Friday, February 10, 2023

کیا ہم پوچھ سکتے ہیں ؟




 کیا ہم پوچھ سکتے ہیں ؟

اظہر عباس


ہم اپنی گزشتہ تحریروں میں بارہا کہہ چکے کہ پاکستانی معیشت دو ملکوں کی معیشت کا بار اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے سے قاصر ہے اور صرف یہی عنصر ڈالر کی اونچی اڑان اور اندرون ملک میں مہنگائی کا سبب لیکن اب  امریکی نشریاتی ادارے ’’بلوم برگ‘‘کی تازہ ترین رپورٹ میں لگی لپیٹی رکھے بغیر یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ ڈالر غیر قانونی طور پر افغانستان اسمگل کئے جا رہے ہیں۔


افغانستان کو ہر روز تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالر درکار ہوتے ہیں، ان میں سے نصف اقوام متحدہ کی طرف سے فراہم ہوجاتے ہیں کیونکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہر ہفتے 4کروڑ ڈالر کی امداد نقد فراہم کی جاتی ہے جبکہ باقی ماندہ ڈالر غیر قانونی طور پر ڈالروں کی اسمگلنگ سے پورے کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی روپیہ اس خطے کی سب سے کمزور کرنسی بن چکا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر محض 3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ افغانی اس خطے کی سب سے مضبوط کرنسی بن چکا ہے۔ مثال کے طور پر طالبان کے کابل پر قابض ہونے کے بعد دسمبر 2021ء میں ایک امریکی ڈالر 124.18 افغانی میں دستیاب تھا مگر اب افغان کرنسی 89.96 افغانی میں ایک ڈالر دستیاب ہے۔ اسکے برعکس پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر جو دسمبر 2021ء میں 176.51 روپے کا تھا اب 274.70 روپے کا ہوچکا ہے۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ یہ اسمگلنگ کیسے ممکن ہوئی اور اس کی روک تھام پر مامور ادارے کیا کر رہے ہیں ؟


پوچھنے کو تو بہت سے سوال ہیں لیکن چند سوالات جو ہم پوچھ سکتے ہیں وہ ہمارے ذہنوں میں ہی جنم لیتے اور کچھ عرصے ہمیں خلجان میں رکھنے کے بعد کسی نئے سوال کا موجب بنتے ہیں مثلا 274 بلین ڈالرز کا قرض ہم اپنے اوپر چڑھا چکے ہیں مگر آج بھی ہمیں تعلیم، صحت، روزگار، ترقی اور سکون میسر نہیں۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ اتنے قرضوں کے باوجود بھی ہم بھوکے کیوں ہیں؟ اتنا قرض لینے کے باوجود بھی ہم دنیا میں آگے کے بجائے پیچھے کیوں جارہے ہیں۔ اور اتنا قرض لینے کے بعد بھی ہم مزید قرضوں کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ 


معیشت کو سنبھالنے کےلیے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کی باتیں کی جارہی ہیں، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان قرضوں سے ہمیں کیا ملا؟ ہم عوام کیوں مزید قرض تلے دب گئے؟ ہم نے تو کبھی بینکوں کا رخ بھی نہیں کیا، ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہوا کہ قرض کب اور کیوں لیا گیا، کس کی اجازت سے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے پاس گئے؟ ہم تو روزانہ مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے۔ ہمارے نام پر اگر کسی نے قرض لیا تو اس قرض سے ہمیں ریلیف کیوں نہیں ملا ؟


اگر یہ قرض تعلیم کے نام پر لیا گیا تو ہمیں بتایا جائے کہ آج ہمارے بچے پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں کیوں تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ اگر یہ قرض صحت کےلیے لیا گیا تو ہمیں بتایا جائے کہ کیوں ہم پرائیوٹ اسپتالوں میں پریشان ہورہے ہیں؟ اگر یہ قرض سڑکوں کی تعمیر کےلیے لیا گیا تو بتایا جائے ہم کیوں آج بھی کھنڈرات پر چل رہے ہیں؟ اگر یہ قرض تعمیر و ترقی کےلیے لیا گیا تو بتایا جائے کہ ہم کیوں پھر تنزلی کا شکار ہیں۔ کیوں ہم اس قرض کی بدولت ترقی کے بجائے آج ڈیفالٹ کی حالت پر پہنچ گئے؟


اگر یہ قرض بچوں کی دیکھ بھال کےلیے لیا گیا تو بتایا جائے کہ ملک میں غریب کا بچہ کیوں پیدا ہوتے ہی مررہا ہے؟ اگر یہ قرض یوٹیلٹی اسٹورز پر دی جانے والی سبسڈی کےلیے لیا گیا تو بھی ہمیں یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ وہ کون سی اشیا ہیں جن پر سسبڈی دی گئی، جو ہمیں آج تک نہیں ملی؟ اگر یہ قرض سرکاری عمارتوں کی تزئین و آرائش پر خرچ کیا گیا تو بھی ہمیں بتایا جائے کہ کس ادارے کو کتنا نوازا گیا ؟ دنیا سے ملنے والی بھیک اور قرض کہاں خرچ ہوا، یہ جاننا عوام کا حق ہے اور یہ عوام سوال کرتے ہیں کہ یہ قرض جنہوں نے لیا وہ کیوں مالدار ہوگئے؟ ان لوگوں کے ہاتھوں میں کون سا قارون کا خزانہ لگ گیا جس سے یہ لوگ راتوں رات امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور عوام غریب سے غریب تر


اگر کسی کے پاس ان سوالات کے جواب ہوں تو ہمیں بھی ارسال فرمائیں لیکن یہ قرض پر چلنے والی معیشت کا ماڈل کب تک چلے گا۔ اب تک ہم قرض لیکر اثاثے بنانے اور پھر ان پر مزید قرض لینے کے معاشی ماڈل پر چل رہے ہیں۔ کیا اسے تبدیل کرنے کا وقت نہیں آ گیا ؟

Sunday, February 5, 2023

آسانیاں تقسیم کیجئے

 آسانیاں تقسیم کیجئے 

اظہر عباس


اب سے 23 برس قبل زوگے اور وانیا کونٹینو کے والد نے انہیں جنگ زدہ یوگوسلاویہ سے طیارے میں بٹھا کر روانہ کر دیا تھا۔ اس غیر یقینی صورتحال میں دونوں نو عمر بہنیں امریکا پہنچیں تو دورانِ پرواز ان گم سم اور خوفزدہ بہنوں کو ایک خاتون نے لفافے میں 100 ڈالر کی رقم دی تھی جس سے ان کی مشکلات کم ہوئی تھیں۔


اس لفافے پر خاتون کے متعلق صرف اتنا لکھا تھا کہ وہ ٹینس کھیلتی ہیں، ان کا نام ٹریسی پیک ہے اور وہ بلین، منی سوٹا کی رہائشی ہیں۔ دورانِ پرواز دونوں بہنوں نے اپنی شکستہ انگریزی میں ٹریسی کو اپنا دکھڑا سنایا تھا۔ جہاز سے باہر آتے وقت ٹریسی نے انہیں ایک لفافہ دیا جس پر لکھا تھا:


"مجھے افسوس ہے کہ آپ کے ملک میں بمباری جاری ہے اور آپ کا خاندان مصائب کا شکار ہے۔ امید کرتی ہوں کہ امریکا میں آپ کا رہنا محفوظ اور بامسرت ہوگا۔ امریکا میں خوش آمدید، برائے مہربانی اسے اپنی مدد میں استعمال کیجئےگا۔"


طیارے میں آپ کی دوست


ٹریسی


جب زوگے اور وانیا نے لفافہ کھولا تو اس میں 100 ڈالر کی رقم تھی جو ان کے بہت کام آئی۔ یہاں تک کہ دونوں بہنوں نے 23 برس تک لفافہ سنبھال کر رکھا۔ تاہم انہیں معلوم نہ تھا کہ ایک دن شفیق اجنبی عورت کی یہ نشانی انہیں ملانے کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔ ہاتھ سے لکھے اس لفافے پر اب تک ایک شکن بھی نہیں آئی ہے۔


یہ کہانی امریکی نیوز چینل پر پہنچی تو انہوں نے اس کی شناخت شروع کردی اور جلد ہی ٹریسی کا پتا چل گیا آخرکار انہیں سی این این ہیرو نامی پروگرام میں مدعو کیا گیا۔


ٹریسی کے پہنچنے سے قبل زوگے اور وانیا دونوں کرسمس درخت کے پیچھے چھپ گئیں اور جیسے ہی ٹریسی قریب آئیں تو دونوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور بغل گیر ہوکر تینوں دیر تک روتی رہیں۔ اس حیرت انگیز کہانی پر پورے امریکا سے ہزاروں پیغامات اور ای میل موصول ہوئیں اور لاکھوں افراد نے یہ پروگرام دیکھا.


1999 میں وانیا کونٹینو کی عمر 17 اور زوگے صرف 12 سال کی تھیں جب ان کے والدین نے بحالت مجبوری انہیں الوداع کہا تھا۔ اب وانیا کنیکٹکٹ میں ایک کامیاب انیستھیسیا لوجسٹ ہیں جبکہ 35 سالہ زوگے بوسٹن میں خاتونِ خانہ ہیں۔


انسان کی ترقی کا آغاز ہی سوچ سے ہوتا ہے۔ ہم اپنے خیالات اور رویوں کو تبدیل کر کے اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔ اپنے اندر کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو تلاش کر کے دوسروں کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہو سکتے ہیں 


کائنات ہمیں یہ بتاتی ہے کہ فائدہ مند سب کے لئے ہونا ہے- بنیادی چیزیں جو انسانی زندگی کے لئے لازم ہیں وہ بلا معاوضہ ہیں۔ آکسیجن، زمین جو غذا دیتی ہے، فصل اگاتی ہے، سمندروں میں مچھلیاں بلا معاوضہ ہیں جو غذائی ضروریات پوری کر سکتی ہیں، سورج کی روشنی بلا معاوضہ ہے، بارش سب کے لئے ہے۔ جنگلی حیات سب کے لئے ہے۔


تو قدرت نے تو زندگی برقرار رکھنے کے سب انتظامات ہمیں مہیا کر دئے تھے۔


ایک اصول یہ بھی ہے کہ خیر اور مفید ہونے کا سلسلہ پھلتا پھولتا یے۔ قدرت تو چاہتی ہے کہ سب جیتیں سب کو یکساں مواقع ملیں۔


اگر ہم اپنی سوچ قدرت کے ساتھ ہم آہنگ کر لیں تو ہم بھی ایک دوسرے کیلئے مفید ہو جائیں گے-


ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس سے ہمیں تو فائدہ ہو ہی ہو لیکن نیت یہ رکھیں کہ ہمارے کئے سے دوسروں کو بھی خیر ملنا چاہیے تو قدرت کی طاقتیں ہماری نیت کے ساتھ ایک فریکوئنسی پر کام کرنے لگتی ہیں-


جو بھی کر رہے ہیں اس پر غور کریں اگر جیت صرف آپ رہے ہیں تو یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ اگر آپ دوسروں کا راستہ آسان کر رہے ہیں تو آپکو ایسے اسباب اللہ کی رحمت سے میسر ہوں گے جو آپکی سوچ سے باہر ہوں گے۔


ترقی یافتہ ملکوں نے یہ زاویہ سمجھ لیا ہے- ان ملکوں میں مواقع سب کے لئے ہیں۔ پارک سب کے لئے ہیں۔ سڑکیں سب کے لئے ہیں۔ عزت نفس مجروح کئے بغیر ماحول دوستی کے نام پر مناسب استعمال شدہ اشیاء ارزاں قیمت پر سب بخوشی استعمال کر لیتے ہیں۔ اس لئے کم ازکم کپڑوں، جوتوں، گھر کے فرنیچر،  اشیائے صرف کی بنیاد پر امارت غربت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔


خود کو مفید بنا لیں-

خود غرضی جانے دیں-


جب آپ دوسروں کا بھلا کریں گے تو کائنات کا مالک آپ کی مدد کرے گا کیونکہ آپ اس کے بندوں کی زندگی آسان کرنے میں اپنی توانائی استعمال کر رہے ہیں- یہ کلیہ سمجھ لیں اور دیکھیں زندگی کیسے بدلتی ہے۔


جو دوسروں کیلئے راحت کا اہتمام کرتے ہیں اللہ تعالٰی کی خاص رحمت ان کا مقدر بن جاتی ہے.


دوسروں میں آسانیاں تقسیم کریں. آپ کا راستہ خود بخود ہموار ہو جائے گا. اگر اپ جاننا چاہتے ہیں اللہ تعالی اپ کے ساتھ کیا معاملہ کریگا- تو اپ دیکھیں کہ اپ اس کی مخلوق کے ساتھ کیا معاملہ کر رہے ہیں-


رب العالمين اپنی خاص رحمت سے آپ اور آپ کے گھرانے پر ہمشیہ مہربان رہے اور اپنی شان اور صفات کے مطابق خوب رحمتیں نازل فرمائے۔


آمین

پہلگام کہانی

  پہلگام کہانی اظہر عباس منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر دی۔ د...