Thursday, July 21, 2022
معاشی استحکام کی سیاسی قیمت
معاشی استحکام کی سیاسی قیمت
اظہر عباس 
یوکرین پر روس کے حملے نے نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر کو اقتصادی زلزلوں کا شکار کیا ہے۔ پاکستان، جس کی معیشت دہائیوں کی غیر مستحکم طرز حکمرانی کی وجہ سے پہلے ہی کمزور ہے، خاص طور پر اسکا شکار ہوئی۔ اگرچہ بہت سے ممالک یوکرائنی یا روسی گندم یا غیر ملکی توانائی کی درآمدات پر انحصار کرتے ہیں، لیکن پاکستان دونوں کی کمی یوکرائن، روس اور مشرق وسطی سے پورا کرتا ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ  2020/ 2021 کے دوران پاکستان یوکرائنی گندم کی برآمدات کا تیسرا سب سے بڑا گاہک تھا۔ پاکستانی معیشت کو دوسرا بڑا جھٹکا تیل اور ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے سے لگا، جس سے اس کی درآمدات تقریباً 5 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ پاکستانی معیشت کے لیے یہ ایک بد ترین  صورتحال ہے۔ 30 جون 2022 کو پاکستان کے مالی سال کے اختتام پر، اس کا تجارتی خسارہ 50 بلین ڈالر کے قریب پہنچ گیا ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 57 فیصد زیادہ ہے۔ 
جون میں مہنگائی کی شرح 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی جو کہ ماضی قریب میں سب سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے سبسڈی ختم کرنے کی ہدایت نے بجلی اور گیس دونوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستانی روپے کی گراوٹ نے خاص طور پر متوسط طبقے کو نقصان پہنچایا ہے اور موجودہ صورتحال میں متوسط طبقہ مہنگائی کی صورتحال برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ 
ان حالات میں جبکہ ملک اقتصادی بحران کی بدترین لپیٹ میں ہے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں 20 سیٹس پر ضمنی الیکشن نے سیاسی سطح پر ایک نئے طوفان کو جنم دیا ہے۔ عمران خان جو عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخل ہوگئے تھے شروع دن سے ہی ایک ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کہ سیاسی بحران کو شدید کر کے نئے الیکشن کی راہ ہموار کر سکیں ان 20 صوبائی  سیٹس میں سے 15 جیتنے کے بعد سیاسی بحران میں شدت پیدا کر کے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ 
عمران خان نے اپنی ساری کارکردگی ایک خط میں لپیٹ کر اپنے ووٹ بینک کو دی جس نے اس کو قبول کیا۔
اس کے بعد انہوں نے اینٹی امریکا نعرہ بھی بیچا۔ اور ان کے ووٹ بینک نے اس کو بھی ہاتھوں ہاتھ خریدا۔ 
یاد رہے عمران خان کے بیانیے کا خریدار ان کا ووٹ بینک اور اس کے علاوہ وہ نوجوان ووٹر ہے جس کی ہر حلقے میں 20/25 ہزار کے قریب نمائندگی ہے اور گزشتہ کچھ سالوں میں پاکستانی انتخابی سیاست میں نیا آیا ہے یہ نوجوان ووٹر سسٹم سے باغی ہے، اپنے آپ کو تبدیلی کا نمائندہ سمجھتا ہے اور اسے سوشل میڈیا سے رغبت ہے۔ اسے کوئی بھی بیانیہ دینا آسان ہے
بقول ہمارے دوست عظمت افروز خان: "نوجوان Fiction اور Thrill کے دلدادہ ہوتے ہیں، بچپن ہی سے بڑے بڑے خواب دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں جبکہ چالیس پچاس سال کے لوگ بیشتر خواب ٹوٹنے کے بعد Pragmatic ہو چکے ہوتے ہیں, تجربہ کار ہو چکے ہوتے ہیں سو اُنہیں جھوٹے خواب بیچے نہیں جا سکتے، جبکہ نوجوان کے یہ جاگتے خواب اُسے سکون دیتے ہیں ، اسی لئے نیازی کے بیشتر ووٹر اٹھارہ سے پچیس سال کے وہ نوجوان ہیں جنہیں نیازی مسلسل جھوٹے خواب بیچ رہا ہے اور تاریخ سے نابلد نوجوان اس کے چنگل میں آسانی سے آ رہے ہیں، پھر نیازی کی سوشل میڈیا ٹیمیں بھی اسی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہیں جو اُن نوجوانوں کو اُن ہی کی “کھُلی ڈُلی” زبان میں بات سمجھاتے ہیں، مخالفین کو گالیاں دھمکیاں دلواتے ہیں نوجوانوں کو طاقتور ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔"
سیاسی میدان میں نووارد اس طبقے نے عمران خان کے بیانیے کو قبول کیا ہے اور اس وقت پاکستانی کی سیاست میں جو جوشیلا پن نظر آتا ہے وہ یہی نوجوان ووٹر ہے 
اس سارے سیاسی غل غپاڑے میں ہم یہ بھول رہے ہیں کہ 2018 کے عام انتخابات میں یہ 20 سیٹس پی ٹی آئی نے جیتی تھیں۔ ان میں سے 4 نون لیگ نے جیت لی ہیں جبکہ 1 آزاد رکن نے نون لیگ میں شمولیت/ حمایت کا اعلان کر دیا ہے 
اس حکومت کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں ہے کہ وہ ڈالر کو 120 اور پٹرول کو 100 روپے پر لا سکے۔
 اس کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں جو لوڈشیڈنگ کو فوری طور پر صفر کرسکے۔ یہ غیر یقینی کی صورتحال اب ڈالر کو مزید بے قابو کرے گی اور اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ذرا سی بھی اوپر گئیں تو حکومت کو یہاں بھی بڑھانا پڑیں گی۔ 
لیکن بقول وجاہت مسعود "پاکستان میں نئے ووٹروں کی اکثریت ہماری سیاسی اور جمہوری تاریخ سے نابلد ہے۔ معیشت کی نزاکتیں نہیں سمجھتی۔ اس نئی سوچ کا ماضی کی سیاسی روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ ماننا چاہیے کہ پاکستان کا عام شہری مہنگائی کے حالیہ بحران سے سخت نالاں ہوا ہے۔ اسے آئی ایم ایف کی شرائط، زرمبادلہ کے ذخائر یا عالمی معیشت کے اتار چڑھائو سے غرض نہیں۔ وہ آٹے اور گھی کی قیمت جانتا ہے۔"
سٹی گروپ کے ایمرجنگ مارکیٹس ڈویژن کے سابق چیف سٹریٹجسٹ یوسف نظر کا اندازہ ہے کہ فروری سے اب تک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر نصف کم ہو کر صرف 6.3 بلین ڈالر رہ گئے ہیں، یوسف نذر کے مطابق، پاکستان کو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے بیل آؤٹ ملے ہیں۔ ورلڈ بینک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو جلد ہی "میکرو اکنامک عدم استحکام" کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سماجی عدم استحکام اس کے علاوہ ہے پاکستان کے نجی شعبے نے لیبر پول کو جذب کرنے کے لیے اتنی ملازمتیں پیدا نہیں کیں۔ غصہ عروج پر پہنچ رہا ہے، اور بڑھتے ہوئے جرائم معاشرتی خرابی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
Sunday, July 17, 2022
بائیڈن کا دورہ مشرق وسطی - کیا ہونے والا ہے
عین اس وقت جب پاکستانی سیاست پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں، کراچی کی بارشوں، عمران خان کے کچھ اعترافی اور کچھ الزاماتی بیانات میں دھنسی ہوئی ہے، امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطی کا دورہ مکمل کر چکے ہوں گے۔ اس دورہ میں جہاں انہوں نے جیو اسٹریٹیجک معاہدات کی تجدید کی وہیں معاشی میدان میں بھی کچھ تغیرات رونما ہوئے جنہیں شاید ہمارے سیاستدان اپنی راگنیوں میں مست رہنے کی بنا پر بھولے رہے یا پھر انہوں نے آئیندہ کیلئے اسے قومی سلامتی کے اداروں پر چھوڑ کر انہوں نے صرف اندرونی سیاست پر قناعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے
ایک سیاستدان کا اپنے ملک کے مفاد سے بڑا کوئی مفاد نہیں ہوتا. گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان کے گرد بنیادی نوعیت کی بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور مستقبل میں ان تبدیلیوں کی بنیاد پر بہت سی جغرافیائی تبدیلیوں کا امکان ہے، خلیج اور مشرق وسطیٰ جہاں پاکستان کے قریبی ممالک مصر، اردن، سعودیہ، خلیجی ممالک واقع ہیں پورا خطہ تبدیل ہو رہا ہے، لیکن ایک سیاستدان قوم کی توجہ مسلسل ہٹا رہا ہے. تمام سیاسی جماعتیں اس وقت ایک ایسے بخار میں مبتلا ہیں جس کا کوئی علاج اس وقت تک نا ممکن نظر آتا ہے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ امریکی صدر کے دورہ مشرق وسطی میں کیا ہو چکا ہے اور کیا متوقع ہے۔
نیو یارک ٹائمز کےمطابق صدر جو بائیڈن بدھ کے روز مشرق وسطیٰ کے چار روزہ دورے پر اسرائیل اور سعودیہ جا رہے ہیں تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کو کم کرنے، امریکی پمپوں تک تیل کی ترسیل کو تیز کرنے اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ وہ ایک ایسے ولی عہد سے بھی ملیں گے جس پر اب تک انکی ڈیمو کریٹک پارٹی اور وہ خود انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا الزام لگاتی رہی ہے۔ ماضی میں وہ ولی عہد کی بجائے براہ راست بادشاہ سے رابطے رکھنے کا ارادہ کرنے کا اظہار بھی کر چکے ہیں 
یہ تینوں کوششیں ایک ایسے صدر کے لیے سیاسی خطرات سے بھری ہوئی ہیں جو اس خطے کو اچھی طرح جانتا ہے، لیکن چھ سالوں بعد پہلی بار اس سے کہیں کم فائدہ کے ساتھ دورے پر آیا ہے جتنا وہ واقعات کی شکل دینا چاہتا ہے۔
2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ان کی 18 ماہ کی طویل بات چیت رک گئی ہے، جس سے تہران کو جوہری کلب سے باہر رکھنے پر مجبور کرنے کی سفارتی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے، جس سے وہ زیادہ تر جوہری ایندھن کو اب قریب قریب بم گریڈ کی سطح تک بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ولی عہد کی سفارتی واپسی میں نرمی کے انعام میں سعودی عرب نے اپنے تیل کی پیداوار بڑھانے پر آمادگی کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے کہ اس سے زیادہ اس کی استطاعت ہی نہی یعنی سعودی تیل کے کنویں اب اپنی پوری استطاعت سے پیداوار دیں گے اور چونکہ سعودی تیل کی فروخت ڈالر سے منسلک ہے تو اس سے امریکی معیشت میں نا صرف بہتری آئے گی بلکہ ڈالر کی قدر مستحکم رکھنے میں بھی مدد ملے گی 
بائیڈن انتظامیہ کے اہلکار جانتے ہیں کہ جب بائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کو بین الاقوامی سطح پر نکو بنانے کے وعدے کے دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے صدر کی ملاقات کی ناگزیر تصاویر سامنے آئیں گی تو انہیں اپنی ہی پارٹی کے اندر سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ وعدہ 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے ایک صحافی جمال خاشقجی کے ایک پیچیدہ سازش میں قتل کی وجہ سے ہوا تھا جس کے بارے میں سی آئی اے نے کہا تھا کہ اسے براہ راست ولی عہد نے منظور کیا تھا۔ لیکن  محمد بن سلمان کی حکمت عملی - انتظار کرو جب تک کہ امریکہ کو دوبارہ سعودی عرب کی ضرورت نہ پڑے نے کام کیا
بائیڈن نے اکثر تاریخ میں اس (اپنے) دور کو جمہوریت اور آمریت کے درمیان مقابلہ کے طور پر پیش کیا ہے، اور کیوبا اور وینزویلا کو ان کے جابرانہ طرز عمل کی وجہ سے لاس اینجلس میں امریکہ کے حالیہ سربراہی اجلاس سے روک دیا گیا ہے۔ لیکن انہوں نے سعودی عرب کے دورے کو حقیقت پسندی کی مشق قرار دیا ہے۔
بائیڈن نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں واشنگٹن پوسٹ میں ایک رائے کے ٹکڑے میں لکھا ، "میرا مقصد تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینا تھا - لیکن ٹوٹنا نہیں۔" سعودی "توانائی کے وسائل یوکرین میں روس کی جنگ کے عالمی رسد پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے ناگزیر ہیں" 
اس سفر میں سپر پاور کی چالوں کا ایک عنصر بھی ہے۔
بائیڈن نے دفتر میں آنے کے بعد یہ واضح کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ پر امریکی توجہ کو کم کرنا چاہتے ہیں، اور چین پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں - ان کے اس یقین کی عکاسی کہ واشنگٹن نے 20 سال ضائع کیے جب اسے ایک حقیقی ہم مرتبہ حریف پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تھی۔ 
لیکن یہ سفر جزوی طور پر خطے میں چین کی مداخلت کو روکنے کے بارے میں بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے، ریاض اور واشنگٹن نے خاموشی سے سعودی عرب میں اگلی نسل کے 5G سیلولر نیٹ ورک کی تعمیر پر تعاون کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ یہ چین کے 5G چیمپئن، Huawei کو باکس آؤٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
یوکرائن کی جنگ کی سیاست بھی پس منظر میں ہوگی۔
بائیڈن کے معاونین نے واضح کیا کہ وہ موسم بہار میں اس وقت ناراض ہوئے جب اسرائیلی حکومت نے جنگ کے بارے میں بڑے پیمانے پر غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرنے پر اصرار کیا، اس بات پر اصرار کیا کہ اس کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے لیے صدر ولادیمیر پوتن کے سامنے کھلی بات رکھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
پیر کو، جب بائیڈن جانے کی تیاری کر رہے تھے، ان کے قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان نے پہلی بار انکشاف کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران - اسرائیل کا بنیادی مخالف - یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کی مدد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران روس کو سینکڑوں ڈرونز یا یو اے وی فراہم کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جن میں سے کچھ حملوں کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
عوامی استعمال کے لیے، وائٹ ہاؤس نے استدلال کیا ہے کہ بائیڈن کے سعودی عرب جانے کا فیصلہ صرف تیل ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے مسائل کی ایک پوری رینج کی وجہ سے تھا۔ لیکن تیل درحقیقت گیس کی اونچی قیمتوں کے وقت سفر کی سب سے اہم وجہ ہے۔ اسی وجہ سے اب تک کی جو تصاویر میڈیا کو جاری کی گئی ہیں ان میں محمد بن سلیمان تو نظر نہیں آئے لیکن عراقی صدر اور یو اے ای کے حکمران صدر بائیڈن کے ساتھ خوشگوار موڈ میں دکھائی دئے  
دوسری طرف خطے کے دوسرے اہم عرب  کھلاڑیوں کے ساتھ جدہ کانفرنس برائے امن و ترقی کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں استحکام کیلئے ترسیل برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہیں۔ ’تیل منڈی میں استحکام لانے کے لیے سعودی عرب نے اس سے پہلے ہی اپنی پیداوار کو 13 ملین بیرل تک لانے کا اعلان کر رکھا ہے‘۔ ہم امید ظاہر کرتے ہیں کہ کانفرنس سے عرب ممالک اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے فروغ کا نیا باب کھلے گا۔  ’ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے‘۔ولی عہد نے کہا ہے کہ ’عراق میں امن و استحکام پورے خطے کے لیے ضروری ہے جبکہ شام اور لیبیا کے مسائل سے پورا خطہ متاثر ہے‘۔
جبکہ مصری صدر نے کہا کہ امریکا کے ساتھ وسیع البنیاد تعاون کے خواہاں ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں خطرہ، حلیفوں کے ساتھ مل کر خطے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کا عزم رکھتے ہیں، مشرق وسطیٰ میں پائیدار تعلقات قائم کر کے مستحکم معیشت کی بنیاد ڈالیں گے۔
صدر جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ایران کو جوہری توانائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
سبق ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ ’ایران کی جوہری سرگرمیاں خطے کی امن وسلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔‘’ہم اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر خطے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کا عزم رکھتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’ہم مشرق وسطی میں پائیدار تعلقات قائم کرکے مستحکم معیشت کی بنیاد ڈالیں گے۔‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’خطے کے امن واستحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی زبردستی سرحدوں میں تبدیلیاں ہونے دیں گے‘۔
’بحری تجارتی گزرگاہوں کو محفوظ رکھنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہم بحری راستوں کو محفوظ بنائیں گے‘۔
جوابی تحفے میں سعودی عرب کو امریکا نے تیران اور صنافیر جزائر کی ملکیت سے نوازا ہے جہاں اس کی امن افواج نے کنٹرول سنبھالا ہوا تھا 
اسرائیل، مصر اور سعودی عرب کے قریب بحیرہ احمر میں واقع جزائر اہمیت کے حامل ہیں۔ سعودی عرب اور مصر کے درمیان نصف صدی سے زائد عرصے سے ان جزائر پر ملکیت کا تنازع ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اب اسرائیل نے بھی جزائر کو سعودی عرب کو واپس کرنے سے متعلق اعتراض واپس لے لیا ہے، اسے اسرائیل سعودیہ تعلقات میں بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب پہلے ہی اپنی فضائی حدود اسرائیل کیلئے کھول چکا ہے 
معاشی میدان میں دوسری بڑی پیش رفت I2U2 نامی معاہدہ ہے  تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ I2U2 ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے امریکہ کی کوششوں کو تقویت دیتا ہے، مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کو خطے کے لیے واشنگٹن کی وابستگی کا یقین دلاتا ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے اتحادیوں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرتا ہے۔
اس معاہدے کو کواڈ کا ایک ساتھی منصوبہ سمجھا جاتا ہے، ایک چار طرفہ شراکت داری جو آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور ریاستہائے متحدہ کو ایک ساتھ ملاتی ہے جس کی بنیاد جزوی طور پر بحر الکاہل میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کے جواب میں رکھی گئی تھی۔
اسرائیل کے لیے، I2U2 ایک اور فورم ہے جس میں ایران کی مخالفت کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس تاریخی سفارتی معاہدے کو مضبوط کرنا ہے جس پر اس نے U.A.E. کے ساتھ مہر ثبت کی تھی۔
اس معاہدے کی تشکیل کے ساتھ، "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ دو الگ الگ اسٹریٹجک سیاق و سباق کو مربوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے" - ہند-بحرالکاہل اور مشرق وسطی، چین اور ایران کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات پر ایک حالیہ مقالے کے مصنف کیوجن لم نے کہا۔
ڈاکٹر لم نے مزید کہا کہ "یہ مختلف خطوں میں امریکہ کے شراکت داروں کے درمیان صف بندی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہندوستان کے لیے، مقصد بنیادی طور پر اقتصادی ہے۔ اس اقدام سے دہلی کو مارچ میں ایک بڑے اقتصادی معاہدے پر مہر لگنے کے بعد امارات کے ساتھ تجارتی تعلقات کو تقویت ملتی ہے، اور اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدے کے لیے بات چیت کو رفتار ملتی ہے۔
تقریباً 3.5 ملین ہندوستانی امارات میں رہتے ہیں، جو خلیجی ملک کی کل آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہے، جو انہیں U.A.E کے لیے مزدوری کا ایک اہم ذریعہ بناتا ہے۔ اور ہندوستان کے لیے ترسیلات۔ ہندوستان کو امارات سے تیل اور اسرائیل سے اسلحہ بھی خاصی مقدار میں ملتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک پریس بریفنگ میں، وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے کہا کہ I2U2 اپنے شرکاء کو خوراک کی حفاظت پر بات کرنے کی بھی اجازت دے گا۔ یوکرین میں روس کی جنگ نے اناج کی سپلائی میں کمی پیدا کر دی ہے، یہ فرق بھارت کے حالیہ گندم کی برآمدات کو محدود کرنے کے فیصلے سے بڑھ گیا ہے۔
انڈیا اس سمٹ کے فورا بعد حیفہ کی بندرگاہ کے انتظام خریدنے میں کامیاب رہا۔
ایک قاری اس تمام پیش رفت کے بعد اپنے سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ سے کم از کم ایک سوال پوچھنے میں تو حق بجانب ہوگا کہ "اس خطے میں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟"
یا پھر خواجہ آصف کے اس بیان پر اکتفا کر لیا جائے کہ "بھکاریوں کی کوئی چوائس نہیں ہوتی"  ؟
Friday, July 15, 2022
پاکستان کی انتخابی تاریخ اور اسٹیبلشمنٹ کے سبق
پاکستان کی انتخابی تاریخ اور اسٹیبلشمنٹ کے سبق
اظہر عباس
پاکستان کی انتخابی تاریخ جہاں دھاندلی کے الزامات اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بوالعجمیوں سے تعفن زدہ ہے وہاں ہماری نوجوان نسل بلکہ بہت سارے بزرگان بھی اس سے ناواقف ہیں کہ قومی سطح بالغ رائے دہی کا حق ہمارے ہاں 1970 کے الیکشن میں ہی پہلی بار دیا گیا۔ 1947 سے 1958 کے دوران پاکستان میں قومی سطح پر براہ راست انتخابات کبھی  نہیں ہوئے۔ یعنی عام عوام نا ووٹ کے حقدار تھے اور نا ہی حکومتوں کے بننے بگڑنے سے ان کا براہ راست کوئی تعلق رکھا گیا۔ اشرافیہ اس دوران اس ملک کے معاملات براہ راست بناتی بگاڑتی رہی۔
قومی سطح پر 1958 کے بعد پاکستان کے دوسرے صدارتی انتخابات 2 جنوری 1965 کو ہوئے۔ ووٹنگ بالواسطہ ہوئی یعنی صدر کے انتخاب کیلئے  80,000 "بنیادی جمہوریتوں" کا الیکٹورل کالج بنایا گیا تھا۔ یعنی ووٹ کا حق 80،000 لوگوں کو دیا گیا جو کہ اس دور میں موری ممبر کے نام سے مشہور ہوئے
انتخابات میں دو بڑی جماعتیں حصہ لے رہی تھیں: کنونشن مسلم لیگ اور مشترکہ اپوزیشن پارٹیاں۔ 
مشترکہ اپوزیشن جماعتیں پانچ بڑی اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل تھیں، اور ان کا نو نکاتی پروگرام تھا، جس میں پارلیمانی جمہوریت کی بحالی اور براہ راست انتخابات اور بالغ رائے دہی کا تعارف شامل تھا۔ 
مشترکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس کوئی واحد قیادت نہیں تھی لہذا، انہوں نے فاطمہ جناح کو اپنے امیدوار کے طور پر چنا جنہیں بابائے قوم محمد علی جناح کی بہن ہونے کی وجہ سے ایک غیر متنازعہ رہنما کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ 
کنونشن مسلم لیگ کے امیدوار موجودہ صدر محمد ایوب خان تھے۔ ایوب خان 1958 میں پاکستانی فوجی بغاوت کے اعلان کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ تب سے وہ صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ 
انتخابی مہم کا ایک ماہ کا مختصر دورانیہ تھا، جسے مزید نو پروجیکشن میٹنگز تک محدود کر دیا گیا جو کہ الیکشن کمیشن نے منعقد کیے تھے اور ان میں صرف الیکٹورل کالج کے اراکین اور پریس کے اراکین نے شرکت کی تھی۔ عوام کو پروجیکشن میٹنگز میں اس وجہ یا خوف سے شرکت سے روک دیا گیا کہ فاطمہ جناح کی فیم میں اضافہ ہوتا۔ 
فاطمہ جناح فاطمہ جناح کی مہم کو کئی دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک غیر منصفانہ اور غیر مساوی انتخابی مہم اور بنیادی جمہوریت کے نظام کے ذریعے بالواسطہ انتخابات اس کے کچھ بنیادی مسائل تھے۔ تاہم، انہیں عوام میں زبردست حمایت حاصل تھی۔ بہت سے لوگوں کو ان سے ہمدردی تھی کیونکہ وہ محمد علی جناح کی بہن تھیں، جب کہ دوسروں نے انہیں ایوب خان کی فوجی آمریت کو چیلنج کرنے کے لیے ایک بہترین شخصیت کے طور پر دیکھا۔ اگرچہ بہت سے علما نے اس کی مذمت کی تھی کہ ایک عورت مسلم ریاست کی قیادت نہیں کر سکتی، کئی مذہبی رہنماؤں نے بھی ان کی حمایت کی۔ مودودی کی زیرقیادت جماعت اسلامی، محترمہ جناح کی مہم کی گہری حامی تھی کیونکہ وہ سیکولر ایوب خان کے مقابلے میں مذہبی نظریات سے متاثر قدامت پسند تھیں۔ 
انتخابی نتائج حسب توقع موجودہ صدر ایوب خان کے حق میں آئے، جنہوں نے پاپولر ووٹ کھونے کے باوجود 62.43 فیصد الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔ فاطمہ جناح نے الیکٹورل کالج کے 35.86 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ تاہم محترمہ جناح ملک کے کچھ علاقوں میں انتہائی کامیاب تھیں۔ انہیں نے کراچی اور ڈھاکہ جیسے بڑے شہری مراکز میں اکثریت حاصل کی۔ ایوب کو مشرقی پاکستان میں بھی مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، ایوب نے دیہی پاکستان میں فیصلہ کن فتح حاصل کی۔ چونکہ الیکٹورل کالج کی اکثریت دیہی سیٹ اپ کے نمائندوں پر مشتمل تھی، اس لیے ایوب واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ 
1947 تا 1970 عوام کی کارہائے حکومت میں عدم شمولیت کی وجہ سے عوام میں جو احساس محرومی پیدا ہوا اسے علیحدگی پسند عناصر نے پر کیا اور پاکستان کو اس کا خمیازہ 1970 کے انتخابات کے نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ 
 1970 کے پاکستانی عام انتخابات، برطانوی ہندوستان سے پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے براہ راست عام انتخابات تھے۔
دہائیوں کی طویل جدوجہد کے بعد، فوجی حکومت جمہوری طور پر منتخب عہدیداروں کو اقتدار منتقل کرنے کے پراسس کو شروع کرنے پر مجبور ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں، انتخابات کو پاکستان کے بنگالی شہریوں کے لیے خود مختاری پر ریفرنڈم کے طور پر پیش کیا گیا، جو پاکستان کی آبادی کا تقریباً 55 فیصد تھے۔ یہ انتخاب عوامی لیگ نے جیتا، جس کی 313 میں سے 167 نشستیں تھیں، اور شیخ مجیب الرحمان پاکستان کے پہلے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم بننے والے تھے۔ لیکن فوجی حکومت نے منتخب پارلیمنٹ کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی آزادی کی کے نعرے سے شروع ہوئی تحریک 1971 میں ملک ٹوٹنے پر منتج ہوئی۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ نے 1971 کے بعد اور روس کے زوال سے 2 سبق  سیکھے ہیں:
1۔ سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
2۔ وسائل کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
آپ دیکھیں گے کہ یہی 2 اسباب تمام مسائل کی جڑ ہیں جب تک ان کا حل نہیں نکلے گا تب تک یہ ملک ایسے ہی چلے گا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے والوں کے وارے نیارے اور قوم خستہ حال ہی رہے گی۔ ان سے نکلنے کیلئے جو بھی کوشش کرے گا اسکا حال "مجھے کیوں نکالا" ہو گا یا پھانسی لگے گا یا گولی کھائے گا۔ اس کے کارکن کوڑے کھائیں گے یا وطن بدری ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ لیکن آپ یقین رکھیں جس طرح اس ملک میں اشرافیہ، عام عوام اور غریب عوام کی کلاس ابھر کر سامنے آ رہی ہے جلد اس کا نتیجہ سامنے آنے والا ہے- اس ملک میں ایک لا وارث  نسل بھی تیار ہو رہی ہے جس کی نا تربیت کی گئی ہے نا یہ نسل تعلیم و دین کے نام سے واقف ہے اور یہ ایک سروے کے مطابق 6% ہے ۔ یہی 6% آپ کو ہر اخلاقی برائی اور سانحے کی ذمہ دار نظر آئے گی۔ 
یہ ملک بہت تیزی کے ساتھ ایک معاشرتی بحران کیطرف جا رہا ہے اور اس کے ذمہ دار آپ میں اور یہ معاشرہ ہے
Subscribe to:
Comments (Atom)
پہلگام کہانی
پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...
- 
ٹرمپ کیا کرنا چاہیں گے پہلا حصہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کا پروجیکٹ 2025 اظہر عباس پروجیکٹ 2025 ایک 922 صفحات پر مشتمل بلیو پرنٹ ہے جسے ہیریٹیج فاؤ...
- 
"Worry, like a rocking chair," said Vance Havner, "will give you something to do, but it won't get you anywhere."...
- 
جھوٹ اور انتشار کی جنگ اظہر عباس (حصہ اول) جنگ کی نوعیت صدیوں کے دوران ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ارتقا و پھیلاو، معاشرے او...
 
 
