Monday, March 20, 2023

انتشار یا انارکی ؟

 https://e.dailyauthority.pk/page.php?Page=2&date=20-03-2023&city=isb



انتشار یا انارکی ؟
اظہر عباس 

لاہور کے بعد اسلام آباد میں خان صاحب کے ہمراہ جانے والوں نے جو ہنگام برپا کیا وہ تو اپنی مثال آپ ہے ہی لیکن اس کے جواب میں عدالت نے جو رول اپنایا وہ بھی تاریخی ہے 

رپورٹس کے مطابق عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوئی تو ان کے ورکرز بھی منع کرنے کے باوجود ان کے ساتھ داخل ہوگئے۔ خان صاحب نے گاڑی سے ہی درخواست کی کہ اپنا اسٹاف بھیج کر میری حاضری قبول کریں جو قبول کر لی گئی۔ کارکنوں نے جوڈیشل کمپلیکس کا حفاظتی بیریئر توڑ دیا تھا۔ اسلام آباد میں جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں نے 10 موٹر سائیکلیں جلادیں۔ اسلام آباد پولیس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا اور اسلام آباد پولیس کے آئی جی کے مطابق انہیں حیرت ہے کہ پولیس پر آنسو گیس استعمال کی گئی جبکہ انہیں لاہور پولیس پر گلگت بلتستان پولیس کے گنز تاننے کی اطلاعات کے بعد  قطعا حیرت نہیں ہونی چاہئے تھی کہ وزیراعلٰی گلگت بلتستان اس بار بھی اپنے محافظ دستے کے ساتھ خان صاحب کے ساتھ تھے 

اس سے پہلے لاہور کے زمان پارک کا علاقہ اس وقت میدان جنگ اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے نو گو ایریا بن گیا جب اسلام آباد پولیس ایک وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیلیے پہنچی جو اسلام آباد ہی کی عدالت نے جاری کئے تھے۔ زمان پارک میں پولیس سے خان صاحب کے ورکرز نے دو بدو لڑائی لڑی۔ انہیں زخمی کیا اور لاہور پولیس کو حالیہ تاریخ میں  پہلی بار پیٹرول بم کا سامنا کرنا پڑا جب واٹر کینن پر پیٹرول بم پھینکے گئے اور اسے آگ لگا دی گئی 

زمان پارک میں پہلی بار خیبر پختون خواہ کے ٹرینڈ لڑاکوں کے استعمال کا الزام بھی خان صاحب پر لگا جس کو تقویت اس وقت ملی جب ایک سابقہ کالعدم تنظیم جس کے سربراہ صوفی محمد تھے کے ترجمان وہاں پائے گئے۔ بقول ان کے وہ عمران خان کی کال پر ان کی حفاظت کیلئے زمان پارک پہنچے تھے۔ یہ محافظ کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سابق ترجمان اور مولانا صوفی محمد کے دست راست اقبال خان تھے ۔

ذرائع کے مطابق اقبال خان تین دن زمان پارک میں موجود رہے، اقبال خان ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردی کے مختلف واقعات میں مطلوب رہے ہیں۔ 2010 میں انہیں گرفتار کیا گیا ، 12 سال جیل میں رہے، 2022 میں رہا کردیے گئے۔ سوات میں چیئرمین کا الیکشن بھی لڑا اور پھر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔ آج بی ان پر بھتہ خوری کے الزامات لگائے جاتے ہیں

اپنے ویڈیو بیان میں انہوں نے زمان پارک جانے کی تصدیق کی۔ 
 
اس کے علاوہ میرے لئے سب سے حیرت انگیز واقعہ زلمے خلیل زاد کا خان صاحب کے حق میں بیان تھا۔ بقول سلیم صافی "زلمے خلیل زاد بنیادی طور پر پختون افغان ہیں لیکن ان کی پیدائش ازبک شہر مزارشریف میں ہوئی۔ وہ اسکالرشپ پر تعلیم کیلئے امریکہ گئے اور پھر امریکہ ہی کے ہوکر رہ گئے۔"

"شکاگو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے بعد وہ مختلف حیثیتوں میں امریکی محکمہ ٔدفاع اور محکمۂ خارجہ کے لئے کام کرتے رہے۔ عمل کے لحاظ سے وہ سرتاپا امریکی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناتے انہیں زیادہ تر مسلمان ممالک سے متعلق امریکی پالیسی سازی یا پھر وہاں پر امریکی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔"

"انہوں نے امریکی مفادات کے حصول میں اس قدر بنیادی کردار ادا کیا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارت خارجہ) سے وابستہ ہونے کے باوجود انہیں سیکرٹریز دفاع (گیٹ، ڈونلڈ رمسفیلڈ اور ڈک چینی) نے ڈیفنس میڈلز سے نوازا۔"

"بعض رپورٹس کے مطابق صدر منتخب ہونے کے بعد صدر بش انہیں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بھی بنانا چاہ رہے تھے لیکن پھر کسی وجہ سے کونڈولیزا رائس کا پلڑا بھاری ہوگیا۔"

"طالبان کے خلاف امریکی حملے سے قبل اور اس کے بعد وہ ہمہ وقت امریکی انتظامیہ پر زور ڈالتے رہے کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں سے زیادہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔"

"افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد وہ یہاں امریکہ کے سفیر مقرر کئے گئے لیکن عملاً ان کی حیثیت وائسرائے کی تھی۔ طالبان اور پاکستان سے متعلق ان کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ ان کے حامد کرزئی سے بھی شدید اختلافات پیدا ہوئے۔"

"خلیل زاد جیسے لوگوں کے مشورے پر ایک طرف گوانتاناموبے اور بگرام جیسے عقوبت خانے قائم کئے گئے اور دوسری طرف امریکی رات کو گھروں میں گھس کر کارروائیاں کرتے رہے جس کی حامد کرزئی مخالفت کرتے رہے۔ یہاں پر امریکی پنجے گاڑنے کے بعد جب امریکہ عراق پر حملہ آور ہوا تو اس کے لئے گراں قدر خدمات کی وجہ سے انہیں وہاں امریکہ کا سفیر مقرر کردیا گیا۔"

"2005 سے 2007 تک وہ عراق میں سفیر رہے اور یہاں پر امریکی مقاصد پورے کرنے کے بعد انہیں 2007 میں اقوام متحدہ میں امریکہ کا مندوب مقرر کیا گیا۔"

"وہ پہلے مسلمان تھے جنہیں اتنے اہم عہدے پر تعینات کیا گیا کیونکہ امریکہ کے لئے ان کی خدمات کسی بھی امریکی سے کم نہیں تھیں ۔ مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی کی تشکیل میں بھی ہمہ وقت خلیل زاد کا ان پٹ شامل رہا اور ساتھ ساتھ انہوں نے رینڈ (RAND) کے لئے بھی کئی پیپرز لکھے۔"

"وہ کٹر ری پبلکن ہیں جب کہ ری پبلکنز میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر اور نیوکانز کا حصہ تصور کئے جاتے ہیں۔ وکی پیڈیا میں ان کے تعارف میں انہیں نیوکانز قرار دیا گیا ہے ۔"

"زلمے خلیل زاد کی آخری سرکاری ذمہ داری طالبان کے ساتھ دوحہ مذاکرات کے لئے امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی کی تھی اور اس کے لئے سی آئی اے، پنٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھی صدر کے حکم پر ان کا ماتحت کردیا گیا تھا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکیوں کے ہاں ان کی کیا اہمیت ہے۔"

"وہ واحد ری پبلکن تھے جنہیں ڈیموکریٹ صدر جوبائیڈن نے حکومت کی تبدیلی کے بعد طالبان کے ساتھ ڈیل کو منطقی انجام تک پہنچانے تک انہیں اس عہدے پر برقرار رکھا۔" 

سلیم صافی مزید لکھتے ہیں کہ "اس وقت سرکاری طور پر ان کے پاس کوئی عہدہ ہے اور نہ پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ ان کا کوئی سروکار ہے لیکن حیرت انگیز طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد وہ خفیہ دورے پر پاکستان آئے اور بنی گالہ میں عمران خان سے تین گھنٹے پر محیط ون ٹو ون ملاقات کی۔" 

"عمران خان کے علاوہ وہ جس دوسرے فرد سے ملے وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے اور اس ملاقات میں انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ صلح کرلیں۔" 

"بعدازاں ٹیلی فونک رابطہ کرکے وہ جنرل باجوہ کو عمران خان کے ساتھ ملاقات کیلئے قائل کرتے رہے اور ایوان صدر میں دونوں کی جو ملاقات ہوئی تھی وہ بنیادی طور پر زلمے خلیل زاد کی کوششوں سے ہوئی تھی۔"

 "لیکن اب درپردہ کردار ادا کرنے کی بجائے زلمے خلیل زاد عمران خان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ہیں اور ان کے حق میں ایسی ٹویٹ کی کہ جیسے وہ زلمے خلیل زاد نہیں بلکہ علی امین گنڈاپور ہوں۔"

آپ ان سب واقعات کی کڑیاں ملائیں تو ایسا لگتا ہے کہ سابقہ کالعدم تنظیم کے لوگوں سے لیکر زلمے خلیل زاد تک خان صاحب کی حمایت میں کمر بستہ اور ملک میں انارکی اور انتشار پھیلانے میں درپردہ یا براہ راست ملوث ہیں اور یہ ایک خطرناک تاثر ہے۔

پی ٹی آئی کے جو لوگ یہ سب کر/ کرا رہے ہیں وہ عمران خان کے ہمدرد نہیں ہیں بلکہ ریاست کے لئے جواز مہیا کر رہے ہیں کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں اور عمران خان کے خلاف ریاستی کاروائی کا جواز پیدا ہو۔

ان واقعات سے پی ٹی آئی کا چہرہ ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک جتھے کا ابھرا ہے۔ جو سابقہ کالعدم تنظیم اور امریکی ریپبلکن پارٹی یا نیو کونز کے اشتراک سے ایک ملکی انتشار کا ذمہ دار ہے۔

کیا آپ کو نہیں لگ رہا کہ گزشتہ چند دنوں سے پی ٹی آئی کا تاثر ایک پرتشدد جماعت کا ابھر رہا ہے جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نبرد آزما ہے اور اس میں سابقہ کالعدم جماعتوں کے لوگ پر تشدد کاروائیاں کر رہے ہیں اور نیو کانز امریکہ سے اس کے حق میں بیانات جاری کر رہے ہیں ؟

خان صاحب کا مزاج Offensive Defence کا ہے جسے انکے کچھ اندرونی عناصر Offence ظاہر کر رہے ہیں اور کارکن انکے پیچھے چل پڑے ہیں کیونکہ خان صاحب ڈائریکٹ کارکنوں سے کنیکٹڈ نہیں ہیں۔

دوسری خوفناک بات خان صاحب کے بیرونی روابط عین اس وقت منظر عام پر آنا ہے جب وہی عناصر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائیل ٹیکنالوجی کو محدود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کو یہی عناصر سخت موقف لینے پر مجبور کر رہے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ خان صاحب کا امریکہ میں لابیسٹ وہ نکلا ہے جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا پرانا ناقد ہے

Friday, March 3, 2023

کرامویل کی کہانی - برطانوی تاریخ سے ایک ورق

کرامویل کی کہانی ۔ برطانوی تاریخ سے ایک ورق
اظہر عباس

گزشتہ دنوں جب سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے "ہم" ٹی وی میں عادل شاہزیب کے سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان کو مکمل اور تمام معاملات میں صادق و امین قرار نہیں دیا تھا۔ اور جب یہ کلمات کہے کہ میں اب کسی کو انٹریو نہیں دوں گا، میرے مرنے کے بعد ایک کتاب شائع ہوگی جس میں تمام حقائق ہوں گے،1997سے لے کر چیف جسٹس کے عہدے تک کی ساری کہانی لکھوں گا۔ تو مجھے نا جانے کیوں اولیور کرامویل یاد آ گیا۔

پاکستانی سیاست کے خارزار سے پاوں مزید زخمی کرنے کی بجائے آئیے آپ کو برطانوی تاریخ سے کرامویل کے بارے میں بتائیں۔

17ویں صدی میں برطانیہ بادشاہت سے جمہوریت کے ارتقائی سفر کی طرف گامزن تھا۔ شاہ چارلس نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا، جس پر جمہوری جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ پارلیمنٹ نے ان احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پارلیمنٹ نے شاہی دستوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوج تشکیل دی، جس کی قیادت اولیور کرام ویل نے سنبھالی۔ لیفٹیننٹ جنرل اولیور کرام ویل کی قیادت میں جمہوریت پسندوں کو کامیابی نصیب ہوئی اور 30جنوری 1649کو شاہ چارلس کا سر قلم کر دیا گیا۔

توقع تو یہ تھی کہ اس فقید المثال کامیابی کے بعد جمہوریت کی صبح خوش جمال کا سورج طلوع ہو گا لیکن ایک بار پھر آمریت کا گرہن لگ گیا۔ جنرل اولیور کرام ویل نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا مذاق اڑایا۔ 3ستمبر 1658کو کرام ویل ملیریا کے باعث مر گیا تو اس کے بیٹے رچرڈ نے اقتدار سنبھالا۔

عوامی بغاوت کے نتیجے میں رچرڈ کو معزول ہونا پڑا تو جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے شاہ چارلس دوم کو بلا کرعنانِ اقتدار اُس کے حوالے کر دی گئی۔ پارلیمنٹ میں مطالبہ ہوا کہ اولیور کا ٹرائل کیا جائے ۔ یہ سوال کھڑا ہوا کہ مرُدے سے سوال جواب کیسے کئے جا سکتے ہیں؟ قانونی ماہرین نے رائے دی کہ کرام ویل کی ہڈیاں نکال کر ان سے سوالات کئے جائیں اور جب کوئی جواب نہ آئے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اولیور کرام ویل نے اپنا جرم قبول کرلیا ہے۔ اس کے بعد عدالت فیصلہ سنادے۔ چنانچہ اولیور کرام ویل کی قبر کھود کر اس کے ڈھانچے کو زنجیروں میں جکڑ کو کٹہرے میں لایا گیا۔ اسے فردم جرم پڑھ کر سنائی گئی۔ ٹرائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی تو علامتی طور پر اس کا سر قلم کر کے باقیات پھینک دی گئیں جبکہ کھوپڑی نشان عبرت کے طور پر پارلیمنٹ کے باہر ایک کھمبے سے لٹکا دی گئی۔

پوگو دیکھئے



اظہر عباس

 ہمارے سب کے لاڈلے عمران خان صاحب سے آپ چاہے جتنا اختلاف کر لیں لیکن وہ جو چاہتے ہیں وہی کرتے ہیں، چاہے اس سے سب کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ ان کی اپنی جماعت کے رہنما بھی ان سے اختلاف کررہے ہوتے ہیں مگر وہ وہی کرکے دکھاتے ہیں جو انہوں نے کہہ دیا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی تنقید یا اختلاف کی پروا نہیں کرتے۔ مخالفین اسے ضد کہیں یا انا، تکبر کہیں یا خوداعتمادی، وہ کسی کی پروا کیے بغیر وہی سب کچھ کرتے چلے جارہے ہیں جو ان کے جی میں آتا ہے۔ اس میں وہ ملک کے نفع و نقصان کی بھی کوئی پروا نہیں کرتے، صرف اپنی مرضی کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں جب انہیں معلوم ہے کہ پارٹی میں ان کے علاوہ کوئی اور تو ہے نہیں۔ وہی سب کچھ ہیں، پارٹی ان ہی کی ہے۔ اگر آسان الفاظ میں کہیں تو وہی پی ٹی آئی ہیں۔ ان کے بغیر پی ٹی آئی کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وہ جو چاہیں گے پارٹی میں وہی ہوگا، جو نہیں چاہیں گے وہ نہیں ہوگا، چاہے اس کےلیے کوئی کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لے۔ ان کی مرضی کے بغیر پی ٹی آئی میں کوئی پتّہ تک نہیں ہل سکتا۔ وہ جسے چاہیں گے وہ پارٹی میں رہے گا، جس سے ان کا جی بھر جائے گا تو اس کی تمام تر خدمات، اس کی اے ٹی ایم، اس کے جہاز، سب کچھ فراموش کرکے اسے پارٹی سے نکال پھینکا جائے گا۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں عمران خان کی محض ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ان کے دیرینہ رفقا، تحریک انصاف کے اہم عہدیداران اور اہم ترین خدام کو نکال باہر کیا۔ بلکہ بہت سے پی ٹی آئی کے بانیان کو بھی پارٹی سے نکال دیا گیا۔


دل و جان سے ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے بھی ہیں جو اب بھی عمران خان کو نہایت عزیز رکھتے ہیں، خان صاحب کسی بھی حال میں ہوں یا کچھ بھی کریں، وہ خان صاحب کی محبت میں آنکھیں بند ہی رکھتے ہیں


انکی جماعت سہاروں پر ہی چلتی آرہی ہے، جیسے وفاق میں سہارا کھینچا گیا تو دھڑام سے گرگئی، اسی طرح پنجاب میں بھی سہاروں کو قائم رکھنے کےلیے ہر ممکن کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔


بہرحال بات وہیں آجاتی ہے کہ عمران خان اپنی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو جی میں آئے کر گزرتے ہیں اور ایک بار جو فیصلہ کرلیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ جیسے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ انہوں نے کرلیا تو پرویزالہٰی جو پنجاب میں ان کی حکومت قائم رکھنے کا واحد ذریعہ ہیں، ان کی بھی نہیں چلنے دی اور اسمبلی کی تحلیل پر ان سے دستخط کرا کے ہی دم لیا۔ جس سے معلوم ہوا وہ ایک ایسے شخص ہیں کہ جس بات کی ٹھان لیں وہ کر گزرتے ہیں، چاہے اس سے ان کا ذاتی نقصان ہو یا ملک کا، وہ کسی بات کی پروا نہیں کرتے۔


بائیس سالہ جہدوجہد کا خاتمہ ترین و علیم کے جہازوں پر ہوا۔ بھر بھر کر تبدیلی کے کھلاڑی لائے گئے۔ حیران کن طور پر اس پورے عمل کو جمہوری بھی کہا گیا اور بہترین بھی۔ آزاد پنچھی لانا غیر جمہوری رویہ نہیں تھا، لیکن جہازوں کی جس طرح تشہیر کی گئی اس سے ایک بات یقینی ہوگئی کہ کہانی گنتی سے شروع ہوکر یقیناً گنتی پر ختم ہوتی ہوگی۔ بہرحال طاقت مل گئی۔ لیکن اس طاقت کو حاصل کرنے کے بعد کیا ہوا؟


پاکستانی معاشرے کا باشعور طبقہ یقینی طور پر اس بات کا حامی تھا کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا اہم ہے۔ کرپشن کے راستے روکنا ضروری ہے۔ معاشی لحاظ سے پاکستان کو آگے لے جانا اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن نہیں جناب! ہم نے بائیس سالہ جہدوجہدِ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کےلیے کی ہی نہیں تھی، بلکہ ہمارا مقصد ہی بس طاقت کا حصول تھا، جس کےلیے ہم نے ہر حربہ آزمایا۔ عمران خان نے پہلی تقریر کے برعکس چن چن کر انتقامی سیاست کےلیے لوگ ڈھونڈے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ پہلے ملک کو مضبوط بناتے پھر چوروں پر بھی ہاتھ ڈالتے۔ واویلا شروع کردیا گیا، چن چن کر من پسند افراد کو عہدے دیے جانے لگے، جو اس سے پہلے بھی ہورہا تھا۔ معاشی ٹیم؟ پچاس لاکھ گھر؟ ایک کروڑ نوکریاں؟ ایشین ٹائیگر؟ اقوام عالم میں مقام؟ متنازع معاملات میں مضبوط موقف؟ یہ سب تو تب ہوتا جب عمران خان طاقت حاصل کرنے کے بعد عاجزی سے ملک کی خدمت کو اپنا شعار بناتے۔ نہ تو واضح لائحہ عمل تھا اور نہ ہی ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کےلیے کوئی سمت، لہٰذا ایک ہی ایجنڈا باقی بچا غصہ، غصہ اور صرف غصہ۔


اور کچھ نہ ہوا تو بیوقوفانہ فیصلے کیے جانے لگے۔ ترقی کی طرف توجہ کے بجائے سیاسی انتقام کی جانب سوچ کے پیادے دوڑا لیے گئے۔ عقل کے اندھے اس حقیقت سے دور ہوگئے کہ تین سال کم از کم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے اور اس کے بعد چن چن کر چوروں کو سولی پر لٹکا دیتے تو آپ کی واہ واہ بھی ہوتی اور عالمی برادری میں نام بھی۔ لیکن حال یہ ہے کہ پلستر زدہ ٹانگ کے علاوہ انتخابی مہم میں کچھ دکھانے کو نہیں۔


کیا ان کے چاہنے والوں کو ابھی بھی احساس نہیں ہوا کہ کیسے ان کا جذباتی استحصال کیا گیا ؟ خان صاحب اور ان کے پیچھے بیٹھے عیاروں نے اپنا مشن بہت کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔ پاکستان کی معیشت کے گھٹنے زمین سے لگوا دئے ہیں۔ کشمیر مقبوضہ سے نکل کر انڈیا کا حصہ بن گیا۔ ملک انارکی اور ادارے انتشار کا شکار ہو چکے ہیں 


ملین ڈالر کا سوال ہے کہ پندرہ برس میں ایسا کیا ہوا کہ ساٹھ سال کے قرضے چھ ہزار ارب روپے سے بڑھ کر پچاس ہزار تک جا پہنچے۔ ڈالر ساٹھ روپے سے تین سو تک جا پہنچا۔ کیا ایک جامع منصوبے کے تحت پچھلے پندرہ برس میں پاکستان کو اس حال تک پہنچایا گیا؟ ایسا کوئی منصوبہ اگر بنایا گیا تھا تو کامیاب ہو چکا۔ پراجیکٹ عمران خان کامیابی سے ہم کنار ہو چکا۔ اس انارکی کے ذمہ داروں کو پہچانیں۔ عمران خان کو کیوں کوستے ہیں وہ تو Puppet تھا۔ اس کٹھ پتلی کو بنانے اور نچانے والوں کو ان کی Safe Heavens سے نکالیں۔ ان سے وصولیاں کریں۔ شجاع پاشا، ظہیرالاسلام، فیض حمید کو پکڑیں۔ باجوہ، کیانی اور راحیل شریف کو کٹہرے میں لائیں۔ 


ہے کسی میں ہمت ؟


اگر کچھ نہیں کر سکتے تو POGO دیکھیں۔ ٹم ہارٹن جائیں، کافی پئیں اور موج کریں

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...