Monday, October 17, 2022

ہائبرڈ رجیم اور پراجیکٹ عمران

اگر آپ کو مشہورِ زمانہ ناول نگار چارلس ڈکنز کا تاریخی ناول A Tale Of Two Cities پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو تو دیکھئے گا کہ اس میں فرانس کی حالات زار کی کیا منظر نگاری کی گئی ہے۔ تاریخ کا بد ترین زمانہ جہاں حماقتوں کا عروج، بے اعتباری بے اعتقادی، بے یقینی نے پنجے گاڑرکھے تھے۔ مایوسی، نا اُمیدی اور نامرادی گھر گھر موجود تھی۔ خان کے دور کا پاکستان بھی ایسا ہی تھا۔ اب آتے ہیں پراجیکٹ عمران کی جانب جو 2014 میں شروع ہوا۔ اس سے وابستہ افراد کا ایک گول تھا کہ ایک ایسی تیسری قوت کو ابھارا جائے جو باقی دو کو چیلنج کرے اور اسے ملکی معاملات میں فلکرم کے طور پر استعمال کیا جائے۔ سامنے اسے رکھ کر کٹھ پتلی کی طرح استعمال کیا جائے اور اس کے پردے میں حکومت چلائی جائے۔ یہ ماڈل وہ شوکت عزیز کے دور میں ٹرائی کر چکے تھے اور اب اسے ملکی سیاست میں ایک نئے ماڈل کے طور پر لانا مقصود تھا۔ اس میں فار رائٹ نظریہ کے لوگ بھرتی کئے گئے، فار رائٹ لوگوں کو اس کے ساتھ کھڑا کیا گیا اور اسے کھڑا کرنے کیلئے اس کے پلڑے میں پورا زور ڈال دیا گیا۔ بدقسمتی سے درج ذیل چیزوں کو انہوں نے اگنور کر دیا: 1۔ عمران کا ذاتی کردار اور ذاتی لابی کے تعلقات (ان کا خیال تھا کہ انڈین اور یہودی لابی سے اس کے تعلقات کا فائدہ ملے گا۔ جب کہ اس لابی نے اسے استعمال کیا اور کر رہی ہے) 2۔ آنے والے وقت میں دنیا کے معاملات میں بدلاو 3۔ پراجیکٹ سے وابستہ افراد کے ذاتی معاملات اور انکی خواہشات 4۔ پلان بی/ سی کا عدم وجود (شاید پراجیکٹ والوں کی خود پر اعتماد کی زیادتی کہ ہم ہر حالات میں کنٹرول کر ہی لیں گے) 5۔ ایگزٹ پلان اب ہوا یہ کہ خان صاحب کو تو انہوں نے سامنے لا کھڑا کیا لیکن اس کی ذاتی نفسیات سے بے خبری کی وجہ سے مار کھا گئے۔ خان صاحب کو جب وزیراعظم بننے کا احساس ہوا تو وہ اپنی ذاتی خواہشات کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ انکی ایگو اور انکی کینہ پروری سامنے آ گئی۔ سب سے پہلا وار وہ ایکسٹینشن تھی جو حسب پلان دی جانی تھی اور جس کا لیٹر بھی وہ ایشو کر چکے تھے لیکن نوٹیفیکشن کے ساتھ جو کچھ ہوا۔ جیسے الفاظ کے ساتھ کھیلا گیا اور معاملات جیسے سپریم کورٹ اور بعد ازاں پارلیمنٹ پہنچے اور جیسے اس کو انہیں خود سلجھانا پڑا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ نالائقی تھی ؟ قطعا نہیں۔ وہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر اپنے محسن کو اپنے شر کا شکار بنا رہے تھے خارجہ پالیسی میں جو بلنڈر ہوئے اور ملکی معاملات پر جس طرح کھلنڈرے انداز میں کھیلا گیا وہ تو ایک طرف لیکن اہم بات یہ تھی کہ تمام پروموشنز اور پوسٹنگز صرف ایک ہی جگہ تک محدود ہو کر رہ گئیں جس سے ادارے میں بھی بے چینی تھی کیونکہ پراجیکٹ عمران کے کرتا دھرتا اپنی ذاتی پروجیکشن اور پروموشنز/ پوسٹنگز کرا رہے تھے۔ کرونا کی وجہ سے ایک وقتی Pause آیا لیکن اس کے بعد جب ریکوری کا پراسیس شروع ہوا تو نالائقی اور کرپشن پر اناڑی پن سے پردہ ڈالنے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ بے چینی بڑھی۔ فیٹف کی وجہ سے ہمیں جو مشکلات تھیں ان کے حل بھی انہی کے پاس تھے اور ان کے حل کے دوران Paradigm شفٹ کا فیصلہ ہوا کیونکہ امریکہ شفٹ ہو رہا تھا۔ امریکہ میں نیوکونز کی جگہ ڈیموکریٹ لے رہے تھے تب ادھر بھی تبدیلی ہونی تھی اور پھر خان صاحب نے روایتی طور پر بم کو لات ماری اور لاہور کے گورنر ہاوس میں بڑے صاحب سے ملاقات کا احوال سنانے کے بعد کہا کہ میں نیچے والے کو اوپر لانے جا رہا ہوں۔ شاہ محمود یا چوہدری سرور سے یہ بات وہیں پہنچی جہاں تبدیلی کا کہا گیا تھا اور پھر نومبر کے واقعات تو آپ جانتے ہی ہیں۔ میں ان معاملات کی تہہ تک جولائی 2021 میں ہی پہنچ گیا تھا۔ اسے بلاگ کی شکل میں محفوظ کیا۔ لیکن ایک بات صاف کہنا بنتا ہے کہ اتنی جلدی میں بھی توقع نہیں کر رہا تھا جتنی جلدی خان صاحب نے بم کو لات ماری۔

No comments:

Post a Comment

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...