Tuesday, October 4, 2022

نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن کی تباہی

این آئی آر سی - نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن (NIRC) کا ادارہ سال 1972 میں IRO 1969 میں ترمیم کرکے تشکیل دیا گیا تھا اور اسے بعد ازاں ترمیم شدہ قوانین یعنی IRO ،2002 ،IRA 2008، IR0 2011 کے ذریعے برقرار رکھا گیا ہے اور اب تازہ ترین ترمیم IRA 2012 کی دفعہ 53 کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ ادارہ وفاقی اور بین الصوبائی اداروں (گورنمنٹ/ سیمی گورنمنٹ/ کارپوریشنز/ ملٹی نیشنل اور نیشنل صنعتی و تجارتی اداروں) کے آجروں اور کارکنوں کے درمیان باہمی تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ یہ آجروں اور کارکنوں کی جانب سے غیر منصفانہ لیبر پریکٹس، صنعتی تنازعات کے حل، اسلام آباد میں عبوری ٹریڈ یونین اور یونینوں کی رجسٹریشن، فیڈریشن اور اجتماعی سودے بازی کے ایجنٹوں کے تعین کا ذمہ دار ہے اور اس کی سربراہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ یا حاضر سروس جج کرتے ہیں۔ اس کے ممبران ریٹائرڈ یا حاضر سروس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، وفاقی حکومت کے افسران، NIRC کے رجسٹرار ہیں۔ یہ ادارہ صنعتی امن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو تجارتی اداروں میں اعلی پیداوار کے لیے ضروری ہے۔ نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن (این آئی آر سی) وزارت برائے سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی سے منسلک ایک ادارہ ہے اور آج کل دگرگوں حالات کا شکار، بدعنوانی کا گڑھ بنا نظر آتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں حکومت نے این آئی آر سی کے چیئرمین جسٹس (ر) شاکر اللہ جان کو کئی سالوں سے معاہدے میں توسیع دی ہے۔ اور اس برس بھی جسٹس (ر) شاکر اللہ جان مزید ایک سال تک اپنے عہدے پر برقرار رہنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ سہریم کورٹ کے عمر رسیدہ ریٹائرڈ جج اپنے عہدے کے دوران مزدوروں کے مسائل کے حوالے سے کوئی اقدام کرنے میں انتہائی ناکام رہے ہیں اور انکا زیادہ تر انحصار ایک اور کنٹریکٹ یافتہ ممبر نور زمان پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزرے برسوں میں جب قومی اسمبلی کے ایک رکن نے وزارت سے چیئرمین کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا تو وزارت نے محض حقائق سے ہیرا پھیری کی اور "فیصلوں کی اجازت سے متعلق قانونی پہلوؤں" کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ این آئی آر سی پر رشوت ستانی اور بدعنوانی کے کئی الزامات ہیں، کیونکہ ٹریڈ یونینز کمیشن کے فیصلوں کو اپنے حق میں کرانے کے لیے بھاری رشوت دے رہی ہیں اور این آئی آر سی کے اہلکار ان لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں جو انھیں رشوت دینے سے انکار کرتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ٹریڈ یونین نے NIRC کے اہلکاروں پر رشوت ستانی کا الزام لگایا اور وزیر اعظم کے اس وقت کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستان زلفی بخاری سے اس سلسلے میں انکوائری کرنے کی درخواست کی جس کے بعد وزیراعظم کے اس وقت کے معاون خصوصی نے ایک سینئر جوائنٹ سیکرٹری کو انکوائری افسر مقرر کیا۔ تاہم یہ انکوائری بے سود ثابت ہوئی اور کرپشن کا ریٹ مزید بڑھ گیا اسی طرح وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے بھی NIRC کے سابقہ ڈپٹی رجسٹرار نوید کھوکھر کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پر تحقیقات کیں جن کا نتیجہ نا معلوم رہا ایک فارما ورکر ایسوسی ایشن نے بھی وزیر اعظم سے این آئی آر سی کے رکن نور زمان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ انہوں نے یونین کے چیئرمین کو یونین کی رجسٹریشن کے خلاف بھاری رشوت دینے کا کہا تھا۔ نور زمان موجودہ چیئرمین کے قریبی ساتھی ہیں اور انہیں حال ہی میں این آئی آر سی میں تمام انتظامی اور مالی معاملات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ نور زمان گزشتہ کئی برس سے ایم او پی اینڈ ایچ آر ڈی کے جوائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے چیئرمین کی سفارش پر انہیں این آئی آر سی کا ممبر مقرر کیا تھا حالانکہ ان کے پاس متعلقہ تعلیم اور تجربہ ہی نہیں تھا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے بھی سابقہ مشیر زلفی بخاری کو پاکستان میں مزدور یونینوں کے تحفظ اور سہولت کاری کے حوالے سے خراب صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔ حیرت انگیز بات اس ادارے کے ریٹائرڈ ملازمین کا بحیثیت ٹاوٹ کام کرنا ہے۔ چئیرمین کے دفتر کے ریٹائرڈ ملازمین مناسب کمیشن پر ہر ناجائز کام بلا خوف و خطر سر انجام دے رہے ہیں کیونکہ ادارے کے مختلف ڈپٹی اور اسسٹنٹ رجسٹرار ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارے میں انتظامی تبدیلیاں کرتے ہوئے چئیرمین کسی اچھی شہرت کے حامل حاضر سروس جج کو تعینات کیا جائے اور اس ادارے میں ایک آپریشن کلین اپ کیا جائے تاکہ آجر اور اجیر کو مسابقتی بنیاد پر انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔

No comments:

Post a Comment

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...