Friday, July 15, 2022
پاکستان کی انتخابی تاریخ اور اسٹیبلشمنٹ کے سبق
پاکستان کی انتخابی تاریخ اور اسٹیبلشمنٹ کے سبق
اظہر عباس
پاکستان کی انتخابی تاریخ جہاں دھاندلی کے الزامات اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بوالعجمیوں سے تعفن زدہ ہے وہاں ہماری نوجوان نسل بلکہ بہت سارے بزرگان بھی اس سے ناواقف ہیں کہ قومی سطح بالغ رائے دہی کا حق ہمارے ہاں 1970 کے الیکشن میں ہی پہلی بار دیا گیا۔ 1947 سے 1958 کے دوران پاکستان میں قومی سطح پر براہ راست انتخابات کبھی  نہیں ہوئے۔ یعنی عام عوام نا ووٹ کے حقدار تھے اور نا ہی حکومتوں کے بننے بگڑنے سے ان کا براہ راست کوئی تعلق رکھا گیا۔ اشرافیہ اس دوران اس ملک کے معاملات براہ راست بناتی بگاڑتی رہی۔
قومی سطح پر 1958 کے بعد پاکستان کے دوسرے صدارتی انتخابات 2 جنوری 1965 کو ہوئے۔ ووٹنگ بالواسطہ ہوئی یعنی صدر کے انتخاب کیلئے  80,000 "بنیادی جمہوریتوں" کا الیکٹورل کالج بنایا گیا تھا۔ یعنی ووٹ کا حق 80،000 لوگوں کو دیا گیا جو کہ اس دور میں موری ممبر کے نام سے مشہور ہوئے
انتخابات میں دو بڑی جماعتیں حصہ لے رہی تھیں: کنونشن مسلم لیگ اور مشترکہ اپوزیشن پارٹیاں۔ 
مشترکہ اپوزیشن جماعتیں پانچ بڑی اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل تھیں، اور ان کا نو نکاتی پروگرام تھا، جس میں پارلیمانی جمہوریت کی بحالی اور براہ راست انتخابات اور بالغ رائے دہی کا تعارف شامل تھا۔ 
مشترکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس کوئی واحد قیادت نہیں تھی لہذا، انہوں نے فاطمہ جناح کو اپنے امیدوار کے طور پر چنا جنہیں بابائے قوم محمد علی جناح کی بہن ہونے کی وجہ سے ایک غیر متنازعہ رہنما کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ 
کنونشن مسلم لیگ کے امیدوار موجودہ صدر محمد ایوب خان تھے۔ ایوب خان 1958 میں پاکستانی فوجی بغاوت کے اعلان کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ تب سے وہ صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ 
انتخابی مہم کا ایک ماہ کا مختصر دورانیہ تھا، جسے مزید نو پروجیکشن میٹنگز تک محدود کر دیا گیا جو کہ الیکشن کمیشن نے منعقد کیے تھے اور ان میں صرف الیکٹورل کالج کے اراکین اور پریس کے اراکین نے شرکت کی تھی۔ عوام کو پروجیکشن میٹنگز میں اس وجہ یا خوف سے شرکت سے روک دیا گیا کہ فاطمہ جناح کی فیم میں اضافہ ہوتا۔ 
فاطمہ جناح فاطمہ جناح کی مہم کو کئی دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک غیر منصفانہ اور غیر مساوی انتخابی مہم اور بنیادی جمہوریت کے نظام کے ذریعے بالواسطہ انتخابات اس کے کچھ بنیادی مسائل تھے۔ تاہم، انہیں عوام میں زبردست حمایت حاصل تھی۔ بہت سے لوگوں کو ان سے ہمدردی تھی کیونکہ وہ محمد علی جناح کی بہن تھیں، جب کہ دوسروں نے انہیں ایوب خان کی فوجی آمریت کو چیلنج کرنے کے لیے ایک بہترین شخصیت کے طور پر دیکھا۔ اگرچہ بہت سے علما نے اس کی مذمت کی تھی کہ ایک عورت مسلم ریاست کی قیادت نہیں کر سکتی، کئی مذہبی رہنماؤں نے بھی ان کی حمایت کی۔ مودودی کی زیرقیادت جماعت اسلامی، محترمہ جناح کی مہم کی گہری حامی تھی کیونکہ وہ سیکولر ایوب خان کے مقابلے میں مذہبی نظریات سے متاثر قدامت پسند تھیں۔ 
انتخابی نتائج حسب توقع موجودہ صدر ایوب خان کے حق میں آئے، جنہوں نے پاپولر ووٹ کھونے کے باوجود 62.43 فیصد الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔ فاطمہ جناح نے الیکٹورل کالج کے 35.86 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ تاہم محترمہ جناح ملک کے کچھ علاقوں میں انتہائی کامیاب تھیں۔ انہیں نے کراچی اور ڈھاکہ جیسے بڑے شہری مراکز میں اکثریت حاصل کی۔ ایوب کو مشرقی پاکستان میں بھی مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، ایوب نے دیہی پاکستان میں فیصلہ کن فتح حاصل کی۔ چونکہ الیکٹورل کالج کی اکثریت دیہی سیٹ اپ کے نمائندوں پر مشتمل تھی، اس لیے ایوب واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ 
1947 تا 1970 عوام کی کارہائے حکومت میں عدم شمولیت کی وجہ سے عوام میں جو احساس محرومی پیدا ہوا اسے علیحدگی پسند عناصر نے پر کیا اور پاکستان کو اس کا خمیازہ 1970 کے انتخابات کے نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ 
 1970 کے پاکستانی عام انتخابات، برطانوی ہندوستان سے پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے براہ راست عام انتخابات تھے۔
دہائیوں کی طویل جدوجہد کے بعد، فوجی حکومت جمہوری طور پر منتخب عہدیداروں کو اقتدار منتقل کرنے کے پراسس کو شروع کرنے پر مجبور ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں، انتخابات کو پاکستان کے بنگالی شہریوں کے لیے خود مختاری پر ریفرنڈم کے طور پر پیش کیا گیا، جو پاکستان کی آبادی کا تقریباً 55 فیصد تھے۔ یہ انتخاب عوامی لیگ نے جیتا، جس کی 313 میں سے 167 نشستیں تھیں، اور شیخ مجیب الرحمان پاکستان کے پہلے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم بننے والے تھے۔ لیکن فوجی حکومت نے منتخب پارلیمنٹ کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی آزادی کی کے نعرے سے شروع ہوئی تحریک 1971 میں ملک ٹوٹنے پر منتج ہوئی۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ نے 1971 کے بعد اور روس کے زوال سے 2 سبق  سیکھے ہیں:
1۔ سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
2۔ وسائل کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
آپ دیکھیں گے کہ یہی 2 اسباب تمام مسائل کی جڑ ہیں جب تک ان کا حل نہیں نکلے گا تب تک یہ ملک ایسے ہی چلے گا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے والوں کے وارے نیارے اور قوم خستہ حال ہی رہے گی۔ ان سے نکلنے کیلئے جو بھی کوشش کرے گا اسکا حال "مجھے کیوں نکالا" ہو گا یا پھانسی لگے گا یا گولی کھائے گا۔ اس کے کارکن کوڑے کھائیں گے یا وطن بدری ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ لیکن آپ یقین رکھیں جس طرح اس ملک میں اشرافیہ، عام عوام اور غریب عوام کی کلاس ابھر کر سامنے آ رہی ہے جلد اس کا نتیجہ سامنے آنے والا ہے- اس ملک میں ایک لا وارث  نسل بھی تیار ہو رہی ہے جس کی نا تربیت کی گئی ہے نا یہ نسل تعلیم و دین کے نام سے واقف ہے اور یہ ایک سروے کے مطابق 6% ہے ۔ یہی 6% آپ کو ہر اخلاقی برائی اور سانحے کی ذمہ دار نظر آئے گی۔ 
یہ ملک بہت تیزی کے ساتھ ایک معاشرتی بحران کیطرف جا رہا ہے اور اس کے ذمہ دار آپ میں اور یہ معاشرہ ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
پہلگام کہانی
پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...
- 
ٹرمپ کیا کرنا چاہیں گے پہلا حصہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کا پروجیکٹ 2025 اظہر عباس پروجیکٹ 2025 ایک 922 صفحات پر مشتمل بلیو پرنٹ ہے جسے ہیریٹیج فاؤ...
- 
"Worry, like a rocking chair," said Vance Havner, "will give you something to do, but it won't get you anywhere."...
- 
جھوٹ اور انتشار کی جنگ اظہر عباس (حصہ اول) جنگ کی نوعیت صدیوں کے دوران ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ارتقا و پھیلاو، معاشرے او...
 
 
 
No comments:
Post a Comment