Wednesday, November 15, 2023

مشرق وسطی میں کیا ہو رہا ہے





اظہر عباس
(حصہ اول)

اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے ابھی چند دن پہلے ہی اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر اپنے شیخی والے بھاشن میں اپنے نئے عرب شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا اعلان کیا تو اپنے افسانوی علاقائی نقشے میں انہوں نے فلسطینیوں کو سرے سے نکال ہی دیا تھا جنہیں نے اب اسرائیل کو ایک سیاسی اور تزویراتی ہر لحاظ سے بھرپور چپت لگائی ہے۔ 

فلسطینیوں نے گھٹنوں کے بل ذلت کی موت پر کھڑے ہوکر عزت کی موت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

عرب ٹی وی الجزیرہ کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے بے عیب منصوبہ بندی کے ساتھ زبردست طریقے سے عملدرآمد کرتے ہوئے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ غزہ سے اسرائیل میں خشکی، سمندر اور فضا سے داخل ہوئے۔

اسی دوران ہزاروں میزائل ایک ساتھ اسرائیلی فوجی اور سویلین علاقوں میں پھینکے گئے جس کے نتیجے میں سیکڑوں اسرائیلی ہلاک ہوئے اور درجنوں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ سیکڑوں سویلینز کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔

حماس نے اہم صیہونی کمانڈر نمرود ایلونی کو گرفتار کر لیا ہے۔ حماس کی جانب سے پوسٹ کی گئی تصاویر میں ڈیپتھ کور کے کمانڈر جنرل نمرود ایلونی کو ٹی شرٹ اور انڈویئر پہنے ہوئے ننگے پائوں پریڈ کرائی ہے۔ دی جیوئش کرونیکل کے مطابق کمانڈر نمرود ایلونی اسرائیلی ڈیفنس فورسز ( آئی ڈی ایف ) کی ڈیپتھ کور اور ملٹری کالجرز کا سربراہ ہے اور اسے رواں برس ہی اسرائیلی وزیر دفاع ’ یوآوو گالنت‘‘ نے اس کور کا کمانڈر مقرر کیا تھا۔ حماس کے ڈپٹی چیف صالح العروری نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ حریت پسند فلسطینی تنظیم نے بڑی تعداد میں سینئر اسرائیلی افسران کو حراست میں لے لیا ہے ۔ اسرائیل کے حملے کے بعد حماس کے ارکان نے کئی بھاگتے ہوئے فوجیوں کو گرفتار بھی کرلیا، اسرائیلی ٹینکوں ، فوجی بکتر بند گاڑیوں اور دیگر جنگی گاڑیوں پر قبضہ کرلیا، اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حماس نے کئی فوجی کمانڈرز اور شہریوں کوحراست میں لے لیا ہے جنہیں غزہ منتقل کردیا گیا ہے،حماس نے حراست میں لئے گئے اسرائیلیوں کی تعداد بتانے سے گریز کیا ہے جبکہ گرفتار اہم صیہیونی کمانڈر سمیت کئی عہدیداروں کی پریڈ بھی کروائی ہے 

یہ اسرائیل کے غزہ پر حملوں، مسجد اقصیٰ کی بار بار بے حرمتی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی کارروائیوں کیخلاف حماس کا جوابی ایکشن تھا، عرب اسرائیلی جنگ کی پچاسویں سالگرہ پر علی الصبح حماس نے پہلی بار غزہ سے بیک وقت بری ، بحری اور فضائی کارروائی کی، حماس نے اسرائیلی کے جنوبی شہروں میں فوجی اڈوں اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا، ابتدائی اطلاعات کے مطابق فوجیوں سمیت 290 سے زائد اسرائیلی ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے، ’آپریشن الاقصیٰ طوفان‘ کے تحت فلسطینی مجاہدین کی بڑی تعداد غزہ کی سرحد پر موجود باڑ ہٹاتے ہوئے زمینی راستے سے اسرائیل کے شہر اشکلون سمیت جنوبی شہروں میں داخل ہوئی جبکہ سمندری راستے اور پیراگلائیڈرز کی مددسے بھی متعدد حماس ارکان نے حملہ کیا ، حماس نے 20 منٹ میں 5ہ زار راکٹ برسائے، کامیاب آپریشن پر غزہ کے کئی علاقوں میں فلسطینیوں کا جشن، حماس کے حملے سے اسرائیل کے مختلف شہروں میں شدید خوف وہراس پھیل گیا، چھوٹے بڑے شہروں میں سائرن بجائے جاتے رہے جبکہ غزہ کی قریبی آبادی سے اسرائیلی فوجی بھاگتے اور شہری نقل مکانی کرتے رہے، لاشوں اور زخمیوں کو ایمبولنسز کے ذریعے سے اسپتالوں میں منتقل کیا جاتا رہا، اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی سرحد کے قریب 22 مقامات پر سڑکوں پر لڑائی جاری ہےجن میں 5 مقامات پر شدید لڑائی کا سلسلہ بدستور جاری ہے، اسرائیل کے جنوبی علاقوں سمیت تل ابیب کیلئے بھی پروازیں منسوخ کردی گئیں ہیں، اسرائیلی فورسز نے غزہ میں آبادی پر فضائی بمباری کردی جس کے نتیجے میں 280 فلسطینی شہید اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے، اسرائیلی طیاروں نے اسپتالوں اور ایمبولنسز کو بھی نشانہ بنایا، مقبوضہ بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی جھڑپیں شروع ہوگئیں، اسرائیلی فورسز نے فلسطینی مظاہرین پر فائرنگ کردی، حماس کے فوجی کمانڈر محمد الضیف نے ’آپریشن الاقصیٰ فلڈ‘ کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے فلسطینیوں سے ہر جگہ لڑنے کی اپیل کی، انہوں نے کہا کہ یہ زمین پر آخری قبضے کو ختم کرنے کی سب سے بڑی جنگ کا دن ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے غاصب (اسرائیل) کے تمام جرائم کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اُن کی بلا احتساب اشتعال انگیزی کا وقت ختم ہو گیا، ٹیلی گرام پر پوسٹ کئے گئے ایک بیان میں حماس نے مغربی کنارے میں مزاحمت کرنے والے جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ عرب ممالک سمیت دیگر مسلم اقوام سے جنگ کا حصہ بننے کی اپیل کی ہے، حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے کہا ہے کہ ہم نے قابض اسرائیل کے تمام جرائم ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،حماس کے مطابق انہوں نے غزہ پر صہیونی فورسز کی جانب سے رہائشی عمارتوں پر حملوں کے جواب میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب پر بھی 150راکٹ حملے کئے ہیں، اسرائیلی فوج نے غزہ پر2ہزار سے زائد فضائی حملے کئے ہیں، میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اتوار کو 3بجے اسرائیل فلسطین تنازع پر اجلاس بلالیا ہے۔

اسرائیل میں ہونے والے حماس کے اب تک کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیے جانے والے حملے کو روکنے میں اسرائیلی انٹیلی جنس سروس بری طرح ناکام ہو گئیں اور اسرائیلی میڈیا پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ 

اسرائیلی حکام سے جب سوال کیا گیا کہ اس قدر بیشمار وسائل کے ہوتے ہوئے آپ کو حملے کی پیشگی اطلاع نہیں ملی تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ایسا بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ 

اسرائیل کی داخلی انٹیلی جنس سروس ’’شن بیت‘‘ اور بیرونی انٹیلی جنس ایجنسی موساد اور اسرائیلی فوج کے تمام تر وسائل کے باوجود دنیا کیلئے حماس کی یہ کارروائی اچانک اور حیران کن ثابت ہوئی ہے کیونکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ 

اور اگر یہ مان بھی لیں کہ انہیں کسی بڑے حملے کا اندازہ تھا تو وہ اسے روکنے میں ناکام ہوگئے۔ 

اسرائیل کے پاس مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ وسیع اور سب سے زیادہ فنڈنگ کی حامل انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں۔ اسرائیلی ایجنسیوں کے مخبر ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ فلسطینی گروپس کے ساتھ لبنان، شام اور دیگر مقامات پر بھی موجود ہیں۔ 

انہی مخبروں کو استعمال کرتے ہوئے ماضی میں اسرائیل نے کئی فلسطینی رہنمائوں کو قتل کیا ہے۔ بعض اوقات یہ حملے ڈرونز کے ذریعے اس وقت کیے جاتے ہیں جب مخبروں کی جانب سے مطلوب فلسطینی کی گاڑی پر جی پی ایس ٹریکر لگا دیا جاتا ہے۔ 

سیکورٹی حصار کی بات کی جائے تو غزہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدہ سرحدی باڑ پر کیمرے، گراؤنڈ موشن سینسرز اور فوج کا باقاعدہ گشت رہتا ہے۔ 

خیال کیا جاتا ہے کہ خاردار تاروں والی باڑ بالکل اس طرح کی دراندازی کو روکنے کیلئے تھی جو موجودہ حملے کیلئے کی گئی ہے۔ 

حماس کے عسکریت پسندوں نے اس باڑ کو بلڈوز کیا اور اسرائیلی حدود میں داخل ہوگئے۔ کچھ عسکریت پسند سمندر سے پیرا گلائیڈرز کے ذریعے بھی داخل ہوئے۔ 

حماس کی جانب سے غیر معمولی انداز سے پیچیدہ پلاننگ جس میں مربوط انداز سے سیکورٹی بریچ کرنا اور پھر سیکڑوں راکٹ فائر کرنا یقینی طور پر اسرائیلی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے کیونکہ یہ سب کچھ اس کی ناک کے نیچے ہوا ہے۔ 

تعجب نہیں کہ اسرائیلی میڈیا اس انٹیلی جنس ناکامی پر اپنے فوجی اور سیاسی رہنماؤں سے سوالات کر رہا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے۔ 

حیران کن بات ہے کہ 50؍ سال قبل بھی اکتوبر (1973ء کی کپور وار) کے مہینے کے دوران اس وقت اسرائیل پر اچانک حملہ کیا گیا تھا جب اسرائیلی اپنا مذہبی تہوار یومِ کپور منا رہے تھے۔ اس ناکامی پر اسرائیل میں ایک بڑی انکوائری شروع ہوئی ہے جس میں ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔ 

لیکن اس وقت اسرائیل کی ترجیحات میں اہم ترین کام سرحدی علاقہ جات میں اُن رہائشی مقامات سے عسکریت پسندوں کا کنٹرول چھڑانا ہے جن پر اب حماس کا قبضہ ہے۔ 

ممکن ہے کہ اپنے یرغمال شہریوں کی آزادی کیلئے اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے۔ 

اس کے علاوہ، اسرائیل اُن مقامات کو تباہ کرنے کی کوشش بھی کرے گا جہاں سے اسرائیل پر راکٹ داغے جا رہے ہیں تاہم اس میں شاید اسرائیل کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ حماس کے مسلح افراد کسی ایک خاص مقام سے راکٹ فائر نہیں کرتے۔ 

اس کے ساتھ ہی ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر حماس نے مدد کیلئے آواز دی اسرائیل اسے کیسے روکے گا کیونکہ لبنان کے ساتھ اس کی شمالی سرحد پر حزب اللّٰہ کے جنگجو بھی اس لڑائی میں کود سکتے ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز لکھتا ہے جنگ ممکنہ طور پر سعودی اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کی بائیڈن کی سفارت کاری کو متاثر کرے گی۔پولز بتاتے ہیں کہ سعودیوں کی اکثریت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی مخالفت کرتی ہے یہاں تک کہ ولی عہد محمد بن سلمان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودیوں میں فلسطینی کاز کے لیے ہمدردی اور اسرائیل کے لیے دشمنی زیادہ ہے۔ ممکنہ طور پر ایک مکمل جنگ ان جذبات کو منظر عام پر لائے گی اور انہیں مزید بھڑکا دے گی جو کہ سعودی حکومت کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا کرے گی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جھڑپ سے علاقائی تنازع بننے کا خطرہ ہے، صدر بائیڈن اور ان کے معاونین کی جانب سے سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیےجاری کوششوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ امریکی حکام کی توجہ جنگ کو روکنے پر ہے، نہ کہ سعودی اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر سفارت کاری پر۔ امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹنک کونسل‘ کے مطابق اگر یہ حملہ حماس یا ایران کی طرف سے سعودی اسرائیل کے درمیان معمول پر آنے والی بات چیت کو روکنے کی کوشش ہے، تو اس کا رد عمل ہوگا۔ اسرائیل غزہ کو غیر معمولی موجودگی اور پابندیوں کے ساتھ بند کر دے گا۔ یہ وہ نئی بنیاد ہوگی جہاں سے اب ریاض کو فلسطینیوں کے لیے آگے بڑھنے کے راستے پر بات چیت کرنی ہوگی جس پر انہوں نے اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے دوران اصرار کیا ہے۔ حماس نے تمام فلسطینیوں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ سعودی عرب، عالمی سطح پر مسلمانوں کے گاڈ فادر کے طور پر اپنے کردار میں، اب غزہ کے سویلین لیڈروں کو ریاض مدعو کرنے کا انتخاب کر سکتا ہے، تاکہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت جاری رہے۔ لیکن ایجنڈا حماس کے بغیر مستقبل کے غزہ پر مرکوز ہو گا، اور یہ ایک ناقابل گفت و شنید نقطہ آغاز ہو گا۔ امریکی ٹی وی بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق حماس نے مشرق وسطیٰ کے ازسرنو تشکل کے لیے بائیڈن کے معاہدے کو آگ لگادی۔حماس سعودیوں اور اسرائیلیوں کے ساتھ امریکی معاہدے کو پسند نہیں کرتی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ حماس کو امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کی سفارت کاری اور عظیم حکمت عملی میں ویٹو حاصل تھا۔ وہ تین ممالک کسی حد تک خاموشی سے، اور وائٹ ہاؤس کے زور پر - تین طرفہ معاہدے کی طرف بڑھ رہے تھے جو خطے اور اس سے باہر کی جغرافیائی سیاست کو نئی شکل دے سکتا ہے۔ لیکن یہ صورت حال فلسطینیوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے لہذا حماس نے اسے اڑا دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے تیل کے لئے، یہ دوبارہ 1973 نہیں لیکن اس سے بدتر ہو سکتا ہے۔ اکتوبر 2023 اور اکتوبر 1973 کے درمیان کے مماثلتوں کو کھینچنا آسان ہے اسرائیل پر اچانک حملہ اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔ عالمی معیشت ایک اور عرب تیل کی پابندی کا شکار ہونے والی نہیں ہے جس سے خام تیل کی قیمت تین گنا بڑھ جائے گی۔ اس کے باوجود، دنیا کو تیل کی طویل قیمتوں کا سامنا کرنے کے امکانات کو کم کرنا ایک غلطی ہوگی۔ یہ بحران اکتوبر 1973 کا اعادہ نہیں ہے۔ عرب ممالک متحد ہو کر اسرائیل پر حملہ نہیں کر رہے ہیں۔ مصر، اردن، شام، سعودی عرب اور باقی عرب دنیا واقعات کو کنارے سے دیکھ رہے ہیں خود تیل کی منڈی میں اکتوبر 1973 سے پہلے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس وقت، تیل کی طلب بڑھ رہی تھی، اور دنیا نے اپنی تمام اضافی پیداواری صلاحیت ختم کر دی تھی۔ آج، کھپت میں اضافہ معتدل ہے، اور الیکٹرک گاڑیوں کے حقیقت بننے کے ساتھ ساتھ مزید سست ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس کافی اضافی صلاحیت ہے جسے وہ قیمتوں کو روکنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ 2023 اور 2024 میں تیل کی منڈیوں پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ سب سے زیادہ فوری اثر اس صورت میں ہو سکتا ہے جب اسرائیل یہ نتیجہ اخذ کرے کہ حماس نے تہران کی ہدایات پر عمل کیا۔ اس صورت حال میں تیل کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ سکتی ہیں۔ اگر اسرائیل فوری طور پر ایران کو جواب نہیں دیتا ہے، تب بھی اس کے اثرات ایرانی تیل کی پیداوار کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے تیل کے کسی بھی بحران سے روس کو فائدہ ہوگا۔ اگر واشنگٹن ایران کے خلاف پابندیاں لگاتا ہے، تو یہ روس کے اپنے منظور شدہ بیرل کے لیے مارکیٹ شیئر جیتنے اور زیادہ قیمتیں حاصل کرنے کے لیے جگہ پیدا کر سکتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایرانی تیل کی برآمدات پر آنکھیں بند کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے روس کو نقصان پہنچے۔ بدلے میں، وینزویلا کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے لکھا کہ تعلقات معمول پر لانے کے اقدامات کے باوجود سعودی عرب نے اسرائیل کو جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ولی عہد نے کہا کہ انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی سلوک کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔ ریاض یروشلم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک تاریخی معاہدے کے قریب تھے۔یورپی کونسل آن فارن ریلیشن تھنک ٹینک کے سینئر پالیسی فیلو نے کہا یہ بیان کافی غیر جانبدار اور اس بات کا عکاس ہے کہ ریاض کس طرح مختلف مفادات میں توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس بات پر تشویش ہوگی کہ یہ وسیع تر علاقائی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ اس کے جاری معمول پر آنے والے مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اور ممکنہ طور پر ایرانی اثر و رسوخ کو مزید تقویت دے سکتا ہے۔ ایرانی نیوز ایجنسی فارس کے مطابق سعودیوں میں سے صرف 2 فی صد اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر چاہتے ہیں اکانومسٹ کے حوالے سے لکھا سعودی عرب اور اسرائیلی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے داخلی رکاوٹیں اہم ہیں ، صرف 2 فیصد نوجوان سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی حمایت کرتے ہیں۔ ریاض کی جانب سے معمول پر لانے کا محرک امریکہ کے ساتھ ایک نیا اسٹریٹجک اتحاد ہے۔امریکی میڈیا’دی ہل ‘ کے مطابق سعودی عرب، قطر، ایران کا موقف ہے کہ حماس کے حملوں کا ذمہ دار صرف اسرائیل ہے۔

سابق پاکستانی سفارتکار عبدالباسط نے کہا کہ عرب ممالک تنازع فلسطین پس پشت ڈال کر اسرائیل سے تعلقات قائم کررہی ہے، حماس کا حملہ اس سب کا فطری ردعمل ہے، فلسطینی سمجھتے ہیں وہ اس ساری صورتحال میں نظرانداز ہورہے ہیں، سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا بہت بڑا قدم ہوگا، سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین حل کیے بغیر اسرائیل کو تسلیم کیا تو فلسطین کا معاملہ ختم ہوجائے گا،مجھے نہیں لگتا سعودی عرب مستقبل قریب میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھائے گا، عرب دنیا اس وقت اسرائیل کے خلاف جنگ شروع کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی ہے۔ عبدالباسط کا کہنا تھا کہ حماس نے حملہ کر کے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو نقصان پہنچایا ہے، ا س وقت ایک ہزار کے قریب اسرائیلی زخمی ہیں جبکہ 35 حماس کے قبضے میں ہیں، مغربی ممالک حماس کو دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی بھول جاتے ہیں، یو اے ای نے ویسٹ بینک میں آبادکاری روکنے کی شرط پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا، ایسا لگتا ہے اسرائیل دو ریاستی حل سے پیچھے ہٹ گیا ہے، اسرائیل میں انتہاپسند حکومت ہے وزیراعظم نیتن یاہو کرپشن کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سابق سفارتکار عبدالباسط نے کہا کہ حماس کے حملے سے ایران اور سعودی عرب میں تعلقات کی بحالی کا عمل آستہ ہوسکتا ہے، سعودی عرب اسلامی دنیا کی قیادت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر توجہ دے، اسرائیل اب غزہ میں فضائی حملے کر کے بہت تباہی مچائے گا لیکن مکمل قبضہ نہیں کرے گا۔

No comments:

Post a Comment

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...