Friday, December 30, 2022

دنیا میرے آگے



 دنیا میرے آگے

اظہر عباس


صدر بائیڈن 80 سال کے ہو چکے اور اس طرح وہ  امریکہ کے سب سے معمر صدارت کرنے والے صدر بن گئے ہیں


جب کہ بائیڈن نے عوامی طور پر دوسری مدت کے لئے انتخاب لڑنے کے اپنے عزائم کا اظہار کیا ہے، کم از کم ایک ڈیموکریٹک حکمت عملی کے ماہر نے کہا کہ صدر کو اپنے وعدے کو پورا کرنا چاہیے کہ وہ مرکز کے بائیں بازو کے رہنماؤں کی اگلی نسل کے لیے پل بنیں گے۔


ڈیموکریٹک سیاسی حکمت عملی کے ماہر کولن سٹروتھر نے کہا، "صدر بائیڈن کے لیے سب سے اچھی بات یہ ہوگی کہ ہم اگلی نسل کی پارٹی بن سکیں - نہ کہ پرانی نسل کی،"  "[ہاؤس اسپیکر نینسی] پیلوسی چلی گئی ہیں، مچ میک کونل نے ثابت کیا ہے کہ وہ وقت سے پیچھے ہیں، اور صدر کی عمر کے کسی فرد کے اس مشکل کام کو اچھی طرح سے انجام دینے کے بارے میں جائز خدشات ہیں۔"


اگر بائیڈن 2024 میں دوبارہ انتخابات سے دستبردار ہونے کا انتخاب کرتے ہیں تو ڈیموکریٹس کے پاس ترجیحات یہ ہیں:


ہیرس کو بائیڈن کے سیکنڈ ان کمانڈ کے طور پر، ڈیموکریٹس کے لیے ایک منطقی انتخاب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کیلیفورنیا کی سابق سینیٹر، 58 سالہ ہیرس ملک کی تاریخ میں پہلی خاتون نائب صدر ہیں۔ وہ پہلی افریقی امریکن اور پہلی ایشیائی امریکن بھی ہیں۔ وہ مختلف عالمی سربراہی اجلاسوں میں وائٹ ہاؤس کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں۔


لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق، پیچیدہ معاملات یہ ہیں کہ ہیریس کی عوامی سرویز میں رینکنگ بائیڈن سے بھی کم ہے۔


ڈیموکریٹس کے دوسرے امیدوار ٹرانسپورٹ سیکرٹری حال ہی میں وسط مدت کے دوران نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ امیدواروں میں سے ایک تھے۔ آئیووا کاکسز جیتنے کے بعد ان کی پروفائل کو بڑھانے میں مدد کی ہے۔ بٹ گیگ کی امیدواری کو اگرچہ سنگین رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹرانسپورٹیشن سکریٹری اگلے سال GOP کانگریس کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں کہ انفراسٹرکچر کی رقم کیسے خرچ کی گئی ہے۔ ریپبلکن قومی ریل ہڑتال کو کم کرنے اور سپلائی چین کے بحران کو کم کرنے کے لئے بٹ گیگ کی کوششوں کو دیکھنے کے لئے بھی بے چین ہیں۔


ٹرانسپورٹیشن کے سکریٹری کو پچھلے سال پیرنٹس کیلئے مخصوص چھٹی لینے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس نے عین اس وقت یہ چھٹی لی جب وائٹ ہاؤس اپنے بنیادی ڈھانچے کے قانون کی منظوری کو محفوظ بنانے اور سپلائی چین کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔


اگرچہ بائیڈن سے زیادہ عمر کے، 81 سالہ برنی سینڈرز نے وائٹ ہاؤس کی دو ناکام کوششوں کے بعد اپنا سیاسی آپریشن جاری رکھا ہوا ہے۔ ورمونٹ سے ڈیموکریٹک سوشلسٹ امیدوار 2022 میں انتخابی مہم کے لیے سرگرم ہیں اور ان کی ایک نئی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جو نوجوان ووٹروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔


اگرچہ کچھ لوگ توقع کرتے ہیں کہ سینڈرز ایک اور صدارتی انتخاب لڑیں گے، انہیں ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو کے اندر حمایت کی گہری بنیاد درکار ہے۔ ان نچلی سطح کے حامیوں نے سینڈرز کو اس کی 2016 اور 2020 کی مہموں میں کئی اپ سیٹوں میں مدد دی۔ اس نے سینیٹر کو مہم چلانے کے لیے درکار فنڈ ریزنگ کی کوششیں بھی فراہم کیں اور بڑے پیسے والے عطیہ دہندگان پر انحصار نہیں کیا


سینڈرز نے اپنی دونوں قومی مہموں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے بنیادی حلقہ، بوڑھے افریقی امریکی ووٹروں تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔


کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹ کھنہ نے بھی 2024 کے اوائل میں ڈیموکریٹک نامزدگی کے مقابلوں میں کنسلٹنٹس کو اپنے پے رول پر رکھا ہوا ہے۔ جب کہ انہوں نے بائیڈن کے خلاف انتخاب لڑنے سے انکار کیا ہے، لیکن اس نے مستقبل میں وائٹ ہاؤس کی دوڑ میں اپنی دلچسپی چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ تاہم، کھنہ کو اپنے کیلیفورنیا ضلع سے باہر بہت کم جانا جاتا ہے۔


ڈیموکریٹس کے پاس متعدد مقبول گورنر ہیں جو بائیڈن کو ایک اور مدت کو مسترد کرنے پر ایک موثر مہم چلا سکتے ہیں۔


مشی گن کی سوئنگ سٹیٹ میں، گورنمنٹ گریچن وائٹمر نے ریپبلکنز کی جانب سے پرجوش چیلنج کا سامنا کرنے کے باوجود اس ماہ 10 فیصد سے زیادہ پوائنٹس سے دوبارہ انتخاب جیت لیا۔ وائٹمر کے مزدور یونینوں سے بھی مضبوط تعلقات ہیں، جو ایک بنیادی گروپ ہے جو 2020 کی ڈیموکریٹک نامزدگی کے لیے بائیڈن کی مہم میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔


وسط مغرب سے باہر، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم کو وائٹ ہاؤس کے ممکنہ امیدوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ نیوزوم، وائٹمر کی طرح، صرف دوسری مدت کے لیے بڑے مارجن سے دوبارہ منتخب ہوئے۔


دوسری طرف چین کے صدر شی جن پنگ نے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات میں "ایک نئے دور" کی تعریف کرتے ہوئے رواں ماہ سعودی عرب کے ساتھ کئی اسٹریٹجک معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔


دنیا کے سب سے بڑے توانائی کے صارف چین کے رہنما کا تیل سے مالا مال ملک کی جانب سے شاندار استقبال کیا گیا۔


شی جن پنگ کی گاڑی کو سعودی رائل گارڈ کے ارکان نے عربی گھوڑوں پر سوار اور چینی اور سعودی پرچم اٹھائے ہوئے بادشاہ کے محل تک پہنچایا۔


شی نے سعودی عرب کے حقیقی حکمران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی۔


دونوں نے پویلین میں قدم رکھا جب ایک فوجی بینڈ نے ملکوں کے قومی ترانے بجائے۔


یہ ڈسپلے جولائی میں امریکی صدر جو بائیڈن کے کم اہم استقبال کے بالکل برعکس تھا۔


امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات مملکت کی توانائی کی پالیسی اور 2018 میں امریکہ میں مقیم واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے ہیں، جس نے جولائی کے عجیب و غریب دورے پر پردہ ڈال دیا۔


جمعرات کو، شاہ سلمان نے شی کے ساتھ ایک "جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے" پر دستخط کیے جس میں، سرکاری میڈیا کے مطابق، سرمایہ کاری کے لیے 34 سودے شامل تھے۔


سودوں میں سے ایک چینی ٹیک کمپنی ہواوے شامل ہے جس میں کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور سعودی شہروں میں ہائی ٹیک کمپلیکس بنانا شامل ہے۔


خلیجی خطے میں Huawei کے بڑھتے ہوئے قدم کے درمیان چینی فرم کی ٹیکنالوجی کے استعمال پر امریکی سلامتی کے خدشات کے باوجود یہ معاہدہ طے پایا۔


سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے کہا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے درمیان فریقوں کا انتخاب نہیں کریں گے اور قومی اقتصادی اور سلامتی کے مفادات کے لیے شراکت داروں کو متنوع بنا رہے ہیں۔


ایک بوڑھے ہوتے بائیڈن کے پاس اب دنیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے منشور کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی پالیسیوں کو مضبوط کرنے کے علاوہ کوئی ترجیح نہیں۔ وہ ایک بوڑھے مدبر کی طرح اپنی طاقت اپنے ملک کو اندرونی طور پر طاقتور بنانے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، میڈ ان امریکہ کے سلوگن کو اختیار کرتے ہوئے مینوفیکچرنگ کو مضبوط بنانے پر خرچ کر رہے ہیں تاکہ امریکی اندرون ملک روزگار ڈھونڈ سکیں۔ بیرون ملک ان کی توجہ چین کی بڑھتی ہوئی معیشت کا مقابلہ کرنے پر مرکوز ہے اور وہ جنگ و جدل کی بجائے ڈپلومیسی سے کام لیتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کی توجہ اپنی معیشت کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہے تاکہ اپنی پارٹی کو اگلے الیکشن میں ریپلکنز کے سامنے ایک مضبوط حیثیت دے سکیں۔

Monday, December 26, 2022

پاکستان چل رہا ہے


ا

اظہر عباس سابق وزیر اعظم کے شہر میانوالی ہی کے ایک نوازے گئے شاعر و ادیب کے ایک حالیہ کالم "پاکستان جامد ہے" پر نظر پڑی تو سوچا کہ انہیں بتائیں کہ پاکستان جامد نہیں پاکستان چل رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان جو وفاقی حکومت کو قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کے لیے دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی دھمکی دے رہے تھے اب سوچ رہے ہیں کہ اگلی چال کیا چلیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ان کی جماعت کے زیر کنٹرول قانون ساز اسمبلیوں کی تحلیل انتخابات سے تقریباً ایک سال قبل 23 دسمبر کو ہونی تھی لیکن ایک بڑے سیاسی اقدام میں، گورنر پنجاب نے ان کی صوبائی مقننہ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد جمعہ کو طلوع آفتاب سے پہلے ہی پرویز الٰہی کو ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹا دیا۔ یہ اقدام سابق وزیر اعظم عمران خان کے لیے ایک دھچکا تھا، جن کی تحریک انصاف پارٹی پنجاب اسمبلی میں الٰہی کے ساتھ اتحاد کر رہی تھی۔ ایک حکومتی بیان میں کہا گیا کہ پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمان نے بدھ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں پرویز الٰہی کی ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے صوبائی کابینہ کو بھی برطرف کر دیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں صوبے کے قانون سازوں کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ تازہ ترین پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب خان نے کہا کہ ان کی پارٹی جمعہ کو پاکستان کی دو علاقائی اور قومی اسمبلیوں کو چھوڑ رہی ہے تاکہ وزیراعظم شہباز شریف کی وفاقی حکومت پر قبل از وقت انتخابات پر رضامندی کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ پارلیمان کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد اب پارلیمانی انتخابات 2023 میں ہونے والے ہیں۔ ایک سابق کرکٹ سٹار سے سیاست دان بنے سابقہ وزیر اعظم کو گزشتہ اپریل میں پارلیمنٹ کے ذریعے عدم اعتماد کے ووٹ میں معزول کر دیا گیا تھا۔ وہ آجکل قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں توقع کے عین مطابق پرویز الٰہی نے اپنی برطرفی کو عدالت میں چیلنج کیا اور اگلی سماعت تک گورنر کے برطرفی کے آرڈر کو معطل کرانے میں کامیاب رہے اور عدالت میں بیان حلفی بھی داخل کیا کہ وہ اگلی سماعت تک اسمبلی کو نہیں توڑیں گے۔ لیکن کے پی کے اسمبلی توڑنے میں کیا امر مانع رہا یہ نا سابق وزیر اعظم بتانے کو تیار ہیں نا ان کے ملک کو جامد ہونے کا دعوی کرنے والے انعام یافتہ شاعر و ادیب۔ میرا گمان ہے کہ وفاقی حکومت، پرویز الٰہی، سبطین خان، دیگر چنداور بھی، در پردہ طاقتورحلقوں سے مُک مُکا کرچکے ہیں۔ چنانچہ اسمبلیاں بھی تحلیل ہوتی نظر نہیں آتیں۔ امکان یہ بھی ہے کہ عمران خان خود بھی FACE SAVING اور قومی اسمبلی میں واپسی کیلئے شاید آن بورڈ ہوں۔ عمران خان کی سیاسی زندگی کا مطالعہ کریں تو آپ نوٹ کریں گے کہ خان سیاسی ردی کا حصہ بننے کو تھا کہ کاریگروں نے ڈینٹنگ، پینٹنگ، اوورہالنگ کر کے لانچ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ 2014 میں "سیاست نہیں، ریاست بچاؤ" سے شروع سفر 2018 کے RTS الیکشن کا اختتام عمران حکومت پر منتج ہوا جو آج کے حالات کی بنیاد بنا۔ یقینا عمران خان مستفید ہوئے کہ ایک ایسے سیاسی چہرہ اور مہرہ کی اس وقت اشد ضرورت تھی۔ کیا اتنی محنت سے تراشیدہ بت کو ایسے ہی توڑ پھوڑ دیا جائے گا ؟ جواب ہے "نہیں"۔ بلکہ اسے مزید تراش خراش اور کٹ ٹو سائز کرنے کے بعد برے وقتوں کے ایک سرمائے کے طور پر زندہ رکھا جائے گا۔ واشنگٹن میں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک کی فیلو اور "پاکستان انڈر سیج: انتہا پسندی"، کی مصنفہ مدیحہ افضل کہتی ہیں، "گزشتہ برسوں میں پاکستان کی سیاست میں ہونے والی تمام شدید سیاست اور عدم استحکام کے لیے، پاکستان میں اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں ہوا۔" خان کے اقدامات سے پاکستان کو ڈوبنے کا خطرہ ہے، جو پہلے ہی مالیاتی بحران سے نبردآزما ہے، اس وقت سیاسی بحران میں بھی گھرا ہوا ہے۔ اگرچہ عمران خان اب عہدے پر نہیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان کی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی پاکستان کے چار میں سے دو صوبوں پر قابض ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی کچھ ڈور کھینچ رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے وزیر اعظم بن گئے ہیں جنہوں نے عدم اعتماد کا پارلیمانی ووٹ کھو دیا ہے اکبر ایس بابر، مسٹر خان کی پی ٹی آئی پارٹی کے ایک بانی رکن، جو اب ان سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں، قبل از وقت انتخابات کے اپنے بار بار کیے جانے والے مطالبات پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ محض اقتدار کے بھوکے ہیں اور ایسے وقت میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں جب ملک کو ضرورت ہے۔ "اس نے واقعی پاکستان میں ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جو کسی بھی سمت جا سکتی ہے۔ وہ معاشرے پر جھگڑے کو مجبور کر رہا ہے۔ یہ سیاست دان کا کردار نہیں ہے۔ یہ ایک قوم بنانے والے کا کردار نہیں ہے۔" خان کے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں کارناموں کی فہرست بہت پتلی ہے۔ ملکی معیشت مالی بحران میں ڈوب گئی۔ ایک متفقہ نصاب بنانے کے لیے تعلیمی نظام میں ان کی اصلاحات میں تاخیر ہوئی۔ وہ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو انکم ٹیکس ادا کرنے کے لیے حاصل کرنے میں کامیاب رہے، لیکن وہ دولت مند پاکستانیوں کو زیادہ حصہ ادا کرنے کے لیے حاصل کرنے سے قاصر رہے۔ معیشت کا جو حال یہ کر کے گئے ہیں اس کی بدولت اسٹینڈرڈ اینڈ پور کے جمعرات کے ایک بیان کے مطابق، قوم کے کریڈٹ سکور کو B- سے B- سے CCC+ پر ایک نشان سے کم کر دیا گیا، جس سے توقع ہے کہ پاکستان کے گرتے ہوئے غیر ملکی ذخائر آنے والے سال میں دباؤ میں رہیں گے، بالکل اسی طرح جیسے سیاسی خطرہ برقرار رہتا ہے۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پووور(S&P) کے تجزیہ کاروں اینڈریو ووڈ اور YeeFarn Phua نے لکھا، "پاکستان کے پہلے سے کم زرمبادلہ کے ذخائر تیل کی قیمتوں میں مادی گراوٹ یا غیر ملکی امداد میں اضافے کو چھوڑ کر، 2023 کے دوران دباؤ میں رہیں گے۔" ایک دوسری مالیاتی فرم Fitch Ratings اور Moody's Investors Service پہلے ہی ملک کے 7.8 بلین ڈالر کے غیر ملکی بانڈز کو سرمایہ کاری کے درجے سے سات درجے نیچے درجہ بندی کر رہے ہیں، جو S&P کی CCC+ درجہ بندی کے برابر ہے، ایل سلواڈور اور یوکرین کے برابر۔ S&P نے جمعرات کو پاکستان کے لیے منفی سے مستحکم ہونے کے لیے آؤٹ لک کو بھی بڑھایا۔ ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے جس میں صرف ایک ماہ کی درآمدات، ڈالر کی کمی اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ قرض کے پروگرام میں تاخیر کو پورا کرنے کے لیے کافی ذخائر ہیں۔ سرمایہ کار اب بھی اپنے غیر ملکی قرضوں کی ذمہ داریوں کو برقرار رکھنے کی قوم کی صلاحیت کے بارے میں فکر مند ہیں، اس مہینے $ 1 بلین بانڈ کی ادائیگی کے باوجود طویل مدتی ڈالر کے بانڈز پریشان کن سطح پر تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں موسم گرما میں بے مثال سیلاب نے 1,700 سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا، ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا اور ملک کی ترقی کو نصف کر دیا۔ سیلاب نے ملک کی معیشت کو تقریباً 32 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس دوران، موجودہ انتظامیہ جو اگلے سال اگست یا اس سے پہلے ختم ہونے والی ہے، یعنی اس کے پاس اقتصادی اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے محدود وقت ہے۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پوور (S&P) کے تجزیہ کاروں نے لکھا، "ہم توقع کرتے ہیں کہ آنے والے سہ ماہیوں میں سیاسی غیر یقینی صورتحال مزید بلند رہے گی، اپوزیشن کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کے لیے مسلسل دباؤ کے ساتھ" ان حالات میں امتیاز عالم اپنے حالیہ کالم کے آخر میں دونوں فریقین کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "ایک طرف آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط پہ بضد ہے اور ملک کے پاس صرف چھ ارب ڈالرز کا زرمبادلہ ہے اور کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے اور فری مارکیٹ کے کالے دھن کے ہاتھوں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں گرتا چلا جارہا ہے اور دوسری طرف دہشت گردوں کی بھیانک کارروائیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ ایسے میں ملک فوری انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ سیاسی متحاربین اگست/ستمبر میں عام انتخابات پہ اتفاق پیدا کر کے ملک کو معاشی سانس لینے کا موقع فراہم کریں، انتخابات اب نہیں تو اکتوبر تک ہو ہی جائیں گے اور معاشی بحران اگلی حکومت کو بھی ہڑپ کرنے پر تیار ہوگا۔"

Saturday, December 10, 2022

سچ کی تلاش

 




اس بار ارادہ تو یہی کیا تھا کہ راوی اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی پر کچھ لکھوں جس کے تحت زمینوں پر قبضے دھڑا دھڑ جاری ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک اس پراجیکٹ کا ماحولیاتی سرٹیفیکیٹ ہی نہیں لیا گیا۔ پبلک ہئیرنگ جو کہ کسی بھی پراجیکٹ کی ماحولیاتی سرٹیفیکیشن کیلئے لازمی ہوتی ہے اب تک نہیں ہوئی اور جب سے پنجاب اسمبلی توڑنے کے اعلانات ہوئے ہیں، اس سرٹیفیکیشن کیلئے محکمے پر سرٹیفیکٹ جاری کرنے کا دباو ہے اور اب تو سنا جا رہا ہے کہ رولز میں کچھ ترامیم تک کرنے کا کام جاری ہے۔ اربوں/ کھربوں کے اس پراجیکٹ کیلئے اتنی جلدی کیوں ہے ؟


پھر سوچا کہ کچھ پنجاب کے محکمہ تعلیم کے وزیر کی کارستانیوں پر کچھ لکھا جائے جنہوں نے ایک این جی او کی یہ تجویز کہ اس کی مجموعی فنڈنگ کا کچھ حصہ سیلاب زدگان کیلئے مختص کر دیا جائے نا صرف بے دردی سے رد کر دی بلکہ کال سنٹر قائم کرنے پر زیادہ فوکس کیا جو ان کی سوشل میڈیا ٹیم کیلئے ایسے ہی استعمال ہوں جیسے کے پی کے میں ہو رہے ہیں۔ 


لیکن پھر میں نے فیصلہ کیا کہ قارئین کو لیکر سچ کی تلاش میں نکلا جائے۔


یہ کائنات جس کا مادی آغاز ایک نقطے سے ہوا تھا ہر لمحہ ارتقاء کی جانب گامزن ہے۔ یہ مسلسل پھیل رہی ہے آگے بڑھ رہی ہے ہر پل نئے ستارے وجود میں آرہے ہیں اور جن ستاروں  کا سفر رک جاتا ہے وہ ختم ہو جاتے ہیں اور یہ ہی فطرت ہے کہ انسانی شعور مسلسل آگے بڑھتا رہے کیونکہ اس کی ہر روز ایک نئی شان ہے۔


اللہ کے قانون کو اسی بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون اپنی جہالت پر قائم رہنے پر مصر ہے اور کون خودساختہ روایات کی تقلید میں جمود کا شکار ہے۔ کیونکہ ہر ساعت نہ رکنے والا وقت ان کو  ان کی جہالت سمیت اپنے پاؤں تلے کچلتے ہوئے آگے نکل رہا ہے۔ وقت کو کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ ہر پل آگے نکل رہا ہے اور اس کا ساتھ نہ دینے والے ماضی کا قصہ بن کر مٹ جانے والے ہیں


شعوری  ارتقاء ہی وہ واحد قوت ہے جو انسان کو وقت سے بھی آگے لے جاتی ہے اور اسی کو زندگی کہتے ہیں 


افسوس ہم نے سائنس میں تحقیق کرنے والوں، انسانی ارتقاء کے بارے میں تحقیق کرنے والوں اور اس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والوں پر غیر سائینسی ذہن کو مقدم سمجھا۔ اور ہم نے قرآن کریم جو انسانیت کیلئے ھدایت کی کتاب تھی کو اور قرآن مجید میں غور و فکر کو چھوڑ دیا۔


اسی طرح ہم نے اپنی پسند کی تاریخ مرتب کی اور اس میں اپنی پسند کے قصے شامل کر کے اسے قومی تاریخ کا نام دے دیا۔ پاکستان کے ایک سابقہ بیورو کریٹ راؤ منظر حیات لکھتے ہیں کہ:


"ہم نے درسی کتب کا آغاز ہی محمد بن قاسم کے دیبل پر حملے سے کیا ہے۔ مگر محمد بن قاسم سے پہلے بھی برصغیر کی ایک شاندار تاریخ تھی جس کا ذکر کرنا ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ یا شاید مقامی تاریخ کو بھی ہم ایرانی‘ تورانی اور عرب سے درآمد ی کے گئے نظریات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔" "اس امر کا بھی اقرار نہیں کرتے کہ تاریخ کا بلکہ کسی بھی علم کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ "


ہم نے تاریخ کو سائینسی انداز میں پڑھنے کی بجائے قصہ کہانیوں کی کتابوں کی طرح پڑھنے کے عادی ہیں تاریخ سے سبق سیکھنا تو درکنار تاریخ کو پڑھنے کی نسبت گوگل کر کے اپنے پسند کے حقائق دریافت کرنا ہی اپنے علم کی معراج سمجھتے ہیں۔ 


آئیے آپ کو تاریخ سے ایک نئی اور دلچسپ حقیقت بتاتے ہیں اور پھر آپ کو موقع دیں گے کہ آپ اپنی ملکی تاریخ میں ایسے کرداروں کو دریافت کر سکیں:


معروف مؤرخ رین ہارڈ لوتھن نے ایک مروج اصطلاح ڈیماگوگ کی تعریف یہ کی ہے کہ "ایک سیاست دان جو تقریر کرنے میں مہارت رکھتا ہے، چاپلوسی اور ترغیب دینے والا؛ اہم مسائل پر بات کرنے میں ٹال مٹول کرنے والا؛ ہر ایک سے ہر چیز کا وعدہ کرنے والا؛ جذبات کی طرف راغب کرنے والا؛ اور نسلی اور مذہبی جذبات کو ہوا دینے والا۔ طبقاتی تعصبات - ایک ایسا آدمی جس کی اقتدار کی ہوس اصول کے بغیر اسے عوام کا مالک بننے کی طرف لے جاتی ہے۔ ڈیماگوگس قدیم ایتھنز سے جمہوریتوں میں نمودار ہوئے ہیں۔ وہ جمہوریت میں ایک بنیادی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں: چونکہ حتمی طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے، اس لیے عوام کے لیے یہ طاقت کسی ایسے شخص کو دینا ممکن ہے جو آبادی کے ایک بڑے طبقے کے سب سے نچلے عام فرقے کو اپیل کرتا ہے۔ Demagogues عام طور پر ایک بحران سے نمٹنے کے لیے فوری، زبردستی کارروائی کی وکالت کرتے ہیں جبکہ معتدل اور سوچنے والے مخالفین پر کمزوری یا بے وفائی/ غداری کا الزام لگاتے ہیں۔ اعلیٰ ایگزیکٹو آفس کے لیے منتخب ہونے والے بہت سے ڈیماگوگس نے ایگزیکٹو پاور پر آئینی حدود کو تہس نہس کر دیا ہے اور اپنی جمہوریت کو آمریت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، اور انہیں بیشتر اوقات اس میں کامیابی بھی ہوئی ہے۔


دنیا میں نظر دوڑائیں تو امریکہ میں ٹرمپ اور بھارت میں مودی اس ڈیماگوگ کی اصطلاح پر پورا اترتے نظر آتے ہیں۔ 


غور کیجئے ہمارا ڈیماگوگ کون ہے ؟

Friday, December 2, 2022

اندھی پیروی سے گریز کریں




ہم جب پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل کو خیر آباد کہہ کر کرشن نگر شفٹ ہوئے تو ہیرن روڈ پر بسیرا کیا۔ ہمارے ہم نشین اس وقت زیادہ تر سی اے کے اسٹوڈینٹس تھے جو مختلف چارٹرڈ اکاونٹینٹس فرمز میں اپنے آرٹیکلز مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ دن رات پڑھائی میں مشغول رہا کرتے (اب ماشاءاللہ سب اپنے شعبے کے نامور اکاؤنٹس کے ماہرین)۔ ان میں ہم چند آرٹس کے طالب علم، قانون اور انگلش لٹریچر کی کلاسز لینے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ کرشن نگر اس دور میں فن، ثقافت اور فلم کے لوگوں کی بستی تھی۔ ہماری گلی سے اگلی گلی میں فلم اسٹار یوسف خان رہا کرتے جو کبھی کبھی اپنے چھت پر کبوتر اڑاتے نظر آتے اور مین بازار سے ملحقہ ایک گلی میں گلوکار شوکت علی مقیم تھے۔ جنہیں ملنے اداکار محمد علی آتے تو بازار میں ہلچل ہو جاتی۔  ہم ان دنوں اپنے سی اے کے دوستوں کے دیکھا دیکھی اکاؤنٹس پڑھنے کے درپے ہوئے اور ایم اے انگلش لٹریچر کے ساتھ ساتھ اے سی ایم اے کی کلاسز میں ایڈمشن لے بیٹھے۔ پہلا پارٹ تو رو دھو کے اور اپنے ہم نشینوں کی گائڈینس کی بدولت کسی نا کسی طرح کر لیا لیکن پارٹ ٹو تک پہنچتے پہنچتے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اکاؤنٹس اور اکنامکس پڑھنا ہمارے بس میں نہیں اور ہمیں پوری توجہ اپنے انگلش لٹریچر کے ماسٹرز کی طرف ہی مبذول رکھنی پڑے گی۔ لیکن اکاؤنٹس کی کلاسز پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ پڑھنے کی عادت پختہ ہو گئی جو ہم نے اس دور کی آخری ڈگری لینے کے بعد ہی چھوڑی۔


سب آپ بیتی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ وقتی انسپائریشن سے آپ کسی فیلڈ میں چل تو پڑتے ہیں لیکن اس میں کامیابی آپ کے بس میں نہیں ہوتی کیونکہ ہر انسان کا رجحان اور اہلیت کسی بھی میدان میں اس کی کامیابی کا پیمانہ طے کرتے ہیں۔


ہر ذی روح ایک وسیع تر جامع سماجی گروپ کا حصہ ہونے کے باوجود بالآخر صرف اپنے لیے ذمہ دار ہے۔


کامیابی کے رازوں میں سے ایک راز یہ ہے کہ دوسروں کی اندھی تقلید کرنے سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ ایسی بے فکری کی پیروی ہماری انسانی فطرت کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔


ہمیں دوسروں کے ان اعمال کو نقل کرنا شروع نہیں کرنا چاہئے جن کے ہم اہل نہیں ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر طرح سے دوسروں کی نقل کرنے کا رجحان ناکامی کا باعث بنتا ہے۔


اگر کچھ لوگوں کی شخصیت میں کوئی کمی رہ جاتی ہے اور اگر انہیں کبھی کبھی ناکامی اور محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنی قابلیت کی حد کو ذہن میں رکھے بغیر کچھ کرنے کی جستجو کرنے لگتے ہیں جبکہ انہیں کسی اور راستے پر چل کر اپنی منزل تک پہنچنا چاہیے تھا۔


مغرور ہونا، دوسروں سے حسد کرنا، حقائق اور حالات سے بے خبر رہنا وہ عیب ہیں، جو انسان کو اندھا بنا کر دوسروں کی نقل کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ شروع سے ہی کچھ نہیں جانتے کہ آخر میں کیا ہونے والا ہے۔


حضرت علی نے لوگوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: "لوگ یا تو عالم ہیں یا طالب علم۔ تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ہر وقت ہر پکار کا جواب دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ وہ مچھروں کی طرح ہیں جو ہوا کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔ وہ بغیر کسی خواہش کے ہوا کی سمت اڑتے ہیں۔‘‘


اس قسم کے لوگ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کی بجائے اپنی ذہانت پر پردہ ڈال کر اسے ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اڑنے کے لیے دوسروں کے پروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ اس دنیائے تخلیق میں کوئی دو افراد ہر میدان میں بالکل یکساں صلاحیتوں کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے۔ کوئی بھی شخص ہر لحاظ سے کسی دوسرے انسان کے برابر نہیں ہو سکتا، خواہ وہ شکل وصورت کا معاملہ ہو یا پسند و ناپسند کا۔ ایک آدمی کی ہتھیلیوں پر لکیریں ہمیشہ دوسرے لوگوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ جب حالات ایسے ہوں تو ہماری طرف سے اپنی سوچ کو دوسروں کے خیالات سے جوڑنا اور خدا کی عطا کردہ انفرادی صلاحیتوں، صلاحیتوں اور مہارتوں سے فائدہ نہ اٹھانا انتہائی غیر دانشمندانہ ہے۔

عظیم لوگ ہمیشہ اپنے نئے راستے پر چلتے ہیں۔ وہ ان راستوں پر چل پڑے ہیں جن پر دوسروں نے پہلے نہیں چلا۔ انہوں نے انسانیت کو نیا تحفہ دیا ہے۔ ایسے عظیم لوگ زندگی بھر جدت پسند رہے ہیں، نئے خیالات، علوم اور صنعتوں کو جنم دیتے ہیں۔


سائنس کے میدان میں ڈیکارٹ کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ ایک دن اس نے ہر سائنس، خاص طور پر فلسفہ میں اپنے تمام پہلے کے علم سے اپنے ذہن کو صاف کر دیا، اور اپنے پہلے کے تمام خیالات اور نظریات کو بھی ترک کر دیا۔ اس طرح اس نے تمام یقین کو بھی شک میں بدل دیا۔ اس نے ہر چیز پر اتنا شک کیا کہ اسے شک ہوا کہ کیا وہ خود موجود ہے؟


اس بنیاد پر وہ فلسفہ کی تمام شاخوں میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوا۔ اگر وہ بھی دوسروں کی طرح علمی فلسفے کی پیروی کرتا تو وہ یہ کامیابی حاصل نہ کرتا۔


عظیم لوگ ہمیشہ آزادانہ سوچتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے خیالات کی غلامی سے آزادی ہی کامیابی کی سنہری کنجی ہے۔ ان کی رائے میں ذاتی معاملہ ہو یا سماجی معاملہ، اندھی تقلید خودکشی ہے۔


جس طرح ایک فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا راستہ خود تراشے اور اپنی شخصیت کو نکھارے اسی طرح ایک کامیاب معاشرے کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نئی شاہراہوں پر گامزن ہو 


تقلید کرنے والوں پر مشتمل ایک کمیونٹی جو آزادانہ سوچنے کے بجائے ہمیشہ دوسروں پر بھروسہ کرتی ہے وہ بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ہے جس میں تمام جانور آنکھیں بند کرکے پہلی بھیڑ کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر آپ پہلے والی بھیڑ سے پہلے چھڑی کی رکاوٹ ڈالتے ہیں تاکہ وہ اس پر کود جائے تو تمام جانور اس کی پیروی کریں گے۔ پھر اگر آپ اس رکاوٹ کو ہٹا دیں تو بھی وہ اس مقام پر کودتے رہیں گے۔

Saturday, November 26, 2022

عہدے اور اقتدار

 عہدے اور اقتدار

اظہر عباس

 

دنیا بھر میں اہم حکومتی عہدوں پر تعیناتی عوامی سطح پر زیر بحث آتی ہے۔ ہمارے ہاں البتہ یہ ضرورت سے زیادہ زیر بحث آتی ہے۔ اس کی وجہ سیاست میں ہماری حد سےزیادہ بڑی ہوئی دلچسپی ہے۔ اِس دنیا میں عہدے کتنے  طاقتور کیوں نہ ہوں- قیامت کے دن یہ سب سے بڑی جواب دہی کا سبب بنیں گے۔


اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو شخص دس یا اس سے زیادہ لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار بنتا ہے وہ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے جنہیں اس کی نیکی ہی کھول سکے گی ورنہ اس کے گناہ اسے ہلاک کر دیں گے۔


ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ خاص طور بادشاہوں- جباروں اور متکبرین کا نام  لے کر ان کو عالم غضب میں مخاطب کریں گے۔ اس کے بعد ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو ان عہدوں کی جواب دہی کا اندازہ ہوجائے تو ان کے دل سے ہر عہدے کی خواہش ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں خدا سامنے نہیں آتا- عہدہ سامنے ہوتا ہے۔ عہدے کی طاقت سامنے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ انسان خود کو جھوٹے بہانوں سے بھی بہلاتا ہے کہ میرے پیش نظر تو خدمت کرنا ہے۔ اگر کسی ظلم، زیادتی کا ارتکاب ہوا بھی تو سیاست میں تو یہ چلتا ہے۔ جھوٹ- سازش- دھوکہ دہی- وعدہ خلافی- حلف کی خلاف ورزی- کے بغیر سے سیاست ہو نہیں سکتی۔ ایسے شخص کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اقتدار نہیں ہلاکت کی کرسی پر بیٹھ رہا ہے۔


اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر نجات تو صرف وہی حکمران پائیں گے جنھوں نے حضرت یوسف- حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی طرح عدل اور خوف خدا کو اپنی زندگی بنائے رکھا یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر اور اپنے گھر والوں کو بھوکا رکھ کر غریب صحابہ کا پیٹ بھرا۔ یا پھر خلفائے راشدین کی طرح  عدل کے آخری معیار قائم کرکے بھی خدا کی جواب دہی کے خوف سے لرزتے رہے۔


مدینہ کی ریاست کو اپنا نصب العین بنانے والوں کیلئے پاکستان کی مختصر تاریخ جس کا سبق یہی ہے کہ کوئی اس طرف دھیان نہیں دیتا کا ایک ورق آپ کی خدمت میں پیش ہے۔


جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں ان کے دو بیٹے گوہر ایوب اور اختر ایوب جو یکے بعد دیگرے ان کے اے ڈی سی بھی رہے، انہوں نے فوج کی نوکری چھوڑ کر اپنے والد کی بہائی صنعتی انقلا ب کی گنگا میں ڈبکیاں لگانے کا فیصلہ کیا اور خوب دولت سمیٹی ۔گوہر ایوب نے اپنے سسر جنرل (ر)حبیب اللہ خٹک سے مل کر امریکی فرم جنرل موٹرز خرید کر اس کا نام گندھارا موٹرز رکھا اور دیکھتے دیکھتے پاکستان کی بڑی کاروباری شخصیات میں شمار ہونے لگے۔یہ وہ غلطی تھی جو ایوب خان کے زوال کا سبب بنی اور اسی نسبت سے ان کے فرزند گوہر ایوب کوان کا گوہر زوال کہا گیا ۔ایوب خان کے بڑے صاحبزادے گوہر ایوب کی والدہ نے ان کا نام حبیب اللہ رکھا لیکن والدنے ان کا نام گوہر ایوب تجویز کیا۔ اسے حسنِ اتفاق کہئے یا کچھ اور کہ گوہر ایوب جن کا ابتدائی نام حبیب اللہ تھا، ان کے سسر کا نام بھی حبیب اللہ ہے۔ م۔ب۔ خالد اپنی کتاب ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ کے صفحہ نمبر 139 پر ’پسرانِ ایوب‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان ایوانِ صدر میں منتقل ہوئے تو بَری فوج کی طرف سے اے ڈی سی ان کے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب تھے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کیپٹن گوہر ایوب نے پاک فوج سے ریلیز لی اور نجی کاروبار میں مشغول ہوگئے۔ ان کی جگہ ایوب خان کے دوسرے صاحبزادے کیپٹن اختر ایوب خان، صدرِ پاکستان کے اے ڈی سی بن کر تشریف لے آئے۔ تھوڑے عرصے بعد انہوں نے بھی پاک فوج سے ریلیز لے لی اور کاروبار میں مصروف ہوگئے۔ ایوب خان کے یہی 2 لڑکے فوج میں تھے جنہوں نے یکے بعد دیگرے فوجی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔جس شخص کا پشتوں سے پیشہ آبا سپہ گری رہا ہو، جس نے مملکتِ خداداد پاکستان کے پہلے پاکستانی سپہ سالار ہونے کا بلند ترین اعزاز حاصل کیا ہو، جس نے اپنے خون پسینے سے بَری فوج جیسے مقدس ادارے کی آبیاری کی ہو اور جو صرف اپنے فوجی عہدے کی بدولت صدرِ پاکستان کے بلند ترین مقام تک پہنچا ہو، وہ اپنے لڑکوں کو عین عالمِ شباب میں جب وہ تقریباً 25 یا 26 برس کے ہوں اور صرف 4، 5 سال کی سروس کی ہو فوج سے ریلیز کرکے نجی کاروبار میں لگادے، یہ ناقابل فہم ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پریزیڈنٹ ایوب خان نے عہدِ صدارت میں یا باقی ماندہ زندگی میں کبھی نہ دیا۔‘


ایوب خان کے زوال کے بیشمار اسباب تھے مگر معروف بیوروکریٹ روئیداد خان اپنی کتاب ’’Pakistan a dream gone sour‘‘کے صفحہ نمبر 44 پر لکھتے ہیں کہ گندھارا موٹرز سے بڑھ کر کسی چیز نے ایوب خان کی شہرت اور وقار کو داغدار نہیں کیا۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں، اپوزیشن کے جلسوں میں، گلیوں اور چوراہوں میں ہونے والی سرگوشیوں میں ہر طرف ایوب خان کے گوہرسے متعلق گفتگو ہورہی تھی۔‘


ایوب راج کے دوران ان کے فرزند گوہر ایوب کی گندھارا موٹرز کو کس طرح سے سرکاری ٹھیکے دیکر نوازا جاتا رہا، اس بات کا اعتراف خود جنرل ایوب خان کرتے ہیں ۔ان کی کتاب ’’Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan, 1966-1972‘‘ کے صفحہ نمبر 121 پر لکھا گیا ہے کہ اندرون ملک گاڑیوں اور ٹریکٹروں کی مینوفیکچرنگ شروع کرنے کے لئے ہمیں کم از کم زیادہ سے زیادہ گاڑیوں کے انجن تیار کرنے کا آغاز کردینا چاہئے، گندھارا موٹرز جہاں میرا بیٹا کام کرتا ہے، اسے نوازنے کے لئے یہ فیصلہ مجھ پر مسلط کیا گیا۔ درحقیقت یہ فیصلہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے قائم کی گئی ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا۔‘


اپنی حالیہ پراگندہ ریاست کی طرف دیکھیں تو ریاست مدینہ کے دعوے دار ابھی تک توشہ خانے کی کہانیوں کا جواب نہیں دے سکے اور بتدریج نااہلی و مقدمہ بازی کا شکار ہیں ان کیلئے اصلی ریاست مدینہ کی مثال مشعل راہ ہونی چاہئیے تھی کہ حضرت ابوبکر نے اپنے کاروبار اور ہر بنیادی ضرورت کو پس پشت ڈال کر رعایا کی خدمت کی۔ حضرت عمر مثالی عدل قائم کرکے بھی فرات کے کنارے ایک جانور کی موت پر خدا سے ڈرتے تھے۔ حضرت عثمان  نے ساری طاقت کے باجود جان دے دی- مگر آگے بڑھ کر کسی پر تلوار نہیں چلوائی۔ حضرت علی نے دولت مند ترین ریاست کا خلیفہ ہونے کے باجود فقر کو اختیار کیا اور حصول انصاف کے لیے عدالت کے سامنے عام لوگوں کی طرح پیش ہوئے۔


حکمرانوں کو بہرحال خدا کا سامنا کرنا ہوگا۔


وہ خدا جو ہر چیز کا مالک اور بادشاہ ہے۔ جس کے علم میں دلوں کے خیالات- تنہائی کے معاملات- اور ظلم و ناانصافی- سارے واقعات رہتے ہیں۔ اس روز کوئی حکمران خدا کے سامنے اپنے ظلم و زیادتی، جھوٹ و فریب، سازش و دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور حلف کی خلاف ورزی کا کوئی عذر پیش نہیں کرسکے گا۔ اس روز خدا ہر ظلم اور فریب کا حساب لے گا- اور جب وہ حساب لے گا تو حکمران خواہش کریں گے کہ کاش ان کی ماں  نے ان کو جنا ہی نہیں ہوتا۔ کاش اقتدار ملنے سے پہلے ہی انھیں موت آچکی ہوتی۔ کاش خدا کے حضور پیش ہونے کے بجائے ان کا خاتمہ مٹی کی شکل میں ہوجاتا ۔ یہ ہے وہ المناک  انجام جو آج کے ہر اقتدار کا مقدر ہے۔

Sunday, November 20, 2022

قوانین فطرت

 

اظہر عباس


مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر کے عین درمیان میں ٹاہلی کا ایک درخت ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں بجلی کا نام نشان بھی نہیں تھا۔ اس کی گھنی چھاوں کے نیچے دوپہریں گزرا کرتیں۔ اسی کے نیچے اماں رات کے جمے دودھ کو بلوہتیں۔ مکھن نکال کر لسی بناتیں۔ دوپہر کو ہم اسکول سے جلدی واپس آ جاتے تو تندور کی تازہ روٹی کو اسی مکھن سے تر کیا جاتا، اوپر مکھن کا ایک ٹکڑا رکھا جاتا اور لسی سے چسکیاں لے کر ہم مزے سے وہ تندوری روٹی کھاتے۔ ابو دفتر سے واپس آتے تو سالن تیار ہوتا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک اور شفٹ لگائی جاتی۔ گرمی کی دوپہریں برآمدے میں پنکھا جھلتے گزرتیں۔ یہ پنکھے خوبصورت جھالر لگے ہوتے۔ رات کو چھت پر چارپائیاں بچھائی جاتیں اور تمام اہل خانہ، پڑوسی و اہل محلہ چھتوں پر ہی ڈنر کیا کرتے، ایک دوسرے کا احوال، گپ شپ اسی ٹائم پہ ہوتی اور رات کو ستارے دیکھتے دیکھتے نیند آ جاتی۔ پھر بجلی آ گئی۔ ہم سب پہلے اپنے صحنوں اور پھر کمروں میں مقید ہو گئے۔ بجلی آئی تو اس سے منسلک آسائشیں - فرج، ٹی وی، پنکھے اور نا جانے کیا کیا لائی اور ہم نے ان بجلی سے چلنے والی مصنوعات سے آشنائی اختیار کر لی۔ لوگوں سے دوری اور مصنوعات سے قربت اختیار کر لی۔ دیکھا دیکھی میں ایسی ایسی اشیا اپنے گھروں میں سجا لیں جو ہماری ضرورت ہی نہیں تھیں۔ درخت کٹ گئے اور سیمنٹ کے فرش بن گئے۔ تندوری روٹی، مکھن، ستارے ہماری پہنچ سے دور ہو گئے اور ڈبل روٹی کے سلائس، فرج، اے سی ہمارا قرب حاصل کر گئے۔ لوگ ہم سے دور اور ٹی وی ہم سے قریب ہو گیا۔ جانداروں کے قرب کو چھوڑ کر ہم نے بے جان اشیا کو قریب کر لیا۔ یہ قدرت کا نظام ہے کہ جب ہم قدرتی اشیا، قدرت کے دئیے تحفے اور قدرتی نظام کو اپنے سے دور کر لیتے ہیں تو جواب میں قدرت ہمیں اس کے متضاد نظام سے متعارف کراتی ہے۔ اس لئے قدرت کو ہم چاہے بھول جائیں لیکن قوانین قدرت ہمیں یاد رکھتے ہیں۔ آئیے ہم آج کچھ قوانین قدرت سے آپ کو روشناس کراتے ہیں۔ ان تین فطری قوانین جو کڑوے لیکن سچے ہیں کو ہمیشہ یاد رکھا کیجئے:


1- پہلا قانون فطرت:


اگر کھیت میں" دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے.


اسی طرح اگر "دماغ" کو "اچھی فکر" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے" خیالات آتے ہیں اور وہ "شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔


2- دوسرا قانون فطرت:


جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ "وہی کچھ" بانٹتا ہے۔


خوش مزاج انسان "خوشیاں" بانٹتا ہے۔

غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔


عالم "علم" بانٹتا ہے۔

"پرامن انسان" امن و سکون" بانٹتا ہے۔


دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔


خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔


مثبت اور تعمیری انسان موٹیویشن دیتا ہے


اسی طرح سیاہ دل و متعصب انسان "تعصب و نفرت" بانٹتا ہے


3- تیسرا قانون فطرت:


آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لئے کہ کھانا ہضم نہ ہونے پر "بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں۔


مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں "ریاکاری" بڑھتی ہے۔


بات ہضم نہ ہونے پر "چغلی" اور "غیبت" بڑھتی ہے۔


تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں "غرور" میں اضافہ ہوتا ہے۔


مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے "دشمنی" بڑھتی ہے۔


غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں "مایوسی" بڑھتی ہے۔


اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں معاشرے میں "ظلم و بےراہروی" میں اضافہ ہوتا ہے۔


اپنی زندگی کو آسان بنائیں اور ایک "با مقصد" اور "با اخلاق" زندگی گزاریں، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔


اللہ پاک ہم سب کواچھی زندگی گزارنےکی توفیق عطا فرمائیں 


آمین

Monday, November 14, 2022

غذائی بحران اور ڈیفالٹ

 غذائی بحران اور ڈیفالٹ

اظہر عباس


سری لنکا وہ پہلا ملک تھا جس نے اس سال اپنے غیر ملکی بانڈ ہولڈرز کو ادائیگی کرنا بند کر دی، کھانے اور ایندھن کے غیرمعمولی اخراجات کے بوجھ نے احتجاج اور سیاسی افراتفری کو جنم دیا۔ روس نے جون میں پابندیوں کے جال میں پھنسنے کے بعد ڈیفالٹ ظاہر کرنے میں پیروی کی۔ اب، توجہ ایل سلواڈور، گھانا، مصر، تیونس اور پاکستان پر مرکوز ہو رہی ہے — وہ ممالک جنہیں بلومبرگ اکنامکس ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار سمجھتا ہے۔ چونکہ روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے قرض کی عدم ادائیگی سے بیمہ کرنے کی لاگت سب سے زیادہ ہو گئی ہے، عالمی بینک کی چیف اکانومسٹ کارمین رین ہارٹ اور طویل مدتی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے قرض کے ماہرین جیسے سابق ایلیٹ مینجمنٹ پورٹ فولیو کی طرف سے بھی تشویش پائی جا رہی ہے۔ مینیجر جے نیومین۔ "کم آمدنی والے ممالک کے ساتھ، قرض کے خطرات اور قرض کے بحران فرضی نہیں ہیں،" رین ہارٹ نے بلومبرگ ٹیلی ویژن پر کہا۔ "ہم پہلے ہی کافی حد تک وہاں موجود ہیں۔"


حالیہ دہائیوں میں بار بار بحرانوں نے جود کو ظاہر کیا ہے، ایک حکومت کے مالیاتی خاتمے سے ڈومینو اثر پیدا ہو سکتا ہے — جسے مارکیٹ کی زبان میں متعدی بیماری کہا جاتا ہے — کیونکہ بزدل تاجر اسی طرح کے معاشی مسائل والے ممالک سے پیسہ نکالتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، ان کے حادثے کو تیز کرتے ہیں۔ موجودہ لمحہ میں، ابھرتی ہوئی مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ، ایک خاص مماثلت رکھتا ہے۔ اس وقت کی طرح، فیڈرل ریزرو مہنگائی کو روکنے کی کوشش میں اچانک شرح سود میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے، جس سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے اپنے غیر ملکی بانڈز کی واپسی کرنا مشکل بنا رہا ہے۔ سب سے زیادہ دباؤ میں آنے والے چھوٹے ممالک ہوتے ہیں جن کا بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں میں مختصر ٹریک ریکارڈ ہوتا ہے۔ چین، بھارت، میکسیکو اور برازیل جیسی بڑی ترقی پذیر قومیں کافی مضبوط بیرونی بیلنس شیٹس اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کی وجہ سے یہ بوجھ سہہ جاتی ہیں۔ لیکن زیادہ کمزور ممالک میں، اس بارے میں بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ خوراک اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے منسلک پوری دنیا میں سیاسی بحران پیدا ہو رہا ہے، جس سے گھانا اور مصر جیسے انتہائی مقروض ممالک میں آنے والے بانڈ کی ادائیگیوں پر اثر پڑ رہا ہے، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس رقم کو اپنے شہریوں کی مدد کے لیے استعمال کرنا بہتر ہوگا۔ روس اور یوکرین جنگ کے باعث اشیاء کی قیمتوں پر دباؤ، عالمی سطح پر شرح سود میں اضافہ اور امریکی ڈالر اپنی مضبوطی پر زور دے رہا ہے، جس سے کچھ ممالک کے لیے بوجھ ناقابل برداشت ہونے کا امکان ہے۔ نوین میں بین الاقوامی اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے قرض کے سربراہ انوپم دامانی کے لیے، ترقی پذیر معیشتوں میں توانائی اور خوراک تک رسائی کو برقرار رکھنے کے بارے میں گہری تشویش ہے۔ "یہ وہ چیزیں ہیں جو سال کے دوسرے نصف میں گونجتی رہیں گی،" انہوں نے کہا۔ "سماجی عدم استحکام کے لحاظ سے بہت سارے علمی ادب اور تاریخی فوقیت ہے جو کھانے کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے، اور پھر یہ سیاسی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔" 


ان حالات میں پاکستان کا رخ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قوم کو پراپرٹی کے کاروبار کی طرف مائل کرنے والے لوگ اس قوم کے مجرم ہیں ۔ لوگ نئی فیکٹری لگانے کی بجائے اپنا سرمایہ کسی نئی رہائشی سکیم میں لگا کر آسان کمائی کے چکروں میں پڑ گئے ہیں ۔ یہ نت نئی رہائشی سکیمیں اس قوم کو ایک بدترین غذائی بحران کی طرف دھکیل رہی ہیں ۔


معروف ترین بین الاقوامی میگزین "دی اکنامسٹ" کا تازہ ترین شمارہ آنے والے بدترین قحط کی پیشن گوئی کر رہا ہے۔ اس میگزین کے سرورق پر گندم کے خوشوں میں گندم کے دانوں کی جگہ بھوک سے متوقع طور پر مرنے والے انسانوں کی کھوپڑیوں کو دکھایا گیا ہے۔ Zoom کرکے تصویر کو بڑا کریں اور دیکھیں۔ پاکستان اس وقت ان زرعی ممالک میں سر فہرست ہے جہاں زرعی زمین تیزی سے رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہو رہی ہے صرف لاہور کے اردگرد گذشتہ 5 سالوں میں دو لاکھ ٹن گندم پیدا کرنے والا زرعی رقبہ رہائشی کالونیوں کا حصہ بن گیا ہے  پاکستان میں آرائشی پودوں کی جگہ اب اجناس کے پودے لگانے کی ضرورت ہے  پھل دار درخت اور اجناس کے پودے ہی ہماری بقاء ہیں اس پر بطور قوم ہمیں توجہ دینا ہو گی۔

Thursday, November 10, 2022

پاکستان کا انتشار کسے سوٹ کرتا ہے


اظہر عباس
ذرا غور فرمائیں، نازی جرمنی میں ہٹلر کے دستِ راست گُوئبلز نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر کہا تھا کہ جھوٹ اتنا زیادہ بولو کہ لوگ سچ سمجھ کر اُس پر ایمان لے آئیں۔ آج کل بھی یہی ہو رہا ہے۔ پروپیگنڈا مشینری گوئبلز کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دن رات جھوٹ بول رہی ہے۔ سچ نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گیا ہے۔
سوشل میڈیا چوبیس گھنٹے جھوٹ بولے گا تو سچ بیچارے کی قسمت میں چاروں شانے چِت ہی ہونا ہوگا۔ یہ طریقہ واردات کوئی نیا نہیں، انسانی فطرت نے صدیوں سے اس طریقہ واردات کو ایجاد کر رکھا ہے ویسے بھی یہ انسانی فطرت سے لگا کھاتا ہے۔ اس کا روزمرہ کا بے تحاشہ استعمال خاص طور پر سیاست میں آج بھی زورشور سے ہو رہا ہے۔
خان صاحب کی خطرناک حد تک الزاماتی سیاست نے ملک کو خطرناک حد تک پولرائز کر دیا ہے۔ پارلیمانی کارروائی سے زخمی ہو کر اب وہ اور بھی خطرناک ہارے ہوئے کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔ امریکہ دشمنی کو بھڑکاتے ہوئے 30 مارچ کو پارلیمانی اکثریت سے محروم ہونے کے بعد، انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کی ہیبت ناک طرز حکمرانی، معیشت کی بدانتظامی، خارجہ پالیسی کی خرابیوں اور ان کے فوج کے ساتھ اختلافات نے ان کے سیاسی ریت کے قلعے کی دیواریں گرا دی تھیں۔
امریکہ کی مبینہ مداخلت سے شروع ہوئی ان کی سیاست اب اسٹیبلشمنٹ پر اقدام قتل کے الزامات تک پہنچ چکی ہے۔ لگتا ہے کہ خان صاحب کو پاکستان کا فیٹف ست نکلنا پسند نہیں آ رہا کیونکہ ان کا ٹارگٹ اس بار فوج اور اس کے مختلف اداروں پر براہ راست الزامات لگا رہے ہیں۔
دوسری طرف دیکھیں تو بھارت شروع سے ہی ان کوششوں میں رہے ہیں کہ پاکستان اور اس کی مرکزی خفیہ ایجنسی کو کسی نہ کسی طور دہشت گرد ثابت کر کے دنیا کو یہ تاثر دے سکے کہ پاکستان اور اس کا یہ حساس ادارہ اندرونی دہشت گردی کے علاوہ بین الاقوامی جرائم میں بھی ملوث ہیں۔
بھارت کا یہ ایجنڈا پاکستان میں عمران خان کی جانب سے ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لئے پیدا کی جانے والی صورت حال میں مکمل ہو سکتا ہے کیونکہ عمران خان جو پاکستان کے مقبول لیڈر ہونے کے علاوہ دنیا میں ایک شناخت رکھتے ہیں، ان کی مدعیت میں حساس ادارے کے ایک اعلی افیسر (جس نے بھارتی خفیہ ایجنسی را اور اسرائیلی موساد کے علاوہ تحریک طالبان کی دہشتگرد تنظیم کے خلاف کامیاب اوپریشنز کئے) کو سنگین مقدمہ میں شریک جرم قرار دے کر ایف۔آئی۔آر۔ میں نامزد کرنے کا عمل بھارت کو ایف۔آئی۔آر۔ کی صورت میں سرکاری دستاویز مہیا کرنا ہے جسے وہ دنیا میں اس ثبوت کے طور پر پیش کر سکے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے اور یہ عالمی امن کے لئے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔
خان صاحب کے لانگ مارچ پر فائرنگ اور اس کا اعتراف کرنے والے بیان کی گونج اسرائیل تک پہنچ چکی اور اس کے اخبار’’ہرٹز‘‘ کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اس لیے گولی ماری گئی کہ وہ بہت زیادہ ’’اسرائیل نواز‘‘ تھے۔
بھارت گزشتہ کئی دنوں سے خان صاحب کی سیاست کو موضوع بنا کر کیوں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر بحث کر رہا ہے یہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اسرائیلی اخبار کو اس اسٹوری سے یکدم کیسے دلچسپی ہو گئی آئیے اس کا بیک گراونڈ آپ کو بتاتے ہیں۔
"ہاوس آف روتھ چائلڈز"
روتھ چائلڈز ایک طویل عرصے سے متنازعہ حیثیت کا حامل مالدار یہودی خاندان ہے اور سازشی تھیوریوں والے دنیا کو ان کے کنٹرول میں ہونا ثابت کرتے رہتے ہیں۔
روتھ چائلڈ کا دعویٰ ہے کہ وہ یہودی ہیں، جب کہ حقیقت میں ان کا تعلق خزریا نامی ملک سے ہے جو بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپین کے درمیان کی سرزمین پر قابض تھا۔ جو اب زیادہ تر جارجیا کا حصہ ہے۔ روتھ چالڈز کے یہودی ہونے کا دعویٰ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بادشاہ کی ہدایت پر خزاروں (خزریا کے مقامی باشندے) نے 740 عیسوی میں یہودی عقیدہ اختیار کیا، لیکن یقیناً اس حکم میں ان کے ایشیائی منگول جینز کو یہودیوں کے جینز میں تبدیل کرنا شامل نہیں تھا۔
آپ دیکھیں گے کہ آج دنیا میں تقریباً 90% لوگ جو خود کو یہودی کہتے ہیں درحقیقت خزر ہیں، عرف عام میں آپ انہیں اشکنازی یہودی کہہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ دانستہ طور پر دنیا کے سامنے اپنے دعوے کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ اسرائیل کی سرزمین پیدائشی طور پر ان کی ہے، جب کہ حقیقت میں ان کا اصل وطن جارجیا میں 800 میل سے زیادہ دور ہے۔ اسرائیل کا ہر وزیر اعظم اشکنازی یہودی رہا ہے۔
آج دنیا میں اشکنازی یہودیوں کا رہنما روتھ چائلڈز خاندان ہے۔ کہنے والے الزام لگاتے ہیں کہ روتھ چائلڈز نے جھوٹ، ہیرا پھیری اور قتل کے ذریعے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی بلڈ لائن یورپ کے شاہی خاندانوں تک بھی پھیلی ہوئی ہے، اور درج ذیل خاندانی نام: Astor؛ بنڈی کولنز؛ ڈوپونٹ؛ فری مین؛ کینیڈی مورگن؛ اوپن ہائیمر؛ راک فیلر؛ ساسون; شِف؛ ٹافٹ اور وان ڈوئن انہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
گولڈ اسمتھ خاندان جرمن یہودی نسل کا ایک خاندان ہے، جو اصل میں فرینکفرٹ کے ایم مین سے ہے، جو بینکنگ میں اپنی کامیابی کے لیے جانا جاتا ہے۔ 15ویں صدی میں شروع ہونے کے ساتھ، 1614 کی فیٹملچ بغاوت کے بعد اس خاندان کے زیادہ تر اراکین کو فرینکفرٹ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور وہ 18ویں صدی تک واپس نہیں جا سکے۔
یہ خاندان خاص طور پر روتھ چائلڈ خاندان، مینز کے بِشوف شیم خاندان، اور موناکو کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک بارٹولوم فیملی کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ Bischoffsheim اور Goldschmidt خاندانوں نے مشترکہ طور پر Bischoffsheim، Goldschmidt اور Cie بینک کا انتظام کیا، جسے بالآخر 1863 میں Banque de Crédit et de Dépôt des Pays-Bas میں ضم کر دیا گیا، جو BNP Paribas کا پیش خیمہ تھا۔
خاندان کی انگریزی شاخ نے اپنا نام گولڈسمتھ رکھ دیا، جس کا آغاز فرینک گولڈسمتھ (1878–1967) سے ہوا۔ اس کا سب سے مشہور 20 ویں صدی کا رکن ارب پتی جیمز گولڈ اسمتھ تھا۔ آج سب سے مشہور زیک گولڈ اسمتھ ہیں، جو رچمنڈ پارک کے ایم پی تھے۔
کچھ اندازہ ہوا کہ کچھ کٹھ پتلیوں کی تاریں کہاں تک جا رہی ہیں ؟
Khalid Saif and 1 other
1 Comment
Seen by 8
Like
Comment
Share

Friday, October 28, 2022

بیانئیے کی جنگ کا شکار جنریشن نیکسٹ - حصہ دوئم



اس مکروہ بیانیے کی جنگ میں کچھ افراد کو Larger Than Life اور کچھ کو Rascal بنانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہی کام تحریک انصاف نے کیا۔


دس بارہ سال قبل جن سیاستدانوں، لکھاریوں اور صحافیوں کا عوام پر اثر تھا اور وہ عمرانی بیانیے کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے اُن سب کی کردار کشی کی گئی جھوٹے اور غلیظ الزام لگائے گئے تاکہ یہ سب ایک مسٹر کلین کے آگے بونے لگیں۔  


خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس وہ کراؤڈ موجود نہیں ہے جو سخت سیاسی جدوجہد کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ اسکے پاس اپنی ذات کے علاوہ کوئی ایسے افراد موجود نہیں جو اپنے بل پر اپنے اپنے حلقوں سے لوگوں کو باہر نکال سکیں۔ اس لئے انہوں نے جس بات پر انویسٹ کیا ہے وہ ہے میلینیلز کی ذہن سازی اور اس کو اپنے بیانئیے سے مسلسل مصروف کار رکھنا۔ اس کیلئے وہ ہر ریڈ لائن کراس کرنے پر بھی ہر لمحہ تیار رہتے ہیں اور ہر حد تک جانے کو بھی۔ 


اب آئیے پراپیگندہ کی طاقت کی جانب۔ آر اے شہزاد ایک ویل بینئگ سپیشلسٹ ہیں۔ یورپ میں مقیم وہ لکھتے ہیں کہ:


 "‏گزشتہ دنوں بی بی سی اردو پر لندن میں نواز شریف کے گھر کے سامنے شور شرابہ کرنے والے بچے کا انٹرویو پڑھیں۔ اس میں ایک سوال تھا آپ کو نواز شریف کیوں نا پسند ہے اس کا جواب تھا: "کیونکہ میں نے بچپن سے سنا یہ چور ہیں انہوں نے ملک لوٹا ہے"


یہ ہے  مسلسل پراپیگنڈے کی طاقت۔


"ایک اندازے کے مطابق ‏دوہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد آج کے دن تک ڈیڑھ کروڑ نیا ووٹر آیا ہے۔ روزانہ دس ہزار سے زیادہ بچے اٹھارہ سال کے ہو جاتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کی قریب ترین انتخابی حریف مسلم لیگ (ن) کو دیکھا جائے تو اس کا کا دوہزار اٹھارہ میں کل ووٹ ایک کروڑ تیس لاکھ تھا۔ مطلب انکے مجموعی ووٹ سے زیادہ ووٹر سسٹم میں شامل ہوا ہے۔ یہ ووٹرز پاکستان کا سیاسی نقشہ بدل سکتے ہیں۔"


‏‏کے پی کے حکومت کے پاس تنخواہوں کے پیسے نہی، فرح گوگی کے معاملات سے لے کر فارن فنڈنگ اور نیازی کے خاندان کے مالی معاملات غرض اتنا کچھ ہے مگر کرپشن کا ٹین اس نے اپنے مخالفین کے پیچھے باندھ رکھا ہے اور عوام مان بھی رہی ہے۔ وجہ صرف اور صرف دوسری سیاسی جماعتوں کا کمیونیکشن کے جدید ذرائع سے اجتناب ہے یہ ان کی ناکامی ہے"


آڈیو لیکس اور ممکنہ ویڈیو لیکس اور Facts کے باوجود عمران کے فالورز حقائق کو کیوں تسلیم نہی کر رہے ؟ اس پر آر اے شہزاد لکھتے ہیں کہ: 


"عمران خان اپنی آڈیو لیکس کے آخری حصہ میں کہتے ہیں کہ Minds Fertile Ground بنی ہوئی ہیں۔ آج اس بات کا سائنسی تجزیہ کرتے ہیں کہ خان صاحب نے ذہنوں کو کس عمل سے کنٹرول کیا کہ سچ جھٹلاتے ہیں"


"‏ایک بات جس پر سیاسی پنڈتوں اور ماہرین سوشل  اینڈ پولیٹیکل سائنس کا اتفاق ہے کہ جو New Populism Political لہر آئی ہے وہ سیاسی یا جمہوری عمل کو Undermine کر کے ایک Cult تشکیل دیتی ہے اور پاکستان میں PTI نے بیرونی فنڈنگ اور اندرونی حمائت سے ایک سیاسی Cult کی تشکیل کی ہے".


"‏Populism کی ساری سیاست Disinformation اور فیک نیوز اور سوشل میڈیا کی Psychological Manipulation پر ٹکی ہوئی ہے مگر جب اس جھوٹ کے خلاف سچائی سامنے آتی ہے اور بڑے واضح ثبوت آتے جیسے کہ ابھی عمران کے سائفر کیس میں ہوا تو پھر بھی اس کے فالورز انہیں یکسر مسترد کر دیتے ایسا کیوں ہے ؟"


"‏اس پر نفسیات میں کافی ریسرچ ہوئی ہے۔ تو چلیں ان وجوہات کو سمجھتے ہیں۔


کسی بھی Cultمیں لوگوں کو Us اور Them میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ تقسیم بہت محنت سے کی گئی مخالفین کو پٹواری، لفافے، جاہل، کھوتے کھانے والے، ذہنی غلام کہا گیا اس کا بنیادی مقصد ان کو کسی بھی طرح مخالفین کی طرح اپنے کلٹ سے دور رکھا گیا ‏اور لیڈر پر تنقید کو بقول عمران خان Brand کیا جائے کہ وہ مخالفت کی جرات نا کریں۔


ماہرین نفسیات کے مطابق اپنے جذبات کو مسلسل دبانے کی وجہ سے ان کے اندر ایک سخت غیر منطقی سوچ تشکیل پاتی ہے جو کہ ٹراما کی ایک قسم ہے مگر یہ سب کیسے ہوتا ہے آئیے اس کی وجہ جانتے ہیں۔


‏انسانی دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں دائیں طرف کا حصہ انسانی جذبات وغیرہ کو کنٹرول کرتا ہے اور بائیں طرف لاجک اور استدلال سے متعلق ہے اور  زبان کا تعلق بھی اسی حصے سے ہے ان دونوں حصوں کے تعلق کو Horizontal Connection کہتے ہیں یہی تعلق ہماری سوچوں کو الفاظ دیتے ہیں اور ہم اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔


‏اگر جذبات اور لاجک کا یہ کنکشن جسے Emotions-Logic کہتے وہ رک جائے تو ریسرچ کے مطابق برین Rusty ہو جاتا ہے اور جذبات بغیر اظہار کے برین میں گھومتے رہتے اور ٹراما کی ایک صورت بنتے ہیں۔


‏برین اسی طرح Vertically بھی اوپر سے نیچے کی طرف جڑا ہوتا اور یہ کنکشن ہماری سوچ، جذبات، جانچنے پرکھنے اور احساسات کو آپس میں جوڑتے جو لوگ Vertically کٹ ہوتے ہیں وہ عقل اور استدلال سے فیصلہ کرنے سے محروم ہو جاتے اور PTI جیسے Cult فالورز اسی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں.


"‏جیسے عمران خان کہہ رہا ہے کہ ان کی لائف ٹائم برانڈنگ میر صادق اور میر جعفر کی طرح کر دی جائے یہی چیزیں اور Extreme Thinking کسی بھی قسم کے Cult میں ممبران کے برین کی Horizontal اور Vertical میں کنکشن نہی رہتا اور انہیں مسلسل ایک خوف کی کیفئت میں رکھا جاتا ہے۔ جیسے بار بار کہا جاتا ہے ‏‏کہ عمران واحد امید ہے۔ امپورٹڈ حکومت۔ بیرونی ایجنٹ۔ حملہ وغیرہ تو ان کے سپورٹر کسی بھی عقلی اور استدلالی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ Cult ممبرز کی دماغی ساخت متاثر ہو جاتی. اسی لیے آپ کو پی ٹی آئی کے اکثر سپورٹر غیر معمولی جذباتی نظر آتے ہیں."


"‏اس کے علاوہ دو اور نفسیاتی عمل بھی اہم ہیں جو PTI جیسی جماعت، غیر ملکی ڈیٹا فرموں اور بہت بڑی فنڈنگ سے بہت ٹیکنیکل طریقے سے کرتے ہیں آئیے اس کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔


‏پہلی چیز Denial ہے. یہ بہت قدیم Psychological Mechanism ہے. ہم ایسی ہر ایسی چیز، ایسے ہر خیال کو ریجیکٹ کر دیتے جو ہماری بنیادی شناخت کو جھنجھوڑ دے۔ Cult کے جو اندھے فالورز ہوتے وہ ہر ایسی چیز کو فوری طور پر ریجیکٹ کر دیتے ہیں جیسے آڈیوز کو مکمل فیک یا ڈیپ فیک کہا جاتاہے.


‏مگر ایسے فالورز جو ابھی اندھی تقلید نہی کرتے ان کے لئے جو سٹریٹجیی بنائی جاتی اسے Cognitive Dissonance کہا جاتا ہے وہ غیر موافق مواد کو مکمل ریجیکٹ نہی کرتے ہیں بلکے ان کا رخ اسطرح موڑا جاتا جو ان کی سوچوں کے قریب ہو. جیسے ایک آڈیو پر کہا کہ یہ ٹکڑے جوڑے گے، یا صدر نے کہا ‏اگرچہ سازش نہی ہوئی مگر مجھے شک ہے اس کی تحقیق ہو، ایسے لوگوں کے لیے ہی ڈیپ فیک کی بات کی جا رہی ہے۔


‏Cognitive Dissonance کے تصور پر ماہرین نفسیات نے 1954میں اس بات کی تحقیق شروع کی جب لوگوں کے ایک گروپ میں یہ بات پھیل گئی کہ دنیا 21دسمبر کوسیلاب سے ختم ہو جائے گی مگر ایک خلائی جہاز ان کو بچا کر لے جائے گا مقررہ دن پر جب نا سیلاب آیا نا جہاز تو بجائے ان لوگوں کو یہ یقین آتا ‏کہ یہ جھوٹ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ لیڈر کو کوئی Communication ٹھیک سے موصول نا ہوئی ہو. یہیں سے ماہرین نے Cognitive Dissonance کی اصطلاح متعارف کروائی. آپ کو PTI اسپورٹر بھی نیا پاکستان، کروڑوں نوکریوں وغیرہ پر ایسے ہی Cognitive Dissonance کا شکار نظر آتے ہی۔


‏یہ سب اسی لیے کرتے تاکہ وہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے سے بچ جائیں کہ جس سیاسی نظریے پر انہوں نے اتنا انویسٹ کیا اتنی محنت کی وہ حقائق سے مختلف اور غلط ہے۔ اربوں روپے کی انویسٹمنٹ سے یہ سیاسی ماڈل بنوایا گیا اور اسے سائنسی بنیادوں پر اس ملک کے عدم استحکام کے لیے لانچ کر دیا گیا ۔"


"‏یہ ساری تحقیقات لکھنے کا مقصد یہ کہ ایک تو ہم سائنسی اور علمی  طور پر اس مسلۂ کو سمجھ سکیں دوسرا پالیسی ساز ادارے اور سیاسی جماعتیں اس  کی سائنسی بنیاد سمجھتے ہوئے اس کے توڑ کا سوچیں جس طرح یہ جنون اب بیرون ممالک میں پھیلا اور اندرون ملک تقسیم ہوئی وہ پاکستان کے لیے خطرناک ہے."


تقسیم اور نفرت کا خمیازہ یہ قوم پہلے ہی بھگت چکی ہے اور میرا نہیں خیال کہ اس ملک میں مزید ایسے بیانئے کو پنپنے دیا جائے گا جس سے تقسیم اور نفرت کو ہوا ملے اور کوئی بڑی خلیج یا فالٹ لائن پیدا ہو۔ 


اس جھوٹے بیانئے کا واحد علاج سچ ہے۔ جب جھوٹ تواتر سے اور پر اعتماد ہو کر بولا جائے تو ضروری یو جاتا ہے کہ سر پر منڈلاتے فتنے کے علاج کیلئے سچ کو سامنے لایا جائے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا ٹرائل میں جو اندرونی کردار ہیں انہیں بے نقاب کیا جائے   اور جو جو اسپن ڈاکٹرز ہیں ان کو عوام کے سامنے لایا جائے۔

Wednesday, October 26, 2022

بیانئے کی جنگ کا شکار جنریشن نیکسٹ


(حصہ اول)


آبادی کے چالیس سال سے کم عمر کے حصے کے لیے امریکا اور یورپ میں ’ملینیلز‘ (Millennials) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی ایسے افراد جو 1980ء، 90ء یا موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں پیدا ہوئے۔


1980 کی دہائی کے اوائل سے 1990 کی دہائی کے وسط تک شرح پیدائش میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اور 

ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹے خاندانوں کی طرف رجحان بڑھا۔ ماہر نفسیات جین ٹوینگے نے اپنی 2006 کی کتاب جنریشن می: کیوں آج کے نوجوان امریکی زیادہ پراعتماد، جارحانہ، حقدار - اور پہلے سے کہیں زیادہ دکھی ہیں میں اس جنریشن  کو "جنریشن می" کے طور پر متعارف کرایا، جبکہ 2013 میں ٹائم میگزین نے کور سٹوری کا عنوان رکھا:


Millennials - The Me Me Me Generation


اس ایج گروپ کو مختلف نام دئے جاتے ہیں جن میں نیٹ جنریشن، جنریشن 9/11، جنریشن نیکسٹ، اور دی برن آؤٹ جنریشن شامل ہیں۔


یہ نسل موبائل فون اور گوگل کو اپنی معلومات کا مرکز سمجھتی ہے۔


مائیکروسافٹ کے 2015 کے مطالعے کےمطابق 18 سے 24 سال کی عمر کے 77 فیصد جواب دہندگان نے اس بیان کے لیے ہاں میں کہا، "جب کوئی چیز میری سمجھ میں نہیں آ رہی، تو میں سب سے پہلے اپنے فون تک پہنچنا ہوں"، جبکہ 65 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے یہ شرح صرف 10 فیصد تھی۔ 


تاریخ سے بے خبری اور لاتعلقی کا یہ عالم کہ فروری 2018 کے 1,350 افراد پر کیے گئے سروے سے پتا چلا ہے کہ سروے کیے گئے 66% امریکی میلینیلز (اور تمام امریکی بالغوں میں سے 41%) یہ نہیں جانتے تھے کہ ہولوکاسٹ کیا اور کیسے ہوئی، 22% نے کہا کہ انہوں نے ہولوکاسٹ کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔ 95% سے زیادہ امریکی میلینیلز اس بات سے بے خبر تھے کہ ہولوکاسٹ کا ایک حصہ بالٹک ریاستوں میں ہوا، جس نے اپنی 90% سے زیادہ جنگ عظیم سے پہلے کی یہودی آبادی کو کھو دیا، اور 49% جرمن زبان میں کسی ایک نازی حراستی کیمپ یا یہودی بستی کا نام لینے کے قابل بھی نہیں تھے۔  تاہم، سروے میں کم از کم 93% کا خیال تھا کہ اسکول میں ہولوکاسٹ کے بارے میں پڑھانا ضروری ہے اور 96% کا خیال تھا کہ ہولوکاسٹ ہوا تھا۔


یو گورنمنٹ ("YouGov") سروے سے پتا چلا کہ 42% امریکی میلینیلز نے ماو زے تنگ کے بارے میں کبھی نہیں سنا، جس نے 1949 سے 1976 تک چین پر حکومت کی۔ مزید 40% چی گویرا سے ناواقف نکلے


مصنفین Reynol Junco اور Jeanna Mastrodicasa نے William Strauss اور Neil Howe کے کام کو آگے بڑھایا تاکہ میلینیلز کی شخصیت کے پروفائلز کے بارے میں تحقیق پر مبنی معلومات کو شامل کیا جا سکے۔ انہوں نے کالج کے طلباء کا ایک بڑے نمونہ (7,705) تحقیقی مطالعہ کیا۔ انہوں نے پایا کہ نیٹ جنریشن کالج کے طلباء، جو 1982 کے بعد پیدا ہوئے، زیادہ شرح پر ٹیکنالوجی کے استعمال کے عادی تھے۔ اپنے سروے میں، انہوں نے پایا کہ ان طلباء میں سے 97% کے پاس کمپیوٹر، 94% کے پاس موبائل فون اور 56% کے پاس MP3 پلیئر تھا۔


آئیے ڈیٹا سے نکلیں اور آپ کو جنریشن نیکسٹ کے بارے میں ماہرین سماجیات اور نفسیات کی متفقہ رائے   بتائیں۔


ماہرین نفسیات و سماجیات اس نسل کی جو خصوصیات بیان کرتے ہیں اس میں نرگسیت، سطحی پن، اختلاف رائے پسند نہ کرنا، خود کو ہمیشہ درست سمجھنا اور غمگساری اور احساس کی کمی نمایاں ہیں۔ وجہ اس کی وہ یہ بتاتے ہیں کہ کمپیوٹر کے استعمال سے ملینیلز کو دماغی ریاضت اس طرح نہیں کرنا پڑی جس طرح ان سے پہلے والی نسلوں کو کرنا پڑتی تھی اور پھر سوشل میڈیا کے ذرائع مثلاً فیس بک، ٹویٹر اور انسٹا گرام نے ’منی سلیبرٹی کلچر‘ کو جنم دیا ہے جہاں لوگوں کو یہ خبط رہتا ہے کہ ان کے سٹیٹس اپ ڈیٹ کو کتنے لائیکس ملے ہیں اور یہ جاننے کے لیے وہ بار بار اپنے فون یا ٹیبلٹ کی سکرین کو دیکھ رہے ہوتے ہیں


اسی طرح اپنی مصروفیات بارے تصویری ’خبرنامہ‘ لمحہ بہ لمحہ نشر کرنا بھی ایک ضروری عمل ہے۔ ہر وقت سوشل میڈیا پر جمے رہنے کی وجہ سے یہ عمومی طور پر اپنے ہم عمر افراد کے ساتھ ہی مصروف تفاعل ہوتے ہیں اور وہ بھی بالمشافہ نہیں بلکہ (بذریعہ) وائی فائی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دانش کے حصول کے لیے بڑے بوڑھوں کے ساتھ میل جول اور پرانی چیزوں بارے علم ضروری ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ٹین ایجر ٹین ایجر سے ہی اکتساب حاصل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے خیالات کی پختگی انحطاط کا شکار ہے۔ اور اس طرح وہ ایکو چیمبرز کا شکار ہو رہے ہیں 


امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ایک جائزے کے مطابق 20 سے 30 سال کی عمر کے افراد میں نرگسیت اور اس سے جڑے ذہنی مسائل کا شکار ہونے کا امکان 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح ایک اور امریکی ادارے نیشنل سٹڈی آف یوتھ اینڈ ریلیجن کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 60 فیصد ملینیلز کا خیال ہے کہ جو وہ ’محسوس‘ کرتے ہیں وہی حقیقت ہے۔


ملینیلز کو ان کی نازک مزاجی اور شدید جذبہ حقداری کی وجہ سے طنزاً ’جنریشن سنو فلیک‘ یعنی برف کے گالے کی طرح نازک نسل بھی کہا جاتا ہے۔

جن سیاسی و سماجی مقاصد کو یہ عزیز جانتے ہیں سوشل میڈیا پر اس کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے۔ اختلاف کرنے والے پر یہ جتھوں کی شکل میں ٹویٹر اور فیس بک پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ لیکن اکثریت صرف ’کی بورڈ جنگجو‘ ہے۔


لیکن ملینیلز میں صرف برائیاں ہی نہیں ہیں۔ امریکا اور یورپ کی یہ جنریشن رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پر تفریق کے خلاف مضبوط آواز ہے اور سماجی انصاف کی علمبردار بھی۔


2008ء کے مالی بحران کے بعد وال سٹریٹ کے باہر احتجاجاً ڈیرہ ڈالنے والوں کی اکثریت ملینیلز پر مشتمل تھی۔ یہی جنریشن امریکا میں سوشلسٹ برنی سینڈرز کی حمایتی تھی اور برطانیہ میں جیریمی کوربن کی۔ ان کے اسی رحجان کی وجہ سے امریکی اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ ان سے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔


گلوبلائزیشن اور سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کےعوام میں ترقی یافتہ مغربی سماج بارے آگاہی میں تیزی سے اضافہ کیا ہے جس سے وہاں کے ملینیلز میں اپنے معروضی حالات کا احاطہ اور مغربی معاشروں کے سیاسی و جمہوری کلچر کو سمجھے بغیر ایک ہی جست میں امریکا اور برطانیہ بننے کی تڑپ نے جنم لیا ہے۔ آج کا پاکستان اس رویے کی ایک بڑی مثال ہے۔


پاکستانی ملینیلز پہلی دفعہ کسی احتجاجی مہم کا حصہ اس وقت بنے جب جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک چل رہی تھی۔ ان کے لیے ملک کی سیاسی تاریخ کاآغاز بھی چیف جسٹس بحالی تحریک سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے سیاسی جماعتوں اور عوام نے فوجی آمریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے جو قربانیاں دیں ہمارے ملینیلز اس بارے میں نا ہونے کے برابر علم رکھتے ہیں۔


چیف جسٹس بحالی تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں ایک ایسا سیاسی ہجوم سامنے آیا جس میں اکثریت ایسے شہری طبقوں کی تھی جو پہلے سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے، اور ان میں نمایاں تعداد ملینیلز کی تھی جو اپنے مغربی ہم عصروں کی طرح سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تھے۔


ملینیلز میں جو ذرا بڑے ہیں انہوں نے جب آنکھ کھولی تو بے نظیر اور نواز شریف کو ایک دوسرے خلاف لڑتے دیکھا اور جو کم عمر ہیں انہوں نے مشرف دور میں بنکوں کے پھیلاؤ اور اس کے نتیجے میں کنزیومر فنانسنگ سے ہونے والی مصنوعی معاشی ترقی کی جھلک دیکھی اور پھر جسٹس بحالی تحریک کی کامیابی۔ اس طرح یہ نسل پرانے سیاستدانوں سے خائف اور جھٹ پٹ ترقی کی خواہاں کے طور پر سامنے آئی۔


مغربی ملینیلز کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہاں طاقت بڑے مالی اداروں، بنکوں اور کارپوریشنز کے پاس ہے اور وہ ان کی بے رحمانہ منافع خوری سے نالاں ہیں، اس لیے وہ سوشلسٹ نظریات کا پرچار کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں جو ناجائز منافع خوری کو لگام دینے اور عوام خدمت کے اداروں کو قومیانےکی بات کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ یا مستقل حکمران فوج کا ادارہ ہے جسے اپنے عزائم میں عدلیہ اور بیوروکریسی کا ہمیشہ تعاون حاصل رہا ہے۔ آپ سوال اٹھائیں تو اگلے ہی لمحے غدار اور دشمن کے ایجنٹ قرار دے دیے جائیں گے۔ دوسرا ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کے پاس سیاستدانوں کی شکل میں نشانہ بازی کے لیےایسے اہداف موجود ہیں جن کی طرف عوامی غیض و غضب کا رخ میڈیا منجمنٹ کےذریعے بڑی آسانی سے کر دیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس بحالی تحریک کا سٹیرنگ وہیل جس کے ہاتھ میں تھا اس نے ملینیلز سمیت سیاسی کارکنوں کی نئی کھیپ کو 2011ء میں کرکٹر عمران خان کے پیچھے کھڑا کردیا۔

عمران خان جو دس بارہ سال سے سیاسی قسمت آزمائی میں لگے ہوئے تھے وہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ترین سیاستدان بن گئے۔


پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کمال ہوشیاری سے ملینیلز کو اپنے مہرے عمران خان کی مدد سے اسٹیبلیشمنٹ نواز بنایا۔ سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کا دفاع عمران خان کے حامیوں کی رضا کارانہ ذمہ داری تھی۔

پاکستانی ملینیلز اپنے مغربی ہم عصروں کی طرح جنریشن سنوفلیک تو ہیں جس میں نرگسیت، جذبہ حقداری کی شدت، اختلاف رائے برداشت نہ کرنا، اپنے اپنے سوشل میڈیا بلبلوں(سوشل میڈیا ببلز)  میں مشہور ہونے کا جنون اور جذباتی طور پر نازک ہونا جیسے مشترک خواص پائے جاتے ہیں، لیکن ان کے دماغ مخصوص بیانئے کا تالہ لگا کر بند کردیے گئے ہیں۔ مغربی ترقی پسند ملینیلز کے مقابلے میں ہمارے ملینیلز کو رجعت پسندی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ لیکن یہیں انہیں یہاں تک پہنچانے والے پلان بی بنانا بھول گئے۔ انہیں عمران خان کے حوالے کرنے والوں سے چوک یہ ہوئی کہ اگر عمران خان ان کے مدمقابل ہوں تو اس صورتحال کو کس رخ موڑنا ہے اور اس پوری بریڈ کو  اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے سے کیسے روکنا ہے۔  نتیجتا آج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہونے والے سیاستدانوں کو گالیاں دلواتے دلواتے اب خود گالیاں کھا رہے ہیں


(جاری ہے)

Tuesday, October 25, 2022

کل اور آج

 

اظہر عباس


یہ 1979 کے موسم سرما کا آغاز تھا۔ میں نویں کلاس کا طالب علم اور والد گرامی اپنے کسی سرکاری کام کے سلسلے میں لاہور جانے لگے تو ضد کر کے ساتھ ہو لیا۔ 2 یا 3 دن کا پروگرام تھا اور لوہاری گیٹ کی طرف سے انارکلی کے آغاز میں ہی واقع نعمت کدہ ہوٹل میں رہائش۔ ان دنوں نعمت کدہ ہوٹل ایک اچھا، صاف ستھرا اور پر آسائش ہوٹل سمجھا جاتا تھا۔ سرکاری ملازمین اور لاہور سے باہر سے آئے زمینداروں کا پسندیدہ۔ کیونکہ ایک تو انارکلی کے قریب اور دوسری مارکیٹس قریب تر  اور دوسرا سیکریٹیریٹ بھی چند لمحات کے فاصلے پر۔ ٹانگے عام سواری۔ والد صاحب جب بھی لاہور آتے تو یہیں قیام ہوتا۔ دن میں والد صاحب سیکریٹیریٹ اپنے کام میں مصروف رہتے اور سہ پہر اور شام میں ہمیں سیر کراتے یا چھوٹی موٹی شاپنگ۔ ہال روڈ ان دنوں بھی الیکٹرانکس کا مرکز تھا اور اس شام ہمیں اپنے ٹی وی کیلئے نئے انٹینا لینے ہال روڈ جانا تھا۔ مارشل لا کا دور تھا۔ بھٹو شہید کو عدالتی شہید کئے کچھ ہی ماہ گزرے تھے اور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ سماجی سرگرمیوں پر بھی سخت ضوابط عائد تھے۔ دوکانیں جلدی بند ہوا کرتیں اور مال روڈ شام گہری ہونے کے بعد زیادہ تر سنسان ہی رہتا۔ فوجی گاڑیاں اپنی آمدو رفت جاری رکھتیں۔ لیکن زیادہ ٹریفک نظر نا آتا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن ہم انارکلی سے ہال روڈ کیطرف گلیوں سے نکلے کہ شارٹ کٹ تھا ہلکی خنکی کا عالم تھا کہ ایک گلی میں اچانک ہلچل ہوئی۔ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے مال کی طرف گئے فضا جئے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھی اور نا جانے کہاں سے لوگ نکل کر اکٹھے ہو گئے۔ ایک کے ہاتھ میں پیٹرول کا کین تھا وہ اس نے اپنے اوپر چھڑکا اور ماچس کی تیلی کیا جلائی کہ پیٹرول نے آگ پکڑی اور اس کے بعد اس کے نعرے ہی میں نے سنے۔ پولیس اور فوج کے آتے آتے وہ خاصا جھلس چکا تھا۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ والد صاحب کی کوشش کے باوجود میں یہ مناظر نا صرف دیکھ پایا بلکہ میری یادداشت میں ہمیشہ کیلئے ایک یاد چھوڑ گئے۔ پتا نہیں کیسے وہاں سے نکلے اور ہوٹل پہنچے لیکن والد بہت افسردہ تھے۔ ساری رات جب بھی میری آنکھ کھلی انہیں جاگتے اور زیر لب کچھ پڑہتے پایا۔ 


مجھے یہ واقعہ پتا نہیں کیوں یاد آ گیا۔ شاید اس لئے کہ جب میں نے خان صاحب کی نا اہلی کے فیصلے والے دن انکے حامیوں کا پولا پولا  احتجاج دیکھا۔ عبرت ناک بات یہ تھی کہ بزعم خود قائد اعظم کے بعد سب سے بڑے لیڈر کی نا اہلی پر احتجاج کیلئے فی شہر 100 بندہ بھی اکٹھا نا ہوا۔ بڑے شہروں میں چوکوں کو بند کر کے اور ٹائروں کو آگ لگا کے احتجاج کا تاثر دیتے ان کے فالوورز ٹائروں کی آگ بجھتے ہی تتر بتر ہو گئے۔ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے چوک میں صاحب حیثیت حامی جمع ہوئے، پکنک منائی اور جب تھک گئے تو اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ 


یہ اس صوبائی دارالحکومت کا احوال ہے جہاں ان کی حکومت ہے۔


ایسا کیوں ہے کہ ان کے کی پیڈ (Key Pad) وارئیرز باہر نکل کر خود کو آگ لگانے کی بجائے ایک ٹائر جلانے اکتفا کر گئے ؟ 


آسان جواب ان کے حامیوں میں میلینلز کی اکثریت اور ان کی نفسیات میں پنہاں ہے جس پر آئیندہ کالم میں تفصیلی روشنی ڈالوں گا۔ انشااللہ۔

Tuesday, October 18, 2022

بائیڈن نے کیا غلط کہا ؟

اظہر عباس 

 "اتحاد، تنظیم، یقین محکم"

ایمان، اتحاد، نظم و ضبط پاکستان کا قومی نصب العین ہے۔ اسے پاکستان کی قومیت کا رہنما اصول سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد، اسے ملک کے بانی محمد علی جناح نے قومی نصب العین کے طور پر متعارف کرایا اور اپنایا۔ یہ ریاستی نشان کی بنیاد پر اردو میں کندہ ہے۔ جناح نے اسے اپنی زندگی کی ذاتی مثال سے جوڑا، اور اپنے وقت کے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام دیا۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان کے ابھرنے کے چار ماہ بعد 28 دسمبر 1947 کو قائد اعظم نے کہا: "ہم آگ سے گزر رہے ہیں: سورج کی روشنی ابھی آنی ہے۔ لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے ساتھ ہم دنیا کی کسی بھی قوم کے ساتھ موازنہ کریں گے۔ کیا آپ آگ سے گزرنے کے لیے تیار ہیں؟ آپ کو اپنا ذہن بنانا چاہیے۔ اب ہمیں انفرادیت اور معمولی حسد کو چھوڑ کر ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے کا ارادہ کرنا چاہیے۔ ہم خوف، خطرے اور خطرات کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط ہونا چاہیے۔" جناح نے ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کو بیان کرتے ہوئے بہت سے خطاب کئے۔ 23 مارچ 1945 کو انہوں نے کہا: "پاکستان میں ہماری نجات، دفاع اور عزت مضمر ہے... ہماری یکجہتی، اتحاد اور نظم و ضبط میں اس جنگ کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے طاقت، طاقت اور منظوری پوشیدہ ہے۔ کسی بھی قربانی کو بہت بڑا نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اس دنیا میں آپ کے اپنے ضمیر سے بھی بڑھ کر اور جب آپ خدا کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری دیانتداری، دیانتداری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کی۔" 11 ستمبر 1948 کو جناح نے اپنا آخری پیغام دیا: "آپ کی ریاست کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں اور اب یہ آپ پر ہے کہ آپ جلد از جلد تعمیر اور تعمیر کریں۔ پاکستان کو اپنے نوجوانوں پر فخر ہے، خاص طور پر طلباء، جو کہ کل کے قوم کے معمار ہیں۔ انہیں پوری طرح سے لیس ہونا چاہیے۔ خود نظم و ضبط، تعلیم اور تربیت کے ذریعے اپنے سامنے پڑے مشکل کام کے لیے۔ ایمان، نظم و ضبط، اتحاد اور فرض کے لیے بے لوث لگن کے ساتھ، کوئی بھی قابل قدر چیز نہیں ہے جسے آپ حاصل نہیں کر سکتے۔" قائد اعظم کے بعد جو بھی قائدین اس ملک میں برسر اقتدار رہے وہ اسی نصب العین کو سامنے رکھ کر چلے اور اگر اس کو سامنے نہیں بھی رکھا تو اسے پس پشت بھی نہیں ڈالا۔ لیکن دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آج کا پاکستان اس قومی نصب العین کی ترجمانی کرتا ہے ؟ کیا ہم میں ایک واضع دراڑ نہیں در آئی اور کیا یہ دراڑ ہر قومی ادارے میں موجود نہیں ؟ کیا اس ملک کے لوگ لکیر کے دو حصوں میں نہیں بٹ چکے ؟ کیا پاپولرازم کے گھوڑے پر سوار ہمارا ایک لیڈر اور اس کے پیروکار اس وقت ہر ادارے کو تہس نہس کرنے پہ نہیں تلے ہوئے ؟ خان صاحب ٹرمپ جیسی سیاست کرنے والے پاکستان کی تاریخ کے انتہائی منفرد سیاستدان نکلے ہیں۔ ایک بیانیہ بنایا اور مخالف سیاستدانوں کو کھلی گالیاں دیں، انھیں کرپٹ قرار دیا۔ ان کے لانے والوں اور چلانے والوں نے جمہوری اداروں کو اپنی انگلیوں پر نچایا۔ یہ ان کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے جس کا اعتراف انھوں نے اب کیا بھی ہے لیکن جتنی کرپشن و اقربا پروری انھوں نے کی، اس کی ان کو اجازت تھی، پنجاب انتہائی کم زور شخص کو دیا اور فرح گوگی نامی خاتون کو ڈیفیکٹو وزیر اعلیٰ بنا دیا جو خود بنی گالہ میں رہتی تھی۔ خان صاحب بیانیہ پر بیانیہ دیتے رہے۔ یوں کہیے سوشل میڈیا پر ان کا جیسے کنٹرول ہوگیا۔ وہ کسی بھی لحاظ سے کارکردگی دینے میں بالکل ناکام ہو گئے۔ لیکن آئین اور جمہوریت کی دھجیاں اڑا کر رخصت ہوئے۔ ان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے گئی، اس کو انھوں نے امریکی سازش قرار دیا۔ جو ان کے چاہنے والے تھے وہ اس طرح ان پہ اندھا یقین رکھتے تھے جس طرح ہندوتوا والے مودی سے، سفید فام قوم پرست ٹرمپ سے محبت رکھتے ہیں۔ امتیاز عالم صاحب اپنے کالم مورخہ 16 اکتوبر 2022 میں موجودہ خلفشار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "سیاسی لیڈروں میں تبدیلی آتی ہے، اچھی بھی بری بھی۔ لیکن عمران خان کی سیاست کے ضمیر میں کوئی صفتی تبدیلی واقع نہیں ہورہی۔ گھسی پٹی سیاست کو سطحی انقلابی نعروں سے مقبول تو کیا جاسکتا ہے، حقیقی جمہوری ، عوامی تبدیلی نہیں آسکتی۔ ایک پوری نسل ان کی ڈرٹی پالیٹکس کی نذر ہوچکی ہے جس کا کلچر اینٹی پالیٹکس ہے، جیسے شہری مڈل کلاس اور دیہات کے چوہدریوں کا ماسٹر بیانیہ ہمیشہ سیاستدان مخالف اور پرو اسٹیبلشمنٹ رہا ہے اور ہر آمر کو ان کی حمایت حاصل رہی ہے۔ یہ اینٹی پالیٹکس مڈل کلاس اب جمہوری دھارے کے خلاف عمران خان کے اتھارٹیرین کنزرویٹو پاپولزم کی حامی ہے، اوپر سے عمران خان کا شخصی کلٹ ہے جس کے مردوزن پروانوں کی کمی نہیں جو خان کی حکمرانی (khanate of Imran Khan) چاہتے ہیں خواہ کیسی ہی لیکس کپتان کے اخلاقی غبارے سے کتنی ہی ہوا نکالتی رہیں۔ عمران خان کی سیاست کا انداز فقط بیانیے کی حد تک جارحانہ نہیں، سماجی خلفشار اور خانہ جنگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔" ایک اور کام جو خان صاحب نے کیا ہے وہ مذہب کو جنرل ضیاء الحق کی طرح استعمال کرنا تھا۔ ان دس سالوں میں جمہوریت کو ناکام کرنے کے لیے جو عمران خان اور ہمنوائوں نے بیانیہ بنایا، مارکیٹ میں وہ بیانیہ آہستہ آہستہ اپنی افادیت کھو رہا ہے، لیکن اس ملک کو بہت نقصان بہرحال اس بیانیہ نے پہنچایا ہے، جس نقصان کی تلافی کے لیے ایک وقت درکار ہے۔ آیندہ دہائیوں میں دنیا بہت تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ ریاستوں پر بین الاقوامی قانون اور زیادہ اثر رکھے گا۔ یوں کہیے دنیا کی ہر ریاست کے لیے لازم ہوگا کہ وہ جمہوری طریقہ کار اپنائے وگرنہ بین الاقوامی رشتوں کے اعتبار سے اسے خاندان میں ساتھ نہیں بٹھایا جائے گا۔ ان حالات میں اگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے صدر بائیڈن ہمیں اتحاد کا درس دے تو ہمیں بڑا صدمہ نہیں ہونا چاہئیے۔ میں چونکہ صدر بائیڈن اور دوسرے عالمی لیڈرز کو مسلسل فالو کرتا ہوں کیونکہ ان کے بیانات سے ان کے ورلڈ ویو کا بہتر اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ باقی دنیا اور پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔ اسی طرح دنیا پر ان کی سوچ کے اثرات کی آگہی بھی مل جاتی ہے۔ تو میں نے ڈھونڈنا شروع کیا کہ اس نے کہا کیا ہے اور کہاں کہا ہے۔ پتا چلا کہ ان خیالات کا اظہار اس نے ایک پارٹی اجتماع میں دیا۔ وہ اجتماع دراصل اُن کی ڈیموکریٹک پارٹی کی کانگریشنل کیمپئن کمیٹی کا اجتماع تھا اس لحاظ سے یہ تقریب امریکی حکومت کی کوئی سرکاری تقریب نہیں تھی اور صدر بائیڈن کی شرکت اور خطاب ڈیموکریٹک پارٹی کی انتخابی کامیابی سے متعلق امور سے تھا جس میں صدر بائیڈن پارٹی لیڈر کے طور پر ایک پرائیوٹ رہائش گاہ پر شرکت کیلئے گئے تھے۔ اچھا اب الفاظ پر غور فرمائیں: ’’اور پاکستان میرے خیال میں شاید دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک ہے جس کے پاس کسی اتحاد کے بغیر جوہری ہتھیار ہیں‘‘۔ زور کس پر دیا "اتحاد" پر۔ اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا خان صاحب نے قوم کو منقسم نہیں کر دیا ؟ کیا انہوں نے اداروں کو تقسیم نہیں کیا ؟ یا جیسے کہ شہباز گل کے ذریعے سے ایک پیغام دیا گیا تھا اگر کوئی اس پہ کان دھر لیتا تو ؟ دنیا ہماری ہر موو پر نظر رکھتی ہے جیسے ہم ان پر۔ جب سے یہ سب علم میں آیا ہے سر پکڑے بیٹھا ہوں کہ بائیڈن نے کیا غلط کہا ؟

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...