عدالتی انتشار
اظہر عباس
اگر میں یہ کہوں کہ معاشی تباہی اور سیاسی انتشار کے بعد اب ملک اداراتی انہدام کی جانب چل نکلا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
کچھ عرصہ کیلئے تھوڑا ماضی میں جا کر سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا دور یاد کریں جب پی سی او ججز کو فارغ کیا گیا تو مختلف ہائی کورٹس میں ایک خلا پیدا ہوا جسے افتخار چوہدری نے مختلف سینئیر وکلا کے چیمبرز میں کام کرتے ان کے ایسوسی ایٹس/ عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے پر کیا۔ مختلف حلقوں سے کچھ کمزور آوازیں بھی اس اقدام کے خلاف اٹھیں تاہم اس وقت افتخار چوہدری صاحب انصاف کے دیوتا کے منصب پر فائز ہو چکے تھے اس لئے ان کمزور آوازوں کو یا تو دبا دیا گیا یا پھر ان کو نظر انداز کر دیا گیا۔ لیکن ان کے اس اقدام کا خمیازہ آج پوری قوم اور دنیا دانتوں میں انگلیاں دبائے دیکھ رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں موجود لاہوری گروپ اپنے غیر محدود اختیارات کو بروئے کار لا کر نا صرف آئین کی نئی تشریحات کر رہا ہے بلکہ جہاں انکی تشریحات کام نا کریں وہاں آئین کو دوبارہ تحریر کرنے سے لے کے پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کو جنم لینے سے پہلے اسقاط سے بھی دریغ نہیں کر رہا۔
کیا مذاق کہ چیف جسٹس نے اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کیلئے اپنے پسندیدہ ججوں کا 8 رُکنی بینچ تشکیل دے ڈالا۔CONFLICT OF INTEREST پر ہچکچائے نہ شرمائے۔ جبکہ تمام اہل شعور اس کی نشاندہی کر چکے تھے۔
چند دنوں میں تین واقعات، قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریویو پٹیشن پر فیصلہ محفوظ، الیکشن کمیشن کے 14 مئی کے انتخابات پر حکومتی افسران کی طلبی اور سب سے بڑھ کر سپریم کورٹ کے انتظامی امور پر بل جو ابھی نافذ العمل ہی نہیں ہوا اُس پر 8 رُکنی بینچ کی تشکیل اور اسٹے آرڈر سپریم کورٹ کی اندرونی دھینگا مُشتی، مقننہ اور ایگزیکٹو سے ٹکراو پر توہینِ عدالت اور پارلیمان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم بربادی کو تیز کرے گا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آئین اور قانون کی دھجیاں اُڑا کر ریاست کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ مملکت ایسے موڑ پر ہے جہاں عمران خان بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ لڑائی اپنے منطقی انجام کے قریب پہنچ چُکی ہے اور مملکت منہ کے بل اوندھی پڑی ہے۔
جنگ/ جیو کے معاشی امور کے ماہر اور رپورٹر مہتاب حیدر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے انعقاد کے لیے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو 21 ارب روپے کی رقم جاری کرنے کی ہدایت کو اختیار پر کنٹرول کے طور پر سمجھا گیا ہے جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت فنانس ڈویژن کے پاس ہے۔
کابینہ اور وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی رضامندی کے بغیر وزارت خزانہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری اور جاری نہیں کر سکتی جس کے لیے بعد ازاں قومی اسمبلی کی پوسٹ فیکٹو (قانون جس کا اطلاق زمانہ ماقبل سے ہو) منظوری درکار ہے۔
پی ایف ایم ایکٹ 2019 واضح طور پر اس کی وضاحت کرتا ہے کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ اور فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹ کی تحویل کے عنوان کے تحت فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ اور فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹ کا آپریشن وفاقی حکومت کی مجموعی نگرانی کے تحت فنانس ڈویژن میں کام کرے گا۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر اسٹیٹ بینک الیکشن کے اخراجات کے لیے 21 ارب روپے کا فنڈز جاری کرتا ہے تو آئی ایم ایف اس پر اعتراض کرسکتا ہے جس سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاملات میں مشکلات پیش آسکتی ہیں.
یاد رہے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں بھی الیکشن کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔
 
 
 
No comments:
Post a Comment