Wednesday, September 14, 2022

نظام کی تبدیلی (آخری حصہ)

پہلی عالمی جنگ کے بعد عالمی سطح پر ایمپائرز کے زوال کے بعد نیا عالمی نظام گزشتہ سو سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ اور جمہوری طاقتیں اس میں مسلسل بہتری کیلئے کوشاں ہیں۔ دنیا اس وقت ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور کسی ایک ملک پر حملہ، آفت یا کسی اور ضرورت کے وقت ممالک ایک دوسرے کی مدد کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ہمارا ملک آزاد ہوئے بھی 75 سال ہو گئے اور اس عرصے میں یہ اقوام عالم سے کبھی علیحدہ نہیں رہا۔ یہاں کا نظام جمہوریت کی ہی مرہون منت ہے اور برسہا برس کے انسانی تجربے کا حاصل ہے۔ ہمارا عسکری نظام ہو یا بیورو کریسی کا نظام، اس کے پاس برطانوی اور مغل انتظام کا تجربہ ہے۔ اس میں مزید بہتری کی گنجائش ضرور ہے اور کمی نظام میں نہیں بلکہ نظام چلانے والوں کی کوتاہی میں ہے۔ اسے مزید دیانتداری سے نافذ کیا جائے تو یہ مزید بہتر ہو جائے گا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب خان صاحب نظام کی تبدیلی کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے ان کے پاس نا تو کسی متبادل نظام کا خاکہ ہے اور نا ہی انہوں نے آج تک اس کو عوام تک پہنچایا ہے۔ اس لئے میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ یہ نعرہ صرف جذباتی استحصال پر مبنی ہے جو ان کے فدائین کیلئے ٹانک کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ خان صاحب کی موجودہ مہم کو بغور دیکھا جائے تو وہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے دن سے ہی ایک بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں اور اپنی ہائبرڈ رجیم کی حکومت کے تصور کو بھول رہے ہیں جس کی موجودہ عالمی نظام میں کوئی گنجائش نہیں۔ ٹرمپ کی طرح وہ ایک نظام سے جنگ چھیڑے ہوئے ہیں اور ان کے حامی ایک کلٹ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اداروں کو نشانہ بناتے بناتے اب وہ ملک کی سالمیت کی پروا کرنی بھی چھوڑ چکے۔ ان کی جماعت کی لیڈر شیریں مزاری کے ٹویٹس دیکھیں تو اسرائیلی وفد سے وزیر اعظم قطر میں خفیہ ملاقات سے لیکر ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے معاملات تک چھیڑ چکیں۔ ان کے دور کے خزانہ کے وزیر پنجاب اور کے پی کے کے صوبائی وزرائے خزانہ سے مل کر آئی ایم ایف ڈیل کو متاثر کرنے کی کوشش کر چکے لیکن انہیں نہیں بھولنا چاہئیے کہ کوئی بھی لیڈر ملک سے بڑا ہو سکتا ہے نہ ملک سے بڑھ کر اُس کا احترام و اکرام کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی سیاسی و مذہبی لیڈر کی پہچان اور تشخص اُس کے ملک کی وجہ ہی سے ہوتی ہے۔ کوئی لیڈر اگر ملک اور ملکی اداروں کا احترام اور لحاظ ملحوظِ خاطر نہیں رکھتا تو وہ خود بھی احترام و محبت کا حقدار نہیں کہلا سکتا۔ ایسے شخص کی عزت کی ہی نہیں جا سکتی۔ جناب عمران خان کو اِس ملک، اِس ملک کے اداروں اور اِس ملک کی عوام نے جتنی محبت اور احترام بخشا ہے، آج تک کسی لیڈر کو نہیں ملی۔ وہ پونے چار سال وزیر اعظم کی کرسی پر تشریف فرما رہے لیکن سوائے اپنے مخالفین کو جیلوں میں ٹھونسنے، صحافت کا گلا دبانے اور چور چور کے نعرے لگانے کے کوئی مثبت اور دیرپا عوامی و ملکی خدمت انجام نہ دے سکے۔ اقتدار چھِن جانے سے پہلے بھی خان صاحب نے دھمکی دیتے ہُوئے کہا تھا ’’ اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو مَیں زیادہ خطرے ناک ہو جاؤں گا۔‘‘ یعنی وہ ’’خطرناک ‘‘ تو پہلے ہی تھے اور اقتدار سے نکالے جانے کے بعد زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے تھے۔ خان صاحب اپنے تئیں ’’خطرناک‘‘ ہوکر عوام اور ملک کا تو فی الحال کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے۔ ہاں، اپنا بہت کچھ بگاڑ نے کا موجب بن رہے ہیں۔ اپنی اس "حقیقی تبدیلی" کی مہم میں خان صاحب اداروں کو مختلف ناموں سے پکارنے اور لوگوں کو دھمکیاں دیتے دیتے اس وقت عدالت کے سامنے ملزم کے طور پر کھڑے نظر آتے ہیں لیکن آج تک انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا نظام کی تبدیلی کا مطلب کیا ہے ؟ ہاں ان کی باتوں، اعمال، انکے جلسوں کے شرکا اور انکی ایک مخصوص کمیونٹی میں مقبولیت، انکے ادا کردہ ادھورے کلمے اور شرک کے فتووں سے ایک شائبہ ضرور ہوتا ہے۔ کہیں ان کا مرغوب نظام ایل جی بی ٹی ایجنڈا سے متاثر تو نہیں ؟

No comments:

Post a Comment

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...