Thursday, August 8, 2024

بنگلہ دیش

 ناہید اسلام کی عمر 26 سال ہے اور یہ ڈھاکا یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم ہے‘ یہ حسینہ واجد کی پالیسیوں کا مخالف تھا‘ جون میں اس نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی‘ طالب علم اس کے گرد جمع ہونے لگے اور وہ تحریک شروع ہو گئی جو آگے چل کر حسینہ واجد کے 16سالہ اقتدار کے خاتمے کی بنیاد بن گئی‘ ان دو ماہ میں حکومت نے ناہید اسلام کو دہشت گرد بھی قرار دیا‘ اس پر کریک ڈاؤن بھی کیا اور اسے پولیس گھر سے بھی اٹھا کر لے گئی‘ اس پر بہیمانہ تشدد کیا گیا‘ یہ جب مکمل بے ہوش ہو گیا تواسے ڈھاکاکے ایک پل کے نیچے پھینک دیا گیا‘ اسے 26 جولائی کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا لیکن اس وقت تک حالات بدل چکے تھے۔

پولیس خوف زدہ ہو چکی تھی‘ طالب علم آگے بڑھتے رہے اور حکومت پسپا ہوتی چلی گئی اور یہ پسپائی آخر میں پانچ اگست کو حسینہ واجد کے فرار پر ختم ہوئی لیکن سوال یہ ہے کیا یہ حالات چند دنوں میں پیدا ہوئے تھے‘ کیا بنگلہ دیش میں چند دنوں میں تبدیلی آئی تھی؟جی نہیں پانچ اگست 2024کا بیج دراصل 7 دسمبر 1970میں بویا گیا تھا‘ اس دن مشترکہ پاکستان کا آخری الیکشن ہوا تھا جس میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی 162 سیٹوں میں سے 160 سیٹیل حاصل کر لیں جب کہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 81 سیٹیں لی تھیں۔

شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت تھی‘ اخلاقی اور دستوری لحاظ سے حکومت اس کا حق تھا لیکن صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے اسے یہ حق نہیں دیا‘ شیخ مجیب الرحمن اخلاقی‘ دستوری اور سیاسی لحاظ سے درست تھا‘ ریاست کو اسے حق حکمرانی دینا چاہیے تھا‘یہ معاملہ یہاں تک ٹھیک تھا لیکن آگے چل کر شیخ مجیب نے جو راستہ استعمال کیا وہ غلط نکلا‘ وہ ریاست کے ساتھ لڑ پڑا اور اس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا‘ اس نے 16 دسمبر 1971 کو بھارت کی مدد سے پاک آرمی کو سرینڈر پر مجبور کر دیا‘یہ مجیب الرحمن کی بڑی سیاسی غلطی تھی اور اس کا خمیازہ بعدازاں اسے اور اس کی نسل کو بھگتنا پڑا۔

شیخ مجیب نے سقوط ڈھاکا کے دوران عوام کو یقین دلایا تھا بنگالی مغربی پاکستان اور پاک آرمی کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں‘ ہم اگر مغربی پاکستان سے جان چھڑا لیں تو ہم خوش حال بھی ہو جائیں گے اور ترقی یافتہ بھی‘ وہ بنگالیوں کو بھارت کے قریب بھی لے آیا تھا اور اس کھیل میں وہ یہ بھول گیا تھا بنگالی پنجابیوں سے زیادہ بھارت سے نفرت کرتے ہیں‘ یہ پنجاب (مغربی پاکستان) کے ساتھ 24 سال نکال گئے ہیں مگر یہ بھارت کے ساتھ دس سال بھی گزارہ نہیں کر سکیں گے۔

دوسرا قوموں میں خوش حالی محنت اور سکل سے آتی ہے‘ نعروں سے نہیں لہٰذا جب بنگلہ دیش آزاد ہوا اور عوامی لیگ کی حکومت بن گئی تو عوام کو دور دور تک سونے کے وہ پہاڑ نظر نہ آئے جن کے لیے انھوں نے قربانی دی تھی‘ جن کے لیے یہ مغربی پاکستان سے الگ ہوئے تھے‘ شیخ مجیب1971تک بنگالیوں کی محرومی پنجاب کے کھاتے میں ڈالتے رہے تھے لیکن بنگالی آزادی کے بعد کیوں پس ماندہ اور محروم ہیں؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا‘ دوسری طرف بھارت ’’تاوان جنگ‘‘ میں بہت کچھ وصول کر رہا تھا‘ بنگلہ دیش اس زمانے میں جیوٹ کی صنعت میں دنیا میں پہلے نمبر پر تھا‘ شیخ مجیب کے زمانے میں جیوٹ کی صنعت اور منڈیاں بھارت شفٹ ہو گئیں جس سے بھارتی تاجرمزید امیر اور بنگالی مزید غریب ہو گئے۔

تحریک پاکستان ڈھاکہ سے شروع ہوئی تھی لاہور یا کراچی سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ بنگالیوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کو بنگال میں 1937ء میں حکومت دلوا دی تھی جبکہ قرارداد پاکستان اس کے تین سال بعد 23مارچ 1940ء کو منظور ہوئی۔ شیخ مجیب الرحمان تحریک پاکستان میں بہت سرگرم تھے۔ بنگالیوں کی کانگریس سے لڑائی کا آغاز بندے ماترم کو قومی ترانہ بنانے پر ہوا تھا۔ جب مسلم لیگ نے بندے ماترم کو قومی ترانہ بنانے کی کھل کر مخالفت کی تو بنگال میں کانگریس کو پیچھے چھوڑ گئی۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ 6جولائی 1938ء کو کلکتہ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس میں بیگم سکینہ فرخ سلطان نے قرارداد پیش کی کہ اسکول ٹیچرز کی ٹریننگ میں ہندی کے ساتھ اردو کو بھی لازمی مضمون قرار دیا جائے جس پر ہنگامہ ہو گیا۔ بندے ماترم پر بنگالی مسلمان اتنے ناراض تھے کہ مولانا ابو الکلام آزاد کو اکتوبر 1938ء میں کلکتہ کے مسلمانوں نے نماز عید کی امامت سے ہٹا دیا اور مولانا آزاد سبحانی کی امامت میں نماز عید ادا کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک پاکستان کا اصل مرکز بنگال تھا اور 1946ء میں لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے غیر بنگالیوں کو پاکستان کے نام پر بنگال سے مرکزی اسمبلی کا رکن بنوایا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد بنگالیوں کے ساتھ کیا ہوا اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا کچھ کیا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے 1958ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شاہد علی خان ایوان کے اندر تشدد سے زخمی ہو کر چل بسے۔ ان کی موت کا شیخ مجیب نے بہت فائدہ اٹھایا 1965ء میں شیخ مجیب نے ایوب خان کے مقابلے پر محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرا دیا گیا اور پھر 1970ءکا الیکشن آیا شیخ مجیب کو اکثریت مل گئی۔ انہیں اقتدار منتقل کرنے کی بجائے فوجی آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا، یہ وہ زمانہ ہے جب ایسٹ بنگال رجمنٹ کے میجر ضیاء الرحمان نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل رشید جنجوعہ کو گولی مار دی اور چٹاگانگ ریڈیو پر قبضہ کر کے 27مارچ 1971ء کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ میجر ضیاء الرحمان نے دو اعلان کئے پہلا اعلان اپنی طرف سے کیا عوامی لیگ والوں نے اعتراض کیا تو دوسرا اعلان شیخ مجیب کے نام پر کیا جو پاکستانی فوج کی حراست میں تھے۔ یہ میجر ضیا اور شیخ مجیب میں غلط فہمیوں کا آغاز تھا۔ میجر ضیاء اپنے آپ کو آزادی کا ہیرو سمجھتا تھا لیکن سیاسی دبائو پر اسے شیخ مجیب کو بنگلہ بندھو تسلیم کرنا پڑا۔ 15اگست 1975ء کو بنگلہ دیشی فوج کے جن افسران نے شیخ مجیب کے خلاف بغاوت کی ان میں لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الرحمان بھی شامل تھے جو بعد میں بنگلہ دیش کے صدر بن گئے اور پاکستان میں ان کی بہت آئو بھگت کی جاتی تھی۔ جنرل ضیاء الرحمان پی ایم اے کا کول کے تربیت یافتہ تھے پاکستانی فوج میں ان کے بہت تعلقات تھے لہٰذا انہوں نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل رشید جنجوعہ کے ساتھ جو کیا اسے بھلا دیا گیا لیکن جنرل کے ایم عارف اس درندگی کو نہ بھولے وہ اپنی کتاب ’’خاکی سائے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب ضیاء الرحمان بنگلہ دیش کے صدر کی حیثیت سے پاکستان آیا تو میں نے بطور ڈپٹی آرمی چیف اس کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں شرکت سے معذرت کر لی کیونکہ میں کرنل جنجوعہ کے قتل کو فراموش نہ کر سکا تھا۔ ضیاء الرحمان نے عوامی لیگ کا مقابلہ کرنے کیلئے جماعت اسلامی سے اتحاد کیا انہوں نے بنگلہ دیش کے آئین میں بہت سی تبدیلیاں کیں یہاں تک کہ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بدلنے کی کوشش کی جو رابندر ناتھ ٹیگور کا لکھا ہوا ہے۔ وہ قومی ترانہ او رقومی پرچم بدلنے کے منصوبے بنا رہے تھے کہ انہیں چٹاگانگ میں اپنی فوج کے کچھ افسروں نے 1981ء میں قتل کر دیا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں 1971ء میں انہوں نے کرنل رشید جنجوعہ کو قتل کیا تھا۔ 1975ء سے 1995ء تک بنگلہ دیش میں عوامی لیگ زیر عتاب تھی۔ شیخ مجیب کو بنگلہ بندھو کی سرکاری حیثیت نہیں ملتی تھی۔ 1996ء میں حسینہ واجد وزیراعظم بنیں تو انہوں نے اپنے والد کی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ 


عوامی لیگ نے کیوں کہ آزادی چھینی تھی لہٰذا یہ سیاسی جماعت سے غنڈہ پارٹی بن گئی اور اس کے کارندوں نے ملک بھر میں قبضے شروع کر دیے‘ کرپشن اور غنڈہ گردی بھی عام تھی‘ شیخ مجیب اور بھارت دونوں بنگالی فوج کے خلاف تھے‘ ان دونوں نے مل کر فوج کو بھی رگڑا لگانا شروع کر دیا‘ اس کھیل کا اختتام 15 اگست 1975 کی رات ہوا‘ بنگلہ دیشی فوج کا ایک دستہ دھان منڈی میں شیخ مجیب الرحمن کی رہائش گاہ پر پہنچا اور اسے اس کے خاندان‘ ملازمین اور دوستوں سمیت قتل کر دیا‘ آپریشن کے بعد شیخ مجیب کی لاش گھر کی سیڑھیوں پر پڑی رہی‘ اس کی دو بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ ملک سے باہر تھیں ‘ یہ بچ گئیں جب کہ باقی خاندان ختم ہو گیا‘ بنگلہ دیش میںاس کے بعد انارکی شروع ہوئی اور یہ مختلف وقفوں میں 2024 تک جاری رہی‘ حسینہ واجد نے 1981 میں سیاست شروع کی۔

یہ والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ بنی اور پھر مارتی دھاڑتی آگے بڑھتی چلی گئی‘ یہ 2024 تک مجموعی طور پر 20 سال بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہیں اور یہ اس لحاظ سے دنیا کی واحد طویل المدت خاتون وزیراعظم ہیں‘ ان کا آخری دور 2009 سے شروع ہو کر 2024 تک مسلسل 15 سال جاری رہا‘ یہ دور معاشی لحاظ سے بنگلہ دیش کے لیے اچھا تھا‘ ایکسپورٹس 45 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں‘ انفرااسٹرکچر اور سوشل ڈویلپمنٹ بھی ہوئی جب کہ دوسری طرف پاکستان کی معیشت مسلسل ہچکولے کھاتی رہی جس کے نتیجے میں ہمارے سیاست دانوں (بے نظیر بھٹو‘ نواز شریف اور عمران خان) نے بنگلہ دیش کی مثالیں دینا شروع کر دیں‘ ہم ان تینوں کے منہ سے مختلف اوقات میں آج بنگلہ دیش کو دیکھیں‘ یہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا‘ وقت نے ثابت کر دیا شیخ مجیب غدار نہیں تھا‘ ہم بھی اگر فوج سے جان چھڑا لیں تو ہم بھی بنگلہ دیش بن جائیں وغیرہ وغیرہ سنتے رہے اور ہمیں ان باتوں پر یقین بھی آتا رہا مگر ہم اس یقین کے دوران ایک بات بھول جاتے تھے اور وہ بات حسینہ واجد کی سوچ تھی۔

قدرت نے حسینہ واجد کو بہت بڑا موقع دیا تھا‘ اس کو چاہیے تھا یہ نفرت کی سیاست ترک کر کے محبت کو اپنا بیانیہ بناتی مگر یہ بدقسمتی سے نفسیاتی طور پر 1975 سے آگے نہ بڑھ سکی‘ اس کی نفرت نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا‘ عوامی لیگ اور عوامی لیگ کے مخالف‘ یہ اپنے مخالفین کو رضا کار کہتی تھی( رضا کار کی اصطلاح نے 1971 میں جنم لیا تھا‘ اس زمانے میں پاک فوج کے ہمدرد رضا کار کہلاتے تھے) اس نے اپوزیشن‘ جماعت اسلامی اور پاکستان کے ہمدرد بہاریوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا‘ جماعت اسلامی کے درجنوں رہنماؤں کو پھانسی لگا دی گئی‘ خالدہ ضیاء کو2018 میں جیل میں پھینکا گیااوریہ اس کے بعد باہر نہیں آسکی۔

نوبل انعام یافتہ معاشی ماہر ڈاکٹر یونس کے خلاف 174 مقدے بنا دیے گئے اور یہ جلاوطن ہونے پر مجبور ہو گئے‘ حسینہ واجد نے اپنے خاندان اور پارٹی کے لوگوں کو پولیس‘ عدلیہ اور فوج میں گھسا دیا‘ پولیس اس کے گھر کی لونڈی تھی‘ عدلیہ عوامی لیگ تھی اور فوج کی سربراہی اس کے خاندان میں تھی‘ موجودہ آرمی چیف جنرل وقار الزمان بھی حسینہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس نے ایک بار نواز شریف سے کہا تھا ’’ہماری فوج سے جس دن کاکول اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہونے والا آخری کیڈٹ ریٹائر ہوا ہم نے اس دن ترقی کا پہلا زینہ طے کیا‘‘ یہ بھارت کو بھی مزید ملک کے اندر لے آئی‘ اس کی بھارت نوازی کی وجہ سے بنگلہ دیش بھارت کی 29ویں ریاست (صوبہ) کہلانے لگا تھا‘ اس کے اندر ایک بدترین ڈکٹیٹر چھپا ہوا تھا ‘ مخالفین کو قتل کرانا‘ ججوں کے ذریعے فیصلے لینا اور فوجی افسروں کو سرعام ذلیل کرنا اس کامعمول تھااور آخر میں اس کا نتیجہ پانچ اگست 2024کی شکل میں نکلا‘ طالب علموں کی تحریک شروع ہوئی اوریہ آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔

وزیراعظم نے 23 جون کو اپنے رشتے دار جنرل وقار الزمان کو آرمی چیف بنایا تھا‘ اس کا خیال تھا یہ اس کی حکومت‘ سیاست اور مال و دولت کی حفاظت کرے گا لیکن صرف سوا ماہ بعد جنرل وقار الزمان اس کے سامنے بیٹھا تھا اور اسے مشورہ دے رہا تھا میڈم آپ کے پاس صرف 45 منٹ ہیں‘ آپ استعفیٰ دے کر نکل جائیں ورنہ ہجوم وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہو کر آپ کو قتل کر دے گا‘آرمی چیف نے اس پیش کش سے قبل ہیلی کاپٹر اسٹارٹ کرا دیا تھا لہٰذا حسینہ واجد دوڑ کر ہیلی کاپٹر میں بیٹھی اور یہ اسے لے کر انڈین شہر اگر تلہ چلا گیا‘ حسینہ واجد جب اگر تلہ اتری تو اس کے پاس ہینڈ بیگ اور تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا اور یوں حسینہ واجد کا طویل ترین سیاہ کیریئر اختتام پذیر ہو گیا۔

پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کا اس وقت محبوب ترین موضوع بنگلہ دیش ہے‘ ماہرین مختلف زاویوں سے بنگلہ دیش کا تجزیہ کر رہے ہیں لیکن ایک زاویہ ابھی تک ان کی نظروں سے اوجھل ہے اور وہ ہے فوج کا کردار‘ حسینہ واجد نے بنگلہ دیشی فوج کو بڑی حد تک پولیس بنا دیا تھا‘ یہ سلیوٹ اور وزیراعظم کو سیکیورٹی دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی تھی لیکن اس کے باوجود فوج ملک کا سب سے بڑا اور مضبوط ادارہ رہا اور اس نے پانچ اگست کو آگے بڑھ کر حالات کنٹرول کر لیے‘ جنرل وقار الزمان نے رشتہ دار ہونے کے باوجود حسینہ واجد سے استعفیٰ بھی لیا اور ہجوم کو بھی قابو کر لیا اگر فوج نہ ہوتی تو اس وقت بنگلہ دیش کی کیا حالت ہوتی؟ بنگلہ دیش کے ہنگاموں میں اب تک ساڑھے چار سو لوگ قتل ہوئے ہیں اگر فوج نہ ہوتی تو اس وقت گلیوں میں تین چار لاکھ لوگوں کی لاشیں پڑی ہوتیں اور تمام سرکاری املاک کو آگ لگی ہوتی اور عوامی لیگ کے لوگوں کا نام ونشان تک مٹ چکا ہوتا‘ فوج کا سیاسی کردار دنیا کے ہر ملک میں غلط ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں بھی غلط ہے‘ فوج کو سیاست سے باہر ہونا چاہیے لیکن اس کردار کے باوجود بہرحال یہ حقیقت ہے فوجیں ملک کی بقا کی ضامن ہوتی ہیں اگر آج امریکا‘ چین اور روس کی فوجیں ختم ہو جائیں تو کل آپ ان ملکوں کی حالت دیکھ لیجیے گا‘ 1992میں سوویت یونین کی فوج ذرا سی کم زور ہوئی تھی اور ایک سال میں 15نئے ملک بن گئے تھے‘ آج اگر بنگلہ دیشی آرمی بھی نہ ہوتی تویہ بھی گیا تھا لہٰذا یاد رکھیں جس دن ہماری آرمی گئی اس دن ہم بھی پانچ حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے مگر اس تقسیم سے پہلے خانہ جنگی ہو گی اور لاکھوں لاشیں گلیوں میں پڑی ہوں گی لہٰذا سیاسی جدوجہد ضرور کریں‘فوج کا سیاسی کردار بھی صفر پر لے جائیں مگر اس کے ساتھ ساتھ فوج کی حفاظت بھی کریں‘ یہ ملک اس کے بغیر بچ نہیں سکے گا‘ ہم مانیں یا نہ مانیں۔

Monday, March 18, 2024

کلٹ زدہ معاشرے

 کلٹ زدہ معاشرے

اظہر عباس 


پی ٹی آئی یورپی یونین کو پاکستان کا تجارتی اسٹیٹس ختم کرنے، آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرض نہ دے کر دیوالیہ کروانے اور بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔  


خدا کا شکر ہے کہ مغربی دنیا میں زیادہ تر حلقوں میں عمران خان اور ان کی جماعت کو ایک پاپولسٹ اور آمرانہ سوچ کی حامل جماعت سمجھا جاتا ہے، مگر ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے کہ انہیں سنجیدہ لیا جا رہا ہوتا تو پاکستان واقعی خوف ناک حالات میں پہنچ جاتا۔   


اقتدار تک پہنچنے کے لیے یہ جس حد تک جا سکتے تھے، جا رہے ہیں۔


انتہائی غیرجانبداری سے کہہ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی ایک زہرآلود سوچ کا نام ہے جو ایک کلٹ کی صورت اختیار کر چکا ہے


ماضی میں ایسا ہی ایک کلٹ قرامطہ کے نام سے ابھرا۔ جس نے پہلے تو مصر میں فاطمی حکومت قائم کرنے میں مدد  کی لیکن پھرفاطمیوں سے لڑ کے بحرین اور جنوبی عراق میں اپنی حکومت قائم  کر لی، کوفہ کو کئی بار برباد کیا، حاجیوں کے قافلوں پر حملے کرتے تھے، ہزاروں حاجیوں کو  ہلاک کیا اور انکا مال  لوٹا، انکی خواتین کی بیحرمتی کی- عباسیوں پر حملے کرتے رہے، لیکن 930  میں مدینہ اور مکّہ پر بھی حملہ کیا، انکا خیال تھا کہ حج کوئی اسلامی عبادت نہیں اور ہجر اسود صرف ایک پتھر ہے اس کو  مقدس ماننا شرک  ہے


خانہ کعبہ پر حج کے دوران حملہ آور ہوئے، سینکڑوں حاجیوں کو شہید کیا اور چاہ زم زم کے پاس انکی لاشیں پھینک دیں جس سے وہ بند ہو گیا اور ہجر اسود کو اکھاڑ کے اپنے ساتھ لے گئے، اسکے ٹکڑے کر کے اپنے ٹوائلٹ کے قدمچے بنا کے انکی نا قابل بیان بیحرمتی  کی۔ عباسیوں کو ان سے ہجر اسود کی واپسی کے لئے مذاکرات کرنا پڑے جو ایک طویل عرصہ چلے پھر بہت بڑی رقم لے کرتئیس سال بعد  ہجر اسود  کے ٹکرے عباسیوں کے حوالے کئے، یوں عباسیوں نے ان ٹکڑوں کو جوڑ کے دوبارہ پرانی جگہ لگایا۔ تئیس سال تک طواف بغیر ہجر اسود کے ہوا-


قرامطہ کا ظالمانہ عھد تقریبا سو سال رہا تا  آنکہ عباسیوں نے انکا خاتمہ کیا-


قرمطہ کی لوٹ مار وہی زمانہ ہے جب محمود غزنوی بھرپور طاقت میں تھے ان دنوں حاجیوں کو لوٹنا قتل کرنا قرامطہ اور بدویوں کا پیشہ بن گیا تھا، ان ہی دنوں مسلمانوں کا گروہ محمود غزنوی کے پاس شکایت لیکر حاضر ہوا کہ قرامطیوں، بدویوں کی لوٹ مار کی وجہ سے مسلمان حج کے ثواب سے سالوں سے محروم ہیں اس ضمن آپ ہی کچھ کریں، تو پھر محمود غزنوی نے اپنے قاضی محمد ناصر کو حاجیوں کے قافلے کا امیر مقرر کیا اور تیس ہزار سونے کی اشرفیاں دیکر روانہ کیا راستے میں ان کا قرامطیوں سے نہیں بلکہ بدویوں سے مقابلا ہوا اتفاق سے لٹیروں کے سردار کو تیر لگ گیا جس پر بدویوں کا قافلا بھاگ گیا اور غزنی کا قافلہ صحیح سلامت حج کرکے واپس غزنی لوٹ آیا۔


جب دوسرا سال ہوا تو حاجیوں کا قافلہ سفر کی امان کے لئے محمود غزنوی پاس گیا لیکن اس نے قرامطیوں کی دشمنی لینے سے ڈرتے ہوئے ڈاکوؤں سے صلح کے بدلے اشرفیاں دینے اور اپنی فوج کے دستے دینے سے مسلمان حجاج کو انکار کردیا تھا۔ پھر کئی سال تک غزنی کے لوگ حج سے محروم رہے تھے


کلٹ ہمیشہ چند مخصوص طریقوں سے لوگوں کو برین واش کرتا ہے 


کسی شخص کی شناخت کو توڑنا: کلٹ آپ کی شخصیت کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو غیر یقینی کا شکار ہوں۔ وہ انہیں آسانی سے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔


جرم کا احساس پیدا کرنا: مذہب کو یہ لوگ ہتھیار کے طور پر لیتے ہیں۔ اگر کوئی ان کے ساتھ شامل نہیں ہوتا اور کلٹ کے عقائد اور ہدایات پر عمل نہیں کرتا تو اسے احساس دلائیں گے کہ وہ غلط کر رہا ہے۔


احساس محرومی اور تنہائی کا شکار افراد: کسی احساس یا کسی وجہ سے تنہائی کا شکار افراد کلٹ کے آسان شکار ہوتے ہیں۔ کلٹ انہیں ایک خاص ماحول میں الگ تھلگ کر کے جس میں وہ ان کے حواس کو اس پیغام کے ساتھ اوورلوڈ کر سکتے ہیں جو وہ انہیں دینا چاہتے ہیں، وہ ان کے پیغام سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ان کے پیچھے ہٹنے کا امکان کم ہوتا ہے۔


فائدہ مند سلوک: اگر آپ ایسا کرتے ہیں جو کلٹ چاہتا ہے تو آپ کو اجر ملے گا۔ اگر نہیں کرتے تو سزا ہے۔


محبت کی بمباری: کلٹ اس یقین کو تقویت دے گا کہ صرف وہی آپ سے محبت کرتے ہیں۔ اگر آپ کے خاندان اور دوست کلٹ میں آپ کے کردار کی حمایت نہیں کرتے ہیں، تو وہ واقعی آپ سے محبت نہیں کرتے۔ وہ آپ کے شعور کو اس خیال سے بھر دیں گے کہ صرف فرقے کے رہنما اور اراکین ہی آپ سے سچی محبت کرتے ہیں۔


عام طور پر صرف ایک لیڈر ہوتا ہے۔


وہ کنٹرول کرتے ہیں کہ آپ کس سے بات کرتے ہیں۔


ان کے پاس بھرتی کے فریب کارانہ حربے ہیں۔


کلٹ ہر وقت بہت خوش رہتے ہیں۔ ان کا جوش و خروش بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس خوشی اور جوش کو پیدا کرنے کیلئے ڈرگز کا استعمال بھی کلٹ میں عام ہوتا ہے


اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے کئی کلٹ زدہ نظر آئیں گے۔ اوپر دی گئی علامتیں اگر آپ کے گھر میں نظر آ رہی ہیں تو اب بھی وقت ہے کہ آنکھیں کھولئے اور معاشرے کو قرامطہ زدہ ہونے سے بچائیے

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...