Thursday, April 20, 2023

انتشار کے ذمہ دار اور مدد گار

 انتشار کے ذمہ دار اور مدد گار

اظہر عباس
ملکی حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ خان صاحب کے لئے اس وقت تین قوتیں کام کرتی نظر آ رہی ہیں:
پہلے: سپریم کورٹ کے چند جج تاکہ عمران خان گرفتاری سے بچے رہیں اور وہ اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے پنجاب میں حکومت دوبارہ دلا سکیں جس کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے الیکشن ڈسکے کے الیکشن کی طرح اغوا کئے جا سکیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کو ایک ہی وقت میں ہائی کورٹس، پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ کار میں تجاوز کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنے حالیہ ’’اختلافی‘‘ نوٹس میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پنجاب، کے پی کے انتخابات پر سپریم کورٹ کے سوموٹو نے صوبوں میں ہائی کورٹس کی آزادی کو نقصان پہنچایا۔
چیف الیکشن کمشنر نے شکایت کی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے کمیشن کے اختیارات ختم ہو گئے ہیں پارلیمنٹ نے بھی سپریم کورٹ کو قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا آئینی اختیار چھینتے ہوئے پایا جبکہ حکومت اعلیٰ عدلیہ کی ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت پر بھی برہم ہے۔
دوسرے: دس پیڈ امریکی لابنگ فرمز جن کی وجہ سے یو این وغیرہ میں پاکستان کے اندرونی معاملات جیسے کہ مقدموں کے اندراج کے بارے میں سوال وغیرہ ہوتے ہیں جیسے یہ کوئی عالمی معاملہ ہو، زلمے خلیل زاد جیسے بندے ہائر ہوتے ہیں اور تاثر دیا جاتا ہے کہ عالمی برادری عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے۔
تیسرے: میڈیا مارکیٹنگ اور Narrative building کمپنیاں۔ جن کے ماہانہ بجٹ کئی ملین ڈالرز میں ہیں اور بیشتر امریکا، انگلینڈ، دوبئی اور انڈیا تک سے آپریٹ ہوتی ہیں۔ یہی کمپنیاں ایبسولیوٹلی ناٹ، ہم کوئی غلام ہیں اور آزادی جیسے نعرے اور بیانئیے تشکیل دیتی ہیں۔ یہ کمپنیاں جعلی سروے کرواتی ہیں جیسے عندلیب عباس کی کمپنی نے 53 فیصد مقبولیت والا سروے دیا۔
ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ریٹائرڈ فوجی ھونے کے باوجود فوج سے کوئی نہ کوئی ذاتی خارش رکھتے ہیں۔ انکا یہ ذاتی انتقام، رنجش اور عداوت ان کو فوج کے خلاف بولنے پہ مجبور رکھتے ہیں۔
1.عادل راجہ کو بزدلی، کرپشن اور غیر آفیسر عادات پر فوج سے نکالاگیا۔ ستم یہ کہ فوج نے اسکے چنگل سے غیر قانونی قبضہ کی ہوئی زمینیں بھی چھڑوائیں۔
2. حیدر مہدی کے باپ کو فوج نے بزدلی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا۔ اسکےاپنے بیٹے کو میرٹ پر پورا نا اترنے کی بنیاد پرفوج نے ریجیکٹ کیا۔ کینیڈا میں ٹیکسی ڈرائیور رہا لیکن پھر قسمت جاگی اور پی ٹی آئی نے انہیں پسند کر لیا۔
3. ہارون اسلم کو گلہ یہ ہے کہ نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو ان پر فوقیت دی۔ اگر آپ فوج میں ان کے قریبی لوگوں میں کسی سے بھی پوچھیں تو آپکو پتا چلے گا کہ سوائے جنرل مشرف کے بغل بچے ہونے کے انکی کوئی قابلیت نہیں تھی۔
4. علی قلی خان کا بھی نواز شریف سے یہی گلہ ہے کہ انہوں نے جنرل مشرف کو ان پر فوکیت دی۔ اب ان موصوف کو نواز شریف سے گلہ کرنے کے بجائے اپنے رشتہ دار گوہر ایوب اور چوہدری نثار سے گلہ کرنا چاہیے جنکی سیاسی کھیچا تانی کی وجہ سے جنرل مشرف کے بھاگ کھل گئے۔
ایک بہت اہم نقطہ یہاں پر یہ ہے کہ اگر ہم ان سب کو دیکھیں تو پتا چلے گا کہ:
1۔ سب کو بہت ہی احتیاط سے ڈھونڈا گیا اور فوج سے دکھی ہونے کی وجہ سے انہیں سوشل میڈیا پر لانچ کیا گیا
2۔ انکی ذہن سازی کی گئی
3۔ اب پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیمز کے ذریعے انکو فروغ دیا جا رہا ہے۔
کیا یہ سب کسی سیاسی جماعت کا کام ہو سکتا ؟ کیا یہ سب کسی یا کئی بیرونی خفیہ ایجنسیوں کے پیروکار بن چکے ہیں ؟ کیا پی ٹی آئی کا کندھا استعمال ہو رہا ہے ؟ کیا الو کوئی اور سیدھا کر رہا ہے ؟
انکی باتوں اور الزامات پر اگر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ ان سب کا اصل مقصد اسی فوج کو نیچا دکھانا ہے جس فوج سے انکی نسلیں پلتی ہیں۔ جب ان پر کوئی قانونی کاروائی کی جائے تو یہ فوج کی وردی کے پیچھے چھپتے ہیں لیکن بولتے پھر اسی فوج پر ہیں۔
سوال صرف ایک ہے کہ زمان پارک کی سیکورٹی کے ساتھ مہنگی ترین پولیٹیکل ایکٹیویٹی سمیت مندرجہ بالا ان تمام اخراجات کے لئے اربوں روپے ماہانہ کہاں سے آ رہے ہیں؟
کون انویسٹ کر رہا ہے اور کیوں؟
عمران خان کے پاس نظام کو ہر وقت ڈسڑب رکھنے کے لئے اتنا پیسہ کہاں سے آ رہا ہے ؟
3 ارب ڈالر بغیر سود کے قرضہ دینے والی مثال لے لیں اس میں تقریبا 200 ارب روپے کا فراڈ کیا گیا، روپے اور ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاو سے درجنوں ارب، ملک ریاض کے 50 ارب کی مثال، توشہ خانہ کی چھوٹی سی مثال، بلین ٹری سونامی، مہنگی دوائیاں سکینڈل، گندم بحران میں پیسے، چینی بحران میں سینکڑوں ارب کمائے گئے، پشاور میٹرو سے لے کر کے ای ایس ای کے مالک "عارف نقوی" اور دوسری بڑی نادہندگان کمپنیوں کے 2 سو ارب روپے واجب الاداء قرض کی معافی کی کوشش، پنجاب میں بزدار، گوگی اور پنکی گینگ کی لوٹ مار
پاکستانی عوام کی سوچ ہے جتنی بڑی لوٹ مار اس عمرانی فتنے کی حکومت نے 4 سالوں میں کی۔
کیا وجہ ہے کہ جس دن سے عمران خان کی حکومت ختم ہوئ عمران خان ایسے کسی بھی ایشو پر بات نہیں کرتے جو انکی پارٹی کا منشور اور چار سالہ دور حکومت میں اسکی وہ بار بار گردان کرتے رہے
عمران خان کی ہر تقریر غداری غلامی کے بیانیے سے شروع ہوتی ہے اور مجھے حکومت سے نکالنے والوں کو چھوڑوں گا نہیں پر ختم ہوتی ہے مذہب کا چورن بیچو غلامی سے نجات کا نعرہ لگاؤ اور سب کو چور کہو پاک فوج اور دیگر اداروں پر مسلسل تنقید کرو
وہ اپنے ذہنی غلاموں کے ذہن میں بس یہی باتیں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ پھر وہ یہ سوال نا کرسکیں کہ خان صاحب جو لندن سے حکومت پاکستان کی امانت اربوں روپیہ آیا تھا وہ کہاں گیا اور القادر یونیورسٹی کی اربوں کی زمین کیسے آپ کو ملی جس کی ملکیت اب آپکے قریب ترین لوگوں کے پاس ہے تاکہ وہ یہ سوال نا کریں۔ آٹا چینی دواؤں اور دیگر اشیاء کی قیمت بڑھا کر اربوں روپے کمانے والے کس کو فائدہ پہنچا رہے تھے تاکہ وہ سوال نا کرسکیں۔ فارن فنڈنگ میں آنے والی اربوں کی رقم کیوں اور کہاں سے آئ تاکہ وہ یہ سوال نا کرسکیں کہ فرح گوگی کس طرح چار سال پنجاب پر حکمرانی کرتی رہی اور اربوں کما گئی۔ کون تھا جو اسکے پیچھے تھا تاکہ وہ یہ سوال نا کرسکیں۔ رنگ روڈ منصوبے کا اصلی ملزم شہزاد اکبر کی پشت پناہی کون کرتا رہا ؟

Tuesday, April 18, 2023

عدالتی انتشار

 عدالتی انتشار 

اظہر عباس


اگر میں یہ کہوں کہ معاشی تباہی اور سیاسی انتشار کے بعد اب ملک اداراتی انہدام کی جانب چل نکلا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ 


کچھ عرصہ کیلئے تھوڑا ماضی میں جا کر سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا دور  یاد کریں جب پی سی او ججز کو فارغ کیا گیا تو مختلف ہائی کورٹس میں ایک خلا پیدا ہوا جسے افتخار چوہدری نے مختلف سینئیر وکلا کے چیمبرز میں کام کرتے ان کے ایسوسی ایٹس/ عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے پر کیا۔ مختلف حلقوں سے کچھ کمزور آوازیں بھی اس اقدام کے خلاف اٹھیں تاہم اس وقت افتخار چوہدری صاحب انصاف کے دیوتا کے منصب پر فائز ہو چکے تھے اس لئے ان کمزور آوازوں کو یا تو دبا دیا گیا یا پھر ان کو نظر انداز کر دیا گیا۔ لیکن ان کے اس اقدام کا خمیازہ آج پوری قوم اور دنیا دانتوں میں انگلیاں دبائے دیکھ رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں موجود لاہوری گروپ اپنے غیر محدود اختیارات کو بروئے کار لا کر نا صرف آئین کی نئی تشریحات کر رہا ہے بلکہ جہاں انکی تشریحات کام نا کریں وہاں آئین کو دوبارہ تحریر کرنے سے لے کے پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کو جنم لینے سے پہلے اسقاط سے بھی دریغ نہیں کر رہا۔


کیا مذاق کہ چیف جسٹس نے اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کیلئے اپنے پسندیدہ ججوں کا 8 رُکنی بینچ تشکیل دے ڈالا۔CONFLICT OF INTEREST پر ہچکچائے نہ شرمائے۔ جبکہ تمام اہل شعور اس کی نشاندہی کر چکے تھے۔ 


چند دنوں میں تین واقعات، قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریویو پٹیشن پر فیصلہ محفوظ، الیکشن کمیشن کے 14 مئی کے انتخابات پر حکومتی افسران کی طلبی اور سب سے بڑھ کر سپریم کورٹ کے انتظامی امور پر بل جو ابھی نافذ العمل ہی نہیں ہوا اُس پر 8 رُکنی بینچ کی تشکیل اور اسٹے آرڈر سپریم کورٹ کی اندرونی دھینگا مُشتی، مقننہ اور ایگزیکٹو سے ٹکراو پر توہینِ عدالت اور پارلیمان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم بربادی کو تیز کرے گا۔ 


اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آئین اور قانون کی دھجیاں اُڑا کر ریاست کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ مملکت ایسے موڑ پر ہے جہاں عمران خان بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ لڑائی اپنے منطقی انجام کے قریب پہنچ چُکی ہے اور مملکت منہ کے بل اوندھی پڑی ہے۔


جنگ/ جیو کے معاشی امور کے ماہر اور رپورٹر مہتاب حیدر کے مطابق  سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے انعقاد کے لیے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو 21 ارب روپے کی رقم جاری کرنے کی ہدایت کو اختیار پر کنٹرول کے طور پر سمجھا گیا ہے جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت فنانس ڈویژن کے پاس ہے۔


 کابینہ اور وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی رضامندی کے بغیر وزارت خزانہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری اور جاری نہیں کر سکتی جس کے لیے بعد ازاں قومی اسمبلی کی پوسٹ فیکٹو (قانون جس کا اطلاق زمانہ ماقبل سے ہو) منظوری درکار ہے۔


 پی ایف ایم ایکٹ 2019 واضح طور پر اس کی وضاحت کرتا ہے کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ اور فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹ کی تحویل کے عنوان کے تحت فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ اور فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹ کا آپریشن وفاقی حکومت کی مجموعی نگرانی کے تحت فنانس ڈویژن میں کام کرے گا۔


سپریم کورٹ کی ہدایت پر اسٹیٹ بینک الیکشن کے اخراجات کے لیے 21 ارب روپے کا فنڈز جاری کرتا ہے تو آئی ایم ایف اس پر اعتراض کرسکتا ہے جس سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاملات میں مشکلات پیش آسکتی ہیں.


یاد رہے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں بھی الیکشن کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...