Friday, March 3, 2023

پوگو دیکھئے



اظہر عباس

 ہمارے سب کے لاڈلے عمران خان صاحب سے آپ چاہے جتنا اختلاف کر لیں لیکن وہ جو چاہتے ہیں وہی کرتے ہیں، چاہے اس سے سب کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ ان کی اپنی جماعت کے رہنما بھی ان سے اختلاف کررہے ہوتے ہیں مگر وہ وہی کرکے دکھاتے ہیں جو انہوں نے کہہ دیا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی تنقید یا اختلاف کی پروا نہیں کرتے۔ مخالفین اسے ضد کہیں یا انا، تکبر کہیں یا خوداعتمادی، وہ کسی کی پروا کیے بغیر وہی سب کچھ کرتے چلے جارہے ہیں جو ان کے جی میں آتا ہے۔ اس میں وہ ملک کے نفع و نقصان کی بھی کوئی پروا نہیں کرتے، صرف اپنی مرضی کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں جب انہیں معلوم ہے کہ پارٹی میں ان کے علاوہ کوئی اور تو ہے نہیں۔ وہی سب کچھ ہیں، پارٹی ان ہی کی ہے۔ اگر آسان الفاظ میں کہیں تو وہی پی ٹی آئی ہیں۔ ان کے بغیر پی ٹی آئی کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وہ جو چاہیں گے پارٹی میں وہی ہوگا، جو نہیں چاہیں گے وہ نہیں ہوگا، چاہے اس کےلیے کوئی کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لے۔ ان کی مرضی کے بغیر پی ٹی آئی میں کوئی پتّہ تک نہیں ہل سکتا۔ وہ جسے چاہیں گے وہ پارٹی میں رہے گا، جس سے ان کا جی بھر جائے گا تو اس کی تمام تر خدمات، اس کی اے ٹی ایم، اس کے جہاز، سب کچھ فراموش کرکے اسے پارٹی سے نکال پھینکا جائے گا۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں عمران خان کی محض ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ان کے دیرینہ رفقا، تحریک انصاف کے اہم عہدیداران اور اہم ترین خدام کو نکال باہر کیا۔ بلکہ بہت سے پی ٹی آئی کے بانیان کو بھی پارٹی سے نکال دیا گیا۔


دل و جان سے ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے بھی ہیں جو اب بھی عمران خان کو نہایت عزیز رکھتے ہیں، خان صاحب کسی بھی حال میں ہوں یا کچھ بھی کریں، وہ خان صاحب کی محبت میں آنکھیں بند ہی رکھتے ہیں


انکی جماعت سہاروں پر ہی چلتی آرہی ہے، جیسے وفاق میں سہارا کھینچا گیا تو دھڑام سے گرگئی، اسی طرح پنجاب میں بھی سہاروں کو قائم رکھنے کےلیے ہر ممکن کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔


بہرحال بات وہیں آجاتی ہے کہ عمران خان اپنی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو جی میں آئے کر گزرتے ہیں اور ایک بار جو فیصلہ کرلیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ جیسے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ انہوں نے کرلیا تو پرویزالہٰی جو پنجاب میں ان کی حکومت قائم رکھنے کا واحد ذریعہ ہیں، ان کی بھی نہیں چلنے دی اور اسمبلی کی تحلیل پر ان سے دستخط کرا کے ہی دم لیا۔ جس سے معلوم ہوا وہ ایک ایسے شخص ہیں کہ جس بات کی ٹھان لیں وہ کر گزرتے ہیں، چاہے اس سے ان کا ذاتی نقصان ہو یا ملک کا، وہ کسی بات کی پروا نہیں کرتے۔


بائیس سالہ جہدوجہد کا خاتمہ ترین و علیم کے جہازوں پر ہوا۔ بھر بھر کر تبدیلی کے کھلاڑی لائے گئے۔ حیران کن طور پر اس پورے عمل کو جمہوری بھی کہا گیا اور بہترین بھی۔ آزاد پنچھی لانا غیر جمہوری رویہ نہیں تھا، لیکن جہازوں کی جس طرح تشہیر کی گئی اس سے ایک بات یقینی ہوگئی کہ کہانی گنتی سے شروع ہوکر یقیناً گنتی پر ختم ہوتی ہوگی۔ بہرحال طاقت مل گئی۔ لیکن اس طاقت کو حاصل کرنے کے بعد کیا ہوا؟


پاکستانی معاشرے کا باشعور طبقہ یقینی طور پر اس بات کا حامی تھا کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا اہم ہے۔ کرپشن کے راستے روکنا ضروری ہے۔ معاشی لحاظ سے پاکستان کو آگے لے جانا اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن نہیں جناب! ہم نے بائیس سالہ جہدوجہدِ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کےلیے کی ہی نہیں تھی، بلکہ ہمارا مقصد ہی بس طاقت کا حصول تھا، جس کےلیے ہم نے ہر حربہ آزمایا۔ عمران خان نے پہلی تقریر کے برعکس چن چن کر انتقامی سیاست کےلیے لوگ ڈھونڈے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ پہلے ملک کو مضبوط بناتے پھر چوروں پر بھی ہاتھ ڈالتے۔ واویلا شروع کردیا گیا، چن چن کر من پسند افراد کو عہدے دیے جانے لگے، جو اس سے پہلے بھی ہورہا تھا۔ معاشی ٹیم؟ پچاس لاکھ گھر؟ ایک کروڑ نوکریاں؟ ایشین ٹائیگر؟ اقوام عالم میں مقام؟ متنازع معاملات میں مضبوط موقف؟ یہ سب تو تب ہوتا جب عمران خان طاقت حاصل کرنے کے بعد عاجزی سے ملک کی خدمت کو اپنا شعار بناتے۔ نہ تو واضح لائحہ عمل تھا اور نہ ہی ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کےلیے کوئی سمت، لہٰذا ایک ہی ایجنڈا باقی بچا غصہ، غصہ اور صرف غصہ۔


اور کچھ نہ ہوا تو بیوقوفانہ فیصلے کیے جانے لگے۔ ترقی کی طرف توجہ کے بجائے سیاسی انتقام کی جانب سوچ کے پیادے دوڑا لیے گئے۔ عقل کے اندھے اس حقیقت سے دور ہوگئے کہ تین سال کم از کم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے اور اس کے بعد چن چن کر چوروں کو سولی پر لٹکا دیتے تو آپ کی واہ واہ بھی ہوتی اور عالمی برادری میں نام بھی۔ لیکن حال یہ ہے کہ پلستر زدہ ٹانگ کے علاوہ انتخابی مہم میں کچھ دکھانے کو نہیں۔


کیا ان کے چاہنے والوں کو ابھی بھی احساس نہیں ہوا کہ کیسے ان کا جذباتی استحصال کیا گیا ؟ خان صاحب اور ان کے پیچھے بیٹھے عیاروں نے اپنا مشن بہت کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔ پاکستان کی معیشت کے گھٹنے زمین سے لگوا دئے ہیں۔ کشمیر مقبوضہ سے نکل کر انڈیا کا حصہ بن گیا۔ ملک انارکی اور ادارے انتشار کا شکار ہو چکے ہیں 


ملین ڈالر کا سوال ہے کہ پندرہ برس میں ایسا کیا ہوا کہ ساٹھ سال کے قرضے چھ ہزار ارب روپے سے بڑھ کر پچاس ہزار تک جا پہنچے۔ ڈالر ساٹھ روپے سے تین سو تک جا پہنچا۔ کیا ایک جامع منصوبے کے تحت پچھلے پندرہ برس میں پاکستان کو اس حال تک پہنچایا گیا؟ ایسا کوئی منصوبہ اگر بنایا گیا تھا تو کامیاب ہو چکا۔ پراجیکٹ عمران خان کامیابی سے ہم کنار ہو چکا۔ اس انارکی کے ذمہ داروں کو پہچانیں۔ عمران خان کو کیوں کوستے ہیں وہ تو Puppet تھا۔ اس کٹھ پتلی کو بنانے اور نچانے والوں کو ان کی Safe Heavens سے نکالیں۔ ان سے وصولیاں کریں۔ شجاع پاشا، ظہیرالاسلام، فیض حمید کو پکڑیں۔ باجوہ، کیانی اور راحیل شریف کو کٹہرے میں لائیں۔ 


ہے کسی میں ہمت ؟


اگر کچھ نہیں کر سکتے تو POGO دیکھیں۔ ٹم ہارٹن جائیں، کافی پئیں اور موج کریں

No comments:

Post a Comment

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...