اس مکروہ بیانیے کی جنگ میں کچھ افراد کو Larger Than Life اور کچھ کو Rascal بنانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہی کام تحریک انصاف نے کیا۔
دس بارہ سال قبل جن سیاستدانوں، لکھاریوں اور صحافیوں کا عوام پر اثر تھا اور وہ عمرانی بیانیے کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے اُن سب کی کردار کشی کی گئی جھوٹے اور غلیظ الزام لگائے گئے تاکہ یہ سب ایک مسٹر کلین کے آگے بونے لگیں۔
خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس وہ کراؤڈ موجود نہیں ہے جو سخت سیاسی جدوجہد کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ اسکے پاس اپنی ذات کے علاوہ کوئی ایسے افراد موجود نہیں جو اپنے بل پر اپنے اپنے حلقوں سے لوگوں کو باہر نکال سکیں۔ اس لئے انہوں نے جس بات پر انویسٹ کیا ہے وہ ہے میلینیلز کی ذہن سازی اور اس کو اپنے بیانئیے سے مسلسل مصروف کار رکھنا۔ اس کیلئے وہ ہر ریڈ لائن کراس کرنے پر بھی ہر لمحہ تیار رہتے ہیں اور ہر حد تک جانے کو بھی۔
اب آئیے پراپیگندہ کی طاقت کی جانب۔ آر اے شہزاد ایک ویل بینئگ سپیشلسٹ ہیں۔ یورپ میں مقیم وہ لکھتے ہیں کہ:
"گزشتہ دنوں بی بی سی اردو پر لندن میں نواز شریف کے گھر کے سامنے شور شرابہ کرنے والے بچے کا انٹرویو پڑھیں۔ اس میں ایک سوال تھا آپ کو نواز شریف کیوں نا پسند ہے اس کا جواب تھا: "کیونکہ میں نے بچپن سے سنا یہ چور ہیں انہوں نے ملک لوٹا ہے"
یہ ہے مسلسل پراپیگنڈے کی طاقت۔
"ایک اندازے کے مطابق دوہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد آج کے دن تک ڈیڑھ کروڑ نیا ووٹر آیا ہے۔ روزانہ دس ہزار سے زیادہ بچے اٹھارہ سال کے ہو جاتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کی قریب ترین انتخابی حریف مسلم لیگ (ن) کو دیکھا جائے تو اس کا کا دوہزار اٹھارہ میں کل ووٹ ایک کروڑ تیس لاکھ تھا۔ مطلب انکے مجموعی ووٹ سے زیادہ ووٹر سسٹم میں شامل ہوا ہے۔ یہ ووٹرز پاکستان کا سیاسی نقشہ بدل سکتے ہیں۔"
کے پی کے حکومت کے پاس تنخواہوں کے پیسے نہی، فرح گوگی کے معاملات سے لے کر فارن فنڈنگ اور نیازی کے خاندان کے مالی معاملات غرض اتنا کچھ ہے مگر کرپشن کا ٹین اس نے اپنے مخالفین کے پیچھے باندھ رکھا ہے اور عوام مان بھی رہی ہے۔ وجہ صرف اور صرف دوسری سیاسی جماعتوں کا کمیونیکشن کے جدید ذرائع سے اجتناب ہے یہ ان کی ناکامی ہے"
آڈیو لیکس اور ممکنہ ویڈیو لیکس اور Facts کے باوجود عمران کے فالورز حقائق کو کیوں تسلیم نہی کر رہے ؟ اس پر آر اے شہزاد لکھتے ہیں کہ:
"عمران خان اپنی آڈیو لیکس کے آخری حصہ میں کہتے ہیں کہ Minds Fertile Ground بنی ہوئی ہیں۔ آج اس بات کا سائنسی تجزیہ کرتے ہیں کہ خان صاحب نے ذہنوں کو کس عمل سے کنٹرول کیا کہ سچ جھٹلاتے ہیں"
"ایک بات جس پر سیاسی پنڈتوں اور ماہرین سوشل اینڈ پولیٹیکل سائنس کا اتفاق ہے کہ جو New Populism Political لہر آئی ہے وہ سیاسی یا جمہوری عمل کو Undermine کر کے ایک Cult تشکیل دیتی ہے اور پاکستان میں PTI نے بیرونی فنڈنگ اور اندرونی حمائت سے ایک سیاسی Cult کی تشکیل کی ہے".
"Populism کی ساری سیاست Disinformation اور فیک نیوز اور سوشل میڈیا کی Psychological Manipulation پر ٹکی ہوئی ہے مگر جب اس جھوٹ کے خلاف سچائی سامنے آتی ہے اور بڑے واضح ثبوت آتے جیسے کہ ابھی عمران کے سائفر کیس میں ہوا تو پھر بھی اس کے فالورز انہیں یکسر مسترد کر دیتے ایسا کیوں ہے ؟"
"اس پر نفسیات میں کافی ریسرچ ہوئی ہے۔ تو چلیں ان وجوہات کو سمجھتے ہیں۔
کسی بھی Cultمیں لوگوں کو Us اور Them میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ تقسیم بہت محنت سے کی گئی مخالفین کو پٹواری، لفافے، جاہل، کھوتے کھانے والے، ذہنی غلام کہا گیا اس کا بنیادی مقصد ان کو کسی بھی طرح مخالفین کی طرح اپنے کلٹ سے دور رکھا گیا اور لیڈر پر تنقید کو بقول عمران خان Brand کیا جائے کہ وہ مخالفت کی جرات نا کریں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق اپنے جذبات کو مسلسل دبانے کی وجہ سے ان کے اندر ایک سخت غیر منطقی سوچ تشکیل پاتی ہے جو کہ ٹراما کی ایک قسم ہے مگر یہ سب کیسے ہوتا ہے آئیے اس کی وجہ جانتے ہیں۔
انسانی دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں دائیں طرف کا حصہ انسانی جذبات وغیرہ کو کنٹرول کرتا ہے اور بائیں طرف لاجک اور استدلال سے متعلق ہے اور زبان کا تعلق بھی اسی حصے سے ہے ان دونوں حصوں کے تعلق کو Horizontal Connection کہتے ہیں یہی تعلق ہماری سوچوں کو الفاظ دیتے ہیں اور ہم اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
اگر جذبات اور لاجک کا یہ کنکشن جسے Emotions-Logic کہتے وہ رک جائے تو ریسرچ کے مطابق برین Rusty ہو جاتا ہے اور جذبات بغیر اظہار کے برین میں گھومتے رہتے اور ٹراما کی ایک صورت بنتے ہیں۔
برین اسی طرح Vertically بھی اوپر سے نیچے کی طرف جڑا ہوتا اور یہ کنکشن ہماری سوچ، جذبات، جانچنے پرکھنے اور احساسات کو آپس میں جوڑتے جو لوگ Vertically کٹ ہوتے ہیں وہ عقل اور استدلال سے فیصلہ کرنے سے محروم ہو جاتے اور PTI جیسے Cult فالورز اسی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں.
"جیسے عمران خان کہہ رہا ہے کہ ان کی لائف ٹائم برانڈنگ میر صادق اور میر جعفر کی طرح کر دی جائے یہی چیزیں اور Extreme Thinking کسی بھی قسم کے Cult میں ممبران کے برین کی Horizontal اور Vertical میں کنکشن نہی رہتا اور انہیں مسلسل ایک خوف کی کیفئت میں رکھا جاتا ہے۔ جیسے بار بار کہا جاتا ہے کہ عمران واحد امید ہے۔ امپورٹڈ حکومت۔ بیرونی ایجنٹ۔ حملہ وغیرہ تو ان کے سپورٹر کسی بھی عقلی اور استدلالی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ Cult ممبرز کی دماغی ساخت متاثر ہو جاتی. اسی لیے آپ کو پی ٹی آئی کے اکثر سپورٹر غیر معمولی جذباتی نظر آتے ہیں."
"اس کے علاوہ دو اور نفسیاتی عمل بھی اہم ہیں جو PTI جیسی جماعت، غیر ملکی ڈیٹا فرموں اور بہت بڑی فنڈنگ سے بہت ٹیکنیکل طریقے سے کرتے ہیں آئیے اس کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔
پہلی چیز Denial ہے. یہ بہت قدیم Psychological Mechanism ہے. ہم ایسی ہر ایسی چیز، ایسے ہر خیال کو ریجیکٹ کر دیتے جو ہماری بنیادی شناخت کو جھنجھوڑ دے۔ Cult کے جو اندھے فالورز ہوتے وہ ہر ایسی چیز کو فوری طور پر ریجیکٹ کر دیتے ہیں جیسے آڈیوز کو مکمل فیک یا ڈیپ فیک کہا جاتاہے.
مگر ایسے فالورز جو ابھی اندھی تقلید نہی کرتے ان کے لئے جو سٹریٹجیی بنائی جاتی اسے Cognitive Dissonance کہا جاتا ہے وہ غیر موافق مواد کو مکمل ریجیکٹ نہی کرتے ہیں بلکے ان کا رخ اسطرح موڑا جاتا جو ان کی سوچوں کے قریب ہو. جیسے ایک آڈیو پر کہا کہ یہ ٹکڑے جوڑے گے، یا صدر نے کہا اگرچہ سازش نہی ہوئی مگر مجھے شک ہے اس کی تحقیق ہو، ایسے لوگوں کے لیے ہی ڈیپ فیک کی بات کی جا رہی ہے۔
Cognitive Dissonance کے تصور پر ماہرین نفسیات نے 1954میں اس بات کی تحقیق شروع کی جب لوگوں کے ایک گروپ میں یہ بات پھیل گئی کہ دنیا 21دسمبر کوسیلاب سے ختم ہو جائے گی مگر ایک خلائی جہاز ان کو بچا کر لے جائے گا مقررہ دن پر جب نا سیلاب آیا نا جہاز تو بجائے ان لوگوں کو یہ یقین آتا کہ یہ جھوٹ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ لیڈر کو کوئی Communication ٹھیک سے موصول نا ہوئی ہو. یہیں سے ماہرین نے Cognitive Dissonance کی اصطلاح متعارف کروائی. آپ کو PTI اسپورٹر بھی نیا پاکستان، کروڑوں نوکریوں وغیرہ پر ایسے ہی Cognitive Dissonance کا شکار نظر آتے ہی۔
یہ سب اسی لیے کرتے تاکہ وہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے سے بچ جائیں کہ جس سیاسی نظریے پر انہوں نے اتنا انویسٹ کیا اتنی محنت کی وہ حقائق سے مختلف اور غلط ہے۔ اربوں روپے کی انویسٹمنٹ سے یہ سیاسی ماڈل بنوایا گیا اور اسے سائنسی بنیادوں پر اس ملک کے عدم استحکام کے لیے لانچ کر دیا گیا ۔"
"یہ ساری تحقیقات لکھنے کا مقصد یہ کہ ایک تو ہم سائنسی اور علمی طور پر اس مسلۂ کو سمجھ سکیں دوسرا پالیسی ساز ادارے اور سیاسی جماعتیں اس کی سائنسی بنیاد سمجھتے ہوئے اس کے توڑ کا سوچیں جس طرح یہ جنون اب بیرون ممالک میں پھیلا اور اندرون ملک تقسیم ہوئی وہ پاکستان کے لیے خطرناک ہے."
تقسیم اور نفرت کا خمیازہ یہ قوم پہلے ہی بھگت چکی ہے اور میرا نہیں خیال کہ اس ملک میں مزید ایسے بیانئے کو پنپنے دیا جائے گا جس سے تقسیم اور نفرت کو ہوا ملے اور کوئی بڑی خلیج یا فالٹ لائن پیدا ہو۔
اس جھوٹے بیانئے کا واحد علاج سچ ہے۔ جب جھوٹ تواتر سے اور پر اعتماد ہو کر بولا جائے تو ضروری یو جاتا ہے کہ سر پر منڈلاتے فتنے کے علاج کیلئے سچ کو سامنے لایا جائے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا ٹرائل میں جو اندرونی کردار ہیں انہیں بے نقاب کیا جائے اور جو جو اسپن ڈاکٹرز ہیں ان کو عوام کے سامنے لایا جائے۔
 
 
