بائیسکل
ؔمجھے یاد ہے میں پانچویں جماعت میں تھا۔ آسائشیں تو دور کی بات تب ضروریاتِ زندگی ہی بہت محدود تھیں شاید اسی لیے معمولی تنخواہیں بھی کافی ہو رہتی تھیں چنانچہ رشوت نایاب نہیں تو کمیاب ضرور تھی۔
میرے ابو نے ڈیوٹی پر جانے کے لیے انہوں نے ایک بائیسکل ماہانہ کرایے پر لے رکھی تھی
کالج کے لیکچرر حضرات کی تو کیا کہیے پرنسپل صاحبان تک سوٹ ٹائی لگائے، پتلون کے پاہنچوں پر رِنگ چڑھا کر سر پہ ہیٹ رکھنے کے بعد بائیسکل پر ہی سوار ہوتے۔
بائیسکل کی یہی رفاقت سرکاری اور اعلی سرکاری افسران کو بھی حاصل تھی۔ جن کا دفتر گھر سے بہت دور ہوتا وہ اومنی بس میں سوار ہو لیتے۔ سرکاری موٹر گاڑیوں کی بہتات تب اس قدر نہ تھی جس قدر اب ہے۔
اب سڑک سڑک پر اوبر اور کریم ہیں تب محلے محلے میں بورڈ لگا ہوتا تھا
ؔ"سائکل کرائے پر دستیاب ہے"
 
 
 
No comments:
Post a Comment