شہید ذوالفقار علی بھٹو - تاریخ کے چند اوراق
اظہر عباس
"ہم تمھیں ایک دہشت ناک مثال بنا دیں گے"
ہنری کسنجر
Then we will make a horrible example of you!" 
(Henry Kissinger-1976)
پاکستان میں جاگیرداروں کا مخصوص سیاسی کلچر رہا ہے۔ ستر کے عشرے اور اس سے قبل بھی اکثر سیاست دان جاگیردار تھے۔ خود کو بڑا سمجھنا، حکومت یا حکومتی اہلکار کے سامنے جھک جانا۔ اپنے مخالفین اور ماتحتوں سے ظالمانہ طریقے سے نمٹنا ان کا مخصوص طرزِ حیات تھا۔ لہٰذا سیاست اور اقتدار میں بھی دھونس اور نوکر شاہی یا حکومت کی پشت پناہی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ یہی لوگ اسمبلیوں یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں پر حاوی ہوتے تھے۔ باقی لوگ زمیندار تو نہ تھے لیکن ان  کے سیاسی کلچر پر ہی چلتے تھے۔ سیاسی جاگیردار کلچر کیا تھا؟ بھٹو نے قومی اسمبلی میں ایک تقریر میں اس کو بیان کیا تھا۔
’جب جاگیردار ایک دوسرے سے لڑتے ہیں تو عوام پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کوئی ترقی نہیں ہوتی، کوئی کارخانہ نہیں لگتا، کوئی سڑک تعمیر نہیں ہوتی۔ بدترین اندھیرا اور غربت چھائی رہتی ہے۔ صرف گنتی کے لوگ ترقی کرتے ہیں یا خوش حال ہوتے ہیں۔ آپس کی لڑائیاں، عام آدمی کا استحصال، معاشی اور سماجی ترقی سے بے گانگی ہے‘
پاکستان کے سابق وزیر اعظم لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی ریاست میں دیوان تھے۔ پاکستان میں آپ کو قائدِعوام یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئینِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیر اعظم تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔
وہ پہلے ایشیائی تھے جنھیں انگلستان کی ایک یونیورسٹی ’’ساؤ تھمپئین‘‘ میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ مسلم لا کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔ 1953ء میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔
بھٹو جمہوری حکومت میں صدر پاکستان سکندر مرزا کے وزیر اعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے۔
پاکستان کے زلفی بھٹو سے (شائع شدہ 1993) بذریعہ پروفیسر اسٹینلے وولپرٹ لکھتے ہیں:
"شاہ نواز [بھٹو] نے جناح سے پہلی بار 1928 میں لاڑکانہ میں ملاقات کی، جس سال ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے تھے۔ 
بمبئی کے اس وقت کے ہونہار بیرسٹر، (محمد علی جناح) جو خود سندھ میں پیدا ہوئے اور کراچی میں پرورش پائی، کو سندھ کی محمڈن ایسوسی ایشن نے مدعو کیا تھا، جس کی صدارت سر شاہ نواز بھٹو نے کی۔ 
سندھ کے کئی مسلم وڈیروں کے درمیان قانونی تنازعہ طے کرنے کے لیے محمد علی جناح لاڑکانہ میں بھٹو کے عظیم الشان گھر المرتضیٰ میں شاہ نواز کے ساتھ ٹھہرے تھے۔
"زلفی نے اپنا پہلا خط 26 اپریل 1945 کو جناح کو لکھا تھا، جب وہ پِلو کے ساتھ مسوری ہوٹل میں چھٹیاں گزار رہے تھے۔ 17 سال کی عمر میں اس نے لکھا:
"جناب آپ نے ہمیں ایک پلیٹ فارم اور ایک جھنڈے کے نیچے لایا ہے اور ہر مسلمان کا نعرہ ہونا چاہیے کہ پاکستان آگے بڑھنا ہے، ہمارا مقدر پاکستان ہے، ہمارا مقصد پاکستان ہے، ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، ہم خود ایک قوم ہیں۔ ہندوستان ایک برصغیر ہے۔ آپ نے ہمیں متاثر کیا ہے اور ہمیں آپ پر فخر ہے۔ میں ابھی بھی اسکول میں ہونے کی وجہ سے اپنی مقدس سرزمین کے قیام میں مدد کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن وہ وقت آئے گا جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دوں گا۔"
ذوالفقار علی بھٹو کے ہم جماعت پیلو مودی کی لکھی ہوئی کتاب سے اقتباس:
("زلفی مائی فرینڈ"، شائع 1973)
"زلفی نے عوامی زندگی میں اس آسان طریقے سے قدم رکھا جس طرح اسکندر مرزا بھٹو خاندان کے پرانے دوست تھے، ان کے چچا حکومت بمبئی میں انجینئر تھے جب زلفی کے والد وزیر تھے، وہ بہت گہرے دوست تھے۔
ایک موقع پر زلفی نے صدر اسکندر مرزا کے ساتھ ایک طویل ملاقات کی اور بظاہر صدر اس بحث سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے زلفی کو پاکستان کی نمائندگی کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ 
انہوں نے بھٹو کو یقین دلایا کہ وہ ستمبر 1956 میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں انکی حاضری یقینی بنائیں گے۔ تھوڑی دیر بعد حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بن گئے۔ اس سے قبل زلفی کا مجیب الرحمان سے 1955 میں سہروردی کی رہائش گاہ پر جھگڑا ہوا تھا۔ تاہم، سہروردی نے 1956 میں جنرل اسمبلی میں پاکستان کے وفد سے بھٹو کا نام نکالنے کی وجہ یہ نہیں تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ سہروردی بھٹو کی عوامی لیگ میں شمولیت کی پیشکشوں سے بار بار انکار کرنے پر ناراض تھے۔"
| ReplyReply allForward | 
 
 
 
No comments:
Post a Comment