Friday, October 28, 2022

بیانئیے کی جنگ کا شکار جنریشن نیکسٹ - حصہ دوئم



اس مکروہ بیانیے کی جنگ میں کچھ افراد کو Larger Than Life اور کچھ کو Rascal بنانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہی کام تحریک انصاف نے کیا۔


دس بارہ سال قبل جن سیاستدانوں، لکھاریوں اور صحافیوں کا عوام پر اثر تھا اور وہ عمرانی بیانیے کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے اُن سب کی کردار کشی کی گئی جھوٹے اور غلیظ الزام لگائے گئے تاکہ یہ سب ایک مسٹر کلین کے آگے بونے لگیں۔  


خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس وہ کراؤڈ موجود نہیں ہے جو سخت سیاسی جدوجہد کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ اسکے پاس اپنی ذات کے علاوہ کوئی ایسے افراد موجود نہیں جو اپنے بل پر اپنے اپنے حلقوں سے لوگوں کو باہر نکال سکیں۔ اس لئے انہوں نے جس بات پر انویسٹ کیا ہے وہ ہے میلینیلز کی ذہن سازی اور اس کو اپنے بیانئیے سے مسلسل مصروف کار رکھنا۔ اس کیلئے وہ ہر ریڈ لائن کراس کرنے پر بھی ہر لمحہ تیار رہتے ہیں اور ہر حد تک جانے کو بھی۔ 


اب آئیے پراپیگندہ کی طاقت کی جانب۔ آر اے شہزاد ایک ویل بینئگ سپیشلسٹ ہیں۔ یورپ میں مقیم وہ لکھتے ہیں کہ:


 "‏گزشتہ دنوں بی بی سی اردو پر لندن میں نواز شریف کے گھر کے سامنے شور شرابہ کرنے والے بچے کا انٹرویو پڑھیں۔ اس میں ایک سوال تھا آپ کو نواز شریف کیوں نا پسند ہے اس کا جواب تھا: "کیونکہ میں نے بچپن سے سنا یہ چور ہیں انہوں نے ملک لوٹا ہے"


یہ ہے  مسلسل پراپیگنڈے کی طاقت۔


"ایک اندازے کے مطابق ‏دوہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد آج کے دن تک ڈیڑھ کروڑ نیا ووٹر آیا ہے۔ روزانہ دس ہزار سے زیادہ بچے اٹھارہ سال کے ہو جاتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کی قریب ترین انتخابی حریف مسلم لیگ (ن) کو دیکھا جائے تو اس کا کا دوہزار اٹھارہ میں کل ووٹ ایک کروڑ تیس لاکھ تھا۔ مطلب انکے مجموعی ووٹ سے زیادہ ووٹر سسٹم میں شامل ہوا ہے۔ یہ ووٹرز پاکستان کا سیاسی نقشہ بدل سکتے ہیں۔"


‏‏کے پی کے حکومت کے پاس تنخواہوں کے پیسے نہی، فرح گوگی کے معاملات سے لے کر فارن فنڈنگ اور نیازی کے خاندان کے مالی معاملات غرض اتنا کچھ ہے مگر کرپشن کا ٹین اس نے اپنے مخالفین کے پیچھے باندھ رکھا ہے اور عوام مان بھی رہی ہے۔ وجہ صرف اور صرف دوسری سیاسی جماعتوں کا کمیونیکشن کے جدید ذرائع سے اجتناب ہے یہ ان کی ناکامی ہے"


آڈیو لیکس اور ممکنہ ویڈیو لیکس اور Facts کے باوجود عمران کے فالورز حقائق کو کیوں تسلیم نہی کر رہے ؟ اس پر آر اے شہزاد لکھتے ہیں کہ: 


"عمران خان اپنی آڈیو لیکس کے آخری حصہ میں کہتے ہیں کہ Minds Fertile Ground بنی ہوئی ہیں۔ آج اس بات کا سائنسی تجزیہ کرتے ہیں کہ خان صاحب نے ذہنوں کو کس عمل سے کنٹرول کیا کہ سچ جھٹلاتے ہیں"


"‏ایک بات جس پر سیاسی پنڈتوں اور ماہرین سوشل  اینڈ پولیٹیکل سائنس کا اتفاق ہے کہ جو New Populism Political لہر آئی ہے وہ سیاسی یا جمہوری عمل کو Undermine کر کے ایک Cult تشکیل دیتی ہے اور پاکستان میں PTI نے بیرونی فنڈنگ اور اندرونی حمائت سے ایک سیاسی Cult کی تشکیل کی ہے".


"‏Populism کی ساری سیاست Disinformation اور فیک نیوز اور سوشل میڈیا کی Psychological Manipulation پر ٹکی ہوئی ہے مگر جب اس جھوٹ کے خلاف سچائی سامنے آتی ہے اور بڑے واضح ثبوت آتے جیسے کہ ابھی عمران کے سائفر کیس میں ہوا تو پھر بھی اس کے فالورز انہیں یکسر مسترد کر دیتے ایسا کیوں ہے ؟"


"‏اس پر نفسیات میں کافی ریسرچ ہوئی ہے۔ تو چلیں ان وجوہات کو سمجھتے ہیں۔


کسی بھی Cultمیں لوگوں کو Us اور Them میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ تقسیم بہت محنت سے کی گئی مخالفین کو پٹواری، لفافے، جاہل، کھوتے کھانے والے، ذہنی غلام کہا گیا اس کا بنیادی مقصد ان کو کسی بھی طرح مخالفین کی طرح اپنے کلٹ سے دور رکھا گیا ‏اور لیڈر پر تنقید کو بقول عمران خان Brand کیا جائے کہ وہ مخالفت کی جرات نا کریں۔


ماہرین نفسیات کے مطابق اپنے جذبات کو مسلسل دبانے کی وجہ سے ان کے اندر ایک سخت غیر منطقی سوچ تشکیل پاتی ہے جو کہ ٹراما کی ایک قسم ہے مگر یہ سب کیسے ہوتا ہے آئیے اس کی وجہ جانتے ہیں۔


‏انسانی دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں دائیں طرف کا حصہ انسانی جذبات وغیرہ کو کنٹرول کرتا ہے اور بائیں طرف لاجک اور استدلال سے متعلق ہے اور  زبان کا تعلق بھی اسی حصے سے ہے ان دونوں حصوں کے تعلق کو Horizontal Connection کہتے ہیں یہی تعلق ہماری سوچوں کو الفاظ دیتے ہیں اور ہم اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔


‏اگر جذبات اور لاجک کا یہ کنکشن جسے Emotions-Logic کہتے وہ رک جائے تو ریسرچ کے مطابق برین Rusty ہو جاتا ہے اور جذبات بغیر اظہار کے برین میں گھومتے رہتے اور ٹراما کی ایک صورت بنتے ہیں۔


‏برین اسی طرح Vertically بھی اوپر سے نیچے کی طرف جڑا ہوتا اور یہ کنکشن ہماری سوچ، جذبات، جانچنے پرکھنے اور احساسات کو آپس میں جوڑتے جو لوگ Vertically کٹ ہوتے ہیں وہ عقل اور استدلال سے فیصلہ کرنے سے محروم ہو جاتے اور PTI جیسے Cult فالورز اسی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں.


"‏جیسے عمران خان کہہ رہا ہے کہ ان کی لائف ٹائم برانڈنگ میر صادق اور میر جعفر کی طرح کر دی جائے یہی چیزیں اور Extreme Thinking کسی بھی قسم کے Cult میں ممبران کے برین کی Horizontal اور Vertical میں کنکشن نہی رہتا اور انہیں مسلسل ایک خوف کی کیفئت میں رکھا جاتا ہے۔ جیسے بار بار کہا جاتا ہے ‏‏کہ عمران واحد امید ہے۔ امپورٹڈ حکومت۔ بیرونی ایجنٹ۔ حملہ وغیرہ تو ان کے سپورٹر کسی بھی عقلی اور استدلالی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ Cult ممبرز کی دماغی ساخت متاثر ہو جاتی. اسی لیے آپ کو پی ٹی آئی کے اکثر سپورٹر غیر معمولی جذباتی نظر آتے ہیں."


"‏اس کے علاوہ دو اور نفسیاتی عمل بھی اہم ہیں جو PTI جیسی جماعت، غیر ملکی ڈیٹا فرموں اور بہت بڑی فنڈنگ سے بہت ٹیکنیکل طریقے سے کرتے ہیں آئیے اس کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔


‏پہلی چیز Denial ہے. یہ بہت قدیم Psychological Mechanism ہے. ہم ایسی ہر ایسی چیز، ایسے ہر خیال کو ریجیکٹ کر دیتے جو ہماری بنیادی شناخت کو جھنجھوڑ دے۔ Cult کے جو اندھے فالورز ہوتے وہ ہر ایسی چیز کو فوری طور پر ریجیکٹ کر دیتے ہیں جیسے آڈیوز کو مکمل فیک یا ڈیپ فیک کہا جاتاہے.


‏مگر ایسے فالورز جو ابھی اندھی تقلید نہی کرتے ان کے لئے جو سٹریٹجیی بنائی جاتی اسے Cognitive Dissonance کہا جاتا ہے وہ غیر موافق مواد کو مکمل ریجیکٹ نہی کرتے ہیں بلکے ان کا رخ اسطرح موڑا جاتا جو ان کی سوچوں کے قریب ہو. جیسے ایک آڈیو پر کہا کہ یہ ٹکڑے جوڑے گے، یا صدر نے کہا ‏اگرچہ سازش نہی ہوئی مگر مجھے شک ہے اس کی تحقیق ہو، ایسے لوگوں کے لیے ہی ڈیپ فیک کی بات کی جا رہی ہے۔


‏Cognitive Dissonance کے تصور پر ماہرین نفسیات نے 1954میں اس بات کی تحقیق شروع کی جب لوگوں کے ایک گروپ میں یہ بات پھیل گئی کہ دنیا 21دسمبر کوسیلاب سے ختم ہو جائے گی مگر ایک خلائی جہاز ان کو بچا کر لے جائے گا مقررہ دن پر جب نا سیلاب آیا نا جہاز تو بجائے ان لوگوں کو یہ یقین آتا ‏کہ یہ جھوٹ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ لیڈر کو کوئی Communication ٹھیک سے موصول نا ہوئی ہو. یہیں سے ماہرین نے Cognitive Dissonance کی اصطلاح متعارف کروائی. آپ کو PTI اسپورٹر بھی نیا پاکستان، کروڑوں نوکریوں وغیرہ پر ایسے ہی Cognitive Dissonance کا شکار نظر آتے ہی۔


‏یہ سب اسی لیے کرتے تاکہ وہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے سے بچ جائیں کہ جس سیاسی نظریے پر انہوں نے اتنا انویسٹ کیا اتنی محنت کی وہ حقائق سے مختلف اور غلط ہے۔ اربوں روپے کی انویسٹمنٹ سے یہ سیاسی ماڈل بنوایا گیا اور اسے سائنسی بنیادوں پر اس ملک کے عدم استحکام کے لیے لانچ کر دیا گیا ۔"


"‏یہ ساری تحقیقات لکھنے کا مقصد یہ کہ ایک تو ہم سائنسی اور علمی  طور پر اس مسلۂ کو سمجھ سکیں دوسرا پالیسی ساز ادارے اور سیاسی جماعتیں اس  کی سائنسی بنیاد سمجھتے ہوئے اس کے توڑ کا سوچیں جس طرح یہ جنون اب بیرون ممالک میں پھیلا اور اندرون ملک تقسیم ہوئی وہ پاکستان کے لیے خطرناک ہے."


تقسیم اور نفرت کا خمیازہ یہ قوم پہلے ہی بھگت چکی ہے اور میرا نہیں خیال کہ اس ملک میں مزید ایسے بیانئے کو پنپنے دیا جائے گا جس سے تقسیم اور نفرت کو ہوا ملے اور کوئی بڑی خلیج یا فالٹ لائن پیدا ہو۔ 


اس جھوٹے بیانئے کا واحد علاج سچ ہے۔ جب جھوٹ تواتر سے اور پر اعتماد ہو کر بولا جائے تو ضروری یو جاتا ہے کہ سر پر منڈلاتے فتنے کے علاج کیلئے سچ کو سامنے لایا جائے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا ٹرائل میں جو اندرونی کردار ہیں انہیں بے نقاب کیا جائے   اور جو جو اسپن ڈاکٹرز ہیں ان کو عوام کے سامنے لایا جائے۔

Wednesday, October 26, 2022

بیانئے کی جنگ کا شکار جنریشن نیکسٹ


(حصہ اول)


آبادی کے چالیس سال سے کم عمر کے حصے کے لیے امریکا اور یورپ میں ’ملینیلز‘ (Millennials) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی ایسے افراد جو 1980ء، 90ء یا موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں پیدا ہوئے۔


1980 کی دہائی کے اوائل سے 1990 کی دہائی کے وسط تک شرح پیدائش میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اور 

ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹے خاندانوں کی طرف رجحان بڑھا۔ ماہر نفسیات جین ٹوینگے نے اپنی 2006 کی کتاب جنریشن می: کیوں آج کے نوجوان امریکی زیادہ پراعتماد، جارحانہ، حقدار - اور پہلے سے کہیں زیادہ دکھی ہیں میں اس جنریشن  کو "جنریشن می" کے طور پر متعارف کرایا، جبکہ 2013 میں ٹائم میگزین نے کور سٹوری کا عنوان رکھا:


Millennials - The Me Me Me Generation


اس ایج گروپ کو مختلف نام دئے جاتے ہیں جن میں نیٹ جنریشن، جنریشن 9/11، جنریشن نیکسٹ، اور دی برن آؤٹ جنریشن شامل ہیں۔


یہ نسل موبائل فون اور گوگل کو اپنی معلومات کا مرکز سمجھتی ہے۔


مائیکروسافٹ کے 2015 کے مطالعے کےمطابق 18 سے 24 سال کی عمر کے 77 فیصد جواب دہندگان نے اس بیان کے لیے ہاں میں کہا، "جب کوئی چیز میری سمجھ میں نہیں آ رہی، تو میں سب سے پہلے اپنے فون تک پہنچنا ہوں"، جبکہ 65 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے یہ شرح صرف 10 فیصد تھی۔ 


تاریخ سے بے خبری اور لاتعلقی کا یہ عالم کہ فروری 2018 کے 1,350 افراد پر کیے گئے سروے سے پتا چلا ہے کہ سروے کیے گئے 66% امریکی میلینیلز (اور تمام امریکی بالغوں میں سے 41%) یہ نہیں جانتے تھے کہ ہولوکاسٹ کیا اور کیسے ہوئی، 22% نے کہا کہ انہوں نے ہولوکاسٹ کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔ 95% سے زیادہ امریکی میلینیلز اس بات سے بے خبر تھے کہ ہولوکاسٹ کا ایک حصہ بالٹک ریاستوں میں ہوا، جس نے اپنی 90% سے زیادہ جنگ عظیم سے پہلے کی یہودی آبادی کو کھو دیا، اور 49% جرمن زبان میں کسی ایک نازی حراستی کیمپ یا یہودی بستی کا نام لینے کے قابل بھی نہیں تھے۔  تاہم، سروے میں کم از کم 93% کا خیال تھا کہ اسکول میں ہولوکاسٹ کے بارے میں پڑھانا ضروری ہے اور 96% کا خیال تھا کہ ہولوکاسٹ ہوا تھا۔


یو گورنمنٹ ("YouGov") سروے سے پتا چلا کہ 42% امریکی میلینیلز نے ماو زے تنگ کے بارے میں کبھی نہیں سنا، جس نے 1949 سے 1976 تک چین پر حکومت کی۔ مزید 40% چی گویرا سے ناواقف نکلے


مصنفین Reynol Junco اور Jeanna Mastrodicasa نے William Strauss اور Neil Howe کے کام کو آگے بڑھایا تاکہ میلینیلز کی شخصیت کے پروفائلز کے بارے میں تحقیق پر مبنی معلومات کو شامل کیا جا سکے۔ انہوں نے کالج کے طلباء کا ایک بڑے نمونہ (7,705) تحقیقی مطالعہ کیا۔ انہوں نے پایا کہ نیٹ جنریشن کالج کے طلباء، جو 1982 کے بعد پیدا ہوئے، زیادہ شرح پر ٹیکنالوجی کے استعمال کے عادی تھے۔ اپنے سروے میں، انہوں نے پایا کہ ان طلباء میں سے 97% کے پاس کمپیوٹر، 94% کے پاس موبائل فون اور 56% کے پاس MP3 پلیئر تھا۔


آئیے ڈیٹا سے نکلیں اور آپ کو جنریشن نیکسٹ کے بارے میں ماہرین سماجیات اور نفسیات کی متفقہ رائے   بتائیں۔


ماہرین نفسیات و سماجیات اس نسل کی جو خصوصیات بیان کرتے ہیں اس میں نرگسیت، سطحی پن، اختلاف رائے پسند نہ کرنا، خود کو ہمیشہ درست سمجھنا اور غمگساری اور احساس کی کمی نمایاں ہیں۔ وجہ اس کی وہ یہ بتاتے ہیں کہ کمپیوٹر کے استعمال سے ملینیلز کو دماغی ریاضت اس طرح نہیں کرنا پڑی جس طرح ان سے پہلے والی نسلوں کو کرنا پڑتی تھی اور پھر سوشل میڈیا کے ذرائع مثلاً فیس بک، ٹویٹر اور انسٹا گرام نے ’منی سلیبرٹی کلچر‘ کو جنم دیا ہے جہاں لوگوں کو یہ خبط رہتا ہے کہ ان کے سٹیٹس اپ ڈیٹ کو کتنے لائیکس ملے ہیں اور یہ جاننے کے لیے وہ بار بار اپنے فون یا ٹیبلٹ کی سکرین کو دیکھ رہے ہوتے ہیں


اسی طرح اپنی مصروفیات بارے تصویری ’خبرنامہ‘ لمحہ بہ لمحہ نشر کرنا بھی ایک ضروری عمل ہے۔ ہر وقت سوشل میڈیا پر جمے رہنے کی وجہ سے یہ عمومی طور پر اپنے ہم عمر افراد کے ساتھ ہی مصروف تفاعل ہوتے ہیں اور وہ بھی بالمشافہ نہیں بلکہ (بذریعہ) وائی فائی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دانش کے حصول کے لیے بڑے بوڑھوں کے ساتھ میل جول اور پرانی چیزوں بارے علم ضروری ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ٹین ایجر ٹین ایجر سے ہی اکتساب حاصل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے خیالات کی پختگی انحطاط کا شکار ہے۔ اور اس طرح وہ ایکو چیمبرز کا شکار ہو رہے ہیں 


امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ایک جائزے کے مطابق 20 سے 30 سال کی عمر کے افراد میں نرگسیت اور اس سے جڑے ذہنی مسائل کا شکار ہونے کا امکان 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح ایک اور امریکی ادارے نیشنل سٹڈی آف یوتھ اینڈ ریلیجن کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 60 فیصد ملینیلز کا خیال ہے کہ جو وہ ’محسوس‘ کرتے ہیں وہی حقیقت ہے۔


ملینیلز کو ان کی نازک مزاجی اور شدید جذبہ حقداری کی وجہ سے طنزاً ’جنریشن سنو فلیک‘ یعنی برف کے گالے کی طرح نازک نسل بھی کہا جاتا ہے۔

جن سیاسی و سماجی مقاصد کو یہ عزیز جانتے ہیں سوشل میڈیا پر اس کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے۔ اختلاف کرنے والے پر یہ جتھوں کی شکل میں ٹویٹر اور فیس بک پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ لیکن اکثریت صرف ’کی بورڈ جنگجو‘ ہے۔


لیکن ملینیلز میں صرف برائیاں ہی نہیں ہیں۔ امریکا اور یورپ کی یہ جنریشن رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پر تفریق کے خلاف مضبوط آواز ہے اور سماجی انصاف کی علمبردار بھی۔


2008ء کے مالی بحران کے بعد وال سٹریٹ کے باہر احتجاجاً ڈیرہ ڈالنے والوں کی اکثریت ملینیلز پر مشتمل تھی۔ یہی جنریشن امریکا میں سوشلسٹ برنی سینڈرز کی حمایتی تھی اور برطانیہ میں جیریمی کوربن کی۔ ان کے اسی رحجان کی وجہ سے امریکی اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ ان سے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔


گلوبلائزیشن اور سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کےعوام میں ترقی یافتہ مغربی سماج بارے آگاہی میں تیزی سے اضافہ کیا ہے جس سے وہاں کے ملینیلز میں اپنے معروضی حالات کا احاطہ اور مغربی معاشروں کے سیاسی و جمہوری کلچر کو سمجھے بغیر ایک ہی جست میں امریکا اور برطانیہ بننے کی تڑپ نے جنم لیا ہے۔ آج کا پاکستان اس رویے کی ایک بڑی مثال ہے۔


پاکستانی ملینیلز پہلی دفعہ کسی احتجاجی مہم کا حصہ اس وقت بنے جب جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک چل رہی تھی۔ ان کے لیے ملک کی سیاسی تاریخ کاآغاز بھی چیف جسٹس بحالی تحریک سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے سیاسی جماعتوں اور عوام نے فوجی آمریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے جو قربانیاں دیں ہمارے ملینیلز اس بارے میں نا ہونے کے برابر علم رکھتے ہیں۔


چیف جسٹس بحالی تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں ایک ایسا سیاسی ہجوم سامنے آیا جس میں اکثریت ایسے شہری طبقوں کی تھی جو پہلے سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے، اور ان میں نمایاں تعداد ملینیلز کی تھی جو اپنے مغربی ہم عصروں کی طرح سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تھے۔


ملینیلز میں جو ذرا بڑے ہیں انہوں نے جب آنکھ کھولی تو بے نظیر اور نواز شریف کو ایک دوسرے خلاف لڑتے دیکھا اور جو کم عمر ہیں انہوں نے مشرف دور میں بنکوں کے پھیلاؤ اور اس کے نتیجے میں کنزیومر فنانسنگ سے ہونے والی مصنوعی معاشی ترقی کی جھلک دیکھی اور پھر جسٹس بحالی تحریک کی کامیابی۔ اس طرح یہ نسل پرانے سیاستدانوں سے خائف اور جھٹ پٹ ترقی کی خواہاں کے طور پر سامنے آئی۔


مغربی ملینیلز کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہاں طاقت بڑے مالی اداروں، بنکوں اور کارپوریشنز کے پاس ہے اور وہ ان کی بے رحمانہ منافع خوری سے نالاں ہیں، اس لیے وہ سوشلسٹ نظریات کا پرچار کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں جو ناجائز منافع خوری کو لگام دینے اور عوام خدمت کے اداروں کو قومیانےکی بات کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ یا مستقل حکمران فوج کا ادارہ ہے جسے اپنے عزائم میں عدلیہ اور بیوروکریسی کا ہمیشہ تعاون حاصل رہا ہے۔ آپ سوال اٹھائیں تو اگلے ہی لمحے غدار اور دشمن کے ایجنٹ قرار دے دیے جائیں گے۔ دوسرا ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کے پاس سیاستدانوں کی شکل میں نشانہ بازی کے لیےایسے اہداف موجود ہیں جن کی طرف عوامی غیض و غضب کا رخ میڈیا منجمنٹ کےذریعے بڑی آسانی سے کر دیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس بحالی تحریک کا سٹیرنگ وہیل جس کے ہاتھ میں تھا اس نے ملینیلز سمیت سیاسی کارکنوں کی نئی کھیپ کو 2011ء میں کرکٹر عمران خان کے پیچھے کھڑا کردیا۔

عمران خان جو دس بارہ سال سے سیاسی قسمت آزمائی میں لگے ہوئے تھے وہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ترین سیاستدان بن گئے۔


پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کمال ہوشیاری سے ملینیلز کو اپنے مہرے عمران خان کی مدد سے اسٹیبلیشمنٹ نواز بنایا۔ سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کا دفاع عمران خان کے حامیوں کی رضا کارانہ ذمہ داری تھی۔

پاکستانی ملینیلز اپنے مغربی ہم عصروں کی طرح جنریشن سنوفلیک تو ہیں جس میں نرگسیت، جذبہ حقداری کی شدت، اختلاف رائے برداشت نہ کرنا، اپنے اپنے سوشل میڈیا بلبلوں(سوشل میڈیا ببلز)  میں مشہور ہونے کا جنون اور جذباتی طور پر نازک ہونا جیسے مشترک خواص پائے جاتے ہیں، لیکن ان کے دماغ مخصوص بیانئے کا تالہ لگا کر بند کردیے گئے ہیں۔ مغربی ترقی پسند ملینیلز کے مقابلے میں ہمارے ملینیلز کو رجعت پسندی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ لیکن یہیں انہیں یہاں تک پہنچانے والے پلان بی بنانا بھول گئے۔ انہیں عمران خان کے حوالے کرنے والوں سے چوک یہ ہوئی کہ اگر عمران خان ان کے مدمقابل ہوں تو اس صورتحال کو کس رخ موڑنا ہے اور اس پوری بریڈ کو  اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے سے کیسے روکنا ہے۔  نتیجتا آج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہونے والے سیاستدانوں کو گالیاں دلواتے دلواتے اب خود گالیاں کھا رہے ہیں


(جاری ہے)

Tuesday, October 25, 2022

کل اور آج

 

اظہر عباس


یہ 1979 کے موسم سرما کا آغاز تھا۔ میں نویں کلاس کا طالب علم اور والد گرامی اپنے کسی سرکاری کام کے سلسلے میں لاہور جانے لگے تو ضد کر کے ساتھ ہو لیا۔ 2 یا 3 دن کا پروگرام تھا اور لوہاری گیٹ کی طرف سے انارکلی کے آغاز میں ہی واقع نعمت کدہ ہوٹل میں رہائش۔ ان دنوں نعمت کدہ ہوٹل ایک اچھا، صاف ستھرا اور پر آسائش ہوٹل سمجھا جاتا تھا۔ سرکاری ملازمین اور لاہور سے باہر سے آئے زمینداروں کا پسندیدہ۔ کیونکہ ایک تو انارکلی کے قریب اور دوسری مارکیٹس قریب تر  اور دوسرا سیکریٹیریٹ بھی چند لمحات کے فاصلے پر۔ ٹانگے عام سواری۔ والد صاحب جب بھی لاہور آتے تو یہیں قیام ہوتا۔ دن میں والد صاحب سیکریٹیریٹ اپنے کام میں مصروف رہتے اور سہ پہر اور شام میں ہمیں سیر کراتے یا چھوٹی موٹی شاپنگ۔ ہال روڈ ان دنوں بھی الیکٹرانکس کا مرکز تھا اور اس شام ہمیں اپنے ٹی وی کیلئے نئے انٹینا لینے ہال روڈ جانا تھا۔ مارشل لا کا دور تھا۔ بھٹو شہید کو عدالتی شہید کئے کچھ ہی ماہ گزرے تھے اور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ سماجی سرگرمیوں پر بھی سخت ضوابط عائد تھے۔ دوکانیں جلدی بند ہوا کرتیں اور مال روڈ شام گہری ہونے کے بعد زیادہ تر سنسان ہی رہتا۔ فوجی گاڑیاں اپنی آمدو رفت جاری رکھتیں۔ لیکن زیادہ ٹریفک نظر نا آتا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن ہم انارکلی سے ہال روڈ کیطرف گلیوں سے نکلے کہ شارٹ کٹ تھا ہلکی خنکی کا عالم تھا کہ ایک گلی میں اچانک ہلچل ہوئی۔ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے مال کی طرف گئے فضا جئے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھی اور نا جانے کہاں سے لوگ نکل کر اکٹھے ہو گئے۔ ایک کے ہاتھ میں پیٹرول کا کین تھا وہ اس نے اپنے اوپر چھڑکا اور ماچس کی تیلی کیا جلائی کہ پیٹرول نے آگ پکڑی اور اس کے بعد اس کے نعرے ہی میں نے سنے۔ پولیس اور فوج کے آتے آتے وہ خاصا جھلس چکا تھا۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ والد صاحب کی کوشش کے باوجود میں یہ مناظر نا صرف دیکھ پایا بلکہ میری یادداشت میں ہمیشہ کیلئے ایک یاد چھوڑ گئے۔ پتا نہیں کیسے وہاں سے نکلے اور ہوٹل پہنچے لیکن والد بہت افسردہ تھے۔ ساری رات جب بھی میری آنکھ کھلی انہیں جاگتے اور زیر لب کچھ پڑہتے پایا۔ 


مجھے یہ واقعہ پتا نہیں کیوں یاد آ گیا۔ شاید اس لئے کہ جب میں نے خان صاحب کی نا اہلی کے فیصلے والے دن انکے حامیوں کا پولا پولا  احتجاج دیکھا۔ عبرت ناک بات یہ تھی کہ بزعم خود قائد اعظم کے بعد سب سے بڑے لیڈر کی نا اہلی پر احتجاج کیلئے فی شہر 100 بندہ بھی اکٹھا نا ہوا۔ بڑے شہروں میں چوکوں کو بند کر کے اور ٹائروں کو آگ لگا کے احتجاج کا تاثر دیتے ان کے فالوورز ٹائروں کی آگ بجھتے ہی تتر بتر ہو گئے۔ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے چوک میں صاحب حیثیت حامی جمع ہوئے، پکنک منائی اور جب تھک گئے تو اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ 


یہ اس صوبائی دارالحکومت کا احوال ہے جہاں ان کی حکومت ہے۔


ایسا کیوں ہے کہ ان کے کی پیڈ (Key Pad) وارئیرز باہر نکل کر خود کو آگ لگانے کی بجائے ایک ٹائر جلانے اکتفا کر گئے ؟ 


آسان جواب ان کے حامیوں میں میلینلز کی اکثریت اور ان کی نفسیات میں پنہاں ہے جس پر آئیندہ کالم میں تفصیلی روشنی ڈالوں گا۔ انشااللہ۔

Tuesday, October 18, 2022

بائیڈن نے کیا غلط کہا ؟

اظہر عباس 

 "اتحاد، تنظیم، یقین محکم"

ایمان، اتحاد، نظم و ضبط پاکستان کا قومی نصب العین ہے۔ اسے پاکستان کی قومیت کا رہنما اصول سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد، اسے ملک کے بانی محمد علی جناح نے قومی نصب العین کے طور پر متعارف کرایا اور اپنایا۔ یہ ریاستی نشان کی بنیاد پر اردو میں کندہ ہے۔ جناح نے اسے اپنی زندگی کی ذاتی مثال سے جوڑا، اور اپنے وقت کے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام دیا۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان کے ابھرنے کے چار ماہ بعد 28 دسمبر 1947 کو قائد اعظم نے کہا: "ہم آگ سے گزر رہے ہیں: سورج کی روشنی ابھی آنی ہے۔ لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے ساتھ ہم دنیا کی کسی بھی قوم کے ساتھ موازنہ کریں گے۔ کیا آپ آگ سے گزرنے کے لیے تیار ہیں؟ آپ کو اپنا ذہن بنانا چاہیے۔ اب ہمیں انفرادیت اور معمولی حسد کو چھوڑ کر ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے کا ارادہ کرنا چاہیے۔ ہم خوف، خطرے اور خطرات کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط ہونا چاہیے۔" جناح نے ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کو بیان کرتے ہوئے بہت سے خطاب کئے۔ 23 مارچ 1945 کو انہوں نے کہا: "پاکستان میں ہماری نجات، دفاع اور عزت مضمر ہے... ہماری یکجہتی، اتحاد اور نظم و ضبط میں اس جنگ کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے طاقت، طاقت اور منظوری پوشیدہ ہے۔ کسی بھی قربانی کو بہت بڑا نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اس دنیا میں آپ کے اپنے ضمیر سے بھی بڑھ کر اور جب آپ خدا کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری دیانتداری، دیانتداری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کی۔" 11 ستمبر 1948 کو جناح نے اپنا آخری پیغام دیا: "آپ کی ریاست کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں اور اب یہ آپ پر ہے کہ آپ جلد از جلد تعمیر اور تعمیر کریں۔ پاکستان کو اپنے نوجوانوں پر فخر ہے، خاص طور پر طلباء، جو کہ کل کے قوم کے معمار ہیں۔ انہیں پوری طرح سے لیس ہونا چاہیے۔ خود نظم و ضبط، تعلیم اور تربیت کے ذریعے اپنے سامنے پڑے مشکل کام کے لیے۔ ایمان، نظم و ضبط، اتحاد اور فرض کے لیے بے لوث لگن کے ساتھ، کوئی بھی قابل قدر چیز نہیں ہے جسے آپ حاصل نہیں کر سکتے۔" قائد اعظم کے بعد جو بھی قائدین اس ملک میں برسر اقتدار رہے وہ اسی نصب العین کو سامنے رکھ کر چلے اور اگر اس کو سامنے نہیں بھی رکھا تو اسے پس پشت بھی نہیں ڈالا۔ لیکن دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آج کا پاکستان اس قومی نصب العین کی ترجمانی کرتا ہے ؟ کیا ہم میں ایک واضع دراڑ نہیں در آئی اور کیا یہ دراڑ ہر قومی ادارے میں موجود نہیں ؟ کیا اس ملک کے لوگ لکیر کے دو حصوں میں نہیں بٹ چکے ؟ کیا پاپولرازم کے گھوڑے پر سوار ہمارا ایک لیڈر اور اس کے پیروکار اس وقت ہر ادارے کو تہس نہس کرنے پہ نہیں تلے ہوئے ؟ خان صاحب ٹرمپ جیسی سیاست کرنے والے پاکستان کی تاریخ کے انتہائی منفرد سیاستدان نکلے ہیں۔ ایک بیانیہ بنایا اور مخالف سیاستدانوں کو کھلی گالیاں دیں، انھیں کرپٹ قرار دیا۔ ان کے لانے والوں اور چلانے والوں نے جمہوری اداروں کو اپنی انگلیوں پر نچایا۔ یہ ان کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے جس کا اعتراف انھوں نے اب کیا بھی ہے لیکن جتنی کرپشن و اقربا پروری انھوں نے کی، اس کی ان کو اجازت تھی، پنجاب انتہائی کم زور شخص کو دیا اور فرح گوگی نامی خاتون کو ڈیفیکٹو وزیر اعلیٰ بنا دیا جو خود بنی گالہ میں رہتی تھی۔ خان صاحب بیانیہ پر بیانیہ دیتے رہے۔ یوں کہیے سوشل میڈیا پر ان کا جیسے کنٹرول ہوگیا۔ وہ کسی بھی لحاظ سے کارکردگی دینے میں بالکل ناکام ہو گئے۔ لیکن آئین اور جمہوریت کی دھجیاں اڑا کر رخصت ہوئے۔ ان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے گئی، اس کو انھوں نے امریکی سازش قرار دیا۔ جو ان کے چاہنے والے تھے وہ اس طرح ان پہ اندھا یقین رکھتے تھے جس طرح ہندوتوا والے مودی سے، سفید فام قوم پرست ٹرمپ سے محبت رکھتے ہیں۔ امتیاز عالم صاحب اپنے کالم مورخہ 16 اکتوبر 2022 میں موجودہ خلفشار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "سیاسی لیڈروں میں تبدیلی آتی ہے، اچھی بھی بری بھی۔ لیکن عمران خان کی سیاست کے ضمیر میں کوئی صفتی تبدیلی واقع نہیں ہورہی۔ گھسی پٹی سیاست کو سطحی انقلابی نعروں سے مقبول تو کیا جاسکتا ہے، حقیقی جمہوری ، عوامی تبدیلی نہیں آسکتی۔ ایک پوری نسل ان کی ڈرٹی پالیٹکس کی نذر ہوچکی ہے جس کا کلچر اینٹی پالیٹکس ہے، جیسے شہری مڈل کلاس اور دیہات کے چوہدریوں کا ماسٹر بیانیہ ہمیشہ سیاستدان مخالف اور پرو اسٹیبلشمنٹ رہا ہے اور ہر آمر کو ان کی حمایت حاصل رہی ہے۔ یہ اینٹی پالیٹکس مڈل کلاس اب جمہوری دھارے کے خلاف عمران خان کے اتھارٹیرین کنزرویٹو پاپولزم کی حامی ہے، اوپر سے عمران خان کا شخصی کلٹ ہے جس کے مردوزن پروانوں کی کمی نہیں جو خان کی حکمرانی (khanate of Imran Khan) چاہتے ہیں خواہ کیسی ہی لیکس کپتان کے اخلاقی غبارے سے کتنی ہی ہوا نکالتی رہیں۔ عمران خان کی سیاست کا انداز فقط بیانیے کی حد تک جارحانہ نہیں، سماجی خلفشار اور خانہ جنگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔" ایک اور کام جو خان صاحب نے کیا ہے وہ مذہب کو جنرل ضیاء الحق کی طرح استعمال کرنا تھا۔ ان دس سالوں میں جمہوریت کو ناکام کرنے کے لیے جو عمران خان اور ہمنوائوں نے بیانیہ بنایا، مارکیٹ میں وہ بیانیہ آہستہ آہستہ اپنی افادیت کھو رہا ہے، لیکن اس ملک کو بہت نقصان بہرحال اس بیانیہ نے پہنچایا ہے، جس نقصان کی تلافی کے لیے ایک وقت درکار ہے۔ آیندہ دہائیوں میں دنیا بہت تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ ریاستوں پر بین الاقوامی قانون اور زیادہ اثر رکھے گا۔ یوں کہیے دنیا کی ہر ریاست کے لیے لازم ہوگا کہ وہ جمہوری طریقہ کار اپنائے وگرنہ بین الاقوامی رشتوں کے اعتبار سے اسے خاندان میں ساتھ نہیں بٹھایا جائے گا۔ ان حالات میں اگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے صدر بائیڈن ہمیں اتحاد کا درس دے تو ہمیں بڑا صدمہ نہیں ہونا چاہئیے۔ میں چونکہ صدر بائیڈن اور دوسرے عالمی لیڈرز کو مسلسل فالو کرتا ہوں کیونکہ ان کے بیانات سے ان کے ورلڈ ویو کا بہتر اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ باقی دنیا اور پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔ اسی طرح دنیا پر ان کی سوچ کے اثرات کی آگہی بھی مل جاتی ہے۔ تو میں نے ڈھونڈنا شروع کیا کہ اس نے کہا کیا ہے اور کہاں کہا ہے۔ پتا چلا کہ ان خیالات کا اظہار اس نے ایک پارٹی اجتماع میں دیا۔ وہ اجتماع دراصل اُن کی ڈیموکریٹک پارٹی کی کانگریشنل کیمپئن کمیٹی کا اجتماع تھا اس لحاظ سے یہ تقریب امریکی حکومت کی کوئی سرکاری تقریب نہیں تھی اور صدر بائیڈن کی شرکت اور خطاب ڈیموکریٹک پارٹی کی انتخابی کامیابی سے متعلق امور سے تھا جس میں صدر بائیڈن پارٹی لیڈر کے طور پر ایک پرائیوٹ رہائش گاہ پر شرکت کیلئے گئے تھے۔ اچھا اب الفاظ پر غور فرمائیں: ’’اور پاکستان میرے خیال میں شاید دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک ہے جس کے پاس کسی اتحاد کے بغیر جوہری ہتھیار ہیں‘‘۔ زور کس پر دیا "اتحاد" پر۔ اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا خان صاحب نے قوم کو منقسم نہیں کر دیا ؟ کیا انہوں نے اداروں کو تقسیم نہیں کیا ؟ یا جیسے کہ شہباز گل کے ذریعے سے ایک پیغام دیا گیا تھا اگر کوئی اس پہ کان دھر لیتا تو ؟ دنیا ہماری ہر موو پر نظر رکھتی ہے جیسے ہم ان پر۔ جب سے یہ سب علم میں آیا ہے سر پکڑے بیٹھا ہوں کہ بائیڈن نے کیا غلط کہا ؟

Monday, October 17, 2022

حَسْبُنَــــا اللّٰهُ وَنِعْــــمَ الْوَكِيْلُ

انسانوں کی دنیا میں محرومی سے بڑی کوئی آفت نہیں اور خدا کی دنیا میں محرومی سے بڑی کوئی نعمت نہیں۔ یہ بات پڑھنے والوں کو شائد ایک مذاق لگے- مگر بلاشبہ یہ سب سے بڑی حقیقت ہے۔ انسانی دنیا میں محرومی کو کوئی پسند نہیں کرتا۔ اس لیے کہ محرومی کا مطلب دکھ، تکلیف، مایوسی، معذوری، بدحالی اور دوسروں سے پیچھے رہ جانا ہوتا ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ محرومی اس دنیا میں ناگزیر طور پر پائی جاتی ہے۔ ہر شخص زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر محرومی سے گزرتا ہے۔ چھوٹی اور بڑی- عارضی اور مستقل- اپنی اور دوسروں کی محرومی۔ زندگی گویا کہ محرومی کی داستان سے عبارت ہے۔ لوگ مال سے، طاقت سے- صحت سے- تحفظ سے اور متعدد دیگر چیزوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان جتنی خواہشات کرسکتا ہے اتنی ہی محرومی کی قسمیں گنوائی جاسکتی ہیں۔ یہ محرومی انسانوں کو بدقسمتی لگتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان چاہے تو اس محرومی کو دنیا کی عظیم ترین طاقت میں تبدیل کرلے۔ دراصل اس دنیا میں انسان کو سب کچھ رب کی عطا ہی سے ملتا ہے۔ ایسے میں کوئی بندہ اگر ابر کرم کی اس برسات میں محروم رہ جائے تو اس پر ایک عظیم ترین دروازہ کھل جاتا ہے۔ یہ دروازہ خدا تک براہِ راست رسائی کا دروازہ ہے۔ یہ پروردگار کے قرب کا دروازہ ہے۔ یہ دروازہ بڑی سے بڑی عبادت- انفاق حتیٰ کہ شہادت کے بعد بھی کھلوانا آسان نہیں۔ اس لیے کہ ہر عمل کو احتساب کے خدائی آپریشن سے گزرنا ہوگا جس میں نیت، خلوص اور محرکات کو پرکھا جائے گا۔ لیکن محروم آدمی صرف اپنی محرومی کی وجہ سے اس آپریشن سے نہیں گزارا جائے گا۔ اس کی محرومی اور اس کا صبر ہر قربانی کا نعم البدل بن جائے گا۔ اس کے گناہوں کے لیے مغفرت کا پروانہ ہوگا اور نعمتیں دیتے وقت رحمت کے لامحدود پیمانے سے اسے دیا جا ئے گا۔ محرومی خدا کی قربت کا راز ہے۔ وہ خدا جس کے ہاتھ میں آسمان اور زمین کے خزانے اور ان کی بادشاہی ہے۔ جس شخص نے اس راز کو جان لیا اس کی محرومی اس کی عظیم ترین راحت بن جائے گی۔ ہماری زندگی میں پریشانیاں، غلط فہمیاں، نقصان اور مصیبتیں آتی ہیں۔ جن کو بھول کر آگے بڑھنا چاہیے۔کیونکہ یہ وہ بوجھ ہوتے ہیں۔ جو ہماری رفتار کم کر دیتے ہیں۔ ہماری مشقت بڑھا دیتے ہیں۔ ہمارے لیے نئی مصیبتیں اور پریشانیاں لے کر آتے ہیں۔ ہم سے مسکراہٹ چھین لیتے ہیں۔ آگے بڑھنے کا حوصلہ اور چاہت ختم کر ڈالتے ہیں۔ ادھوری خواہشوں کے پورے ہونے کا انتظار- جاگتی آنکھوں سے دیکھے گئے خوابوں کا انتظار- معجزے کا انتظار- کسی اپنے پیارے کے واپس لوٹنے کا انتظار- مانگی ہوئی دعاؤں کے پورے ہونے کا انتظار- اللہ کے کُن کا انتظار ! یہ انتظار تھکا دیتا ہے- توڑ دیتا ہے- اندر سے خالی کر دیتا ہے- دل کو بجھا دیتا ہے. اس تھکے ہوۓ وجود کو سمیٹھنا بہت مشکل ہوتا ہے. پھر مزید ہمت نہیں رہتی دوبارہ اُٹھنے کی. یہی وہ وقت ہوتا ہے جو انسان کو عاجز بناتا، دل میں نرمی پیدا کرتا، غرور، تکبر، اَنا، سب کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ جب ساری دنیا بےکار، ناکارہ، فارغ، ناکام سمجھ کر چھوڑ دیتی ہے. لوگوں کے رویوں سے تنگ آ کر جب بندہ اللہ سے کہتا ہے، میرے رب اب میں تھک چکا ہوں- تب اللہ کہتا ہے- غم نا کرو- میں تمہارے ساتھ ہوں. اللہ کی رحمت سے مایوس نا ہونا- پھر ساری تکلیفیں- اذیتیں- مشکلیں- مانند پڑ جاتی ہیں. تب صبر کا سفر شروع ہوتا ہے. پھر میرا رب کہتا ہے۔ خوشخبری سُنا دو میرے ان بندوں کو بے شک میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں. (القران) اس لیے اپنی پریشانیوں، مصیبتوں اور نقصانات کو بھولنا سیکھیں۔ اور آگے بڑھ جائیں۔ نئی منزلیں خوش آمدید کہیں گی۔ پریشانیاں ہر ایک کی زندگـی میں موجـود ہیں- کوئی بھـی ایک مکمـل پرفیکٹـــ زندگی نہیـں گزار رہا۔ بس فرق وہـــاں پہ آتـا ہـــے جب انســـان اپنے معاملات اللہ کـــے حوالے کرتـــا ہے اور مطمئن ہوجاتـــا ہے اور کہتـــا ہے- حَسْبُنَــــا اللّٰهُ وَنِعْــــمَ الْوَكِيْلُ

خدائی فوجداری

مندرجہ ذیل واقعہ نائجیریا میں پیش آیا لیکن پہلے آپ کو چور اور ڈاکو کا فرق سمجھائیں آئین کے مطابق ملک خداداد کا اقتدار اعلی اللہ کی امانت ہے اور عوام کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے نمائندے منتخب کر کے انہیں اس امانت کو استعمال کر کے ملک اور معاشرے کا نظم و ضبط چلائیں اور عوام کی خدمت کریں۔ اگر وہ نمائندے اس اختیار میں خیانت کریں تو عوام کا ہی یہ حق ہے کہ وہ ان سے جواب دہی کریں، انہیں اقتدار سے الگ کر دیں، ان کا احتساب کریں۔ اس مقصد کیلئے مختلف ادارے بنائے جاتے ہیں جو اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مجرموں کو سزا دیتے ہیں۔ جج، پراسیکیوٹر اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جج کی مدد کرتے ہیں اور اگر اسلامی قانون شہادت کی مدد سے الزام ثابت نا ہو سکے تو ملزم کو رہائی ملتی ہے ورنہ وہ مجرم کی حیثیت سے سزا پاتا ہے۔ اس پراسس سے بھی کوئی بچ جائے تو اللہ کی عدالت موجود ہے اور وہ اپنی ملکیت میں خیانت کرنے والے کو خود ہینڈل کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے کئی قوموں کی مثالیں دی ہیں جو اس کی امانت میں خیانت کی وجہ سے رسوا اور معدوم ہوئیں۔ قوم عاد و ثمود کو تو بہت بڑی مثال سمجھ لیں۔ تاریخ بھی بھری پڑی ہے ان تباہئیوں کے قصوں سے اور سب سے بڑی مثال تو آپ کی اپنی ہے کہ جب آپ نے انصاف نا کیا تو ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ یہ جو آپ لوگوں کو شوق حکمرانی چراتا ہے اور آپ لوگ ہر وقت انقلاب کی تیاریاں کرتے اور سوچتے رہتے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ ایک خدائی فوجدار بننے کے درپے ہوتے ہیں اور اس کی سزا کیا ہے ؟ کیا آپ لوگوں کو یہ اختیار ودیعت کیا گیا ہے ؟ عبرت ناک انجام سے بھی دوچار ہوتے ہیں لیکن باز نہیں آتے خیر آپ کے منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے واقعہ دج ذیل ہے۔ انجوائے کریں اطلاعات کے مطابق ستمبر کے پہلے ہفتے میں مسلح ڈاکوؤں کے ایک منظم گروہ نے ایک چور کو گرفتار کرکے ایک انوکھی مثال قائم کردی- نائیجیرین میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق کتسینا نامی ریاست کے ایک گاؤں میں مسلح ڈاکوؤں کے ایک جتھے نے درمیانی عمر کے ایک چور کو گرفتار کرلیا اور اس کے قبضے سے لوہے کے راڈ اور پائپ برآمد کئے جو وہ مختلف ویران پڑے گھروں سے چراکر جمع کرلیتا تھا- یہ گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی جب ڈاکوؤں کی یہ جماعت موٹر سائیکلوں پر سوارہو کر علاقے کا گشت کررہی تھی- ڈاکوؤں نے چور اور اس سے برآمد شدہ مالِ مسروقہ کی پہلے علاقے بھر میں نمائش کروائی جس کے بعد اسے گاؤں کے عہدیدار کے حوالے کردیا گیا- اطلاعات کے مطابق ڈاکوؤں نے عہدیدار کو سخت تاکید کی کہ چور کو قانون کے حوالے کرکے اسے قرار واقعی سزا دلائی جائے- اس واقعے کی جو ویڈیو منظرعام پر آئی ، اس میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلح ڈاکوؤں نے چور کو رسی سے باندھا ہوا ہے اور اسے وہ گاؤں کے سربراہ کے سامنے پیش کررہے ہیں جس دوران وہ اور گاؤں کا سربراہ دونوں گردن جھکائے بڑی نیازمندی سے ڈاکوؤں کی باتیں سن رہے ہیں- ایک اور اخباری رپورٹ کے مطابق ڈاکوؤں نے چور کی مجرمانہ سرگرمیوں پر انتہائی غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ: ’’کیا تم کو معلوم نہیں کہ چوری کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے؟ تم خوش قسمت ہو کہ ہم تمہیں حکام کے حوالے کر رہے ہیں ورنہ مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں ہم تمہیں قتل بھی کرسکتے تھے‘‘- اپنی قوم کے وسیع تر مفاد اور اپنے فرائض کا احساس کرتے ہوئے ڈاکوؤں نے بقول نائیجیرین آن لائن نیوز پورٹل پی آرنائیجیریا، بعد میں خود ہی چور کو اعلیٰ سیکورٹی حکام کے حوالے کردیا- مگر نیوز پورٹل کے مطابق یہ واضح نہیں ہوسکا کہ چور کی حوالگی کے دوران کیا یہ ڈاکو بھی گرفتار کئے جاسکے کہ نہیں مگر اس سوال کا جواب شاید عام لوگوں کو پہلے سے ہی معلوم تھااور اس کے ضمن میں کئی نائیجیرین باشندوں نے سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے کئے- ایک تبصرہ نگار نے لکھا کہ اس واقعے سے ڈاکوؤں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان قائم ورکنگ ریلیشن شپ کی نوعیّت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے- ایک اور شخص نے لکھا کہ ’’ایسا بھی ایک ملک موجود ہے جہاں درجہ اول کے مجرموں نے ایک معمولی چور کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کردیا-‘‘ ڈانجو میزا نامی ایک صارف نے لکھا کہ دنیا میں آپ کہیں حیران ہوں یا نہ ہوں مگر نائیجیریا آپ کو ضرور حیران کردے گا-

ہائبرڈ رجیم اور پراجیکٹ عمران

اگر آپ کو مشہورِ زمانہ ناول نگار چارلس ڈکنز کا تاریخی ناول A Tale Of Two Cities پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو تو دیکھئے گا کہ اس میں فرانس کی حالات زار کی کیا منظر نگاری کی گئی ہے۔ تاریخ کا بد ترین زمانہ جہاں حماقتوں کا عروج، بے اعتباری بے اعتقادی، بے یقینی نے پنجے گاڑرکھے تھے۔ مایوسی، نا اُمیدی اور نامرادی گھر گھر موجود تھی۔ خان کے دور کا پاکستان بھی ایسا ہی تھا۔ اب آتے ہیں پراجیکٹ عمران کی جانب جو 2014 میں شروع ہوا۔ اس سے وابستہ افراد کا ایک گول تھا کہ ایک ایسی تیسری قوت کو ابھارا جائے جو باقی دو کو چیلنج کرے اور اسے ملکی معاملات میں فلکرم کے طور پر استعمال کیا جائے۔ سامنے اسے رکھ کر کٹھ پتلی کی طرح استعمال کیا جائے اور اس کے پردے میں حکومت چلائی جائے۔ یہ ماڈل وہ شوکت عزیز کے دور میں ٹرائی کر چکے تھے اور اب اسے ملکی سیاست میں ایک نئے ماڈل کے طور پر لانا مقصود تھا۔ اس میں فار رائٹ نظریہ کے لوگ بھرتی کئے گئے، فار رائٹ لوگوں کو اس کے ساتھ کھڑا کیا گیا اور اسے کھڑا کرنے کیلئے اس کے پلڑے میں پورا زور ڈال دیا گیا۔ بدقسمتی سے درج ذیل چیزوں کو انہوں نے اگنور کر دیا: 1۔ عمران کا ذاتی کردار اور ذاتی لابی کے تعلقات (ان کا خیال تھا کہ انڈین اور یہودی لابی سے اس کے تعلقات کا فائدہ ملے گا۔ جب کہ اس لابی نے اسے استعمال کیا اور کر رہی ہے) 2۔ آنے والے وقت میں دنیا کے معاملات میں بدلاو 3۔ پراجیکٹ سے وابستہ افراد کے ذاتی معاملات اور انکی خواہشات 4۔ پلان بی/ سی کا عدم وجود (شاید پراجیکٹ والوں کی خود پر اعتماد کی زیادتی کہ ہم ہر حالات میں کنٹرول کر ہی لیں گے) 5۔ ایگزٹ پلان اب ہوا یہ کہ خان صاحب کو تو انہوں نے سامنے لا کھڑا کیا لیکن اس کی ذاتی نفسیات سے بے خبری کی وجہ سے مار کھا گئے۔ خان صاحب کو جب وزیراعظم بننے کا احساس ہوا تو وہ اپنی ذاتی خواہشات کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ انکی ایگو اور انکی کینہ پروری سامنے آ گئی۔ سب سے پہلا وار وہ ایکسٹینشن تھی جو حسب پلان دی جانی تھی اور جس کا لیٹر بھی وہ ایشو کر چکے تھے لیکن نوٹیفیکشن کے ساتھ جو کچھ ہوا۔ جیسے الفاظ کے ساتھ کھیلا گیا اور معاملات جیسے سپریم کورٹ اور بعد ازاں پارلیمنٹ پہنچے اور جیسے اس کو انہیں خود سلجھانا پڑا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ نالائقی تھی ؟ قطعا نہیں۔ وہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر اپنے محسن کو اپنے شر کا شکار بنا رہے تھے خارجہ پالیسی میں جو بلنڈر ہوئے اور ملکی معاملات پر جس طرح کھلنڈرے انداز میں کھیلا گیا وہ تو ایک طرف لیکن اہم بات یہ تھی کہ تمام پروموشنز اور پوسٹنگز صرف ایک ہی جگہ تک محدود ہو کر رہ گئیں جس سے ادارے میں بھی بے چینی تھی کیونکہ پراجیکٹ عمران کے کرتا دھرتا اپنی ذاتی پروجیکشن اور پروموشنز/ پوسٹنگز کرا رہے تھے۔ کرونا کی وجہ سے ایک وقتی Pause آیا لیکن اس کے بعد جب ریکوری کا پراسیس شروع ہوا تو نالائقی اور کرپشن پر اناڑی پن سے پردہ ڈالنے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ بے چینی بڑھی۔ فیٹف کی وجہ سے ہمیں جو مشکلات تھیں ان کے حل بھی انہی کے پاس تھے اور ان کے حل کے دوران Paradigm شفٹ کا فیصلہ ہوا کیونکہ امریکہ شفٹ ہو رہا تھا۔ امریکہ میں نیوکونز کی جگہ ڈیموکریٹ لے رہے تھے تب ادھر بھی تبدیلی ہونی تھی اور پھر خان صاحب نے روایتی طور پر بم کو لات ماری اور لاہور کے گورنر ہاوس میں بڑے صاحب سے ملاقات کا احوال سنانے کے بعد کہا کہ میں نیچے والے کو اوپر لانے جا رہا ہوں۔ شاہ محمود یا چوہدری سرور سے یہ بات وہیں پہنچی جہاں تبدیلی کا کہا گیا تھا اور پھر نومبر کے واقعات تو آپ جانتے ہی ہیں۔ میں ان معاملات کی تہہ تک جولائی 2021 میں ہی پہنچ گیا تھا۔ اسے بلاگ کی شکل میں محفوظ کیا۔ لیکن ایک بات صاف کہنا بنتا ہے کہ اتنی جلدی میں بھی توقع نہیں کر رہا تھا جتنی جلدی خان صاحب نے بم کو لات ماری۔

تیل کی جنگ کے نئے حریف

جب 1974 میں سعودی شاہ فیصل اور امریکی صدر جانسن نے تیل کی قیمتوں کو ڈالر کے ساتھ منسلک کیا تو انہیں یہ تو اندازہ تھا کہ وہ پیٹرو ڈالر کے الحاق سے ایک تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں لیکن انہیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ پیٹرو ڈالر کی جنگ مستقبل میں انہیں ایک دوسرے کے متحارب بھی لا کھڑا کرے گی۔ تاریخی طور پر، تیل کی قیمت امریکی ڈالر کی قیمت سے الٹا تعلق رکھتی ہے۔ اس تعلق کی وضاحت دو معروف احاطوں پر مبنی ہے۔ دنیا بھر میں ایک بیرل تیل کی قیمت امریکی ڈالر میں ہے۔ جب امریکی ڈالر مضبوط ہوتا ہے، تو آپ کو ایک بیرل تیل خریدنے کے لیے کم امریکی ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب امریکی ڈالر کمزور ہوتا ہے تو تیل کی قیمت ڈالر کے لحاظ سے زیادہ ہوتی ہے۔ امریکہ تاریخی طور پر تیل کا خالص درآمد کنندہ رہا ہے۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ریاست ہائے متحدہ کا تجارتی توازن خسارہ بڑھتا ہے کیونکہ مزید ڈالر بیرون ملک بھیجنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی امریکہ کے اندر افراط زر اور نتیجتا مہنگائی۔ میں پہلے ہی لکھ چکا کہ بائیڈن کا امریکا اب اندرونی انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور مینو فیکچرنگ کو بڑھانے پر فوکس کرے گا جو کہ اس کا بنیادی الیکشن وعدہ تھا اور اس کے علاوہ وہ انفلیشن اور مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش بھی کرے گا۔ اس کا ہدف چائنا کے مقابلے میں مینوفیکچرنگ اپنے ملک میں لانا ہوگا تاکہ اپنے ملک میں روزگار بڑھا سکے۔ دوسری طرف افقی ڈرلنگ اور فریکنگ ٹیکنالوجی کی کامیابی کی وجہ سے، امریکی شیل انقلاب نے گھریلو (اندرون ملک) پیٹرولیم کی پیداوار میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا ہے۔ درحقیقت، امریکہ 2011 میں ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کا خالص برآمد کنندہ بن گیا، اور اب سعودی عرب اور روس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے خام تیل کا سب سے بڑا پروڈیوسر بن گیا ہے! سرفہرست تیل پیدا کرنے والے انرجی انفارمیشن اینڈ ایڈمنسٹریشن (EIA) کے مطابق، ریاست ہائے متحدہ اب توانائی کی کل کھپت کے لحاظ سے تقریباً 90 فیصد خود کفیل ہے۔ اوپیک پلس کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں استحکام کیلئے پیداوار میں کمی کے فیصلے کے بعد امریکا نے اوپیک سے ناراضی کا اظہار کیا تھا اور اب امریکی صدر نے سعودی عرب کے ساتھ امریکا کے تعلقات پر نظرثانی شروع کر دی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے امریکی ٹی وی کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ میرے خیال میں صدر بائیڈن کی رائے بہت واضح ہے کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان جو تعلقات ہیں ان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ طے کیا جا سکے کہ ہم مستقبل میں اُن کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وقت بہت اہم ہے، تعلقات پر نظرثانی ایسی بات نہیں جس پر وقت ضایع کیا جائے یا انتظار کیا جائے، ہم اس معاملے پر زیادہ انتظار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف یوکرین میں امریکی مفادات داؤ پر لگے ہیں بلکہ قومی سلامتی سے جڑے تمام تر امریکی مفادات کو نقصان ہو رہا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی چار ماہ کے مقابلے میں موجودہ وقت میں ایک بہت بڑی پالیسی تبدیلی ہے کیونکہ چار ماہ قبل تک بائیڈن سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں از سر نو تجدید چاہتے تھے اور ساتھ ہی وہ سخت بیانیہ مسترد کرتے ہوئے مزید دوستانہ رویہ چاہتے تھے جو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اختیار کر رکھا تھا۔ لیکن اب بائیڈن کی اپنی سیاسی جماعت نے انہیں مزید چوائس دینے سے انکار کر دیا ہے اور انہیں خلیجی شاہی مملکت کے ساتھ سخت بات کرنے کی تلقین کی ہے۔ ادھر یورپ میں توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران کے درمیان اشیائے زندگی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مظاہروں کی نئی لہروں نے حالیہ دنوں میں یورپ کو بھی متاثر کیا ہے، کیونکہ بہت سے لوگ اس بات پر ناراض تھے کہ ان کی حکومتیں یوکرین کے بحران پر روس پر پابندیاں لگانے میں امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ چھیڑ رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہفتے کے آخر میں، پیرس، برلن اور پراگ کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں نے "نیٹو کو چھوڑ دو" یا "پہلے ہمارے ملک" کے نعرے لگائے، جس کا تجزیہ کاروں نے کہا کہ اس نے ایک گہرے بحران کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا یورپ اب سامنا کر رہا ہے۔ فرانسیسی قوم پرست جماعت "لیس پیٹریوٹس" کی قیادت کرنے والے فلورین فلپوٹ کی طرف سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں، پیرس میں اتوار کو سینکڑوں مظاہرین نے "نیٹو چھوڑ دو" کے نعرے لگائے، فرانس کے قومی پرچم لہرائے اور بڑے بڑے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر "مزاحمت" اور "فریگزٹ" لکھا ہوا تھا۔ رپورٹس کے مطابق، مظاہرین نے نیٹو کی "جنگ کو فروغ دینے" اور اقتصادی "خلل" کی بھی مذمت کی جو ان پابندیوں سے منسلک ہیں جو یورپی یونین نے روس-یوکرین کے بحران پر روس پر عائد کی تھیں۔ جرمنی، چیک اور مالڈووا جیسے ممالک میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئے۔ جرمن میڈیا آؤٹ لیٹ ڈی ڈبلیو نے رپورٹ کیا کہ انتہائی دائیں بازو کی الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) پارٹی کے حامی ہفتے کے روز برلن کی ریخسٹاگ عمارت کے سامنے ملک میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے شریک رہنما نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی پر پابندیاں لگا کر اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ چھیڑ رہی ہے۔ ژنہوا نیوز ایجنسی نے بتایا کہ ہفتے کے روز پراگ کے وینسلاس اسکوائر میں کئی ہزار لوگ جمع ہوئے تاکہ زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر تشویش کا اظہار کیا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق، ملک کی بڑی ٹریڈ یونینوں نے مظاہرے کا اہتمام کیا، جس میں جمہوریہ چیک میں مہنگائی اور گرتے ہوئے معیار زندگی کی طرف توجہ دلائی گئی۔ اس کے علاوہ، مالڈووا میں حکومت کے خلاف مظاہرے ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری ہیں، سپوتنک نے اتوار کو کہا، کیونکہ توانائی کی قیمتوں کی وجہ سے ملک میں اقتصادی اور توانائی کا بحران مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ پیرس میں مقیم ایک چینی اسکالر سونگ لوزینگ نے پیر کو گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ فی الحال، یورپ کو بڑھتی ہوئی پاپولزم کا سامنا ہے، اور روس کے خلاف پابندیوں نے معاش کو گہرا نقصان پہنچایا ہے، جو پاپولزم کو مزید بڑھا دے گا اور ایک بڑا نظامی بحران بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ "روزی کے لیے عوامی مطالبے کو انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں بلدیاتی انتخابات میں استعمال کریں گی، جس سے مجموعی یورپی سیاسی نظام کو خطرہ ہو گا۔" یورپی ممالک سخت اور سخت سردی کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ روس یوکرائن کے بگڑتے ہوئے بحران اور نورڈ سٹریم پائپ لائنوں پر ہونے والے دھماکوں کے درمیان توانائی کا بحران مزید بڑھتا جا رہا ہے، جب کہ امریکہ یورپ کی معیشت کو مزید کمزور کرنے کے لیے توانائی کی بلند قیمتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق، مینوفیکچرنگ کی صنعتیں براعظم سے فرار ہونے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں، بڑے یورپی ممالک کے رہنما پراگ میں جمعہ کو ہونے والی ایک غیر رسمی سربراہی اجلاس کے دوران گیس کی قیمتوں میں کمی کے طریقہ کار پر اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہے، جس نے مقامی خاندانوں اور کاروباروں پر بھی سایہ ڈالا ہے۔ چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپریری انٹرنیشنل ریلیشنز کے ریسرچ فیلو سن کیکن نے پیر کو گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ "یہ تو صرف شروعات ہے۔" سن نے کہا کہ یورپی یونین اور نیٹو کی پالیسیاں اس سمت میں تیار نہیں ہو رہی ہیں جس سے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد مل سکے، لیکن مغربی ممالک بحران کے شعلوں کو بھڑکاتے رہتے ہیں، جس سے ایک شیطانی چکر شروع ہوتا ہے۔ اب یہ توانائی کا بحران ہے، اور اس کے بعد سلامتی کا بحران ہے، جو عوام میں خوف و ہراس پھیلاتا رہے گا۔" توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے اگلے ہفتے برسلز میں یورپی رہنماؤں کی ملاقات کے لیے مبصرین کا کہنا تھا کہ بحران کو روکنے کے لیے وہ بہت کم کر سکتے ہیں یہاں تک کہ فرانس اور جرمنی جیسے کچھ ممالک اپنے سپلائیرز کو متنوع بنانے کی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔ کچھ امریکہ سے بہت زیادہ قیمتوں پر توانائی خریدتے ہیں۔ اب، یورپی لوگ مصائب کا شکار ہیں، مستقبل میں، ان کی مینوفیکچرنگ اور صنعتوں کو نقصان پہنچے گا، کیونکہ بحران کے اثرات سے قومی مالیاتی محصولات کم ہوں گے اور سماجی فوائد کمزور ہوں گے، ان ممالک کی مجموعی مسابقت ختم ہو جائے گی، وانگ ییوی، انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر چین کی رینمن یونیورسٹی کے امور نے پیر کو گلوبل ٹائمز کو بتایا۔ انہوں نے کہا کہ بحران ایک طویل مدتی مسئلہ ہو گا۔ مثال کے طور پر، جرمن مینوفیکچرنگ سستی روسی توانائی استعمال کر سکتی تھی، لیکن اچھے پرانے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔ یورپی ممالک جیسے کہ چیک، فرانس اور جرمنی میں لوگ پہلے ہی ستمبر میں بڑھتے ہوئے اخراجات پر احتجاج کر چکے ہیں، کیونکہ زیادہ لوگوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ وہ خود اپنی حکومتوں کی "سیاسی درستگی" کی حکمت عملی کے لیے کڑوی گولی نگل رہے ہیں۔ سن نے کہا کہ اگرچہ احتجاج فی الحال سماجی مسائل کی عکاسی کرتے ہیں، لوگ یورپ کی سلامتی اور یوکرین کے بحران کے غیر یقینی مستقبل کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں، جو سیاسی مسائل میں تبدیل ہو جائیں گے جو یورپی رہنماؤں کے لیے ایک دھچکا ہے۔ "یورپی سیاسی اشرافیہ کو احتیاط سے غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ممالک کو کہاں لے جا رہے ہیں۔" یورپ، سعودیہ اور امریکہ میں کیا ہونے والا ہے اس کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے اس پر کسی کو ذیادہ غور کی ضرورت نہیں۔ امریکہ اپنی مینوفیکچرنگ کو بڑھائے گا۔ تیل کی قیمتوں کو اپنے کنٹرول میں رکھے گا تاکہ اس کے عوام بے روزگاری اور مہنگائی سے بچ سکیں کیونکہ جو بائیڈن یا ڈیمو کریٹس کے اگلے الیکشن کا دارومدار اسی پر ہے۔ روس یوکرائن سے دستبرداری کیلئے تیار نہیں کیونکہ اسے اپنے دل میں وہی خنجر پیوست نہیں کرانا جو عرب میں پیوست ہوا اور اب تک اس کا زخم رس رہا ہے۔ وہ اور امریکا لگتا ہے کہ یورپ کو اپنے حال پر چھوڑ چکے اور رہ گیا سعودیہ تو وہ کب تک امریکی دباو برداشت کرتا ہے یہ جلد ہی سامنے آ جائے گا۔

Friday, October 14, 2022

خان صاحب کی فرسٹریشن | اظہر عباس

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اپنے سیاسی کیریئر کے مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور ہر آنے والا دن ان کیلئے مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ عمران خان اپنے سیاسی مستقبل اور مقبولیت کے گرے ہوئے گراف کے حوالے سے انجانے خوف کا شکار ہیں۔ دراصل آڈیو لیکس نے ان کے سائفر بیانیہ کو تو دفن کیا ہی ساتھ ہی ان کے بہت سے حامیوں کو ان مایوسی ہوئی کہ کس طرح جھوٹ کی بنیاد پر انہوں نے ایک ایسے بیانیے کو ڈیزائن کیا۔ جس کی مقبولیت پر انہیں زعم تھا لیکن اب بتدریج اس کے قلعہ میں دراڑ یں پڑ نا شروع ہوگئی ہیں۔ روز اول سے میں اپنے قارئین کو سائفر کی حقیقت، سائفر اور خط میں فرق اور دھمکی آمیز خط یا تبادلہ خیالات کی سمری کے مابین تفریق پر بھی آگاہ کر چکا۔ انتہائی باریک بینی سے نظام اور نظام کی تبدیلی کے بارے میں بھی آگہی دی اور آزادی و حقیقی آزادی کے مفہوم پر بھی لکھا۔ ان کی سوشل میڈیا مہم پر بھی نہایت عرق ریزی سے آگہی دی اور بیانئے بنانے اور اس بیانئے کو پھیلانے کے طریقوں سے بھی آگاہ کیا۔ روز اول سے میرا ایقان کہ جھوٹ کے پاس وقت کی قلت ہوتی ہے اور بالآخر سچ نے آشکار ہو کر رہنا ہے۔ خان صاحب برین گیم کے ماہر کی حیثیت سے جانتے ہیں کہ اپنے ماننے، چاہنے والے فالوورز کو ایسے مقام پر لا کھڑا کر دو کہ دن دہاڑے جرم میں پکڑا بھی جاؤں تو قتل بھی معاف رہے۔ یہی کلٹ اور کلٹ فالوونگ کی معراج ہوتی ہے۔ اس سے پہلے الطاف حسین کا عمل ہم دیکھ چکے ہیں ،ہر کرتوت، اخلاقی، مالی عیب، قتل، بھتے سب کچھ مگر ’’قائد کا ایک اشارہ، حاضرحاضر لہو ہمارا‘‘ کے نعرے۔ دلچسپ مماثلت کہ دونوں کو اسٹیبلشمنٹ نے ہی تراشا، بلندیوں تک پہنچایا، الطاف حسین کو RAW اوربرطانوی MI6 نے استعمال کِیا۔ خان صاحب آج کل کس کے استعمال میں ہیں؟ اگر اس پر غور کیا جائے تو نیو کونز لابی جس کو امریکہ میں ٹرمپ لیڈ کرتے ہیں، میں مماثلت ملے گی اور کلٹ فالوونگ کی مماثلت اسی نیو کونز کے ایک کلٹ پراوڈ بوائز میں۔ لیکن اس پر بات پھر کبھی سہی۔ دراصل خان صاحب کو مکافات عمل کا سامنا ہے۔ جب وہ حکومت میں تھے تو انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں مخالفین پر الزامات لگانے اور ان پر کیسز بنانے پر صرف کردیں۔ ملکی تاریخ کے سب سے متنازعہ کردار، سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کو مبینہ طور پر وڈیو کے ذریعے ہی بلیک میل کیا گیا۔ اور اب اقتدار سے محرومی کے بعد وہ شدید مایوسی کی کیفیت میں ہیں کیونکہ پہلے تو آڈیو لیکس نے خان صاحب کی سیاسی ساکھ کو دھچکا لگایا۔ ان کے جھوٹ آشکارا کئے اور ان کے اعتماد کو شکستہ کردیا اور اب انہیں ممکنہ وڈیو لیکس کا خوف لاحق ہے۔ انہیں چونکہ ممکنہ وڈیو کے مضمرات کی سنگینی کا بخوبی احساس ہے اسلئے انہوں نے اب سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پہلے سے ہی پیش بندی شروع کردی ہے اور کسی وڈیو کے آنے سے پہلے خود ہی واویلا شروع کر دیا ہے تاکہ جب ایسی کوئی وڈیو منظر عام پر آئے تو ان کے پارٹی لوگ یہ کہیں کہ دیکھ لیں عمران خان نے تو پہلے ہی بتادیا تھا کہ ایسی گندی وڈیو آنے والی ہیں۔ گزشتہ روز ننکانہ صاحب میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ "سارے چور جمع ہوکر کسی نہ کسی طرح مجھے اور میری پارٹی کو عوام کی نظروں میں گندا کرنا چاہتے ہیں، یہ گندی گندی ویڈیو تیار کررہے ہیں، یہ گھر میں بیٹھ کر نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ویڈیو اور آڈیو ٹیپ تیار کر رہے ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ "ڈیپ فیک ویڈیو عوام کو دکھائیں گے، یہ خود کو بچانے کے لیے گند اچھال رہے ہیں پھر بھی اپنے آپ کو نہیں بچاسکیں گے۔” سوال یہ ہے کہ جو وڈیو آنے والی ہے اس کے متن (Content) کا عمران خان کو کیسے پتہ چل گیا ہے ؟ بند مٹھی سے گرتی ہوئی ریت ان کے اعتماد کو متزلزل کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 10 اکتوبر کو فائنل کال کا بگل نہیں بجایا۔ انہیں اب یہ خوف ہے کہ اگر اسلام آ باد پر چڑھائی کا انتہائی قدم بھی ناکام ہوگیا اور مطلوبہ تعداد میں لوگ نہ نکلے تو ان کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ دوسری طرف ایف آئی اے نے ممنوعہ فنڈ نگ کیس میں جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں عمران خان بھی شامل ہیں اسلئے انہیں اب گرفتاری کا خوف بھی لاحق ہوگیا ہے ۔ ننکانہ صاحب میں عمران خان نے کہا کہ "ان سے دشمنوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے جھوٹے کیس بنائے جارہے ہیں۔ مقدمے کیے جارہے ہیں۔” یہ رونا دھونا بھی ان کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ دیوالیہ پن کے شکار کے پی کے، جس کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے فنڈ ہی نہیں تھے اور بالآخر وفاقی حکومت اوور ڈرافٹ سے مدد کو آئی۔ اسی طرح اس کی وادی سوات میں ہزاروں افراد کی غیر معمولی احتجاجی ریلی نے صوبائی حکومت کی کاکردگی پر بھی سوالات اٹھادیے ہیں۔ خان صاحب اپنے ستارے اپنے ہی ہاتھوں بگاڑ چکے ہیں، سو اب ان کی واپسی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ وہ جن کی گود میں بیٹھ کر آئے تھے، وہ انہیں زمین پر پٹخ کر الگ ہو بیٹھے ہیں۔ خان کی فرسٹریشن عروج پر ہے جسکی گواہی خود صدر عارف علوی کی جانب سے آچکی ہے۔ ان کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ کسی طرح جلد سے جلد اقتدار میں آکر ایک پوسٹنگ کر سکیں مگر ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا اور یہی بات خان کو شدید خوفزدہ کیے ہوئے ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے کھاتے میں بہت سے جرم جمع ہوچکے ہیں جن کی سزا سے انہیں "کوئی” ایک ہی صورت بچا سکتا ہے مگر افسوس کہ حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ لانگ مارچ کے حوالے سے بھی بہت مجبوریاں پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں کیونکہ تحریک انصاف ابھی تک باقاعدہ تنظیم میں نہیں ڈھل سکی جو عوام کو لانگ مارچ جیسی سرگرمی میں لانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یعنی خان صاحب کے پاس منظم جدوجہد کرنے والا کیڈر موجود ہی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو 25 مئی والا لانگ مارچ اس برے طریقے سے ناکام نہ ہوتا۔ ویسے بھی خان کے پاس لانگ مارچ کا ہی کارڈ بچا ہے اور اگر یہ بھی ناکام ہوگیا تو ۔۔ ؟ ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ فی الوقت موجودہ حکومت کو نہ صرف یہ کہ کوئی خطرہ درپیش نہیں بلکہ وہ دھیرے دھیرے اپنے قدم جماتی چلی جارہی ہے۔ ڈالر کے ریٹ میں مسلسل گراوٹ ایک حوصلہ افزا نشانی ہے۔ اسمبلی کی کل سیٹیں 342 ہیں، سو نارمل حالات میں حکومت کو قائم رہنے کیلئے 172 کا عدد درکار ہوگا، مگر تحریکِ انصاف کے 122 ممبران کے اسمبلی سے نکل جانے کے بعد حکومت کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے صرف 111 ووٹ درکار ہیں۔ اس کا کیا کیا جائے کہ خان صاحب اسمبلی سے نکل کر اس حکومت کی برقراری کو آسان بنا چکے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ حکومت کسی بڑے خطرے کے بغیر اپنا وقت پورا کرے گی اور خان کا جلد الیکشن کا خواب بھی پورا نہیں ہوگا۔

Monday, October 10, 2022

محکمہ ماحولیات پنجاب کی اندرونی آلودگی

پنجاب میں آلودگی پر قابو پانے، اس میں کمی اور خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے 1975 میں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ، پنجاب میں ماحولیاتی آلودگی کنٹرول تنظیم (EPCO) بنائی گئی۔ اس تنظیم EPCO نے ماحولیات کے کچھ شعبوں پر توجہ مرکوز کی لیکن اس کے محدود دائرہ کار میں رہتے ہوئے تفصیلی کام اور ٹارگٹس کی مکمل پیروی ممکن نہ ہو سکی۔ 31 دسمبر 1983 کو پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن آرڈیننس کے تحت صوبائی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے قیام کی شرط رکھی گئی۔ 1985 میں، وفاقی حکومت سے درخواست کی گئی کہ ایجنسی کے اختیارات ہاؤسنگ فزیکل اینڈ انوائرمینٹل پلاننگ (HP اور EP) ڈیپارٹمنٹ کو تفویض کیے جائیں۔ یکم جولائی 1987 کو انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA) پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ پنجاب پہلا صوبہ ہے جہاں شہریوں کے بہترین مفاد میں EPA بنایا گیا تھا۔ ای پی سی او کے اس وقت کے موجودہ ڈائریکٹوریٹ کے عملے کو ایچ پی اور ای پی ڈیپارٹمنٹ کے انتظامی کنٹرول کے تحت ای پی اے، پنجاب میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ 31 دسمبر 1996 کو حکومت پنجاب کے تحت ایک الگ انتظامی یونٹ انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ (EPD) تشکیل دیا گیا۔ EPA پنجاب کو پھر HP اور EP ڈیپارٹمنٹ سے الگ کر دیا گیا اور اب EPD، حکومت پنجاب کے تحت ایک فعال یونٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ 11 فروری 1997 کو وفاقی حکومت نے 1983 کا موجودہ پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن آرڈیننس (PEPO) واپس لے لیا اور پاکستان Environmental Protection Act (PEPA) 1997 کا اعلان کیا۔ EPA، پنجاب اب اس PEPA ایکٹ کے تحت تفویض کردہ کام سر انجام دیتا ہے۔ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA) پنجاب ایک منسلک محکمہ ہے جو انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ (EPD) کے انتظامی کنٹرول کے تحت کام کرتا ہے اور درج ذیل کام انجام دیتا ہے: - ماحولیاتی تحفظ ایکٹ کی دفعات اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد و ضوابط کو نافذ کرتا ہے۔ - مختلف منصوبوں کے لیے ماحولیات کے پیش نظر منظوری جاری کرتا ہے۔ - پنجاب میں ماحولیاتی لیبارٹریوں کی تصدیق کرتا ہے۔ - کونسل کی منظوری اور ان کے نفاذ کے ساتھ پنجاب ماحولیاتی معیار کے معیارات (PEQS) کو تیار اور قائم کرتا ہے۔ - ماحولیاتی مسائل سے متعلق عوامی شکایات کو دور کرتا ہے۔ - سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرتا ہے جو ماحولیات کے تحفظ اور پائیدار ترقی میں معاون ثابت ہو سکتے ہوں۔ - کلین گرین پاکستان کے لیے شجرکاری کو فروغ دینا سیمینار/ ورکشاپ/ ٹریننگ کے ذریعے ماحولیاتی آگاہی کو فروغ دیتا ہے۔ - بین الاقوامی معاہدوں کو نافذ کرتا ہے۔ - ماحول کے مختلف شعبوں میں ضروریات کی نشاندہی کرتا ہے اور قانون سازی شروع کرتا ہے۔ - چار نامزد علاقوں میں انسداد ڈینگی مہم کے لیے فیلڈ وزٹ کو یقینی بنانا اور ماحولیاتی معاملات پر عوام کو معلومات اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ - حادثات اور آفات کی روک تھام کے لیے حفاظتی اقدامات کی وضاحت کرتا ہے جو آلودگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ - پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے آلودگی کو روکنے اور کنٹرول کرنے کے لیے غیر سرکاری، کمیونٹی اور گاؤں کی تنظیموں کی تشکیل اور کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ - ماحول کے تحفظ، تحفظ، بحالی اور بہتری کے لیے اور آلودگی کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا ہے۔ ماحولیاتی مسائل آلودگی کو حل کرتے کرتے محکمہ ماحولیات اپنی اندرونی آلودگی کا شکار ہو گیا۔ گزشتہ وزیر کے دور میں اس محکمہ کو صوبائی وزیر نے ماحولیاتی آلودگی کی بجائے تھانوں کی طرح کمائی کا ذریعہ بنایا اور ہر ضلع کے آفیسرز کو مختلف ٹارگٹس دئے گئے جو وہ وزیر موصوف کو ڈائریکٹ پہنچانے کا پابند تھا۔ مختلف جعلی تنظیمیں کھڑی کی گئیں اور انہیں تاجروں و صنعتکاروں کو بلیک میل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ مختلف کنسلٹنٹس فرنٹ مین کی طرح استعمال ہوئے اور وزیر موصوف صوبائی ماحولیاتی کے تحفظ کی اتھارٹی (EPA) کے صدر دفتر کو کرپشن کا گڑھ بنا کر رخصت ہوئے۔ سابقہ وزیر کے دور میں پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) کی معمول کی تحقیقات کے مطابق ایک بڑے اسکینڈل میں محکمہ تحفظ ماحولیات (EPD) نے صوبے میں مختلف صنعتی یونٹس کو جاری کردہ 500 سے زائد جعلی NoCs کی نشاندہی کی تھی۔ موجودہ صوبائی حکمراں جماعت سے وابستہ ایک سیاسی شخصیت کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں تک بھی پہنچ گیا تھا۔ ای پی ڈی ذرائع نے انکشاف کیا کہ سابقہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے پنجاب کے سابقہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک سے اس سلسلے میں باقاعدہ رپورٹ بھی طلب کی تھی، جنہوں نے جواب میں اے سی ای کی جانب سے جاری محکمانہ تحقیقات اور تحقیقات کی تفصیلات پیش کیں۔ پنجاب ای پی ڈی کے سابقہ سیکرٹری زاہد حسین نے بتایا تھا کہ محکمہ نے اب تک ملٹی نیشنل سمیت مختلف صنعتوں کو جاری کردہ 500 سے زائد جعلی این او سیز کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ "تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے" لیکن انہوں نے ان صنعتی یونٹوں کے نام بتانے سے انکار کر دیا تھا جن کو جعلی این او سی جاری کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ محکمہ ACE کے ساتھ رابطہ کر رہا ہے اور تفتیش کاروں کو ہر تفصیل فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے تصدیق کی تھی کہ پرنسپل سیکرٹری نے کیس کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ سیاسی شخصیت اور ای پی ڈی سیکرٹری کے درمیان مبینہ طور پر لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب سیکرٹری نے صنعتی یونٹوں کو جعلی این او سی جاری کرنے کے الزام میں ای پی ڈی کے سات اہلکاروں کو معطل کر دیا۔ بعد ازاں، اس نے پنجاب اے سی ای کو خط لکھا کہ ان اہلکاروں کے خلاف میگا فراڈ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر انکوائری شروع کی جائے۔ ای پی ڈی کے اس وقت کے سکریٹری نے کہا تھا کہ ان کی ٹیم نے معطل اہلکاروں کو گلبرگ میں ایک نجی دفتر میں سرکاری دستاویزات دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا۔ انہوں نے کہا تھا کہ چھاپے کے دوران ای پی ڈی آفس کی کم از کم 150 مختلف فائلیں ضبط کی گئی تھیں اور یہ انتہائی اہمیت کی حامل اور اندرونی معاملات سے متعلق تھیں۔ معطل ہونے والوں میں انسپکٹر انمول تبسم، انسپکٹر ابوبکر، سینئر کلرک عارف منظور اور فیلڈ اسسٹنٹ محمد مشتاق شامل تھے۔ تاہم اسی نوعیت کی مختلف شکایات کے بعد سیکرٹری نے تین عہدیداروں ڈپٹی ڈائریکٹر اظہر اقبال، اسسٹنٹ ڈائریکٹر فہیم نسیم اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد ارشد کو او ایس ڈی بنا دیا تھا۔ ای پی ڈی کے اس وقت کے سیکرٹری نے کہا تھا کہ مافیا پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے خود جعلی این او سی کے معاملے کی تحقیقات کے لیے اے سی ای لکھا اور اب مافیا ان پر بے بنیاد الزامات لگا رہا ہے۔ اس سب پر کیا پیش رفت ہوئی، وزیراعظم آفس اور اینٹی کرپشن کی تحقیق کہاں تک پہنچی یہ سب وقت کی گرد میں گم کر دیا گیا۔ سیکرٹری بعد ازاں تبدیل کر دئے گئے اور حکومتوں کی تبدیلی کے بعد اس وقت نئے عہدیداران پوسٹ ہیں لیکن محکمے کے اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ تقریبا 500 این او سی جو جاری ہوئے ان سے مختلف کنسلٹنٹس کے ذریعے 50 لاکھ تا ایک کروڑ وصول کئے گئے۔ آپ اس کو ضرب تقسیم کریں تو ہوش ربا نتیجہ سامنے آتا ہے اور یہ سیدھا نیب کا کیس بنتا ہے۔

Tuesday, October 4, 2022

پاکستانی معیشت زوال پذیر کیوں ہے

ہندوستان اور پاکستان کو 14 اور 15اگست 1947کو تقسیم کے بعد آزاد ریاستیں بننے پر برطانیہ سے کم سرمایہ کاری اور نظر انداز ہونے کی ایک جیسی معاشی میراث ملی۔ ان کی نوآبادیاتی معیشتیں دنیا کی غریب ترین معیشتوں میں شامل تھیں۔ دونوں اقوام کے لیے، آزادی تقریباً فوری طور پر مضبوط ترقی کا باعث بنی اور دونوں ممالک نے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور ترقی کے دیگر شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن یہ پاکستان ہی تھا جس نے پہلی چار دہائیوں یا اس کے دوران تیزی سے ترقی کی شرح دیکھی، جب کہ بھارت پیچھے رہ گیا۔ 1990 کی دہائی کے آس پاس کچھ تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں کیونکہ ان کے کردار الٹ گئے اور ہندوستان پاکستان سے آگے نکل گیا، آخر کار قوت خرید کے ذریعے دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن گیا اور BRICS میں "I" - ایک مخفف جو پانچ اہم ابھرتی ہوئی مارکیٹ ممالک کے بلاک کا حوالہ دیتا ہے، انڈیا کے حصے میں آیا۔ ہندوستان کی ترقی کی رفتار کا کیا سبب ہے؟ گو کہ ہمیں پرانے معاشرتی علوم اور موجودہ مطالعہ پاکستان میں اس ابتری کا ذمہ دار بھارت کو پڑھایا گیا ہے جس نے انگریزوں کے چھوڑے تمام ترکہ پر قبضہ کر لیا لیکن یونیورسٹی آف میری واشنگٹن کے پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ائیرز کے پروفیسر سروپ گپتا کا تجزیہ کچھ اور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: "بین الاقوامی سیاسی معیشت کے ایک اسکالر کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس معاشی ابتری کا سبب، بھارت کا جمہوریت کو مضبوطی سے قبول کرنا – جبکہ اسی وقت پاکستان کو بار بار فوجی آمریتوں اور حکومت میں تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا – اس کے ساتھ بہت کچھ اور بھی وجوہات ہیں۔ نوآبادیاتی وراثت 1857 سے 1947 تک، برطانیہ نے متحدہ انڈیا کے زیادہ تر علاقے پر براہ راست حکومت کی جو بعد ازاں ہندوستان اور پاکستان کی آزاد ریاستیں بن گئیں۔ برطانوی دور حکومت میں اقتصادی ترقی کم سے کم تھی، جو کہ 1900 سے 1947 تک اوسطاً صرف 0.9 فیصد سالانہ تھی۔ ایسا اس لیے ہوا کہ نوآبادیاتی ہندوستانی معیشت زیادہ تر زرعی تھی، لیکن پھر بھی انگریزوں نے زرعی پیداوار کو بہتر بنانے میں بہت کم سرمایہ کاری کی۔ مزید برآں، برطانیہ نے ہندوستان کے لوگوں کی فلاح و بہبود میں محدود سرمایہ کاری کی، خاص طور پر ان کی تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کو کم کرکے۔ نتیجتاً، نوآبادیاتی ہندوستان میں دنیا کی سب سے کم شرح خواندگی میں سے ایک تھا تقریباً 17%، اور متوقع عمر 30 سے 40 کے وسط میں تھی۔ ہندوستانیوں کی حالت زار کے بارے میں برطانیہ کی نظر اندازی کی مثال شاید 1943 میں مشرقی ہندوستان میں بنگال میں آنے والے قحط سے ملتی ہے، جس میں پالیسی کی ناکامی کے نتیجے میں 1.5 ملین سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان کی قیادت میں آزادی کے بعد کی ترقی مقامی آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور بڑھتی ہوئی قوم پرست تحریک کا سامنا کرنے کے بعد برطانیہ نے اپنے "تاج میں زیور" کو ترک کرنے اور خطے کو ہندو اکثریتی ہندوستان اور مسلم پاکستان میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ 20 ویں صدی کی سب سے بڑی جبری ہجرت کا باعث بنی: تقریباً 9 ملین ہندو اور سکھ اگلے دو دہائیوں کے دوران جغرافیائی طور پر الگ الگ مشرقی اور مغربی پاکستان میں تقریباً 5 ملین مسلمان ہندوستان میں چلے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق بڑے پیمانے پر تشدد کے دوران 10 لاکھ لوگ مارے گئے۔ اقتصادی ترقی، تاہم، آزادی کے بعد شروع ہوئی، دونوں نئے ممالک آزادی کی پہلی دہائی یا اس کے بعد 3% سے 4% کی شرح سے بڑھ رہے تھے کیونکہ متعلقہ حکومتوں نے اپنی معیشتوں میں زیادہ سرمایہ کاری کی۔ لیکن جلد ہی اختلافات بھی سامنے آ گئے۔ جب کہ دونوں معیشتیں زیادہ تر ریاستی کنٹرول میں تھیں، ہندوستان کی حکومت نے برآمدات میں کمی کی اور 1960 کی دہائی میں تحفظ پسند تجارتی پالیسی اپنائی جس نے ترقی کو محدود کردیا۔ دوسری طرف پاکستان نے اپنے مشرقی پاکستان کے علاقے سے نمایاں تجارت سے فائدہ اٹھایا۔ ہندوستان کے ایک طرف مغربی اور دوسری طرف مشرقی پاکستان تھا۔ پاکستان 1971 میں اپنی ترقی کا انجن کھو بیٹھا، جب مشرقی پاکستان جنگ آزادی کے بعد بنگلہ دیش بن گیا۔ امریکہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد بھی ملی، تیل کی دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک نے بھی پاکستان کو امداد دی ہے۔ اس کے نتیجے میں، 1961 سے 1980 تک پاکستان کی شرح نمو تقریباً 6 فیصد سالانہ ہو گئی، جبکہ بھارت کی شرح نمو 4 فیصد تھی۔ 1990 کی دہائی میں ترقی کا اسکرپٹ پلٹ گیا، بھارت نے اگلے 30 سالوں میں 6 فیصد کی شرح سے ترقی کی، پاکستان کے 4 فیصد کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کردار کے اس طرح الٹ جانے میں معیشت اور سیاست دونوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ پاکستان نے طویل عرصے سے بھارت سے زیادہ فنڈنگ کے بیرونی ذرائع پر انحصار کیا ہے، جس نے 1960 سے 2002 تک 73 بلین ڈالر کی غیر ملکی امداد حاصل کی ہے۔ اور آج بھی، یہ قرضے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے اداروں اور چین جیسی غیر ملکی حکومتوں پر انحصار کرتا ہے۔ امداد اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی اس امداد نے پاکستان کو انتہائی ضروری لیکن تکلیف دہ اصلاحات کو ملتوی کرنے کی اجازت دی ہے، جیسے کہ ٹیکس کی بنیاد کو بڑھانا اور توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل کو حل کرنا، جب کہ قرضوں نے ملک کو بڑے قرضوں میں جکڑ دیا ہے۔ اس طرح کی اصلاحات، میری نظر میں، پاکستان کو مزید پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرتی اور مزید غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی۔ جب کہ ہندوستان کو بین الاقوامی امدادی گروپوں اور امریکہ جیسے چند ممالک کی طرف سے بھی کافی حد تک حمایت حاصل ہوئی تھی، لیکن اس نے کبھی اس پر انحصار نہیں کیا - اور حالیہ دہائیوں میں اس پر کم انحصار کیا ہے۔ اس کے علاوہ، 1991 میں، ہندوستان نے تجارت کو آزاد کیا، ٹیرف کو کم کیا، گھریلو کمپنیوں کے لیے کام کرنا اور ترقی کرنا آسان بنا دیا، اور مزید غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھولے۔" پاکستان کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے یو این ڈی پی کے سابق ڈائریکٹر نے پاکستان کی دولت مند اشرافیہ اور سیاست دانوں کو اس کی معاشی پریشانیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ پاکستانی اشرافیہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سابق ڈائریکٹر برائے پاکستان مارک آندرے فرانچے نے کہا کہ ملک میں ایک اہم تبدیلی کا واحد راستہ یہ ہے کہ جب بااثر، سیاست دان اور دولت مند، قوم کے مفاد کے لیے قلیل مدتی، انفرادی اور خاندانی مفادات کو قربان کر دیں۔ "آپ کے پاس ایسی اشرافیہ نہیں ہوسکتی ہے جو پیسہ کمانے کے وقت بہت سستی اور ان پڑھ مزدور کا فائدہ اٹھائے، اور جب پارٹی کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ لندن میں پائے جاتے ہیں، جب چیزیں خریدنے کا وقت ہوتا ہے تو وہ دبئی میں ہوتے ہیں، اور تب دبئی یا یورپ یا نیویارک میں جائیداد خریدنے کا وقت ہوتا ہے۔ بزنس ریکارڈر کے مطابق فرنچ نے کہا کہ اشرافیہ کو فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک چاہتے ہیں یا نہیں۔ ٹیکس اصلاحات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا موجودہ ٹیکس نظام اشرافیہ کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان میں چار سال گزارنے والے سابق ڈائریکٹر زمینداروں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں "میں نے کچھ بہت بڑے زمینداروں سے ملاقات کی ہے، جنہوں نے صدیوں سے زمین کا استحصال کیا ہے، پانی کے لیے تقریباً صفر رقم ادا کی ہے، اور کس طرح وہ لوگوں کو تقریباً کبھی کبھار غلام بنا لیتے ہیں۔ اور پھر وہ اقوام متحدہ یا دیگر ایجنسیوں کے پاس آتے ہیں اور ہم سے اپنے ضلع کے لوگوں کے لیے پانی، صفائی اور تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے کو کہتے ہیں۔ مجھے یہ کافی شرمناک لگتا ہے۔" انہوں نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا کہ پاکستان غربت میں کمی، عدم مساوات، ریاست کو جدید بنانے اور کام کرنے والے اداروں کے حوالے سے زیادہ ترقی نہیں کر رہا۔ "حقیقت یہ ہے کہ 2016 میں بھی پاکستان میں 38 فیصد غربت تھی۔ اس کے کئی اضلاع ہیں جو سب صحارا افریقہ کی طرح رہتے ہیں اقلیتوں، خواتین اور فاٹا کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ فاٹا میں اصلاحات کے لیے زور نہیں دے سکا، یہ ایک ایسا علاقہ ہے جو ادارہ جاتی طور پر 17ویں صدی میں رہ رہا ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن ہے۔" پاکستان میں رشوت ستانی کے واقعات جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہیں۔ "پاکستان ایسی کمیونٹیز کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکے گا جہاں آپ معاشروں سے بالکل الگ تھلگ ہوں، جہاں آپ ایک سرے پر امیر بستیاں اور امیروں کے لیے بڑے بڑے مالز بنا رہے ہوں۔ اور دوسرے سرے پر غریبوں کی کچی بستیاں اور کوڑے کے ڈھیر۔ یہ اس قسم کا معاشرہ نہیں ہے جس میں آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے رہیں‘‘ یو این ڈی پی پاکستان کے سابق ڈائریکٹر نے میڈیا پر بھی تنقید کی، انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا کی خواندگی میں کمی ہے۔ میڈیا جمہوریت کے ستونوں میں سے ایک ہے اور میڈیا کو عوام کو آگاہ کرنا ہے۔ بدقسمتی سے حکومت کا فوجی حکام پر انحصار کی سطح اور اس ملک کے میڈیا کو جس حد تک طاقتور ذرائع کی طرف سے ہیرا پھیری کی جاتی ہے، وہ جمہوریت کے خاتمے اور اس ملک کی بنیاد رکھنے والے اداروں کے کٹاؤ کا ذریعہ ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ انہیں پاکستان میں حقوق اور مواقع کی عدم مساوات پر تشویش ہے۔ "پاکستان میں مواقع کی نسل پرستی خوفناک ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جس پر UNDP یقینی طور پر پاکستان میں کام جاری رکھے گا - غریبوں کی طرف سے بغاوت کا کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، لیکن وہ اسے آخرکار ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں "میں اس وقت پاکستان میں ایسے حالات پیدا ہوتے نہیں دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یہ بالآخر کسی نہ کسی صورت میں ہو گا۔ آپ کے پاس ایسا ملک نہیں ہو سکتا جہاں تقریباً 40 فیصد لوگ غربت میں رہتے ہوں۔ پاکستان کی تاریخ پڑھیں تو یقین نہیں ہوتا کہ یہ ملک زندہ رہے گا۔ اس پر بہت تنقید ہوئی اور لوگ شک کرتے رہے ہیں کہ بالآخر ایسا ہو گا۔ پھر بھی یہ ہے، اور یہ بہت دور تک آیا ہے لیکن اب اسے اپنے معاشی ماڈیول میں تبدیلی لانی پڑے گی۔ قرضوں کی معیشت کے ماڈیول سے نکلنا پڑے گا۔ 1991 سے جو معاشی ماڈیول اپنایا گیا ہے وہ یوں ہے کہ قرضے لیکر اثاثے بناو، اور پھر ان اثاثوں پر مزید قرضے لیکر اپنا بھی پیٹ پالو اور ان کا بھی جو آپ کو لے کر آتے ہیں۔ اس ماڈیول کی بجائے اب اس ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اور اسٹرکچرل ریفارمز کرنی پڑیں گی۔ کیا نون لیگ کی موجودہ اور اگلے پانچ برسوں کیلئے امیدوار حکومت ان کیلئے تیار ہے یا وہی اختیار کردہ ماڈیول چلائے گی جو وہ 1991 سے اختیار کئے ہوئے ہے ؟ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکن نظر آتا ہے

نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن کی تباہی

این آئی آر سی - نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن (NIRC) کا ادارہ سال 1972 میں IRO 1969 میں ترمیم کرکے تشکیل دیا گیا تھا اور اسے بعد ازاں ترمیم شدہ قوانین یعنی IRO ،2002 ،IRA 2008، IR0 2011 کے ذریعے برقرار رکھا گیا ہے اور اب تازہ ترین ترمیم IRA 2012 کی دفعہ 53 کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ ادارہ وفاقی اور بین الصوبائی اداروں (گورنمنٹ/ سیمی گورنمنٹ/ کارپوریشنز/ ملٹی نیشنل اور نیشنل صنعتی و تجارتی اداروں) کے آجروں اور کارکنوں کے درمیان باہمی تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ یہ آجروں اور کارکنوں کی جانب سے غیر منصفانہ لیبر پریکٹس، صنعتی تنازعات کے حل، اسلام آباد میں عبوری ٹریڈ یونین اور یونینوں کی رجسٹریشن، فیڈریشن اور اجتماعی سودے بازی کے ایجنٹوں کے تعین کا ذمہ دار ہے اور اس کی سربراہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ یا حاضر سروس جج کرتے ہیں۔ اس کے ممبران ریٹائرڈ یا حاضر سروس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، وفاقی حکومت کے افسران، NIRC کے رجسٹرار ہیں۔ یہ ادارہ صنعتی امن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو تجارتی اداروں میں اعلی پیداوار کے لیے ضروری ہے۔ نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن (این آئی آر سی) وزارت برائے سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی سے منسلک ایک ادارہ ہے اور آج کل دگرگوں حالات کا شکار، بدعنوانی کا گڑھ بنا نظر آتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں حکومت نے این آئی آر سی کے چیئرمین جسٹس (ر) شاکر اللہ جان کو کئی سالوں سے معاہدے میں توسیع دی ہے۔ اور اس برس بھی جسٹس (ر) شاکر اللہ جان مزید ایک سال تک اپنے عہدے پر برقرار رہنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ سہریم کورٹ کے عمر رسیدہ ریٹائرڈ جج اپنے عہدے کے دوران مزدوروں کے مسائل کے حوالے سے کوئی اقدام کرنے میں انتہائی ناکام رہے ہیں اور انکا زیادہ تر انحصار ایک اور کنٹریکٹ یافتہ ممبر نور زمان پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزرے برسوں میں جب قومی اسمبلی کے ایک رکن نے وزارت سے چیئرمین کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا تو وزارت نے محض حقائق سے ہیرا پھیری کی اور "فیصلوں کی اجازت سے متعلق قانونی پہلوؤں" کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ این آئی آر سی پر رشوت ستانی اور بدعنوانی کے کئی الزامات ہیں، کیونکہ ٹریڈ یونینز کمیشن کے فیصلوں کو اپنے حق میں کرانے کے لیے بھاری رشوت دے رہی ہیں اور این آئی آر سی کے اہلکار ان لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں جو انھیں رشوت دینے سے انکار کرتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ٹریڈ یونین نے NIRC کے اہلکاروں پر رشوت ستانی کا الزام لگایا اور وزیر اعظم کے اس وقت کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستان زلفی بخاری سے اس سلسلے میں انکوائری کرنے کی درخواست کی جس کے بعد وزیراعظم کے اس وقت کے معاون خصوصی نے ایک سینئر جوائنٹ سیکرٹری کو انکوائری افسر مقرر کیا۔ تاہم یہ انکوائری بے سود ثابت ہوئی اور کرپشن کا ریٹ مزید بڑھ گیا اسی طرح وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے بھی NIRC کے سابقہ ڈپٹی رجسٹرار نوید کھوکھر کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پر تحقیقات کیں جن کا نتیجہ نا معلوم رہا ایک فارما ورکر ایسوسی ایشن نے بھی وزیر اعظم سے این آئی آر سی کے رکن نور زمان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ انہوں نے یونین کے چیئرمین کو یونین کی رجسٹریشن کے خلاف بھاری رشوت دینے کا کہا تھا۔ نور زمان موجودہ چیئرمین کے قریبی ساتھی ہیں اور انہیں حال ہی میں این آئی آر سی میں تمام انتظامی اور مالی معاملات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ نور زمان گزشتہ کئی برس سے ایم او پی اینڈ ایچ آر ڈی کے جوائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے چیئرمین کی سفارش پر انہیں این آئی آر سی کا ممبر مقرر کیا تھا حالانکہ ان کے پاس متعلقہ تعلیم اور تجربہ ہی نہیں تھا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے بھی سابقہ مشیر زلفی بخاری کو پاکستان میں مزدور یونینوں کے تحفظ اور سہولت کاری کے حوالے سے خراب صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔ حیرت انگیز بات اس ادارے کے ریٹائرڈ ملازمین کا بحیثیت ٹاوٹ کام کرنا ہے۔ چئیرمین کے دفتر کے ریٹائرڈ ملازمین مناسب کمیشن پر ہر ناجائز کام بلا خوف و خطر سر انجام دے رہے ہیں کیونکہ ادارے کے مختلف ڈپٹی اور اسسٹنٹ رجسٹرار ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارے میں انتظامی تبدیلیاں کرتے ہوئے چئیرمین کسی اچھی شہرت کے حامل حاضر سروس جج کو تعینات کیا جائے اور اس ادارے میں ایک آپریشن کلین اپ کیا جائے تاکہ آجر اور اجیر کو مسابقتی بنیاد پر انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...