Wednesday, September 28, 2022

تاریخ کے سبق

الله تعالیٰ نے قرآن مجید سابقہ انبیاء ان کی امتوں اور اقوام کے احوال بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ یہ واقعات اس لیے بیان کئے گئے ہیں کہ تم اس سے راه یکڑو اور عبرت حاصل کرو ان واقعات کے قرآن مجید میں بیان کرکے عبرت پکڑنے کے فرمان میں یہ بھی حکمت بے کہ نزول قرآن کے بعد میں آنے والے اپنے سے پہلے گزر جانے والے واقعات حالات اور تاریخ سے سبق حاصل کرکے اپنے موجودہ حالات کو تاریخ کے پس منظر میں دیکھتے ہوئے درست فیصلہ کریں بزرگوں کا بھی فرمان ہے اگر آپ تاریخ کے کرداروں کو بھلا دیں گے تو تاریخ تمھیں بھلا دے گی ترک افواج کے خلاف عربوں کو لڑانے کے لیے انگریزوں نے اپنے ایک ایجنٹ کو مسلمان مذہبی راہنما کے طور پر عرب بھیجا دیکھتے ہی دیکھتے وہ تمام عربوں کا ہر دل عزیز لیڈر بن گیا امام کعبہ ہو یا مسجد نبوی کا امام اور تو اور مسجد اقصیٰ کا امام بھی اس کی تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تھکتے تھے۔ اسے لارنس آف عریبیہ کا خطاب دیا گیا پھر اس لارنس آف عریبیہ نے عربوں کو انبیاء کی اولاد ہونے کی بنا پر باقی تمام دنیا سے افضل قرار دیا اور تمام دنیا کی حکمرانی کا حقدار ہونے کا احساس پختہ کیا۔ تمام عرب اسے پکا مسلمان اور سچا عاشق رسول ماننے لگ گئے۔ پھر اس نے عربوں کو ترک افواج کے خلاف حقیقی آزادی کے حصول اور اپنے حق حکمرانی کے حصول کے لیے ان عربوں کی محافظ ترک افواج سے لڑا دیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں انگریزوں کی مداخلت کی وجہ سے ترک افواج شکست كها کر عرب چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں اور عرب آزاد ھو گئے۔ مگر عربوں کی آزادی کا یہ خواب زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور چند سال بعد برطانوی انگریزوں کی افواج نے عربوں پر چڑھائی کر دی۔ عرب افواج غیر تربیت یافتہ اور غیر منظم هونے کی وجہ سے آسانی سے انگریز کی افواج سے شکست کھا گئیں اور انگریز تمام عرب پر قابض ہو گئے۔ اسکے بعد انگریزوں نے عربوں کو ایسی غلامی میں جکڑا کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست بھی بنائی اور آج تک بظاہر آزاد عرب ملک دراصل امریکی خوف کی غلامی سے نہیں نکل پائے۔ لارنس آف عریبیہ جاسوس تھا مگر اسے کسی نے جاسوس نہ کہا اور اس نے عربوں کو آزادی کے نام پر عثمانی سلطنت کی ترک افواج سے لڑوا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہودیوں کا غلام اور زیر دست بنا دیا۔ جس لارنس آف عریبیہ کو عرب اپنا لیڈر اور مذھبی راہنما اور نجات دهنده سمجھتے رہے اسے 1960 میں ہالی وڈ کی فلم لارنس آف عریبیہ میں برٹش یہودی کرنل کے عہدے پر فائز دکھایا گیا تو عربوں کو پتہ چلا کہ وہ لارنس آف عربیہ تو دشمن کا ایجنٹ تھا۔ اسی طرح روسی زار سلطنت کا خاتمہ بھی ان کے اندر موجود مذہبی راہنما کے ہاتھوں ہوا۔ آخری روسی زار، نکولس دوم، کی 1917 میں اقتدار سے دستبرداری سے 300 سال پرانے رومانوف خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ راسپوٹین 1869 میں سائبیریا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ کم عمری میں ہی اپنی آزادی خیالی کی وجہ سے راسپوٹین کی کنیت اس کی وجہ شہرت بنی۔ 1903 میں سینٹ پیٹرزبرگ میں اس کی ملاقات ایک سرکردہ آرتھوڈوکس پادری سے ہوئی جس نے اسے سینٹ پیٹرزبرگ کی اعلیٰ سوسائٹی سے متعارف کرایا۔ اس نے روحانیت کے پردے میں آزادانہ جنسیت کے لیے بھی تیزی سے شہرت حاصل کی۔ چند ہی سالوں میں اس کا تعارف زار اور زارینہ، الیگزینڈرا سے ہوا، جنہوں نے اپنے بیمار بیٹے الیکسی کا علاج کرنے کے لیے اس پر بہت زیادہ انحصار کرنا شروع کر دیا۔ الیگزینڈرا ایک گہری مذہبی عورت تھی اور راسپوٹین کی بظاہر جادوئی شفا بخش طاقتوں پر یقین رکھتی تھی، جن کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ خدا کی طرف سے ان کے بیمار بیٹے کی مدد کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جبکہ سچائی یہ تھی کہ راسپوٹین ایک خود ساختہ مقدس آدمی تھا، اس کے پاس کہا جاتا ہے کہ ہپناٹزم کی صلاحیت تھی جسے وہ مذہبی اور روحانی پردے میں استعمال کرتا تھا۔ راسپوٹین نے اپنے اور الیگزینڈرا کے درمیان قائم ہونے والے اس خاص بندھن کو زارینہ پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا۔ شاہی خاندان کے ارکان، حکومتی شخصیات اور یہاں تک کہ بہت سے عام روسی شہری بھی حیران تھے کہ یہ ’پاگل راہب‘ زار اور زارینہ پر اتنا کنٹرول کیسے رکھ سکتا ہے۔ اس اسکینڈل نے جلد شہرت حاصل کر لی. سینٹ پیٹرزبرگ میں بہت سے پوسٹر اور پوسٹ کارڈ گردش میں آ گئے جو اس خیال کو ظاہر کرتے تھے کہ زارینہ اور راسپوٹین کے مابین تعلق صرف پیر مریدی کا نہیں بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ زار نے راسپوٹین اور اس کے رویے سے متعلق کسی بھی منفی بات یا افواہوں پر پابندی لگا دی۔ اس عمل نے بذات خود ایک نئی سازشی تھیوری کو جنم دیا اور زار کے وفاداروں کو یقین ہو گیا کہ راسپوٹین کی امپیریل فیملی کے ارد گرد موجودگی نقصان دہ تھی، کیونکہ اس سے ایسا لگا کہ زار معاملات کو چھپا رہا ہے اور اس کا یہ اقدام اس کے سنسرشپ کے خاتمے کے وعدے کے بھی خلاف تھا جو کہ اکتوبر کے نئے منشور کا ایک اہم حصہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم 1914 میں شروع ہوئی اور روسی فوج کو ابتدائی دس مہینوں میں 3,800,000 ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد نکولس نے فوجی معاملات کو خود سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کارروائی نے الیگزینڈرا اور راسپوٹین کو دارالحکومت میں حکومتی فیصلے کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔ جنہوں نے حکم صادر کیا کہ اگر ڈوما (پارلیمنٹ) نے راسپوٹین پر حملہ کیا تو اسے فوری طور پر معطل کر دیا جائے گا راسپوتن بظاہر اہم فیصلوں کو جس طرح کنٹرول کر رہا تھا اس سے روس میں عدم اطمینان ایک بار پھر بڑھتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ Tsardom کے سخت ترین حامیوں کو بھی ایسے نظام کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا جس نے ایک قوم کو اس کی سب سے بڑی آزمائش میں ایک بدکار راہب کے زیر اثر کر دیا تھا۔ دسمبر 1916 میں، بادشاہت کو بچانے کی کوشش میں، اشرافیہ کے ایک گروپ نے راسپوٹین کو قتل کر دیا۔ بعد ازاں زار نکولس تخت سے دستبردار ہو گیا۔ اسیری کے دوران لینن کے حکم پر اسے اور اس کے خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ راسپوٹین شاہی خاندان کے لیے اسکینڈل لایا۔ اس نے زار کو اپنا اکتوبر کا منشور توڑنے پر مجبور کیا۔ اس نے پہلی جنگ عظیم میں اہم فیصلوں کو متاثر کیا۔ اس کے ابتدائی سالوں میں روس ایک ناخوشگوار جگہ بن چکا تھا، ہڑتالیں، فصلوں کی ناکامی، قحط، فسادات اور زار کے جبر کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ جزوی طور پر ان مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے بلکہ جزوی طور پر مشرق بعید میں زمینی تنازعہ کی وجہ سے 1904 میں روس اور جاپان جنگ میں جنگ چھڑ گئی۔ نکولس کا خیال تھا کہ یہ ایک مختصر اور فاتح جنگ ہوگی، لیکن ایسا نہ تھا۔ 1905 میں مظاہرین نے سرمائی محل کے سامنے مظاہرہ کیا لیکن فوجیوں نے فائرنگ کی جس سے ہزاروں بے گناہ شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ روس میں ’بلڈی سنڈے‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ رومانوف خاندان کے زوال کے لیے راسپوٹین کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، روسیوں کے بڑھتے ہوئے عدم اطمینان اور نکولس کی حکمرانی کی صلاحیت پر ان کا اعتماد ختم ہونے میں راسپوٹین کا بہت اثر تھا۔ اور وہ زار شاہی خاتمے کے خاتمے میں ایک اور کیل ثابت ہوا۔ آخری کیل۔ کچھ ایسا ہی احوال آج کے منتشر پاکستان کا بھی ہے۔ حقیقی آزادی کے نام پر پاکستان کے بھولے عوام کو ان کی محافظ پاک فوج کے ساتھ لڑانے کی کوششیں ہوں یا نظام سے متنفر کرنے کے اقدامات۔ سیاسی تقاریر کو مذہبی ٹچ دینے کیلئے ادھورے کلمے سے لیکر شرک کے فتوے تک۔ کیا کچھ نہیں کیا جا رہا اور اہل دانش انگلیاں منہ میں دبائے حیرت سے گنگ ہیں۔ ایک ایسا مادر پدر آزاد گروہ تخلیق کر دیا گیا ہے جو اندھا دھند ان کی تقلید کو ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔ بدقسمتی سے اب آزادی کا مفہوم اور معانی تک بدل گئے ہیں۔ اگر آپ کا تعلق قوم یوتھ سے ہے،انصافیے ہیں توپھر کسی بھی محفل میں بدتمیزی سے پیش آنا ،کہیں بھی سیاسی مخالفین کو دیکھ کر ان پر آوازیں کسنا یا پھر سوشل میڈیا پر خبث باطن آشکار کرنا آپ کا بنیادی حق ہے۔ اس کلٹ کو زبان تو دیدی گئی ہے مگر بولنے کے آداب نہیں سکھائے گئے۔ جناب عمران خان نے لوگوں کو بولنے کی آزادی نہیں دی بلکہ بندر کے ہاتھ میں ماچس اور استرا تھمادیا ہے۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کویہ تعلیم دی ہے کہ جو آپ کے خلاف ہے، وہ نہ صرف دائرہ اسلام سے خارج ہے بلکہ غدار، ملک دشمن، کرپٹ اور بے ضمیر انسان ہے۔ آپ اس پر لعن طعن کریں، جہاں دکھائی دے، جملے کسیں یا برا بھلا کہیں، آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ سوشل میڈیا پر تو صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔ اختلاف رائے کی جسارت کرنے والوں پر تو غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ ہوجاتی ہے، ان سے اتفاق کرنے والے بھی شر سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔پڑھنے اور سننے والے بتاتے ہیں کہ ہم اس خوف سے اپنی رائے کا اظہار نہیں کرپاتے کہ ’’حقیقی آزادی‘‘ پر یقین رکھنے والے کہیں اس طرف نہ آنکلیں۔ افغانستان میں انتظامی تبدیلی کے اثرات پاکستان کی معیشت کو بھی نگل چکے ہیں۔ آج مہنگائی کا جو بحران ہماری گردنوں کو جکڑے ہوئے ہے کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اصل وجہ کیا ہے؟ یہ سرمایہ داروں کا ایسا گٹھ جوڑ ہے جو ہماری ہی گردنیں کاٹ کر تجارت کے نام پر (اسمگلنگ سے) افغانستان کو زندہ رہنے کی ہر چیز فراہم کرکے منافع کے انبار لگا رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کی کال کے انتظار میں ہلکان ہو کر پاکستان کی ساکھ خراب کرنا، ایبسولیوٹلی ناٹ کہنا، ہواؤں کا رُخ بدلتے دیکھ کر امریکی سازش کا بیانیہ تیار کرنا اور اس بیانیے پر اکڑ کر کھڑے ہوجانا اور جب بات نہ بنے تو امریکیوں کے سامنے لیٹ جانا، آئی ایم ایف معاہدے کی راہ میں روڑے اٹکانا، فارن فنڈنگ کیس میں، میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھنا، عوام کو قومی سلامتی کے اداروں، شخصیات کے خلاف اُکسانا اور دشنام طرازی کرنا یہ سب کچھ سازش نہیں تو کیا ہے؟ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ دنیا بھر میں پاکستان کو رسوا کرکے کیا ملا ؟ ہر آنے والا لمحہ خان اعظم کی ”سازش“ کے چھپے رازوں کو بے نقاب کرتا رہے گا اور یہ راز از خود طشتِ ازبام ہونا شروع ہو جائیں گے۔

Wednesday, September 14, 2022

نظام کی تبدیلی (آخری حصہ)

پہلی عالمی جنگ کے بعد عالمی سطح پر ایمپائرز کے زوال کے بعد نیا عالمی نظام گزشتہ سو سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ اور جمہوری طاقتیں اس میں مسلسل بہتری کیلئے کوشاں ہیں۔ دنیا اس وقت ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور کسی ایک ملک پر حملہ، آفت یا کسی اور ضرورت کے وقت ممالک ایک دوسرے کی مدد کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ہمارا ملک آزاد ہوئے بھی 75 سال ہو گئے اور اس عرصے میں یہ اقوام عالم سے کبھی علیحدہ نہیں رہا۔ یہاں کا نظام جمہوریت کی ہی مرہون منت ہے اور برسہا برس کے انسانی تجربے کا حاصل ہے۔ ہمارا عسکری نظام ہو یا بیورو کریسی کا نظام، اس کے پاس برطانوی اور مغل انتظام کا تجربہ ہے۔ اس میں مزید بہتری کی گنجائش ضرور ہے اور کمی نظام میں نہیں بلکہ نظام چلانے والوں کی کوتاہی میں ہے۔ اسے مزید دیانتداری سے نافذ کیا جائے تو یہ مزید بہتر ہو جائے گا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب خان صاحب نظام کی تبدیلی کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے ان کے پاس نا تو کسی متبادل نظام کا خاکہ ہے اور نا ہی انہوں نے آج تک اس کو عوام تک پہنچایا ہے۔ اس لئے میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ یہ نعرہ صرف جذباتی استحصال پر مبنی ہے جو ان کے فدائین کیلئے ٹانک کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ خان صاحب کی موجودہ مہم کو بغور دیکھا جائے تو وہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے دن سے ہی ایک بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں اور اپنی ہائبرڈ رجیم کی حکومت کے تصور کو بھول رہے ہیں جس کی موجودہ عالمی نظام میں کوئی گنجائش نہیں۔ ٹرمپ کی طرح وہ ایک نظام سے جنگ چھیڑے ہوئے ہیں اور ان کے حامی ایک کلٹ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اداروں کو نشانہ بناتے بناتے اب وہ ملک کی سالمیت کی پروا کرنی بھی چھوڑ چکے۔ ان کی جماعت کی لیڈر شیریں مزاری کے ٹویٹس دیکھیں تو اسرائیلی وفد سے وزیر اعظم قطر میں خفیہ ملاقات سے لیکر ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے معاملات تک چھیڑ چکیں۔ ان کے دور کے خزانہ کے وزیر پنجاب اور کے پی کے کے صوبائی وزرائے خزانہ سے مل کر آئی ایم ایف ڈیل کو متاثر کرنے کی کوشش کر چکے لیکن انہیں نہیں بھولنا چاہئیے کہ کوئی بھی لیڈر ملک سے بڑا ہو سکتا ہے نہ ملک سے بڑھ کر اُس کا احترام و اکرام کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی سیاسی و مذہبی لیڈر کی پہچان اور تشخص اُس کے ملک کی وجہ ہی سے ہوتی ہے۔ کوئی لیڈر اگر ملک اور ملکی اداروں کا احترام اور لحاظ ملحوظِ خاطر نہیں رکھتا تو وہ خود بھی احترام و محبت کا حقدار نہیں کہلا سکتا۔ ایسے شخص کی عزت کی ہی نہیں جا سکتی۔ جناب عمران خان کو اِس ملک، اِس ملک کے اداروں اور اِس ملک کی عوام نے جتنی محبت اور احترام بخشا ہے، آج تک کسی لیڈر کو نہیں ملی۔ وہ پونے چار سال وزیر اعظم کی کرسی پر تشریف فرما رہے لیکن سوائے اپنے مخالفین کو جیلوں میں ٹھونسنے، صحافت کا گلا دبانے اور چور چور کے نعرے لگانے کے کوئی مثبت اور دیرپا عوامی و ملکی خدمت انجام نہ دے سکے۔ اقتدار چھِن جانے سے پہلے بھی خان صاحب نے دھمکی دیتے ہُوئے کہا تھا ’’ اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو مَیں زیادہ خطرے ناک ہو جاؤں گا۔‘‘ یعنی وہ ’’خطرناک ‘‘ تو پہلے ہی تھے اور اقتدار سے نکالے جانے کے بعد زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے تھے۔ خان صاحب اپنے تئیں ’’خطرناک‘‘ ہوکر عوام اور ملک کا تو فی الحال کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے۔ ہاں، اپنا بہت کچھ بگاڑ نے کا موجب بن رہے ہیں۔ اپنی اس "حقیقی تبدیلی" کی مہم میں خان صاحب اداروں کو مختلف ناموں سے پکارنے اور لوگوں کو دھمکیاں دیتے دیتے اس وقت عدالت کے سامنے ملزم کے طور پر کھڑے نظر آتے ہیں لیکن آج تک انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا نظام کی تبدیلی کا مطلب کیا ہے ؟ ہاں ان کی باتوں، اعمال، انکے جلسوں کے شرکا اور انکی ایک مخصوص کمیونٹی میں مقبولیت، انکے ادا کردہ ادھورے کلمے اور شرک کے فتووں سے ایک شائبہ ضرور ہوتا ہے۔ کہیں ان کا مرغوب نظام ایل جی بی ٹی ایجنڈا سے متاثر تو نہیں ؟

Tuesday, September 13, 2022

نظام کی تبدیلی (دوسرا حصہ)

بیسویں صدی کا آغاز دنیا کو ایک نئے نظام کی نوید دے رہا تھا۔ دنیا بادشاہی نظام سے کسی دوسرے نظام کی متلاشی تھی کیونکہ انسانی شعور اس سطح پر پہنچ چکا تھا کہ جہاں انسان پر انسان کی غلامی بلکہ مطلق العنانیت کے دروازے اب بند ہو رہے تھے۔ دنیا میں انسان نے اپنے علم کی معراج کو چھونا تھا اور نظام حکومت ایک نئی جہت یعنی حکومت کے انتظام میں عوام کی شراکت کی ضرورت ضروری ہو گئی تھی ۔ 20 ویں صدی میں اہم واقعات کا غلبہ تھا، ہسپانوی فلو کی وبائی بیماری، پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم، جوہری ہتھیار، جوہری توانائی اور خلائی تحقیق، قوم پرستی اور غیر آبادکاری، تکنیکی ترقی، اور سرد جنگ اور سرد کے بعد۔ جنگی تنازعات۔ اس نے دنیا کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو نئی شکل دی۔ اس دور میں بڑی بادشاہتوں کو یا تو تبدیل ہونا تھا یا پھر ختم ہونا ان کا مقدر تھا۔ ان بڑی بادشاہتوں میں سلطنت روس، سلطنت عثمانیہ اور سلطنت برطانیہ شامل تھیں۔ حیرت انگیز طور پر سلطنت روس اپنے نظام کا خود شکار ہوئی، سلطنت عثمانیہ کو بیرونی و اندرونی عوامل نے ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیا جبکہ سلطنت برطانیہ نے تبدیلی کی نوید پا کر اپنے آپ کو بدل لینے اور اپنے اختیارات اپنے عوام کو سونپ دینے میں ہی اپنی عافیت جانی۔باقی چھوٹی بادشاہتوں کا مقدر اپنے عوام کے ہاتھوں بربادی ٹھہرا اور یا تو وہ خود ہی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا شکار ہوئیں یا پھر انقلابات نے عوام کو اپنی حکومت قائم کرنے پر مجبور کر دیا جیسے کہ سلطنت آسٹریا یا سلطنت فرانس وغیرہ گذشتہ کالم میں ہم نے آپ کو سلطنت روس کی تباہی اور اس میں راسپوٹین کے کردار کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ آئیے اب سلطنت عثمانیہ کی ٹوٹ پھوٹ کے ذمہ دار ٹی۔ ای۔ لارنس کے بارے میں بتائیں کہ کیسے اس نے تن تنہا ایک ایسی سلطنت کو عرب اور غیر عرب میں بانٹ دیا اور بالآخر سلطنت عثمانیہ کا نام تاریخ کی کتابوں کی زینت بنا دیا لارنس آف عریبیا تھامس ایڈورڈ لارنس، پیدائش اگست 16، 1888، ویلز — وفات 19 مئی 1935، ڈورسیٹ، انگلینڈ، برطانوی آثار قدیمہ کے اسکالر کے بھیس میں فوجی حکمت عملی کا ماہر ایک برطانوی ایجنٹ مشرق وسطیٰ میں اپنی افسانوی جنگی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے۔ لارنس، سر تھامس چیپ مین اور سارہ میڈن کا بیٹا تھا، اس کی ماں سارہ، سر تھامس کی بیٹیوں کی گورننس تھی، جن کے ساتھ وہ شادی کیلئے آئرلینڈ سے فرار ہو گیا تھا۔ جوڑے کے پانچ بیٹے تھے (تھامس ایڈورڈ دوسرے تھا)۔ 1896 میں یہ خاندان آکسفورڈ میں آباد ہوا، جہاں T.E. (اس نے ناموں پر ابتدائیہ کو ترجیح دی) نے ہائی اسکول اور جیسس کالج میں تعلیم حاصل کی۔ قرون وسطی کے فوجی فن تعمیر میں اس کی دلچسپی تھی، اور اس نے فرانس میں صلیبی قلعوں اور (1909 میں) شام اور فلسطین میں اس کی تاریخی ترتیبات میں اس کا مطالعہ کیا اور اس موضوع پر ایک مقالہ پیش کیا جس پر اس نے 1910 میں تاریخ میں فرسٹ کلاس اعزاز حاصل کیا۔ (یہ 1936 میں Crusader Castles کے نام سے اس کے مرنے کے بعد شائع ہوا تھا۔) ، اس نے میگڈلین کالج سے ڈیمی شپ (ٹریولنگ فیلوشپ) حاصل کی اور فرات پر کارکیمش کی بستی کی کھدائی کرنے والی مہم میں شامل ہوا، وہاں 1911 سے 1914 تک کام کیا، پہلے ہوگارتھ اور پھر سر لیونارڈ وولی کے ماتحت، اور اپنا فارغ وقت استعمال خوب استعمال کیا۔ سفر کیا اور مقامی زبان اور لوگوں سے واقفیت حاصل کی۔ 1914 کے اوائل میں وہ اور وولی اور کیپٹن ایس ایف۔ نیوکومبی، سوئز کے مشرق میں ترکی کی سرحد پر، شمالی سینائی کی تلاش مہم میں شامل ہوئے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ ایک سائنسی مہم، اور درحقیقت فلسطین ایکسپلوریشن فنڈ کی طرف سے سپانسر کی گئی، یہ غزہ سے عقبہ تک نقشہ سازی کا منصوبہ تھا، جو اسٹریٹجک اہمیت کا حامل تھا۔ مقالہ لارنس اور وولی نے ایک ساتھ لکھا، یہ 1915 میں دی وائلڈرنس آف زن کے نام سے شائع ہوا۔ جس مہینے جنگ عظیم اول شروع ہوئی، لارنس لندن میں وار آفس کے میپ ڈیپارٹمنٹ کا سویلین ملازم تھا، جس نے سینائی کا عسکری طور پر مفید نقشہ تیار کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔ دسمبر 1914 تک وہ قاہرہ میں لیفٹیننٹ رہا۔ عرب امور کے ماہرین - خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے ترکی کے زیر قبضہ عرب سرزمینوں میں سفر کیا تھا - نایاب تھے، اسے انٹیلی جنس پر مامور کیا گیا تھا، جہاں اس نے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزارا، زیادہ تر قیدیوں کے انٹرویو کرنے، نقشے تیار کرنے، ایجنٹوں سے ڈیٹا حاصل کرنے اور اس پر کارروائی کرنے میں۔ دشمن کی لکیریں، اور ترک فوج پر ایک ہینڈ بک تیار کرنا اس کی ذمہ داری تھی۔ مصر اس وقت مشرق وسطیٰ کی عسکری کارروائیوں کے لیے بے مثال ناکامی کا میدان تھا۔ عرب کے دورے نے لارنس کو جرمنی کے ترک اتحادی کو کمزور کرنے کے متبادل طریقہ پر قائل کیا۔ اکتوبر 1916 میں وہ سفارت کار سر رونالڈ اسٹورز کے ساتھ عرب کے ایک مشن پر گیا، جہاں مکہ کے امیر، حسین ابن علی نے گزشتہ جون میں ترکوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔ سٹورز اور لارنس نے حسین کے بیٹے عبداللہ سے مشورہ کیا، اور لارنس کو اجازت ملی کہ وہ ایک اور بیٹے، فیصل کے ساتھ مزید مشاورت کے لیے آگے بڑھے، جو مدینہ کے جنوب مغرب میں ایک عرب فوج کی کمان کر رہا تھا۔ نومبر میں قاہرہ واپس آ کر لارنس نے اپنے اعلیٰ افسران پر زور دیا کہ وہ اسلحے اور سونے سے بغاوت کی کوششوں کو آگے بڑھائیں اور عام فوجی حکمت عملی کے ساتھ آزادی کی خواہشات کو جوڑ کر اختلافی شیخوں کا استعمال کریں۔ اس نے سیاسی اور رابطہ افسر کے طور پر فیصل کی فوج میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ اس کے دماغ، اس کی تنظیمی قوت، قاہرہ کے ساتھ اس کا رابطہ، اور اس کی فوج کا دوسرا محاذ ایک ہٹ اینڈ رن گوریلا آپریشن تھا، جس میں پلوں اور سپلائی ٹرینوں کی تباہ کاری اور دشمن کی افواج کو باندھنا تھا اور اس نے دمشق تا مدینہ ریلوے کو بڑی حد تک ناکارہ رکھا، ترک اس طرح بغاوت کو کچلنے میں بے بس رہے۔ اس طرح کے انداز میں لارنس عرب شیخوں کو ایک عرب قوم کے بارے میں اپنے بادشاہ بنانے والے کے وژن کی طرف متوجہ کیا، انہیں اپنی ذاتی بہادری کی مثالیں پیش کیں۔ عربوں کو علم بغاوت بلند کرنے پر انہیں دشمن(ترک) کے مال غنیمت اور انگریزی سونے کے بادشاہوں کے وعدوں کے ساتھ رشوت دی۔ عقبہ — بحیرہ احمر کے انتہائی شمالی سرے پر — عرب گوریلا افواج کی پہلی بڑی فتح تھی۔ انہوں نے 6 جولائی 1917 کو دو ماہ کے مارچ کے بعد اس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد لارنس نے عرب تحریکوں کو جنرل سر ایڈمنڈ ایلنبی کی مہم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، جو یروشلم کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے، یہ حربہ صرف جزوی طور پر کامیاب رہا۔ اس کی اپنی تحریر کے مطابق، نومبر میں لارنس کو ترکوں نے درعا میں عرب لباس میں علاقے کی دوبارہ تلاش کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا اور وہ بظاہر پہچان لیا گیا تھا اور فرار ہونے میں کامیاب ہونے سے پہلے اسے بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ اگلے مہینے، اس کے باوجود، لارنس نے یروشلم میں فتح کی پریڈ میں حصہ لیا اور پھر تیزی سے کامیاب کارروائیوں میں واپس آیا جس میں فیصل کی افواج نے شمال کی طرف راستہ روک لیا۔ لارنس ڈسٹنگویشڈ سروس آرڈر (DSO) کے ساتھ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر پہنچ گیا۔ اکتوبر 1918 میں جس وقت موٹلی عرب فوج دمشق پہنچی، لارنس جسمانی اور جذباتی طور پر تھک چکا تھا وہ متعدد بار زخمی ہوا، پکڑا گیا، اور تشدد کا نشانہ بنا۔ بھوک، موسم اور بیماری کی انتہا کو برداشت کیا؛ لارنس جنگ بندی سے ٹھیک پہلے گھر کے لیے روانہ ہوا 30 سال کا ایک کرنل، لارنس 34 سال کا پرائیویٹ تھا۔ درمیان میں اس نے 1919 میں پیرس امن کانفرنس میں عربوں کی آزادی کے لیے لابنگ کی (یہاں تک کہ عرب لباس میں بھی نظر آیا) اور شام اور لبنان کی باقی عربوں سے لاتعلقی کے خلاف لابنگ کی اس دوران اس نے اپنی جنگی یادداشتوں پر کام کیا، اس مقصد کے لیے آل سولز کالج، آکسفورڈ میں ایک ریسرچ فیلوشپ حاصل کی، جو نومبر 1919 میں مؤثر (سات سالہ مدت کے لیے) تھی۔ مارچ 1921 میں، اسے نوآبادیاتی وزیر، اس کے بعد ونسٹن چرچل کے عرب امور کے مشیر کے طور پر مشرق وسطیٰ واپس بھیج دیا گیا۔ اس وقت تک جنگ عظیم اول ختم، نئے عرب ملکوں کی پیدائش اور سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو چکا تھا اور یورپی طاقتیں عرب خطے کے حصے بخرے کر کے اپنے اپنے حصے طے کر چکے تھے دنیا لارنس کو عربوں میں گھل مل کر انہیں استعمال کر کے انہیں عثمانی سلطنت کے خلاف بغاوت اور عرب کے کئی ٹکڑے ہونے کے مرکزی کردار کے طور پر یاد رکھتی ہے۔

Monday, September 12, 2022

نظام کی تبدیلی - (حصہ اول)

انیسویں صدی کے اوائل میں دنیا نے دو بڑی بادشاہتوں کا زوال دیکھا۔ ان بادشاہتوں کی جگہ نئے نظام حکومت متعارف ہوئے۔ اس طرح تاریخ نے انیسویں صدی میں نظام حکومت بدلتے دیکھے۔ دونوں بادشاہتوں کے زوال کی تاریخ اٹھائیں تو آپ کو دو کردار نظر آئیں گے روس کا راسپوٹین اور سلطنت عثمانیہ کا لارنس آف عریبیا۔ آئیے تاریخ کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ ان بادشاہتوں کے زوال کا سبب بننے والے مرکزی کرداروں نے ایسا کیا کیا کہ صدیوں پرانی بادشاہتیں اب صرف تاریخ کے اوراق میں ہی ملتی ہیں ۔ زار روس اور راسپوٹین روس میں 300 سے زائد عرصہ زار ایمپائر رہی۔ یہ ایمپائر فن لینڈ تا پولینڈ اور تمام روس جس میں نو آزاد روسی ریاستیں شامل تھیں پر مشتمل تھی اور نکولس یا نکولائی الیگزینڈرووچ رومانوف (18 مئی 1868 تا 17 جولائی 1918، روس کا آخری زار تھا۔ اسے روسی آرتھوڈوکس چرچ میں سینٹ نکولس دی پیشن بیئرر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ روس کا آخری شہنشاہ تھا۔ جسے پولینڈ اور فن لینڈ کے گرینڈ ڈیوک کا خطاب بھی ملا، 1 نومبر 1894 سے 15 مارچ 1917 کو اپنے دستبردار ہونے تک حکومت کرتا رہا۔ اپنے دور حکومت کے دوران، نکولس نے اپنے وزرائے اعظم، سرگئی وِٹے اور پیوٹر اسٹولپین کی طرف سے فروغ دی گئی اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کو نافذ کیا۔ اس نے غیر ملکی قرضوں اور فرانس کے ساتھ قریبی تعلقات کی بنیاد پر جدیدیت کی طرف بھی قدم بڑھائے، لیکن نئی پارلیمنٹ (ڈوما) کو اہم کردار دینے کی مخالفت کی۔ بالآخر، نکولس کی آمرانہ و مطلق العنان بادشاہی نظام کی مضبوط اشرافیہ کی مخالفت، روس-جاپانی جنگ اور پہلی جنگ عظیم میں روسی فوج کی شکستوں سے مارچ 1917 تک، نکولس کے لیے عوامی حمایت ختم ہوئی اور وہ تخت سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوا۔ اس طرح رومانوف خاندان کی روس پر 304 سالہ حکمرانی (1613–1917) کا خاتمہ ہو گیا۔ زار روس کے زوال میں جس کردار کا سب سے بڑا سبب گردانا جاتا ہے وہ بدنام زمانہ راسپوٹین ہے۔ پہلی جنگ عظیم، جاگیرداری کی تحلیل، اور حد درجہ مداخلت کار سرکاری بیوروکریسی - ان سب نے روس کی تیزی سے اقتصادی زوال میں حصہ ڈالا۔ بہت سے لوگوں نے ملکہ اور راسپوٹین پر الزام لگایا۔ ڈوما کے ایک رکن، انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان ولادیمیر پورشکیوچ نے نومبر 1916 میں کہا کہ اس نے زار کے وزراء کو مکڑی کے چھتے میں تبدیل کر دیا تھا، جن کے دھاگوں کو راسپوٹین اور مہارانی الیگزینڈرا فیوڈورونا نے مضبوطی سے ہاتھ میں لے لیا تھا - راسپوٹین ایک سائبیرین گاؤں میں ایک کسان خاندان میں پیدا ہوا۔ 1897 میں ایک خانقاہ کی زیارت کے بعد اس نے اپنے اندر مذہبی تبدیلی کا دعوی کیا ۔ تاریخ میں اسے ایک راہب کے طور پر بیان کیا گیا ہے، حالانکہ روسی آرتھوڈوکس چرچ میں اسے کوئی حیثیت نہیں دی گئی تھی۔ اس نے 1903 یا 1904-1905 کے موسم سرما میں سینٹ پیٹرزبرگ کا سفر کیا، جہاں اس نے کچھ چرچ اور سماجی رہنماؤں کو اپنے سحر میں لے لیا اور وہ روسی سوسائیٹی میں پہچانا جانے لگا۔ نومبر 1905 میں اس کی ملاقات شہنشاہ نکولس اور مہارانی الیگزینڈرا ہو گئی۔ اور 1906 کے اواخر میں، راسپوٹین نے شاہی جوڑے کے اکلوتے بیٹے، الیکسی، جو ہیموفیلیا میں مبتلا تھا، کے لیے شفا یابی کے لئے کام کرنا شروع کیا۔ راسپوٹین کی شفا یابی کی طاقتوں پر شاہی خاندان کے اعتقاد نے اسے شاہی دربار میں کافی حیثیت اور طاقت حاصل بخشی۔ زار نے راسپوتن کو اپنا لیمپڈنک (چراغ جلانے والا) مقرر کیا، اس سے اسے محل اور شاہی خاندان تک باقاعدہ رسائی حاصل ہوئی۔ راسپوٹین نے اپنے عہدے کو مکمل اثر انداز کرنے کے لیے استعمال کیا، مداحوں سے رشوت قبول کی اور اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے تندہی سے کام کیا۔ وہ شاہی دربار میں ایک تفرقہ انگیز شخصیت تھا، جسے کچھ روسیوں نے ایک صوفیانہ، بصیرت اور نبی کے طور پر دیکھا، اور دوسروں نے ایک مذہبی زار کے طور پر دیکھا۔ راسپوٹین کی طاقت کا عروج 1915 میں تھا جب نکولس دوم نے پہلی جنگ عظیم میں لڑنے والی روسی فوجوں کی نگرانی کے لیے سینٹ پیٹرزبرگ چھوڑا، جس سے ملکہ الیگزینڈرا اور راسپوٹین دونوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ اور کہا جانے لگا کہ ملکہ سانس بھی اس سے پوچھ کے لیتی ہے۔ شاہی دربار کے احکامات اس سے پوچھ کے ہونے لگے اور اسکی مذہبی دعا کے بغیر کوئی سرکاری کام ہونا ناممکن سمجھا جانے لگا۔ جنگ کے دوران مسلسل شکستوں سے راسپوٹین اور الیگزینڈرا دونوں تیزی سے غیر مقبول ہوتے گئے اور 30 دسمبر 1916 کی صبح، راسپوٹین کو قدامت پسندوں کے ایک گروپ نے قتل کر دیا جو الیگزینڈرا اور نکولس پر اس کے اثر و رسوخ کے مخالف تھے۔ مورخین کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ راسپوٹین کی مکروہ ساکھ نے زار کی حکومت کو بدنام کرنے میں اہم کردار انجام دیا اور صرف چند ماہ بعد رومانوف خاندان کا تختہ الٹ گیا۔ (جاری ہے)

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...