میں الحمد للہ شریعت کے تمام احکامات کو لازم سمجھتا ہوں لیکن جہاں تک پردے‘فحاشی اور جنسی زیادتی کا معاملہ ہے میں ان تینوں کے تعلق کو سمجھنے سے قاصر ہوں‘ رسول اللہﷺ کے زمانے میں زنا کی تین سزائوں پر عمل ہوا تھا‘ میری علماء کرام سے درخواست ہے آپ یہ بتا دیں وہ لوگ کون تھے؟ یہ واقعہ کہاں پیش آیا‘ یہ سزائیں کس نے دیں اور یہ گناہ کس کے دور میں ہوا ؟ آپ کو اس کے بعد معاملے کو سمجھنے میں دقت نہیں ہو گی۔
دوسرا ملک میں زینب‘ مروہ‘ سیما اورحریم جیسی بچیوں کی آبروریزی ہوتی ہے‘ کیا یہ وارداتیں فحش لباس کی وجہ سے ہوتی ہیں؟ لاہور میں عزیزالرحمن نام کے ایک نام نہاد مذہبی رہنما نے مدرسے کے باریش طالب علم سے اغلام بازی کی‘ طالب علم نے دعویٰ کیا اس کے ساتھ تین سال تک یہ فعل ہوتا رہا‘ ملزم عزیز نے اپنے ویڈیو بیان میں تسلیم کر لیا یہ فعل جبراً نہیں ہوا تھا اور یہ واقعہ اڑھائی تین سال پرانا ہے۔
ملزم شاید یہ کہنا چاہتا تھا اغلام بازی رضا مندی سے ہو تو یہ جائز ہو جاتی ہے اور یہ واقعہ اگراڑھائی تین سال پرانا ہو تو اسے درگزر کر دینا چاہیے‘ سوال یہ ہے مدرسے کے باریش نوجوان نے کون سے فحش کپڑے پہن رکھے تھے جن کی وجہ سے ملزم عزیز روبوٹ سے انسان بن گیا اور اسے ترغیب (Temptation)مل گئی‘9ستمبر 2020کو موٹروے ریپ کیس ہوا تھا‘ دو درندہ صفت ڈاکوئوں نے بچوں کے سامنے ماں کو ریپ کر دیا۔
اس عورت نے کون سا فحش لباس پہن رکھا تھا اور ان ڈاکوئوں کو کار کے اندر سے کون سی ترغیب مل گئی تھی اور مختاراں مائی کے کیس کو 2002میں بین الاقوامی بدنامی حاصل ہوئی ‘ اس کیس میں پنچایت کے حکم پر مختاراں مائی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ اس میں Temptationکہاں تھی؟ یہ واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہیں‘ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات درجنوں نہیں ہیں‘ سیکڑوں اور ہزاروں ہیں‘ میں پردے کے خلاف نہیں ہوں۔
یہ اللہ کا حکم ہے اور ہمیں اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کیا پردے کی وجہ سے ملک سے ریپ کے واقعات ختم ہو جائیں گے اور کیا ان کی روک تھام کے لیے حیاء اور مذہب کافی ہے؟ جی نہیں اگر یہ واقعات حیاء اور مذہب سے رک سکتے تو عزیز الرحمن جیسا واقعہ بھی پیش نہ آتا‘ مختاراں مائی بھی گینگ ریپ کا نشانہ نہ بنتی اور زینب کی لاش بھی پانچ دن نہ ملتی لہٰذا ہمیں ماننا ہو گا ریپ اور جنسی بے راہ روی کی وجوہات کچھ اور ہیں۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا ہم نے معاشرے کو عورت کے لیے غیر محفوظ بنا دیا ہے‘ ہم اسے مٹی کا کھلونا سمجھتے ہیں چناں چہ اسے روندنا‘ مسلنا اور برباد کرنا ہماری نظر میں کوئی جرم نہیں‘ ہم یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ہمارے معاشرے میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ ایسے جانور ہیں جن سے عورت اور مرد تو کیا لاشیں بھی محفوظ نہیں ہیں اور تیسرا ہم نے بدقسمتی سے آج تک ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے کچھ نہیں کیا۔
ہم ہراسگی اور جنسی زیادتی کے کیسوں کا فوری فیصلہ کیوں نہیں کرتے اور ہم ذمے داروں کو قرار واقعی سزا کیوں نہیں دیتے؟ ہم معاشرے کو خواتین اور بچوں کے لیے محفوظ کیوں نہیں بناتے؟ ہم شادی کو آسان اور سستا کیوں نہیں بناتے؟ ہم ملک میں پورن مٹیریل پر پابندی کیوں نہیں لگاتے‘ ہم دفتروں اور کمپنیوں میں خواتین کا کوٹہ مخصوص کیوں نہیں کرتے اور ہم گھریلو تشدد کا سخت نوٹس کیوں نہیں لیتے؟
ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ہم جب تک خواتین کے بارے میں مردوں کا تصور اور رویہ نہیں بدلیں گے یہ ملک نہیں بدلے گا‘ ہمارے ملک میں آج بھی تقریبات میں مرد پہلے کھانا لیتے ہیں اور خواتین بعد میں‘ کیوں؟ ہم نے اپنے سیشنز اور ٹورز کے دوران اصول بنایا تھا خواتین مردوں سے پہلے کھانا لیں گی‘ آپ یقین کریں خواتین اور مردوں دونوں نے ایک دوسرے کا احترام شروع کر دیا‘ہم قومی سطح پر یہ اصول کیوں نہیں بناتے؟
وزیراعظم اگر اس کے باوجودیہ سمجھتے ہیں پردے کے علاوہ معاشرے کو ٹھیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تو پھر وزیراعظم یہ نیک کام اپنی پارٹی سے شروع کیوں نہیں کرتے؟ کابینہ میں پانچ خواتین وزراء ہیں‘ آپ انھیں باقاعدہ شرعی پردہ کرائیں‘ محترمہ زرتاج گل اگر سعودی عرب اور یو اے ای کے شاہی وفود سے ملاقات کے دوران عبایا پہن سکتی ہیں اور اسکارف لے سکتی ہیں تو یہ عام زندگی میں ایسا کیوں نہیں کرتیں؟
اگر خاتون اول شرعی پردے میں رہ سکتی ہیں تو شیریں مزاری‘ فہمیدہ مرزا‘ زبیدہ جلال اور ثانیہ نشتر کیوں نہیں کر سکتیں؟ وزیراعظم اگر واقعی پردے کے معاملے میں سیریس ہیں اور یہ سمجھتے ہیں ملک میں اسی سے انقلاب آئے گا تو یہ شیریں مزاری سے اس کا آغاز کر کے ملک کے لیے روشن مثال قائم کریں‘ ملک خود بخود پردے میں چلا جائے گا‘ آپ کو اپنے دائیں بائیں موجود لوگ تو نظر آتے نہیں ہیں لیکن آپ پوری دنیا کو پردے پر لیکچر دے رہے ہیں‘ یہ کہاں کا انصاف ہے‘ یہ کہاں کی تبلیغ ہے؟
 
 
 
No comments:
Post a Comment