https://e.dailyauthority.pk/page.php?Page=2&date=20-10-2023&city=isb
مشرق وسطی کا نیا نقشہ
اظہر عباس
سات اکتوبر کو صبح پانچ بجے حماس نے اسرائیل پر تینوں محاذوں سے ایسا حملہ کیا کہ عالمی سطح پر خود کو ناقابل تسخیر قرار دینے والے صہیونی ملک کو چاروں خانے چت کردیا۔ مزاحمت کاروں نے غزہ کے بارڈر سے ملحقہ باڑ، جس کو اسرائیلی سمجھتے تھے کہ حماس کیا دنیا کی کوئی دوسری جدید ترین فوج بھی آسانی سے پار نہیں کرسکتی اور ان کا ایسا سمجھنا خیر درست بھی تھا کیونکہ وہاں سیکیورٹی کے انتظامات ہی اس معیار کے تھے۔ وہاں پہلے ایک آہنی باڑ، پھر موشن سینسر، کیمرے، کنکریٹ کی دیوار، جو 14 سے 16 فٹ تک گہرائی میں بنائی گئی تھی، اس کے بعد فوجی پٹرولنگ کےلیے بنایا گیا روڈ اور پھر اس کے بعد مانیٹرنگ ٹاورز اور اس کے بعد فوجی چوکیاں موجود تھیں۔
اس قدر سخت انتظامات کے بعد اسرائیلیوں کا اطمینان جائز بھی تھا۔ ان تمام کے بعد ان کا عالمی غرور ان کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں گھس کر اپنا ہدف حاصل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔
گزشتہ ساڑھے سولہ سال سے بدترین معاشی ناکہ بندی کا شکار مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ کے مٹھی بھر جنگجوؤں نے اس کا غرور ایسے خاک میں ملایا کہ اسرائیل کو اب تک سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس پر ردعمل کیا دے اور اسی ذلت کے احساس میں اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کی۔ اسرائیل نے غزہ پر 10 روز میں دس ہزار بم گرائے۔ قابل ذکر یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا نے اتنے بم ایک سال میں اور شام کی جنگ میں تمام نیٹو ممالک نے 2011 سے 2020 تک 7 ہزار 700 بم گرائے تھے لیکن اسرائیل نے اپنی ذلت آمیز شکست کو چھپانے اور اپنی خفت مٹانے کےلیے صرف 10 روز کے دوران 10 ہزار کے قریب بم گرائے۔ اسرائیل اپنی بربریت میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ اس نے اسپتالوں تک کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل اس جذبے کو شکست دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔
حماس کا خاتمہ، اسرائیل کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ حماس کے خاتمہ کے لیے وہ غزہ کو ملیا میٹ کر دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ کیونکہ حماس کے حالیہ حملوں نے پورے اسرائیل کو حیران و پریشان کر دیا ہے جس کے اثرات سالوں پر قائم رہیں گے۔ اور حماس کو اگر اس کے باوجود ختم نہ کیا جا سکا تو یہ اسرائیلیوں کے لیے ایک بھیانک خواب بن جائے گا۔
اسرائیل ان حملوں کے بعد 50 سال پیچھے چلا گیا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا عمل رک چکا ہے۔ اسرائیل ایک غیر مستحکم ریاست کے طور پر سامنے آیا ہے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک قیام امن ناممکن نظر آ رہا ہے جس کی وجہ سے خطے کے کئی منصوبے ردی کی ٹوکری میں جاتے نظر آ رہے ہیں۔
اسرائیل بے شک یہ جنگ جیت جائے لیکن اسٹرٹیجک محاذ پر بہت کچھ ہار چکا ہے۔
سفارتی اور اسٹریٹیجکلی نیتن یاہو اسرائیل کا عمران خان ثابت ہوا ہے
یہودی، مصر، یمن، شام اور لبنان کے درمیان گھرے ہوئے ہیں، جبکہ فلسطینی ان کے قلب میں گھس میں لڑ رہے ہیں، امت ایک ہوتی، تو آج اسرائیل چاروں طرف سے حملے کی زد میں ہوتا، اور فلسطینی بچے مسلے نہ جا رہے ہوتے.
عالم اسلام کی نظروں سے اسرائیلی وحشت ہے مناظر محو ہو چکے تھے اور تعلقات کے مناظر چھائے ہوئے تھے۔
ایک بار پھر سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے مناظر سامنے آنے سے تعلقات کی باتیں اب پیچھے اور مظلوم فلسطینیوں کی بربادی سامنے آنے سے پورا نقشہ بدل جائے گا
نتن یاہو بے وقوف نکلا۔
حماس اور اس کے حمایتی یہی چاہتے تھے
اب عالم عرب کے ساتھ دوستی، انڈیا سے حیفہ براسطہ مشرق وسطی، اور 27 مسلم اقوام کا اسے تسلیم کرنے کا منصوبہ تو بہت پیچھے چلا گیا۔
بونس میں سرد علاقوں کی جنگ اب گرم علاقوں میں پہنچ گئی ہے اور شام کی جنگ اب غزہ منتقل ہو گئی ہے
فلسطین پر اسرائیل جتنی بمباری کرے گا مشرق وسطیٰ کی عوام اسرائیل کے علاوہ امریکہ سے بھی نفرت کرے گی، نتیجے میں بادشاہتیں گھبراہٹ کا شکار اور عوام کے ساتھ چلنے پر مجبور ہوں گی یا مزید بادشاہی آمریت کی طرف راغب ہوں گی۔

 
 
 
No comments:
Post a Comment