Saturday, November 26, 2022

عہدے اور اقتدار

 عہدے اور اقتدار

اظہر عباس

 

دنیا بھر میں اہم حکومتی عہدوں پر تعیناتی عوامی سطح پر زیر بحث آتی ہے۔ ہمارے ہاں البتہ یہ ضرورت سے زیادہ زیر بحث آتی ہے۔ اس کی وجہ سیاست میں ہماری حد سےزیادہ بڑی ہوئی دلچسپی ہے۔ اِس دنیا میں عہدے کتنے  طاقتور کیوں نہ ہوں- قیامت کے دن یہ سب سے بڑی جواب دہی کا سبب بنیں گے۔


اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو شخص دس یا اس سے زیادہ لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار بنتا ہے وہ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے جنہیں اس کی نیکی ہی کھول سکے گی ورنہ اس کے گناہ اسے ہلاک کر دیں گے۔


ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ خاص طور بادشاہوں- جباروں اور متکبرین کا نام  لے کر ان کو عالم غضب میں مخاطب کریں گے۔ اس کے بعد ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو ان عہدوں کی جواب دہی کا اندازہ ہوجائے تو ان کے دل سے ہر عہدے کی خواہش ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں خدا سامنے نہیں آتا- عہدہ سامنے ہوتا ہے۔ عہدے کی طاقت سامنے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ انسان خود کو جھوٹے بہانوں سے بھی بہلاتا ہے کہ میرے پیش نظر تو خدمت کرنا ہے۔ اگر کسی ظلم، زیادتی کا ارتکاب ہوا بھی تو سیاست میں تو یہ چلتا ہے۔ جھوٹ- سازش- دھوکہ دہی- وعدہ خلافی- حلف کی خلاف ورزی- کے بغیر سے سیاست ہو نہیں سکتی۔ ایسے شخص کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اقتدار نہیں ہلاکت کی کرسی پر بیٹھ رہا ہے۔


اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر نجات تو صرف وہی حکمران پائیں گے جنھوں نے حضرت یوسف- حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی طرح عدل اور خوف خدا کو اپنی زندگی بنائے رکھا یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر اور اپنے گھر والوں کو بھوکا رکھ کر غریب صحابہ کا پیٹ بھرا۔ یا پھر خلفائے راشدین کی طرح  عدل کے آخری معیار قائم کرکے بھی خدا کی جواب دہی کے خوف سے لرزتے رہے۔


مدینہ کی ریاست کو اپنا نصب العین بنانے والوں کیلئے پاکستان کی مختصر تاریخ جس کا سبق یہی ہے کہ کوئی اس طرف دھیان نہیں دیتا کا ایک ورق آپ کی خدمت میں پیش ہے۔


جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں ان کے دو بیٹے گوہر ایوب اور اختر ایوب جو یکے بعد دیگرے ان کے اے ڈی سی بھی رہے، انہوں نے فوج کی نوکری چھوڑ کر اپنے والد کی بہائی صنعتی انقلا ب کی گنگا میں ڈبکیاں لگانے کا فیصلہ کیا اور خوب دولت سمیٹی ۔گوہر ایوب نے اپنے سسر جنرل (ر)حبیب اللہ خٹک سے مل کر امریکی فرم جنرل موٹرز خرید کر اس کا نام گندھارا موٹرز رکھا اور دیکھتے دیکھتے پاکستان کی بڑی کاروباری شخصیات میں شمار ہونے لگے۔یہ وہ غلطی تھی جو ایوب خان کے زوال کا سبب بنی اور اسی نسبت سے ان کے فرزند گوہر ایوب کوان کا گوہر زوال کہا گیا ۔ایوب خان کے بڑے صاحبزادے گوہر ایوب کی والدہ نے ان کا نام حبیب اللہ رکھا لیکن والدنے ان کا نام گوہر ایوب تجویز کیا۔ اسے حسنِ اتفاق کہئے یا کچھ اور کہ گوہر ایوب جن کا ابتدائی نام حبیب اللہ تھا، ان کے سسر کا نام بھی حبیب اللہ ہے۔ م۔ب۔ خالد اپنی کتاب ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ کے صفحہ نمبر 139 پر ’پسرانِ ایوب‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان ایوانِ صدر میں منتقل ہوئے تو بَری فوج کی طرف سے اے ڈی سی ان کے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب تھے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کیپٹن گوہر ایوب نے پاک فوج سے ریلیز لی اور نجی کاروبار میں مشغول ہوگئے۔ ان کی جگہ ایوب خان کے دوسرے صاحبزادے کیپٹن اختر ایوب خان، صدرِ پاکستان کے اے ڈی سی بن کر تشریف لے آئے۔ تھوڑے عرصے بعد انہوں نے بھی پاک فوج سے ریلیز لے لی اور کاروبار میں مصروف ہوگئے۔ ایوب خان کے یہی 2 لڑکے فوج میں تھے جنہوں نے یکے بعد دیگرے فوجی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔جس شخص کا پشتوں سے پیشہ آبا سپہ گری رہا ہو، جس نے مملکتِ خداداد پاکستان کے پہلے پاکستانی سپہ سالار ہونے کا بلند ترین اعزاز حاصل کیا ہو، جس نے اپنے خون پسینے سے بَری فوج جیسے مقدس ادارے کی آبیاری کی ہو اور جو صرف اپنے فوجی عہدے کی بدولت صدرِ پاکستان کے بلند ترین مقام تک پہنچا ہو، وہ اپنے لڑکوں کو عین عالمِ شباب میں جب وہ تقریباً 25 یا 26 برس کے ہوں اور صرف 4، 5 سال کی سروس کی ہو فوج سے ریلیز کرکے نجی کاروبار میں لگادے، یہ ناقابل فہم ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پریزیڈنٹ ایوب خان نے عہدِ صدارت میں یا باقی ماندہ زندگی میں کبھی نہ دیا۔‘


ایوب خان کے زوال کے بیشمار اسباب تھے مگر معروف بیوروکریٹ روئیداد خان اپنی کتاب ’’Pakistan a dream gone sour‘‘کے صفحہ نمبر 44 پر لکھتے ہیں کہ گندھارا موٹرز سے بڑھ کر کسی چیز نے ایوب خان کی شہرت اور وقار کو داغدار نہیں کیا۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں، اپوزیشن کے جلسوں میں، گلیوں اور چوراہوں میں ہونے والی سرگوشیوں میں ہر طرف ایوب خان کے گوہرسے متعلق گفتگو ہورہی تھی۔‘


ایوب راج کے دوران ان کے فرزند گوہر ایوب کی گندھارا موٹرز کو کس طرح سے سرکاری ٹھیکے دیکر نوازا جاتا رہا، اس بات کا اعتراف خود جنرل ایوب خان کرتے ہیں ۔ان کی کتاب ’’Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan, 1966-1972‘‘ کے صفحہ نمبر 121 پر لکھا گیا ہے کہ اندرون ملک گاڑیوں اور ٹریکٹروں کی مینوفیکچرنگ شروع کرنے کے لئے ہمیں کم از کم زیادہ سے زیادہ گاڑیوں کے انجن تیار کرنے کا آغاز کردینا چاہئے، گندھارا موٹرز جہاں میرا بیٹا کام کرتا ہے، اسے نوازنے کے لئے یہ فیصلہ مجھ پر مسلط کیا گیا۔ درحقیقت یہ فیصلہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے قائم کی گئی ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا۔‘


اپنی حالیہ پراگندہ ریاست کی طرف دیکھیں تو ریاست مدینہ کے دعوے دار ابھی تک توشہ خانے کی کہانیوں کا جواب نہیں دے سکے اور بتدریج نااہلی و مقدمہ بازی کا شکار ہیں ان کیلئے اصلی ریاست مدینہ کی مثال مشعل راہ ہونی چاہئیے تھی کہ حضرت ابوبکر نے اپنے کاروبار اور ہر بنیادی ضرورت کو پس پشت ڈال کر رعایا کی خدمت کی۔ حضرت عمر مثالی عدل قائم کرکے بھی فرات کے کنارے ایک جانور کی موت پر خدا سے ڈرتے تھے۔ حضرت عثمان  نے ساری طاقت کے باجود جان دے دی- مگر آگے بڑھ کر کسی پر تلوار نہیں چلوائی۔ حضرت علی نے دولت مند ترین ریاست کا خلیفہ ہونے کے باجود فقر کو اختیار کیا اور حصول انصاف کے لیے عدالت کے سامنے عام لوگوں کی طرح پیش ہوئے۔


حکمرانوں کو بہرحال خدا کا سامنا کرنا ہوگا۔


وہ خدا جو ہر چیز کا مالک اور بادشاہ ہے۔ جس کے علم میں دلوں کے خیالات- تنہائی کے معاملات- اور ظلم و ناانصافی- سارے واقعات رہتے ہیں۔ اس روز کوئی حکمران خدا کے سامنے اپنے ظلم و زیادتی، جھوٹ و فریب، سازش و دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور حلف کی خلاف ورزی کا کوئی عذر پیش نہیں کرسکے گا۔ اس روز خدا ہر ظلم اور فریب کا حساب لے گا- اور جب وہ حساب لے گا تو حکمران خواہش کریں گے کہ کاش ان کی ماں  نے ان کو جنا ہی نہیں ہوتا۔ کاش اقتدار ملنے سے پہلے ہی انھیں موت آچکی ہوتی۔ کاش خدا کے حضور پیش ہونے کے بجائے ان کا خاتمہ مٹی کی شکل میں ہوجاتا ۔ یہ ہے وہ المناک  انجام جو آج کے ہر اقتدار کا مقدر ہے۔

Sunday, November 20, 2022

قوانین فطرت

 

اظہر عباس


مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر کے عین درمیان میں ٹاہلی کا ایک درخت ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں بجلی کا نام نشان بھی نہیں تھا۔ اس کی گھنی چھاوں کے نیچے دوپہریں گزرا کرتیں۔ اسی کے نیچے اماں رات کے جمے دودھ کو بلوہتیں۔ مکھن نکال کر لسی بناتیں۔ دوپہر کو ہم اسکول سے جلدی واپس آ جاتے تو تندور کی تازہ روٹی کو اسی مکھن سے تر کیا جاتا، اوپر مکھن کا ایک ٹکڑا رکھا جاتا اور لسی سے چسکیاں لے کر ہم مزے سے وہ تندوری روٹی کھاتے۔ ابو دفتر سے واپس آتے تو سالن تیار ہوتا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک اور شفٹ لگائی جاتی۔ گرمی کی دوپہریں برآمدے میں پنکھا جھلتے گزرتیں۔ یہ پنکھے خوبصورت جھالر لگے ہوتے۔ رات کو چھت پر چارپائیاں بچھائی جاتیں اور تمام اہل خانہ، پڑوسی و اہل محلہ چھتوں پر ہی ڈنر کیا کرتے، ایک دوسرے کا احوال، گپ شپ اسی ٹائم پہ ہوتی اور رات کو ستارے دیکھتے دیکھتے نیند آ جاتی۔ پھر بجلی آ گئی۔ ہم سب پہلے اپنے صحنوں اور پھر کمروں میں مقید ہو گئے۔ بجلی آئی تو اس سے منسلک آسائشیں - فرج، ٹی وی، پنکھے اور نا جانے کیا کیا لائی اور ہم نے ان بجلی سے چلنے والی مصنوعات سے آشنائی اختیار کر لی۔ لوگوں سے دوری اور مصنوعات سے قربت اختیار کر لی۔ دیکھا دیکھی میں ایسی ایسی اشیا اپنے گھروں میں سجا لیں جو ہماری ضرورت ہی نہیں تھیں۔ درخت کٹ گئے اور سیمنٹ کے فرش بن گئے۔ تندوری روٹی، مکھن، ستارے ہماری پہنچ سے دور ہو گئے اور ڈبل روٹی کے سلائس، فرج، اے سی ہمارا قرب حاصل کر گئے۔ لوگ ہم سے دور اور ٹی وی ہم سے قریب ہو گیا۔ جانداروں کے قرب کو چھوڑ کر ہم نے بے جان اشیا کو قریب کر لیا۔ یہ قدرت کا نظام ہے کہ جب ہم قدرتی اشیا، قدرت کے دئیے تحفے اور قدرتی نظام کو اپنے سے دور کر لیتے ہیں تو جواب میں قدرت ہمیں اس کے متضاد نظام سے متعارف کراتی ہے۔ اس لئے قدرت کو ہم چاہے بھول جائیں لیکن قوانین قدرت ہمیں یاد رکھتے ہیں۔ آئیے ہم آج کچھ قوانین قدرت سے آپ کو روشناس کراتے ہیں۔ ان تین فطری قوانین جو کڑوے لیکن سچے ہیں کو ہمیشہ یاد رکھا کیجئے:


1- پہلا قانون فطرت:


اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے.


اسی طرح اگر "دماغ" کو "اچھی فکر" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے" خیالات آتے ہیں اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔


2- دوسرا قانون فطرت:


جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ "وہی کچھ" بانٹتا ہے۔


خوش مزاج انسان "خوشیاں" بانٹتا ہے۔

غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔


عالم "علم" بانٹتا ہے۔

"پرامن انسان" امن و سکون" بانٹتا ہے۔


دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔


خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔


مثبت اور تعمیری انسان موٹیویشن دیتا ہے


اسی طرح سیاہ دل و متعصب انسان "تعصب و نفرت" بانٹتا ہے


3- تیسرا قانون فطرت:


آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لئے کہ کھانا ہضم نہ ہونے پر "بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔


مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں "ریاکاری" بڑھتی ہے۔


بات ہضم نہ ہونے پر "چغلی" اور "غیبت" بڑھتی ہے۔


تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں "غرور" میں اضافہ ہوتا ہے۔


مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے "دشمنی" بڑھتی ہے۔


غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں "مایوسی" بڑھتی ہے۔


اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں معاشرے میں "ظلم و بےراہروی" میں اضافہ ہوتا ہے۔


اپنی زندگی کو آسان بنائیں اور ایک "با مقصد" اور "با اخلاق" زندگی گزاریں، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔


اللہ پاک ہم سب کواچھی زندگی گزارنےکی توفیق عطا فرمائیں 


آمین

Monday, November 14, 2022

غذائی بحران اور ڈیفالٹ

 غذائی بحران اور ڈیفالٹ

اظہر عباس


سری لنکا وہ پہلا ملک تھا جس نے اس سال اپنے غیر ملکی بانڈ ہولڈرز کو ادائیگی کرنا بند کر دی، کھانے اور ایندھن کے غیرمعمولی اخراجات کے بوجھ نے احتجاج اور سیاسی افراتفری کو جنم دیا۔ روس نے جون میں پابندیوں کے جال میں پھنسنے کے بعد ڈیفالٹ ظاہر کرنے میں پیروی کی۔ اب، توجہ ایل سلواڈور، گھانا، مصر، تیونس اور پاکستان پر مرکوز ہو رہی ہے — وہ ممالک جنہیں بلومبرگ اکنامکس ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار سمجھتا ہے۔ چونکہ روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے قرض کی عدم ادائیگی سے بیمہ کرنے کی لاگت سب سے زیادہ ہو گئی ہے، عالمی بینک کی چیف اکانومسٹ کارمین رین ہارٹ اور طویل مدتی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے قرض کے ماہرین جیسے سابق ایلیٹ مینجمنٹ پورٹ فولیو کی طرف سے بھی تشویش پائی جا رہی ہے۔ مینیجر جے نیومین۔ "کم آمدنی والے ممالک کے ساتھ، قرض کے خطرات اور قرض کے بحران فرضی نہیں ہیں،" رین ہارٹ نے بلومبرگ ٹیلی ویژن پر کہا۔ "ہم پہلے ہی کافی حد تک وہاں موجود ہیں۔"


حالیہ دہائیوں میں بار بار بحرانوں نے جود کو ظاہر کیا ہے، ایک حکومت کے مالیاتی خاتمے سے ڈومینو اثر پیدا ہو سکتا ہے — جسے مارکیٹ کی زبان میں متعدی بیماری کہا جاتا ہے — کیونکہ بزدل تاجر اسی طرح کے معاشی مسائل والے ممالک سے پیسہ نکالتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، ان کے حادثے کو تیز کرتے ہیں۔ موجودہ لمحہ میں، ابھرتی ہوئی مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ، ایک خاص مماثلت رکھتا ہے۔ اس وقت کی طرح، فیڈرل ریزرو مہنگائی کو روکنے کی کوشش میں اچانک شرح سود میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے، جس سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے اپنے غیر ملکی بانڈز کی واپسی کرنا مشکل بنا رہا ہے۔ سب سے زیادہ دباؤ میں آنے والے چھوٹے ممالک ہوتے ہیں جن کا بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں میں مختصر ٹریک ریکارڈ ہوتا ہے۔ چین، بھارت، میکسیکو اور برازیل جیسی بڑی ترقی پذیر قومیں کافی مضبوط بیرونی بیلنس شیٹس اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کی وجہ سے یہ بوجھ سہہ جاتی ہیں۔ لیکن زیادہ کمزور ممالک میں، اس بارے میں بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ خوراک اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے منسلک پوری دنیا میں سیاسی بحران پیدا ہو رہا ہے، جس سے گھانا اور مصر جیسے انتہائی مقروض ممالک میں آنے والے بانڈ کی ادائیگیوں پر اثر پڑ رہا ہے، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس رقم کو اپنے شہریوں کی مدد کے لیے استعمال کرنا بہتر ہوگا۔ روس اور یوکرین جنگ کے باعث اشیاء کی قیمتوں پر دباؤ، عالمی سطح پر شرح سود میں اضافہ اور امریکی ڈالر اپنی مضبوطی پر زور دے رہا ہے، جس سے کچھ ممالک کے لیے بوجھ ناقابل برداشت ہونے کا امکان ہے۔ نوین میں بین الاقوامی اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے قرض کے سربراہ انوپم دامانی کے لیے، ترقی پذیر معیشتوں میں توانائی اور خوراک تک رسائی کو برقرار رکھنے کے بارے میں گہری تشویش ہے۔ "یہ وہ چیزیں ہیں جو سال کے دوسرے نصف میں گونجتی رہیں گی،" انہوں نے کہا۔ "سماجی عدم استحکام کے لحاظ سے بہت سارے علمی ادب اور تاریخی فوقیت ہے جو کھانے کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے، اور پھر یہ سیاسی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔" 


ان حالات میں پاکستان کا رخ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قوم کو پراپرٹی کے کاروبار کی طرف مائل کرنے والے لوگ اس قوم کے مجرم ہیں ۔ لوگ نئی فیکٹری لگانے کی بجائے اپنا سرمایہ کسی نئی رہائشی سکیم میں لگا کر آسان کمائی کے چکروں میں پڑ گئے ہیں ۔ یہ نت نئی رہائشی سکیمیں اس قوم کو ایک بدترین غذائی بحران کی طرف دھکیل رہی ہیں ۔


معروف ترین بین الاقوامی میگزین "دی اکنامسٹ" کا تازہ ترین شمارہ آنے والے بدترین قحط کی پیشن گوئی کر رہا ہے۔ اس میگزین کے سرورق پر گندم کے خوشوں میں گندم کے دانوں کی جگہ بھوک سے متوقع طور پر مرنے والے انسانوں کی کھوپڑیوں کو دکھایا گیا ہے۔ Zoom کرکے تصویر کو بڑا کریں اور دیکھیں۔ پاکستان اس وقت ان زرعی ممالک میں سر فہرست ہے جہاں زرعی زمین تیزی سے رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہو رہی ہے صرف لاہور کے اردگرد گذشتہ 5 سالوں میں دو لاکھ ٹن گندم پیدا کرنے والا زرعی رقبہ رہائشی کالونیوں کا حصہ بن گیا ہے  پاکستان میں آرائشی پودوں کی جگہ اب اجناس کے پودے لگانے کی ضرورت ہے  پھل دار درخت اور اجناس کے پودے ہی ہماری بقاء ہیں اس پر بطور قوم ہمیں توجہ دینا ہو گی۔

Thursday, November 10, 2022

پاکستان کا انتشار کسے سوٹ کرتا ہے


اظہر عباس
ذرا غور فرمائیں، نازی جرمنی میں ہٹلر کے دستِ راست گُوئبلز نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر کہا تھا کہ جھوٹ اتنا زیادہ بولو کہ لوگ سچ سمجھ کر اُس پر ایمان لے آئیں۔ آج کل بھی یہی ہو رہا ہے۔ پروپیگنڈا مشینری گوئبلز کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دن رات جھوٹ بول رہی ہے۔ سچ نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گیا ہے۔
سوشل میڈیا چوبیس گھنٹے جھوٹ بولے گا تو سچ بیچارے کی قسمت میں چاروں شانے چِت ہی ہونا ہوگا۔ یہ طریقہ واردات کوئی نیا نہیں، انسانی فطرت نے صدیوں سے اس طریقہ واردات کو ایجاد کر رکھا ہے ویسے بھی یہ انسانی فطرت سے لگا کھاتا ہے۔ اس کا روزمرہ کا بے تحاشہ استعمال خاص طور پر سیاست میں آج بھی زورشور سے ہو رہا ہے۔
خان صاحب کی خطرناک حد تک الزاماتی سیاست نے ملک کو خطرناک حد تک پولرائز کر دیا ہے۔ پارلیمانی کارروائی سے زخمی ہو کر اب وہ اور بھی خطرناک ہارے ہوئے کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔ امریکہ دشمنی کو بھڑکاتے ہوئے 30 مارچ کو پارلیمانی اکثریت سے محروم ہونے کے بعد، انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کی ہیبت ناک طرز حکمرانی، معیشت کی بدانتظامی، خارجہ پالیسی کی خرابیوں اور ان کے فوج کے ساتھ اختلافات نے ان کے سیاسی ریت کے قلعے کی دیواریں گرا دی تھیں۔
امریکہ کی مبینہ مداخلت سے شروع ہوئی ان کی سیاست اب اسٹیبلشمنٹ پر اقدام قتل کے الزامات تک پہنچ چکی ہے۔ لگتا ہے کہ خان صاحب کو پاکستان کا فیٹف ست نکلنا پسند نہیں آ رہا کیونکہ ان کا ٹارگٹ اس بار فوج اور اس کے مختلف اداروں پر براہ راست الزامات لگا رہے ہیں۔
دوسری طرف دیکھیں تو بھارت شروع سے ہی ان کوششوں میں رہے ہیں کہ پاکستان اور اس کی مرکزی خفیہ ایجنسی کو کسی نہ کسی طور دہشت گرد ثابت کر کے دنیا کو یہ تاثر دے سکے کہ پاکستان اور اس کا یہ حساس ادارہ اندرونی دہشت گردی کے علاوہ بین الاقوامی جرائم میں بھی ملوث ہیں۔
بھارت کا یہ ایجنڈا پاکستان میں عمران خان کی جانب سے ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لئے پیدا کی جانے والی صورت حال میں مکمل ہو سکتا ہے کیونکہ عمران خان جو پاکستان کے مقبول لیڈر ہونے کے علاوہ دنیا میں ایک شناخت رکھتے ہیں، ان کی مدعیت میں حساس ادارے کے ایک اعلی افیسر (جس نے بھارتی خفیہ ایجنسی را اور اسرائیلی موساد کے علاوہ تحریک طالبان کی دہشتگرد تنظیم کے خلاف کامیاب اوپریشنز کئے) کو سنگین مقدمہ میں شریک جرم قرار دے کر ایف۔آئی۔آر۔ میں نامزد کرنے کا عمل بھارت کو ایف۔آئی۔آر۔ کی صورت میں سرکاری دستاویز مہیا کرنا ہے جسے وہ دنیا میں اس ثبوت کے طور پر پیش کر سکے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے اور یہ عالمی امن کے لئے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔
خان صاحب کے لانگ مارچ پر فائرنگ اور اس کا اعتراف کرنے والے بیان کی گونج اسرائیل تک پہنچ چکی اور اس کے اخبار’’ہرٹز‘‘ کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اس لیے گولی ماری گئی کہ وہ بہت زیادہ ’’اسرائیل نواز‘‘ تھے۔
بھارت گزشتہ کئی دنوں سے خان صاحب کی سیاست کو موضوع بنا کر کیوں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر بحث کر رہا ہے یہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اسرائیلی اخبار کو اس اسٹوری سے یکدم کیسے دلچسپی ہو گئی آئیے اس کا بیک گراونڈ آپ کو بتاتے ہیں۔
"ہاوس آف روتھ چائلڈز"
روتھ چائلڈز ایک طویل عرصے سے متنازعہ حیثیت کا حامل مالدار یہودی خاندان ہے اور سازشی تھیوریوں والے دنیا کو ان کے کنٹرول میں ہونا ثابت کرتے رہتے ہیں۔
روتھ چائلڈ کا دعویٰ ہے کہ وہ یہودی ہیں، جب کہ حقیقت میں ان کا تعلق خزریا نامی ملک سے ہے جو بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپین کے درمیان کی سرزمین پر قابض تھا۔ جو اب زیادہ تر جارجیا کا حصہ ہے۔ روتھ چالڈز کے یہودی ہونے کا دعویٰ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بادشاہ کی ہدایت پر خزاروں (خزریا کے مقامی باشندے) نے 740 عیسوی میں یہودی عقیدہ اختیار کیا، لیکن یقیناً اس حکم میں ان کے ایشیائی منگول جینز کو یہودیوں کے جینز میں تبدیل کرنا شامل نہیں تھا۔
آپ دیکھیں گے کہ آج دنیا میں تقریباً 90% لوگ جو خود کو یہودی کہتے ہیں درحقیقت خزر ہیں، عرف عام میں آپ انہیں اشکنازی یہودی کہہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ دانستہ طور پر دنیا کے سامنے اپنے دعوے کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ اسرائیل کی سرزمین پیدائشی طور پر ان کی ہے، جب کہ حقیقت میں ان کا اصل وطن جارجیا میں 800 میل سے زیادہ دور ہے۔ اسرائیل کا ہر وزیر اعظم اشکنازی یہودی رہا ہے۔
آج دنیا میں اشکنازی یہودیوں کا رہنما روتھ چائلڈز خاندان ہے۔ کہنے والے الزام لگاتے ہیں کہ روتھ چائلڈز نے جھوٹ، ہیرا پھیری اور قتل کے ذریعے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی بلڈ لائن یورپ کے شاہی خاندانوں تک بھی پھیلی ہوئی ہے، اور درج ذیل خاندانی نام: Astor؛ بنڈی کولنز؛ ڈوپونٹ؛ فری مین؛ کینیڈی مورگن؛ اوپن ہائیمر؛ راک فیلر؛ ساسون; شِف؛ ٹافٹ اور وان ڈوئن انہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
گولڈ اسمتھ خاندان جرمن یہودی نسل کا ایک خاندان ہے، جو اصل میں فرینکفرٹ کے ایم مین سے ہے، جو بینکنگ میں اپنی کامیابی کے لیے جانا جاتا ہے۔ 15ویں صدی میں شروع ہونے کے ساتھ، 1614 کی فیٹملچ بغاوت کے بعد اس خاندان کے زیادہ تر اراکین کو فرینکفرٹ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور وہ 18ویں صدی تک واپس نہیں جا سکے۔
یہ خاندان خاص طور پر روتھ چائلڈ خاندان، مینز کے بِشوف شیم خاندان، اور موناکو کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک بارٹولوم فیملی کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ Bischoffsheim اور Goldschmidt خاندانوں نے مشترکہ طور پر Bischoffsheim، Goldschmidt اور Cie بینک کا انتظام کیا، جسے بالآخر 1863 میں Banque de Crédit et de Dépôt des Pays-Bas میں ضم کر دیا گیا، جو BNP Paribas کا پیش خیمہ تھا۔
خاندان کی انگریزی شاخ نے اپنا نام گولڈسمتھ رکھ دیا، جس کا آغاز فرینک گولڈسمتھ (1878–1967) سے ہوا۔ اس کا سب سے مشہور 20 ویں صدی کا رکن ارب پتی جیمز گولڈ اسمتھ تھا۔ آج سب سے مشہور زیک گولڈ اسمتھ ہیں، جو رچمنڈ پارک کے ایم پی تھے۔
کچھ اندازہ ہوا کہ کچھ کٹھ پتلیوں کی تاریں کہاں تک جا رہی ہیں ؟
Khalid Saif and 1 other
1 Comment
Seen by 8
Like
Comment
Share

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...