاکوئوں کو کار کے اندر سے کون سی ترغیب مل گئی تھی اور مختاراں مائی کے کیس کو 2002میں بین الاقوامی بدنامی حاصل ہوئی ‘ اس کیس میں پنچایت کے حکم پر مختاراں مائی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ اس میں Temptationکہاں تھی؟ یہ واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہیں‘ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات درجنوں نہیں ہیں‘ سیکڑوں اور ہزاروں ہیں‘ میں پردے کے خلاف نہیں ہوں۔

یہ اللہ کا حکم ہے اور ہمیں اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کیا پردے کی وجہ سے ملک سے ریپ کے واقعات ختم ہو جائیں گے اور کیا ان کی روک تھام کے لیے حیاء اور مذہب کافی ہے؟ جی نہیں اگر یہ واقعات حیاء اور مذہب سے رک سکتے تو عزیز الرحمن جیسا واقعہ بھی پیش نہ آتا‘ مختاراں مائی بھی گینگ ریپ کا نشانہ نہ بنتی اور زینب کی لاش بھی پانچ دن نہ ملتی لہٰذا ہمیں ماننا ہو گا ریپ اور جنسی بے راہ روی کی وجوہات کچھ اور ہیں۔

ہمیں یہ ماننا ہوگا ہم نے معاشرے کو عورت کے لیے غیر محفوظ بنا دیا ہے‘ ہم اسے مٹی کا کھلونا سمجھتے ہیں چناں چہ اسے روندنا‘ مسلنا اور برباد کرنا ہماری نظر میں کوئی جرم نہیں‘ ہم یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ہمارے معاشرے میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ ایسے جانور ہیں جن سے عورت اور مرد تو کیا لاشیں بھی محفوظ نہیں ہیں اور تیسرا ہم نے بدقسمتی سے آج تک ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے کچھ نہیں کیا۔

ہم ہراسگی اور جنسی زیادتی کے کیسوں کا فوری فیصلہ کیوں نہیں کرتے اور ہم ذمے داروں کو قرار واقعی سزا کیوں نہیں دیتے؟ ہم معاشرے کو خواتین اور بچوں کے لیے محفوظ کیوں نہیں بناتے؟ ہم شادی کو آسان اور سستا کیوں نہیں بناتے؟ ہم ملک میں پورن مٹیریل پر پابندی کیوں نہیں لگاتے‘ ہم دفتروں اور کمپنیوں میں خواتین کا کوٹہ مخصوص کیوں نہیں کرتے اور ہم گھریلو تشدد کا سخت نوٹس کیوں نہیں لیتے؟

ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ہم جب تک خواتین کے بارے میں مردوں کا تصور اور رویہ نہیں بدلیں گے یہ ملک نہیں بدلے گا‘ ہمارے ملک میں آج بھی تقریبات میں مرد پہلے کھانا لیتے ہیں اور خواتین بعد میں‘ کیوں؟ ہم نے اپنے سیشنز اور ٹورز کے دوران اصول بنایا تھا خواتین مردوں سے پہلے کھانا لیں گی‘ آپ یقین کریں خواتین اور مردوں دونوں نے ایک دوسرے کا احترام شروع کر دیا‘ہم قومی سطح پر یہ اصول کیوں نہیں بناتے؟

وزیراعظم اگر اس کے باوجودیہ سمجھتے ہیں پردے کے علاوہ معاشرے کو ٹھیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تو پھر وزیراعظم یہ نیک کام اپنی پارٹی سے شروع کیوں نہیں کرتے؟ کابینہ میں پانچ خواتین وزراء ہیں‘ آپ انھیں باقاعدہ شرعی پردہ کرائیں‘ محترمہ زرتاج گل اگر سعودی عرب اور یو اے ای کے شاہی وفود سے ملاقات کے دوران عبایا پہن سکتی ہیں اور اسکارف لے سکتی ہیں تو یہ عام زندگی میں ایسا کیوں نہیں کرتیں؟

اگر خاتون اول شرعی پردے میں رہ سکتی ہیں تو شیریں مزاری‘ فہمیدہ مرزا‘ زبیدہ جلال اور ثانیہ نشتر کیوں نہیں کر سکتیں؟ وزیراعظم اگر واقعی پردے کے معاملے میں سیریس ہیں اور یہ سمجھتے ہیں ملک میں اسی سے انقلاب آئے گا تو یہ شیریں مزاری سے اس کا آغاز کر کے ملک کے لیے روشن مثال قائم کریں‘ ملک خود بخود پردے میں چلا جائے گا‘ آپ کو اپنے دائیں بائیں موجود لوگ تو نظر آتے نہیں ہیں لیکن آپ پوری دنیا کو پردے پر لیکچر دے رہے ہیں‘ یہ کہاں کا انصاف ہے‘ یہ کہاں کی تبلیغ ہے؟

Friday, May 28, 2021

Pakistan Education System

روایتی  طریقہ کار کے تحت ہم ایک مخصوص قسم کے گگو گھوڑے ہی بنا رہے ہیں جو لکیر کے فقیر ہیں۔ یا اگر جملہ غیر مناسب نہ ہو تو فلم تھری ایڈیٹس میں ہیرو جو لڑکی سے کہتا ہے کہ تمہارا باپ ایک ایسی فیکٹری چلا رہا ہے جس میں ہر سال گدھے مینوفیکچر ہوتے ہیں، تو بے جا نہ ہوگا۔ اس لیے کہ ہمارے ہاں جو غلطی سے سائنس پڑھنے چلے جاتے ہیں انہیں بھی سائنس پڑھائی یا سمجھائی نہیں، رٹائی جاتی ہے۔ اور غلطی سے اس لیے کہ ہمارے ہاں سائنس ہنسی خوشی پڑھنے کا رحجان اس لیے بھی کم ہے کہ کوئی واقفیت ہی نہیں ہوتی بچوں کی، اور پیدا ہوتے ہی آرمی آفیسر، ڈاکٹر، انجینئر یا بیوروکریٹ یا پھر وکیل بنانے کی رٹ ہی زور و شور سے لگائی جاتی ہے۔ اور پھر جب بچوں کا اس طرف داخلہ نہیں ہوتا تو مجبوراً ہی وہ فزکس، کیمسٹری پڑھتے اور بے دلی سے پڑھتے ہیں۔

Saturday, May 15, 2021

بھٹو کےخلاف غلیظ پروپیگنڈہ کا پس منظر

 بھٹو کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ کا پس منظر

حیدر جاوید سید ..


1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے ’’جاتی امراء نیوز‘‘ کے بڑے مالک کی چاپلوسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’کسبیوں‘‘ جیسے داو پیچ میں مہارت ہے اسے، اس ملاقات میں دوسرے صحافیوں کے علاوہ ارشاد راو (ہفت روزہ الفتح والے) بھی موجود تھے۔

 انہوں نے اپنے ہفت روزہ میں بھٹو اور صحافیوں کی ملاقات اور اس میں ہونے والی گفتگو تفصیل کے ساتھ شائع کی۔ 

اسی دہائی میں ’’جاتی امراء نیوز‘‘ کے چھوٹے مالک اور آصف علی زرداری کے درمیان میٹروپول کلب کراچی میں ایک تنازع پیدا ہوا اس تنازع نے بھی خاصی شہرت حاصل کی پھر کچھ بزرگ درمیان میں پڑے اور دونوں خاندانوں میں صلح کروادی۔ 

کڑوا سچ یہ ہے کہ بڑے مالک جب تک حیات رہے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا ان کے ہر مخالف کو ہیرو بناکر پیش کیا اور رجعت پسندوں کے بھٹو کے خلاف پروپیگنڈے کو اپنے اخبار میں اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔ 

چشم فلک نے یہ منظر دیکھا اور قارئین نے بھی کہ ان کے اخبار میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شادی کے حوالے سے ایک خاص مسلک کے مولانا صاحبان کا پہلے صفحہ پر چوتھائی پیج کا ایک اشتہار شائع ہوا 

جس میں عوام کو بتایا گیا کہ چونکہ محترمہ بینظیر بھٹو کا نکاح شیعہ مسلک کے طریقہ سے ہوا ہے اس لئے وہ سنی اکثریت کے ملک میں سیاسی قیادت کی اہل نہیں۔ 

یہ اشتہار بظاہر مولانا سلیم اللہ خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے تھا لیکن خدمت اسلام کے جذبہ سے شائع کیا گیا

 اس سے قبل پاکستانی صحافت کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی اخبار یا جریدے میں کسی سیاستدان کے مسلک کے حوالے سے کوئی اشتہار شائع ہوا ہو۔ 

محترمہ بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں میر صاحبان کے اشاعتی ادارے کے اخبارات و جرائد کا ہدف بھٹو خاندان، پی پی پی اور خصوصاً محترمہ بینظیر بھٹو رہیں۔

 آصف زرداری کو مسٹر ٹن پرسنٹ، گھوڑوں کو مربعے کھلانے، ٹانگ سے بم باندھ کر رقم وصول کرنے، جسٹس نظام کے قتل میں ملوث ہونے جیسے الزامات بھی انہی کے اخبارات و جرائد میں اچھالے گئے۔ 

محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی اقتدارمیں آئی تو چھوٹے میر  نے اپنے میڈیا ہاوس کو اپوزیشن کی ایک پارٹی کا کردار نبھانے پر لگادیا۔

 2008ء سے 2013ء کے درمیان ان کے میڈیا ہائوس کی فائلزاور ریکارڈ نکال کر دیکھ لیجئے آپ کو پتہ چل جائے گا پی پی پی کے خلاف غلیظ ترین پروپیگنڈہ کس کے سازشی ذہن کی تخلیق تھا۔


تمہید طویل ہوگئی لیکن یہ اس لئے ضروری تھی کہ قارئین پس منظر سمجھ سکیں کہ اس کالم کے لکھنے کی وجہ کیا بنی۔ 

جاتی امرا نیوز کے ایک ’’سراغ رساں‘‘ رپورٹر نے گزشتہ روز بھٹو صاحب اور موجودہ دور کی مماثلت پر ایک کالم لکھا ہے۔

 اس کا دعویٰ ہے کہ بھٹو فوج کے ذریعے اقتدار میں آئے۔ یہ دعویٰ درست نہیں۔

 بھٹو کو مجبوراً اقتداردیا گیا تھا کیونکہ جی ایچ کیو میں نوجوان فوجی افسروں نے جرنیل شاہی کے خلاف جو ردعمل ظاہر کیا تھا اس سے جرنیلوں کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔ 

1970ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا بھٹو پر الزام جماعت اسلامی برانڈ صحافیوں اور بڑے میر کا پروپیگنڈہ تھا۔ فوج نے اس انتخابات میں بھٹو کی نہیں قیوم لیگ اور جماعت اسلامی کی مدد کی تھی۔

 جماعت اسلامی کو تو امریکہ کی مالی اعانت بھی حاصل رہی۔ بھٹو سیاست میں ایوب خان کے توسط سے نہیں آئے تھے بلکہ سکندر مرزا کے دور میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کا حصہ بنے ان کی کارکردگی کو دیکھ کر سکندر مرزا نے انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا۔

 ایوب اسی کابینہ میں وزیر دفاع تھے۔

 بلاشبہ بھٹو ایوب کی کابینہ میں بھی شامل ہوئے۔ کنونشن لیگ کے سیکرٹری بھی بنے لیکن وہ مستعفی ہوکر عوامی سیاست کا حصہ بنے۔ 

ان دنوں پی آئی ڈی نے باقاعدہ تحریری حکم جاری کیا کہ بھٹو کے مستعفی ہونے کی خبر کی بجائے یہ لکھا جائے کہ انہیں علالت کے باعث رخصت کردیا گیا ہے۔ 

صرف روزنامہ حریت کراچی نے مستعفی ہونے کی خبر شائع کی۔ ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ والی سرخی کے خالق عباس اطہر ساری زندگی اپنی سرخی کی وضاحت کرتے رہے لیکن بھٹو کے مخالفوں کے لئے یہ سرخی آسمانی پیغام ہے اسی لئے آگے بڑھاتے ہیں۔

 خواجہ رفیق اور ڈاکٹر نذیر کے قتل سے بھٹو کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ بھٹو مخالف اخبارات نے دو شہید گھڑ کر قوم کے سامنے رکھے۔ 

بھٹو دور میں میڈیا پر اتنی زیادہ پابندیاں تھیں کہ اخبارات نے انہیں گھاسی رام لکھا ان کی والدہ کو ایک ہندو عورت۔ 

اسی لئے جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی پانے والے بھٹو کے برہنہ جسم کی تصاویر بنوائی گئیں۔ 

بھٹو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھینٹ چڑھے۔ مقامی اسٹیبلشمنٹ محض وچولے کا کردار ادا کرپائی۔ 

یہ درست ہے کہ ان کے عزیز ترین ساتھی انہیں چھوڑ گئے کیوں چھوڑ گئے اس کی وجوہات جاتی امرا نیوز کی خبریں اور کہانیاں نہیں بلکہ اس دور کے معاملات کو دیکھ کر سمجھ میں آئیں گی۔


 بھٹو صاحب انسان تھے ہمارے اور آپ جیسے، ولی قطب یا ابدال ہرگز نہیں۔ 

البتہ وہ اس حوالے سے بدقسمت ہی رہے کہ ان کے مخالفین نے ان کی زندگی اور پھانسی کے بعد ان پر کیچڑ اچھالنے کی غلیظ عادت ترک نہیں کی۔ 

جاتی امراء نیوز نے اپنے مالکان کی تسکین کے لئے بھٹو اور بینظیر بھٹو کی جس طرح کردار کشی کی یہ کام کسی مہذب ملک میں کوئی کرتا تو ہرجانے بھر بھر کر دال چاول کی ریڑھی لگائے پھر رہا ہوتا۔ 

بھٹو صاحب سے جاتی امراء نیوز نے چھوٹے مالک کی نفرت کی ایک وجہ مالک کی اہلیہ کا خاندان بھی ہے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے۔

 آخری بات یہ ہے کہ جاتی امرا نیوز نے جتنا جھوٹ بھٹو خاندان بارے پھیلایا اس سے نوے فیصد کم سچ اگر میر صاحبان کے بارے میں لکھ دیا جائے تو وہ کچھ ہوگا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 

بھٹو کی پھانسی پر شادیانے بجانے والے اور ان کا تختہ الٹنے والے ضیاء الحق کو نجات دہندہ قرار دینے والا میڈیا ہاوس جمہوریت کا نہیں بلکہ بھٹوز کی نفرت کا علمبردار ہے۔


منگل 11 مئی 2021 ء

روزنامہ " بدلتا زمانہ " ملتان

Sunday, February 28, 2021

"بائسائیکل کرائے پر دستیاب ہے"

 بائیسکل 


ؔمجھے یاد ہے میں پانچویں جماعت میں تھا۔ آسائشیں تو دور کی بات تب ضروریاتِ زندگی ہی بہت محدود تھیں شاید اسی لیے معمولی تنخواہیں بھی کافی ہو رہتی تھیں چنانچہ رشوت نایاب نہیں تو کمیاب ضرور تھی۔ 


میرے ابو نے ڈیوٹی پر جانے کے لیے انہوں نے ایک بائیسکل ماہانہ کرایے پر لے رکھی تھی


کالج کے لیکچرر حضرات کی تو کیا کہیے پرنسپل صاحبان تک سوٹ ٹائی لگائے، پتلون کے پاہنچوں پر رِنگ چڑھا کر سر پہ ہیٹ رکھنے کے بعد بائیسکل پر ہی سوار ہوتے۔ 


بائیسکل کی یہی رفاقت سرکاری اور اعلی سرکاری افسران کو بھی حاصل تھی۔ جن کا دفتر گھر سے بہت دور ہوتا وہ اومنی  بس میں سوار ہو لیتے۔ سرکاری موٹر گاڑیوں کی بہتات تب اس قدر نہ تھی جس قدر اب ہے۔ 


اب سڑک سڑک پر اوبر اور کریم ہیں تب محلے محلے میں بورڈ لگا ہوتا تھا 


ؔ"سائکل کرائے پر دستیاب ہے"

Friday, February 12, 2021

Words

 


  1. "A man of genius makes no mistakes. His errors are volitional and are the portals of discovery." --James Joyce
  2. "Failure is unimportant. It takes courage to make a fool of yourself." --Charlie Chaplin
  3. "Please know that I am aware of the hazards. I want to do it because I want to do it. Women must try to do things as men have tried. When they fail, their failure must be a challenge to others." --Amelia Earhart
  4. "We need to accept that we won't always make the right decisions, that we'll screw up royally sometimes--understanding that failure is not the opposite of success, it's part of success." --Arianna Huffington
  5. "The only real failure in life is not to be true to the best one knows." --Frederic William Farrar
  6. "You have to be able to accept failure to get better." --LeBron James
  7. "I don't want the fear of failure to stop me from doing what I really care about." --Emma Watson
  8. "Do not fear mistakes. You will know failure. Continue to reach out." --Benjamin Franklin
  9. "When I was young, I observed that nine out of 10 things I did were failures. So I did 10 times more work." --George Bernard Shaw
  10. "Failure is simply the opportunity to begin again, this time more intelligently." --Henry Ford
  11. "Failure happens all the time. It happens every day in practice. What makes you better is how you react to it." --Mia Hamm

Pakistan Politics (Urdu)

  مکالمہ 

اظہر عباس

عظمت افروز خان


کہاں گئے وہ ہیبت ناک دیو جن کا کہ تاریخ میں نام ہے تو سیاہ لفظوں میں ۔


اور جنہیں پھانسی لگایا گیا ، سڑکوں پر شہید کردیاگیا اور ہتھکڑیاں لگا کر نکالاگیا ، وہ آج بھی زندہ ہیں اور ان کے وارث بھی ۔ یہ کوئی دلپذیر وراثت نہیں بلکہ دل شکن وراثت ہے ۔کانٹوں کا تاج ہے ۔ کوئی سرپہ سجا لیتاہے تو کوئی منہ موڑلیتاہے ۔ 


سب سے بڑی وجہ قدرت کا انتقام اور نمونہ عبرت بنانا درکار ہے، عیوب کا تمام خاندان آج نفرت کی علامت بن چکا، سیاسی زندگی کے لئے گھنگرُو کی طرح کبھی اس پاؤں کبھی اُس پاؤں ۔۔ یحیی کا نام آتے ہی شراب شباب بدکاری کا خیال ذہن میں آ جاتا ہے، جرنل زیاں کی قبر اگر فیصل مسجد کے محفوظ احاطے میں نہ ہوتی تو کُتے سردی سے بچاو کے لئے مسکن بناتے، چھاتی جوڑی کرکے سیاستدانوں کو للکارنے والا اور منموہن سے شرمناک مضافحہ کرنے والا مشرف ایک گیدڑ کی زندگی گزار رہا ہے، اب والے کا حال بھی مختلف نہیں 


دوسری وجہ ان سب کے پیروکار ہیں، یہ اصل میں پیروکار نہیں ٹاوٹ ہوتے ہیں، جو ذاتی مفادات یا پھر ذہنی غلامی و فکری افلاس کی وجہ سے ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں، ٹاوٹ اور غلام کی فطرت میں طاقتور کے آگے سجدہ شامل ہوتا ہے، سو جیسے ہی ایک سورج اپنی روشنی کھوتا ہے یہ دوسرے سورج کی طرف رُخ کر لینے ہیں ، اسی وجہ سے “ٹھنڈے سورجوں” کی قبروں پر کُتے پیشاب کرتے ہیں 

مقام عبرت ہے غاصبوں کے لئے

مقام شرم ہے ٹاوٹوں اور دولے شاہ کے چوہوں کے لئے


 ۔۔ ٹاوٹ بھی نسلی ہیں جو ہر نسل میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں ۔۔ شاید انکے جین ہی ایسے ہیں ۔۔

Pakistan Politics (Urdu)

 پی ٹی آئی کے ایک دوست کی پوسٹ کے جواب میں لکھا گیا ۔۔

1۔ عیوب خان کی لاڈلی چھوٹی بیٹی کی خواہش اور ضد پر انہیں (بھٹو شہید کو) عیوب خان اپنی کابینہ میں لائے جس کی ضد تھی کہ "آئی نیڈ زلفی" ۔۔ ورنہ آپکو تو شاید یہ بھی معلوم نا ہو کہ بھٹو شہید اسکندر مرزا کی کابینہ میں تھے اور عیوب خان بھی اس کابینہ میں ایک وزیر ہی تھا ۔۔ عیوب خان کے "انقلاب" کے بعد کابینہ بھی ختم ہو گئی تھی

2۔ آپکے علم میں شاید یہ بھی نا ہو کہ ان کے والد کا نام سر شاہ نواز بھٹو تھا اور وہ ریاست جونا گڑھ کے وزیر اعظم تھے

3۔ حاکم علی زرداری بھٹو کی پھانسی کے وقت نیپ میں تھے اور باقی سب "طاقتور سندھی وڈیرے" پیپلز پارٹی میں تھے ۔۔ اپنے سندھی دوستوں سے معلوم کریں کہ اس وقت کیا صورتحال تھی اور کیا ہوا ۔۔ جس وقت "طاقتور سندھی وڈیرے" مشرف بہ ضیاع ہو رہے تھے تو حاکم زرداری نے بھٹو فیملی کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیوں اور کیسے کیا یہ ایک اور داستان ہے

4۔ چلیں آپ نے یہ تو مانا کہ ضیاع ایک کرپٹ، بے ایمان اور چور تھا جس نے باقاعدہ فرنٹ میں رکھے ہوئے تھے ۔۔ ہم تو یہ مانتے ہیں اب آپ نے تحریر کردیا ۔۔ سند رہے گا ۔۔ (انہوں نے میاں شریف کو ضیاع کا فرنٹ مین کہا تھا)

5۔ آپ کے کہنے کے بقول نواز شریف فوج کی حمایت سے آیا اور اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کر کے بے نظیر کو شکست دی ۔۔ شکریہ ۔۔ تو اس وقت نواز شریف اور اسکے رفقا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر اور اسکے اشارے پر بے نظیر کے ساتھ وہی کر رہے تھے جو آج خان اور اسکے رفقا و حمایتی مریم کے ساتھ کر رہے ہیں ۔۔ پرانا ٹرینڈ ہے ۔ صرف فریق بدلتے ہیں ۔۔

6۔ بھٹو صاحب ںے کسی جرنیل سے کوئی مفاہمت نہیں کی وہ جرنیلوں کی انڈیا سے بدترین شکست کے بعد اقتدار میں آئے ۔۔ اور گل حسن جیسے جرنیل سے گن پوائنٹ پہ استعفی لیا ۔۔ ہے خان میں یہ جرات ؟

7۔ اگر کانپ نہیں رہے تو درانی کو کس نے شہباز شریف کے پاس بھیجا اور کیوں بھیجا ؟

8۔ کرارا جواب بیان بازی/ گالی گلوچ ہوگا یا اسمبلی تحلیل کرنا ؟  ہمت ہے تو اسمبلی تحلیل کر کے دکھائیں اگلے الیکشن میں انکو بھی جوتے پڑیں گے جو بلا لیکر گھومتا نظر آئے گا (انکے اس بیان پر کہ استعفی دیں تو کرارا جواب ملے گا پر لکھا گیا)

9۔ سینیٹ کے آئیندہ الیکشن میں 15 سیٹیں پی ڈی ایم کی پکی ہیں ۔۔ کچھ حساب کتاب کر کے دیکھ لیں ۔۔ تو وہ کیوں نا حصہ لیں ؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ مستعفی ہوں اور گلیوں میں مرزا یار کو کھلی چھوٹ مل جائے ؟ 

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...