Wednesday, April 6, 2022

پاکستان کا سیاسی گرداب

 پاکستان کا سیاسی گرداب

اظہر عباس


جیسا کہ میں نے پچھلے بلاگ میں لکھا تھا کہ جو بائیڈن ہاٹ پرسوٹ کی بجائے دنیا میں روایتی 80 کی دہائی کی سیاستکاری بذریعہ سفارتکاری کی اسٹریٹیجی پر جائے گا اور دنیا میں ڈیموکریٹک قوتوں کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دے گا لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ اس تبدیلی کو سمجھنے میں ناکام رہا ۔ ٹرمپ کے پاپولر سیاسی اسٹائل کو دیکھتے ہوئے عمران خان کو حکومت میں لایا گیا جس نے ٹرمپ سے قریبی مراسم بذریعہ اس کے داماد کشنر بڑھائے اور پھر ٹرمپ کو دورہ امریکہ میں بھرپور تعاون کی یہاں تک یقین دہانی کرائی گئی کہ پاکستانی سفارتخانہ کو ٹرمپ کا الیکشن آفس بنا دیا گیا ۔ یہ بات ڈیمو کریٹک پارٹی کو شروع سے کھٹک رہی تھی کہ ریپبلکن پارٹی کی حمایت میں پاکستان کس طرح سے تعاون کر رہا ہے ۔۔ یہاں رک کے ایک بات سوچیں کہ جب آپ ایک سپر پاور کے ملک میں جاکر ایک پارٹی کی ان کے الیکشن میں مدد کریں تو جوابی کاروائی سے بدکنا چہ معنی دارد ؟ اور وہ بلاشرکت غیرے سپر پاور جب آپ کے سفیر کو جوابی طور پر رجیم کے بدلاو کی بات کرے تو اس پر رونا کیسا ؟ اس ساری صورتحال میں جب کہ پاکستان کی حکومت و اسٹیبلشمنٹ اپنے سارے انڈے امریکہ کی ایک ہاری ہوئی پارٹی کی ٹوکری میں ڈال چکی تھی تو جیتی ہوئی پارٹی کے ایک اسسٹنٹ سیکرٹری کی ایک گھرکی کی مار ہی ثابت ہوئی اور جب عدم اعتماد اسمبلی میں پیش ہوئی تو ایک بھونڈے طریقے سے اپنی ہی حکومت توڑنی پڑی ۔۔ یہ بھونڈا انداز اتنا ناقابل فہم تھا کہ پورا ملک ایک آئینی و سیاسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے ۔۔ ان حالات میں پاکستان کے معروف صحافی اپنے آج کے جنگ میں شائع شدہ کالم میں لکھتے ہیں کہ:


"افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ہم سب سے زیادہ دنیا دیکھنے والے، مغرب کو سب سے زیادہ سمجھنے والے، اخلاقیات کا سبق دیتے کرکٹ لیجنڈ وزیراعظم عمران خان نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ورنہ وہ استعفیٰ دے کر ایک اعلیٰ مثال بھی قائم کر سکتے تھے۔


کھلاڑی آخری بال تک ضرور لڑتا ہے مگر ہار جائے تو شکست تسلیم بھی کرتا ہے۔مجھے کرکٹ دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق رہا ہے اور اسپورٹس مین اسپرٹ کے حوالے سے میں عمران کے کزن ماجد خان سے بہت متاثر ہوں۔ اسے جب بھی لگتا تھا کہ بال اس کے بلے کو چھو کر وکٹ کیپر کے پاس گئی ہے تو وہ ایمپائر کی انگلی کی طرف دیکھے بغیر کریز چھوڑ دیتا تھا۔ 


اتوار کے روز قومی اسمبلی میں چار منٹ کا جو تماشہ ہوا اس نے بہت سے سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔

حکومت اتنی جلدی میں تھی کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ پڑھتے وقت اسپیکر اسد قیصر کا نام بھی لے گئے جن کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک اسی دن جمع ہو گئی تھی۔ یہی کام ذرا بہتر انداز میں اپوزیشن کے ایک دو لوگوں کو سن کر ہی کرلیتے۔


وزیراعظم اور ان کے رفقاء کار نے 8 مارچ سے لے کر 27مارچ تک پوری کوشش کی کہ منحرفین واپس آجائیں، اتحادی مان جائیں اور انہیں پورا یقین تھا کہ وہ تحریک کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔


اب اگر ’بین الاقوامی سازش‘ کا پتا انہیں 7مارچ کو چل گیا تھا تو پھر یہ ساری کوششیں کس لیے تھیں۔ یہ انکشاف اس وقت کیوں کیا گیا جب تمام تر ذاتی ملاقاتوں اور پارٹی رہنمائوں کی کوششوں کے باوجود کوئی واپس آنے کو تیار نہ ہوا۔ پھر جیسا کہ ہوتا ہے، آپ نے منحرفین کے گھر والوں تک کو دھمکی دیدی مگر وہ پھر بھی واپس نہ آئے۔ اس سے بہت بہتر ہوتا کہ کپتان اکثریت کھونے کے بعد میدان میں مقابلہ کرتے۔ الیکشن میں جانے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں تھا کیونکہ دوسری طرف 190 سے زیادہ اراکین تھے۔


آخر خان صاحب یہ بھی تو بتائیں کہ ان منحرفین کو پارٹی میں لانے کا فیصلہ کس کا تھا؟ اتحادیوں کو کس نے آپ کے حوالے کیا تھا ساری زندگی ’’نیوٹرل ایمپائر‘‘ لانے کا کریڈٹ لینے والے کپتان کو اب نیوٹرل جانور کیوں نظر آنے لگے۔"


ان کے اس سوال کا جواب سلیم صافی دیتے ہیں۔ اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ:

مختلف ممالک سے پاکستان کے سفارتخانے دو ذرائع سے اپنی وزارتِ خارجہ کو باخبر رکھتے ہیں۔ ایک معمول کے خطوط ہوتے ہیں اور دوسرے خفیہ ٹیلی گرام۔


خفیہ ٹیلی گرام میں سفیر اس ملک کے عوام اور حکومتی صفوں میں پاکستان کے بارے میں سوچ کا تجزیہ اپنے الفاظ میں کرتے ہیں۔ بالخصوص جب بھی کسی بھی ملک کے حکومتی عہدیدار سے سفیر کی ملاقات ہوتی ہے تو ان کے خیالات کا خلاصہ خفیہ کیبل کی صورت میں بھجوایا جاتا ہے۔


 ظاہر ہے اس میں اس سفیر کے اپنے خیالات اور تجزیاتی صلاحیت کا بھی دخل ہوتا ہے۔

امریکہ، چین، انڈیا، برطانیہ اور افغانستان جیسے ممالک سے نہ صرف یہ کیبلز تواتر کے ساتھ آتے ہیں بلکہ ان ممالک کی اہمیت کی وجہ سے انہیں خصوصی اہمیت بھی دی جاتی ہے۔


 میری معلومات کے مطابق یہ خفیہ ٹیلی گرام براہ راست سیکرٹری خارجہ کو بھیجے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور سی جی ایس کو بھی اسی روز بھیجے جاتے ہیں۔


یوں حکومت نے اس وقت جس خفیہ کیبل کو موضوع بحث بنایاہے، وہ اسی دن آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور سی جی ایس کو بھی گیا ہوگا اور اگر واقعی اس میں پاکستان کی سلامتی سے متعلق کوئی سنجیدہ خطرے کی بات ہوتی تو نہ صرف وہ اس پر ردعمل ظاہر کرتے بلکہ یہ شخصیات وزیراعظم سے کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ طلب کرنے کا بھی مطالبہ کرتیں۔


پاکستان کے بارے میں امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر دھمکی دینی ہو یا پھر کوئی پیشکش کرنی ہو تو عسکری قیادت کوکی جاتی ہے نہ کہ وزیر خارجہ یا وزیراعظم کو۔

مثلاً جب زلمے خلیل زاد ہر ہفتے پاکستان آتے تھے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے نہ ملے ہوں لیکن وزیرخارجہ اور وزیراعظم سے وہ صرف ایک مرتبہ ملے۔ میں پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ سی آئی اے چیف جب پاکستان آئے تھے تو عمران خان نے ان کے ساتھ ملاقات سے انکار کیا تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو ان کی پاکستان آمد اور آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات پتہ ہی تب چلاجب وہ پاکستان سے واپس جا چکے تھے۔


 اس پس منظر کو سامنے لانے سے مقصود یہ ہے کہ امریکہ کو اگر کوئی سنجیدہ پیغام دینا ہوتا تو وہ براہ راست عسکری قیادت کو دیتا نہ کہ وہاں پر موجود ہمارے سفیر کو۔


اب یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت امریکہ پاکستانی ریاست سے ناراض یا نالاں ہے۔ ایک وجہ تو افغانستان ہے۔

 دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان ماضی کی طرح صرف اس کے کیمپ میں رہے لیکن جنرل کیانی اور آصف زرداری کے دور میں پاکستان نے روس اور چین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کا آغاز کرکے یہ پیغام دیا تھا کہ پاکستان مزید امریکہ کی طرف نہیں دیکھے گا۔ اس دور میں صرف امریکہ کے خلاف برائے نام نعرے نہیں لگائے گئے تھے بلکہ نیٹو سپلائی بند کی گئی، بلوچستان میں ان کے اڈے واپس لیے گئے اور سپلائی تب بحال کی گئی جب امریکہ نے معافی مانگ لی۔


جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اسی پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، اسی طرح سی پیک اور چین کے ساتھ قربت سے بھی امریکہ خوش نہیں اور چین کے تناظر میں اس نے انڈیا کو اپنے اسٹریٹیجک پارٹنر کا درجہ دیا ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف ا سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے 7 مارچ کو الوداعی ملاقات کی۔

میری معلومات کے مطابق اس ملاقات میں ان کے ساتھ ایک اور سفارتکار بھی موجود تھے اور وہ بھی پاکستان میں اپنے باسز کو بتا چکے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جس طرح حکومت پیش کررہی ہے۔

 اس ملاقات میں شاید انہوں نے روایتی طور پر پاکستان سے متعلق روایتی گلے شکوے کئے ہیں چونکہ ٹرم خان ایڈمنسٹریشن کا استعمال ہوتا ہے اس لیے شاید اس ملاقات میں بھی انہوں نے یہ ذکر کیا ہے۔


اس طرح کی ملاقاتوں میں عموماً دونوں ملکوں کی سیاسی صورت حال بھی ڈسکس ہوتی ہے چنانچہ ہوسکتا ہے پاکستان کی سیاسی صورت حال پر بھی بات چیت ہوئی ہو اور ڈونلڈ لو نے یہ بتایا ہو کہ عمران خان ایڈمنسٹریشن کی موجودہ پالیسیوں کے ساتھ تو چلنا مشکل ہے لیکن نئی حکومت نے اگر کچھ مثبت اقدامات لیے تو ان کے ساتھ کام ہوسکتا ہے۔

 پھر اس طرح کی ملاقاتوں میں ہر ملک اپنے مطالبات دہراتا ہے اور جواب میں سفیر اپنے ملک کا موقف پیش کرتا ہے۔


 بعض اوقات وہ عہدیدار مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں ممکنہ نتائج کا بھی ذکر کرتا ہے اور حکومت جو تاثر دے رہی ہے اس سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ شاید ڈونلڈ لو نے ممکنہ نتائج کا بھی ذکر کیا ہو۔


اب اس ملاقات کا خلاصہ اور تجزیہ اسد مجید خان نے پاکستان بھجوایا اور ظاہر ہے کہ یہ اسی روز سیکرٹری خارجہ کے ساتھ مذکورہ عسکری حکام کے پاس بھی گیا ہوگا.


 لیکن ہم نے دیکھا کہ حکومت نے اس کے بعد کئی روز تک اس حوالے سے نہ تو امریکہ سے کوئی احتجاج کیا اور نہ کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا کیونکہ وہ معمول کا ایک ٹیلی گرام تھا۔ کئی روز تک حکومت نے اس ٹیلی گرام کا کسی فورم پر کوئی ذکر نہیں کیا لیکن جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو عمران خان صاحب نے اپوزیشن کو مدافعتی پوزیشن پر لانے کے لیے اس ٹیلی گرام کا سہارا لے کر یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ امریکہ نے سات مارچ کو انہیں دھمکی دی اور اسی ٹیلی گرام میں یہ بات بھی ہےکہ عدم اعتماد کی تحریک امریکہ کے ایما پر لائی جارہی ہے۔


 اس دعوے سے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور خود امریکی ہکا بکا رہ گئے۔ وائٹ ہاوس اوراسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے تردید کردی۔ ملاقات کرنے والے ڈونلڈ لو نے بھی ٹی وی انٹرویو میں کہہ دیا کہ عدم اعتماد یا دھمکی کی کوئی بات نہیں کی۔ سفیر اسد مجید کے ساتھ ملاقات میں موجودہ دوسرے سفارتکار بھی متعلقہ حکام کو بتاچکے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ چنانچہ فیس سیونگ کے لیے عمران خان نے کئی روز بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا اور اس میں نصف درجن غیرمتعلقہ وزیروں کو بلایا۔ کمیٹی کو اپنی مرضی کی بریفنگ دلوائی۔ پھر پریس ریلیز خود جاری کی 


لیکن پریس ریلیز میں نہ عدم اعتماد کا ذکرہے، نہ امریکہ کا نام ہےاور نہ حکومت گرانے کے لیے سازش کا ذکر عمران اور ان کے گوئبلز نے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ ان کے دعوے کی سروسز چیفس نے بھی تصدیق کی ہے۔


اس سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اس ٹیلی گرام کو بنیاد بنا کر آرٹیکل 5 کی آڑ لے کر انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے عدم اعتماد کی تحریک واپس کرائی اور پھر اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا۔ گویا اس ایک ٹیلی گرام کی بنیاد پر انہوں نے ڈپٹی اسپیکر سے ڈیکلیئر کروایا کہ اپوزیشن کے تمام رہنما اور ممبران اسمبلی غیرمحب وطن ہیں۔ اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس ٹیلی گرام کی حقیقت واضح کی جائے کیونکہ اپوزیشن کو غیرمحب وطن قرار دینے، پھر اس کی آڑ میں عدم اعتماد پر ووٹنگ کی بجائے آئین شکنی کرکے اجلاس ملتوی کرنے اور پھر اسی کی آڑ میں اسمبلی توڑنے جیسے سارے افعال کی عمارت اس ٹیلی گرام پر کھڑی ہے۔

 پاکستان خارجہ محاذ پر مذاق بن گیا"


آئیندہ الیکشن اور تشکیل حکومت کا منظرنامہ ایمپائر کے نیوٹرل رہنے سے مشروط ہے ورنہ نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ مقابلہ تو نام ہی فیئرپلے کا ہے جو پاکستان میں ہمیں کم ہی نظر آیا ہے۔ اور ابھی بائیڈن/ ڈیموکریٹک پارٹی کے بھی تین سال باقی ہیں اور آنے والا اسٹیبلشمنٹ کا باس بھی تین سال ہی اپنی پالیسیاں تشکیل دے گا لیکن جس بات کی سمجھ عمران خان کو نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ جو انہیں اس مقام پر لے آئے کیا وہ انہیں دوبارہ وہیں دیکھنا چاہیں گے ؟ عدلیہ جو اتنا ٹائم ایک چھوٹا سا نقطہ جو ہر پھٹے والے وکیل کو بھی معلوم ہے کہ "بغیر دوسرے فریق کو سنے کوئی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا" کیا سپریم کورٹ کے ججز کے علم میں نہیں ؟ وہ دراصل یہ ٹائم اس لئے لے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یکسو ہوسکے جو وہ اس وقت نہیں ہے 


اللہ اس ملک کے باسیوں کیلئے رحمت کے دروازے کھولے اور لیڈران کرام کو عقل سلیم عطا فرمائے 


آمین

No comments:

Post a Comment

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...