Sunday, July 17, 2022
بائیڈن کا دورہ مشرق وسطی - کیا ہونے والا ہے
عین اس وقت جب پاکستانی سیاست پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں، کراچی کی بارشوں، عمران خان کے کچھ اعترافی اور کچھ الزاماتی بیانات میں دھنسی ہوئی ہے، امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطی کا دورہ مکمل کر چکے ہوں گے۔ اس دورہ میں جہاں انہوں نے جیو اسٹریٹیجک معاہدات کی تجدید کی وہیں معاشی میدان میں بھی کچھ تغیرات رونما ہوئے جنہیں شاید ہمارے سیاستدان اپنی راگنیوں میں مست رہنے کی بنا پر بھولے رہے یا پھر انہوں نے آئیندہ کیلئے اسے قومی سلامتی کے اداروں پر چھوڑ کر انہوں نے صرف اندرونی سیاست پر قناعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے
ایک سیاستدان کا اپنے ملک کے مفاد سے بڑا کوئی مفاد نہیں ہوتا. گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان کے گرد بنیادی نوعیت کی بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور مستقبل میں ان تبدیلیوں کی بنیاد پر بہت سی جغرافیائی تبدیلیوں کا امکان ہے، خلیج اور مشرق وسطیٰ جہاں پاکستان کے قریبی ممالک مصر، اردن، سعودیہ، خلیجی ممالک واقع ہیں پورا خطہ تبدیل ہو رہا ہے، لیکن ایک سیاستدان قوم کی توجہ مسلسل ہٹا رہا ہے. تمام سیاسی جماعتیں اس وقت ایک ایسے بخار میں مبتلا ہیں جس کا کوئی علاج اس وقت تک نا ممکن نظر آتا ہے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ امریکی صدر کے دورہ مشرق وسطی میں کیا ہو چکا ہے اور کیا متوقع ہے۔
نیو یارک ٹائمز کےمطابق صدر جو بائیڈن بدھ کے روز مشرق وسطیٰ کے چار روزہ دورے پر اسرائیل اور سعودیہ جا رہے ہیں تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کو کم کرنے، امریکی پمپوں تک تیل کی ترسیل کو تیز کرنے اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ وہ ایک ایسے ولی عہد سے بھی ملیں گے جس پر اب تک انکی ڈیمو کریٹک پارٹی اور وہ خود انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا الزام لگاتی رہی ہے۔ ماضی میں وہ ولی عہد کی بجائے براہ راست بادشاہ سے رابطے رکھنے کا ارادہ کرنے کا اظہار بھی کر چکے ہیں 
یہ تینوں کوششیں ایک ایسے صدر کے لیے سیاسی خطرات سے بھری ہوئی ہیں جو اس خطے کو اچھی طرح جانتا ہے، لیکن چھ سالوں بعد پہلی بار اس سے کہیں کم فائدہ کے ساتھ دورے پر آیا ہے جتنا وہ واقعات کی شکل دینا چاہتا ہے۔
2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ان کی 18 ماہ کی طویل بات چیت رک گئی ہے، جس سے تہران کو جوہری کلب سے باہر رکھنے پر مجبور کرنے کی سفارتی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے، جس سے وہ زیادہ تر جوہری ایندھن کو اب قریب قریب بم گریڈ کی سطح تک بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ولی عہد کی سفارتی واپسی میں نرمی کے انعام میں سعودی عرب نے اپنے تیل کی پیداوار بڑھانے پر آمادگی کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے کہ اس سے زیادہ اس کی استطاعت ہی نہی یعنی سعودی تیل کے کنویں اب اپنی پوری استطاعت سے پیداوار دیں گے اور چونکہ سعودی تیل کی فروخت ڈالر سے منسلک ہے تو اس سے امریکی معیشت میں نا صرف بہتری آئے گی بلکہ ڈالر کی قدر مستحکم رکھنے میں بھی مدد ملے گی 
بائیڈن انتظامیہ کے اہلکار جانتے ہیں کہ جب بائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کو بین الاقوامی سطح پر نکو بنانے کے وعدے کے دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے صدر کی ملاقات کی ناگزیر تصاویر سامنے آئیں گی تو انہیں اپنی ہی پارٹی کے اندر سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ وعدہ 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے ایک صحافی جمال خاشقجی کے ایک پیچیدہ سازش میں قتل کی وجہ سے ہوا تھا جس کے بارے میں سی آئی اے نے کہا تھا کہ اسے براہ راست ولی عہد نے منظور کیا تھا۔ لیکن  محمد بن سلمان کی حکمت عملی - انتظار کرو جب تک کہ امریکہ کو دوبارہ سعودی عرب کی ضرورت نہ پڑے نے کام کیا
بائیڈن نے اکثر تاریخ میں اس (اپنے) دور کو جمہوریت اور آمریت کے درمیان مقابلہ کے طور پر پیش کیا ہے، اور کیوبا اور وینزویلا کو ان کے جابرانہ طرز عمل کی وجہ سے لاس اینجلس میں امریکہ کے حالیہ سربراہی اجلاس سے روک دیا گیا ہے۔ لیکن انہوں نے سعودی عرب کے دورے کو حقیقت پسندی کی مشق قرار دیا ہے۔
بائیڈن نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں واشنگٹن پوسٹ میں ایک رائے کے ٹکڑے میں لکھا ، "میرا مقصد تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینا تھا - لیکن ٹوٹنا نہیں۔" سعودی "توانائی کے وسائل یوکرین میں روس کی جنگ کے عالمی رسد پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے ناگزیر ہیں" 
اس سفر میں سپر پاور کی چالوں کا ایک عنصر بھی ہے۔
بائیڈن نے دفتر میں آنے کے بعد یہ واضح کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ پر امریکی توجہ کو کم کرنا چاہتے ہیں، اور چین پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں - ان کے اس یقین کی عکاسی کہ واشنگٹن نے 20 سال ضائع کیے جب اسے ایک حقیقی ہم مرتبہ حریف پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تھی۔ 
لیکن یہ سفر جزوی طور پر خطے میں چین کی مداخلت کو روکنے کے بارے میں بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے، ریاض اور واشنگٹن نے خاموشی سے سعودی عرب میں اگلی نسل کے 5G سیلولر نیٹ ورک کی تعمیر پر تعاون کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ یہ چین کے 5G چیمپئن، Huawei کو باکس آؤٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
یوکرائن کی جنگ کی سیاست بھی پس منظر میں ہوگی۔
بائیڈن کے معاونین نے واضح کیا کہ وہ موسم بہار میں اس وقت ناراض ہوئے جب اسرائیلی حکومت نے جنگ کے بارے میں بڑے پیمانے پر غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرنے پر اصرار کیا، اس بات پر اصرار کیا کہ اس کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے لیے صدر ولادیمیر پوتن کے سامنے کھلی بات رکھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
پیر کو، جب بائیڈن جانے کی تیاری کر رہے تھے، ان کے قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان نے پہلی بار انکشاف کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران - اسرائیل کا بنیادی مخالف - یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کی مدد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران روس کو سینکڑوں ڈرونز یا یو اے وی فراہم کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جن میں سے کچھ حملوں کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
عوامی استعمال کے لیے، وائٹ ہاؤس نے استدلال کیا ہے کہ بائیڈن کے سعودی عرب جانے کا فیصلہ صرف تیل ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے مسائل کی ایک پوری رینج کی وجہ سے تھا۔ لیکن تیل درحقیقت گیس کی اونچی قیمتوں کے وقت سفر کی سب سے اہم وجہ ہے۔ اسی وجہ سے اب تک کی جو تصاویر میڈیا کو جاری کی گئی ہیں ان میں محمد بن سلیمان تو نظر نہیں آئے لیکن عراقی صدر اور یو اے ای کے حکمران صدر بائیڈن کے ساتھ خوشگوار موڈ میں دکھائی دئے  
دوسری طرف خطے کے دوسرے اہم عرب  کھلاڑیوں کے ساتھ جدہ کانفرنس برائے امن و ترقی کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں استحکام کیلئے ترسیل برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہیں۔ ’تیل منڈی میں استحکام لانے کے لیے سعودی عرب نے اس سے پہلے ہی اپنی پیداوار کو 13 ملین بیرل تک لانے کا اعلان کر رکھا ہے‘۔ ہم امید ظاہر کرتے ہیں کہ کانفرنس سے عرب ممالک اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے فروغ کا نیا باب کھلے گا۔  ’ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے‘۔ولی عہد نے کہا ہے کہ ’عراق میں امن و استحکام پورے خطے کے لیے ضروری ہے جبکہ شام اور لیبیا کے مسائل سے پورا خطہ متاثر ہے‘۔
جبکہ مصری صدر نے کہا کہ امریکا کے ساتھ وسیع البنیاد تعاون کے خواہاں ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں خطرہ، حلیفوں کے ساتھ مل کر خطے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کا عزم رکھتے ہیں، مشرق وسطیٰ میں پائیدار تعلقات قائم کر کے مستحکم معیشت کی بنیاد ڈالیں گے۔
صدر جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ایران کو جوہری توانائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
سبق ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ ’ایران کی جوہری سرگرمیاں خطے کی امن وسلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔‘’ہم اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر خطے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کا عزم رکھتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’ہم مشرق وسطی میں پائیدار تعلقات قائم کرکے مستحکم معیشت کی بنیاد ڈالیں گے۔‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’خطے کے امن واستحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی زبردستی سرحدوں میں تبدیلیاں ہونے دیں گے‘۔
’بحری تجارتی گزرگاہوں کو محفوظ رکھنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہم بحری راستوں کو محفوظ بنائیں گے‘۔
جوابی تحفے میں سعودی عرب کو امریکا نے تیران اور صنافیر جزائر کی ملکیت سے نوازا ہے جہاں اس کی امن افواج نے کنٹرول سنبھالا ہوا تھا 
اسرائیل، مصر اور سعودی عرب کے قریب بحیرہ احمر میں واقع جزائر اہمیت کے حامل ہیں۔ سعودی عرب اور مصر کے درمیان نصف صدی سے زائد عرصے سے ان جزائر پر ملکیت کا تنازع ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اب اسرائیل نے بھی جزائر کو سعودی عرب کو واپس کرنے سے متعلق اعتراض واپس لے لیا ہے، اسے اسرائیل سعودیہ تعلقات میں بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب پہلے ہی اپنی فضائی حدود اسرائیل کیلئے کھول چکا ہے 
معاشی میدان میں دوسری بڑی پیش رفت I2U2 نامی معاہدہ ہے  تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ I2U2 ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے امریکہ کی کوششوں کو تقویت دیتا ہے، مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کو خطے کے لیے واشنگٹن کی وابستگی کا یقین دلاتا ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے اتحادیوں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرتا ہے۔
اس معاہدے کو کواڈ کا ایک ساتھی منصوبہ سمجھا جاتا ہے، ایک چار طرفہ شراکت داری جو آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور ریاستہائے متحدہ کو ایک ساتھ ملاتی ہے جس کی بنیاد جزوی طور پر بحر الکاہل میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کے جواب میں رکھی گئی تھی۔
اسرائیل کے لیے، I2U2 ایک اور فورم ہے جس میں ایران کی مخالفت کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس تاریخی سفارتی معاہدے کو مضبوط کرنا ہے جس پر اس نے U.A.E. کے ساتھ مہر ثبت کی تھی۔
اس معاہدے کی تشکیل کے ساتھ، "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ دو الگ الگ اسٹریٹجک سیاق و سباق کو مربوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے" - ہند-بحرالکاہل اور مشرق وسطی، چین اور ایران کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات پر ایک حالیہ مقالے کے مصنف کیوجن لم نے کہا۔
ڈاکٹر لم نے مزید کہا کہ "یہ مختلف خطوں میں امریکہ کے شراکت داروں کے درمیان صف بندی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہندوستان کے لیے، مقصد بنیادی طور پر اقتصادی ہے۔ اس اقدام سے دہلی کو مارچ میں ایک بڑے اقتصادی معاہدے پر مہر لگنے کے بعد امارات کے ساتھ تجارتی تعلقات کو تقویت ملتی ہے، اور اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدے کے لیے بات چیت کو رفتار ملتی ہے۔
تقریباً 3.5 ملین ہندوستانی امارات میں رہتے ہیں، جو خلیجی ملک کی کل آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہے، جو انہیں U.A.E کے لیے مزدوری کا ایک اہم ذریعہ بناتا ہے۔ اور ہندوستان کے لیے ترسیلات۔ ہندوستان کو امارات سے تیل اور اسرائیل سے اسلحہ بھی خاصی مقدار میں ملتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک پریس بریفنگ میں، وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے کہا کہ I2U2 اپنے شرکاء کو خوراک کی حفاظت پر بات کرنے کی بھی اجازت دے گا۔ یوکرین میں روس کی جنگ نے اناج کی سپلائی میں کمی پیدا کر دی ہے، یہ فرق بھارت کے حالیہ گندم کی برآمدات کو محدود کرنے کے فیصلے سے بڑھ گیا ہے۔
انڈیا اس سمٹ کے فورا بعد حیفہ کی بندرگاہ کے انتظام خریدنے میں کامیاب رہا۔
ایک قاری اس تمام پیش رفت کے بعد اپنے سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ سے کم از کم ایک سوال پوچھنے میں تو حق بجانب ہوگا کہ "اس خطے میں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟"
یا پھر خواجہ آصف کے اس بیان پر اکتفا کر لیا جائے کہ "بھکاریوں کی کوئی چوائس نہیں ہوتی"  ؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
پہلگام کہانی
پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...
- 
ٹرمپ کیا کرنا چاہیں گے پہلا حصہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کا پروجیکٹ 2025 اظہر عباس پروجیکٹ 2025 ایک 922 صفحات پر مشتمل بلیو پرنٹ ہے جسے ہیریٹیج فاؤ...
- 
"Worry, like a rocking chair," said Vance Havner, "will give you something to do, but it won't get you anywhere."...
- 
جھوٹ اور انتشار کی جنگ اظہر عباس (حصہ اول) جنگ کی نوعیت صدیوں کے دوران ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ارتقا و پھیلاو، معاشرے او...
 
 
 
No comments:
Post a Comment