Wednesday, September 28, 2022

تاریخ کے سبق

الله تعالیٰ نے قرآن مجید سابقہ انبیاء ان کی امتوں اور اقوام کے احوال بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ یہ واقعات اس لیے بیان کئے گئے ہیں کہ تم اس سے راه یکڑو اور عبرت حاصل کرو ان واقعات کے قرآن مجید میں بیان کرکے عبرت پکڑنے کے فرمان میں یہ بھی حکمت بے کہ نزول قرآن کے بعد میں آنے والے اپنے سے پہلے گزر جانے والے واقعات حالات اور تاریخ سے سبق حاصل کرکے اپنے موجودہ حالات کو تاریخ کے پس منظر میں دیکھتے ہوئے درست فیصلہ کریں بزرگوں کا بھی فرمان ہے اگر آپ تاریخ کے کرداروں کو بھلا دیں گے تو تاریخ تمھیں بھلا دے گی ترک افواج کے خلاف عربوں کو لڑانے کے لیے انگریزوں نے اپنے ایک ایجنٹ کو مسلمان مذہبی راہنما کے طور پر عرب بھیجا دیکھتے ہی دیکھتے وہ تمام عربوں کا ہر دل عزیز لیڈر بن گیا امام کعبہ ہو یا مسجد نبوی کا امام اور تو اور مسجد اقصیٰ کا امام بھی اس کی تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تھکتے تھے۔ اسے لارنس آف عریبیہ کا خطاب دیا گیا پھر اس لارنس آف عریبیہ نے عربوں کو انبیاء کی اولاد ہونے کی بنا پر باقی تمام دنیا سے افضل قرار دیا اور تمام دنیا کی حکمرانی کا حقدار ہونے کا احساس پختہ کیا۔ تمام عرب اسے پکا مسلمان اور سچا عاشق رسول ماننے لگ گئے۔ پھر اس نے عربوں کو ترک افواج کے خلاف حقیقی آزادی کے حصول اور اپنے حق حکمرانی کے حصول کے لیے ان عربوں کی محافظ ترک افواج سے لڑا دیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں انگریزوں کی مداخلت کی وجہ سے ترک افواج شکست كها کر عرب چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں اور عرب آزاد ھو گئے۔ مگر عربوں کی آزادی کا یہ خواب زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور چند سال بعد برطانوی انگریزوں کی افواج نے عربوں پر چڑھائی کر دی۔ عرب افواج غیر تربیت یافتہ اور غیر منظم هونے کی وجہ سے آسانی سے انگریز کی افواج سے شکست کھا گئیں اور انگریز تمام عرب پر قابض ہو گئے۔ اسکے بعد انگریزوں نے عربوں کو ایسی غلامی میں جکڑا کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست بھی بنائی اور آج تک بظاہر آزاد عرب ملک دراصل امریکی خوف کی غلامی سے نہیں نکل پائے۔ لارنس آف عریبیہ جاسوس تھا مگر اسے کسی نے جاسوس نہ کہا اور اس نے عربوں کو آزادی کے نام پر عثمانی سلطنت کی ترک افواج سے لڑوا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہودیوں کا غلام اور زیر دست بنا دیا۔ جس لارنس آف عریبیہ کو عرب اپنا لیڈر اور مذھبی راہنما اور نجات دهنده سمجھتے رہے اسے 1960 میں ہالی وڈ کی فلم لارنس آف عریبیہ میں برٹش یہودی کرنل کے عہدے پر فائز دکھایا گیا تو عربوں کو پتہ چلا کہ وہ لارنس آف عربیہ تو دشمن کا ایجنٹ تھا۔ اسی طرح روسی زار سلطنت کا خاتمہ بھی ان کے اندر موجود مذہبی راہنما کے ہاتھوں ہوا۔ آخری روسی زار، نکولس دوم، کی 1917 میں اقتدار سے دستبرداری سے 300 سال پرانے رومانوف خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ راسپوٹین 1869 میں سائبیریا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ کم عمری میں ہی اپنی آزادی خیالی کی وجہ سے راسپوٹین کی کنیت اس کی وجہ شہرت بنی۔ 1903 میں سینٹ پیٹرزبرگ میں اس کی ملاقات ایک سرکردہ آرتھوڈوکس پادری سے ہوئی جس نے اسے سینٹ پیٹرزبرگ کی اعلیٰ سوسائٹی سے متعارف کرایا۔ اس نے روحانیت کے پردے میں آزادانہ جنسیت کے لیے بھی تیزی سے شہرت حاصل کی۔ چند ہی سالوں میں اس کا تعارف زار اور زارینہ، الیگزینڈرا سے ہوا، جنہوں نے اپنے بیمار بیٹے الیکسی کا علاج کرنے کے لیے اس پر بہت زیادہ انحصار کرنا شروع کر دیا۔ الیگزینڈرا ایک گہری مذہبی عورت تھی اور راسپوٹین کی بظاہر جادوئی شفا بخش طاقتوں پر یقین رکھتی تھی، جن کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ خدا کی طرف سے ان کے بیمار بیٹے کی مدد کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جبکہ سچائی یہ تھی کہ راسپوٹین ایک خود ساختہ مقدس آدمی تھا، اس کے پاس کہا جاتا ہے کہ ہپناٹزم کی صلاحیت تھی جسے وہ مذہبی اور روحانی پردے میں استعمال کرتا تھا۔ راسپوٹین نے اپنے اور الیگزینڈرا کے درمیان قائم ہونے والے اس خاص بندھن کو زارینہ پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا۔ شاہی خاندان کے ارکان، حکومتی شخصیات اور یہاں تک کہ بہت سے عام روسی شہری بھی حیران تھے کہ یہ ’پاگل راہب‘ زار اور زارینہ پر اتنا کنٹرول کیسے رکھ سکتا ہے۔ اس اسکینڈل نے جلد شہرت حاصل کر لی. سینٹ پیٹرزبرگ میں بہت سے پوسٹر اور پوسٹ کارڈ گردش میں آ گئے جو اس خیال کو ظاہر کرتے تھے کہ زارینہ اور راسپوٹین کے مابین تعلق صرف پیر مریدی کا نہیں بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ زار نے راسپوٹین اور اس کے رویے سے متعلق کسی بھی منفی بات یا افواہوں پر پابندی لگا دی۔ اس عمل نے بذات خود ایک نئی سازشی تھیوری کو جنم دیا اور زار کے وفاداروں کو یقین ہو گیا کہ راسپوٹین کی امپیریل فیملی کے ارد گرد موجودگی نقصان دہ تھی، کیونکہ اس سے ایسا لگا کہ زار معاملات کو چھپا رہا ہے اور اس کا یہ اقدام اس کے سنسرشپ کے خاتمے کے وعدے کے بھی خلاف تھا جو کہ اکتوبر کے نئے منشور کا ایک اہم حصہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم 1914 میں شروع ہوئی اور روسی فوج کو ابتدائی دس مہینوں میں 3,800,000 ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد نکولس نے فوجی معاملات کو خود سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کارروائی نے الیگزینڈرا اور راسپوٹین کو دارالحکومت میں حکومتی فیصلے کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔ جنہوں نے حکم صادر کیا کہ اگر ڈوما (پارلیمنٹ) نے راسپوٹین پر حملہ کیا تو اسے فوری طور پر معطل کر دیا جائے گا راسپوتن بظاہر اہم فیصلوں کو جس طرح کنٹرول کر رہا تھا اس سے روس میں عدم اطمینان ایک بار پھر بڑھتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ Tsardom کے سخت ترین حامیوں کو بھی ایسے نظام کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا جس نے ایک قوم کو اس کی سب سے بڑی آزمائش میں ایک بدکار راہب کے زیر اثر کر دیا تھا۔ دسمبر 1916 میں، بادشاہت کو بچانے کی کوشش میں، اشرافیہ کے ایک گروپ نے راسپوٹین کو قتل کر دیا۔ بعد ازاں زار نکولس تخت سے دستبردار ہو گیا۔ اسیری کے دوران لینن کے حکم پر اسے اور اس کے خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ راسپوٹین شاہی خاندان کے لیے اسکینڈل لایا۔ اس نے زار کو اپنا اکتوبر کا منشور توڑنے پر مجبور کیا۔ اس نے پہلی جنگ عظیم میں اہم فیصلوں کو متاثر کیا۔ اس کے ابتدائی سالوں میں روس ایک ناخوشگوار جگہ بن چکا تھا، ہڑتالیں، فصلوں کی ناکامی، قحط، فسادات اور زار کے جبر کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ جزوی طور پر ان مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے بلکہ جزوی طور پر مشرق بعید میں زمینی تنازعہ کی وجہ سے 1904 میں روس اور جاپان جنگ میں جنگ چھڑ گئی۔ نکولس کا خیال تھا کہ یہ ایک مختصر اور فاتح جنگ ہوگی، لیکن ایسا نہ تھا۔ 1905 میں مظاہرین نے سرمائی محل کے سامنے مظاہرہ کیا لیکن فوجیوں نے فائرنگ کی جس سے ہزاروں بے گناہ شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ روس میں ’بلڈی سنڈے‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ رومانوف خاندان کے زوال کے لیے راسپوٹین کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، روسیوں کے بڑھتے ہوئے عدم اطمینان اور نکولس کی حکمرانی کی صلاحیت پر ان کا اعتماد ختم ہونے میں راسپوٹین کا بہت اثر تھا۔ اور وہ زار شاہی خاتمے کے خاتمے میں ایک اور کیل ثابت ہوا۔ آخری کیل۔ کچھ ایسا ہی احوال آج کے منتشر پاکستان کا بھی ہے۔ حقیقی آزادی کے نام پر پاکستان کے بھولے عوام کو ان کی محافظ پاک فوج کے ساتھ لڑانے کی کوششیں ہوں یا نظام سے متنفر کرنے کے اقدامات۔ سیاسی تقاریر کو مذہبی ٹچ دینے کیلئے ادھورے کلمے سے لیکر شرک کے فتوے تک۔ کیا کچھ نہیں کیا جا رہا اور اہل دانش انگلیاں منہ میں دبائے حیرت سے گنگ ہیں۔ ایک ایسا مادر پدر آزاد گروہ تخلیق کر دیا گیا ہے جو اندھا دھند ان کی تقلید کو ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔ بدقسمتی سے اب آزادی کا مفہوم اور معانی تک بدل گئے ہیں۔ اگر آپ کا تعلق قوم یوتھ سے ہے،انصافیے ہیں توپھر کسی بھی محفل میں بدتمیزی سے پیش آنا ،کہیں بھی سیاسی مخالفین کو دیکھ کر ان پر آوازیں کسنا یا پھر سوشل میڈیا پر خبث باطن آشکار کرنا آپ کا بنیادی حق ہے۔ اس کلٹ کو زبان تو دیدی گئی ہے مگر بولنے کے آداب نہیں سکھائے گئے۔ جناب عمران خان نے لوگوں کو بولنے کی آزادی نہیں دی بلکہ بندر کے ہاتھ میں ماچس اور استرا تھمادیا ہے۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کویہ تعلیم دی ہے کہ جو آپ کے خلاف ہے، وہ نہ صرف دائرہ اسلام سے خارج ہے بلکہ غدار، ملک دشمن، کرپٹ اور بے ضمیر انسان ہے۔ آپ اس پر لعن طعن کریں، جہاں دکھائی دے، جملے کسیں یا برا بھلا کہیں، آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ سوشل میڈیا پر تو صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔ اختلاف رائے کی جسارت کرنے والوں پر تو غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ ہوجاتی ہے، ان سے اتفاق کرنے والے بھی شر سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔پڑھنے اور سننے والے بتاتے ہیں کہ ہم اس خوف سے اپنی رائے کا اظہار نہیں کرپاتے کہ ’’حقیقی آزادی‘‘ پر یقین رکھنے والے کہیں اس طرف نہ آنکلیں۔ افغانستان میں انتظامی تبدیلی کے اثرات پاکستان کی معیشت کو بھی نگل چکے ہیں۔ آج مہنگائی کا جو بحران ہماری گردنوں کو جکڑے ہوئے ہے کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اصل وجہ کیا ہے؟ یہ سرمایہ داروں کا ایسا گٹھ جوڑ ہے جو ہماری ہی گردنیں کاٹ کر تجارت کے نام پر (اسمگلنگ سے) افغانستان کو زندہ رہنے کی ہر چیز فراہم کرکے منافع کے انبار لگا رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کی کال کے انتظار میں ہلکان ہو کر پاکستان کی ساکھ خراب کرنا، ایبسولیوٹلی ناٹ کہنا، ہواؤں کا رُخ بدلتے دیکھ کر امریکی سازش کا بیانیہ تیار کرنا اور اس بیانیے پر اکڑ کر کھڑے ہوجانا اور جب بات نہ بنے تو امریکیوں کے سامنے لیٹ جانا، آئی ایم ایف معاہدے کی راہ میں روڑے اٹکانا، فارن فنڈنگ کیس میں، میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھنا، عوام کو قومی سلامتی کے اداروں، شخصیات کے خلاف اُکسانا اور دشنام طرازی کرنا یہ سب کچھ سازش نہیں تو کیا ہے؟ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کو رسوا کرکے کیا ملا ؟ ہر آنے والا لمحہ خان اعظم کی ”سازش“ کے چھپے رازوں کو بے نقاب کرتا رہے گا اور یہ راز از خود طشتِ ازبام ہونا شروع ہو جائیں گے۔

No comments:

Post a Comment

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...