سلامتی کونسل میں مختلف مندوبین کا موقف
یورپی یونین کے مندوب اولاف سکوگ نے کہا کہ یہ قرارداد صرف یوکرین سے متعلق نہیں تھی بلکہ یہ عالمی سرحدوں کے دفاع سے معلق ہے۔
شام نے مغرب کے دہرے معیار کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک نے خود حالیہ دہائیوں میں لیبیا، عراق اور افغانستان میں مداخلت کی ہے
xX------------Xx-----------Xx
یوکرین پر حملہ کرنے پر روس کو سزا دینے کیلئے مغربی ممالک نے سخت موقف اختیار کیا ہے تاہم اس اقدام کی وجہ سے منافقت کا اعلیٰ معیار بے نقاب ہوگیا ہے کیونکہ امریکا نے جتنے ملکوں پر حملہ کیا ہے اس پر کبھی بھی اس کیخلاف سخت ترین پابندیاں عائد نہیں کی گئیں۔
یوکرین میں اگر موجودہ حالات نے کچھ ثابت کیا ہے تو وہ یہ ہے کہ امریکا اور اس کے بین البراعظمیٰ ساتھیوں نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام پر ظلم و جبر اور بے رحمی کے ساتھ قبضہ کیا۔ اسی دوران، روس اور ولادیمیر پیوٹن کو یوکرین میں اقدامات کی وجہ سے مرکزی دھارے کا تقریباً پورا میڈیا نازی جرمنی سے تشبیہہ دے رہا ہے۔
غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والے اداریے میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے تو یہ واضح ہونا چاہئے کہ منافقت اور عیاری کسی بھی ملک کو کسی دوسرے ملک کیخلاف حملوں کا جواز نہیں دیتی۔
بہ الفاظ دیگر، چونکہ نیٹو ممالک 2001ء سے دنیا کے مختلف ملکوں پر حملے کرکے تباہی پھیلاتے رہے ہیں اسلئے روس کو بھی ایسا ہی کرنے کا جواز نہیں ملتا۔ کسی بھی ملک کے پاس طاقت کے استعمال کیلئے ٹھوس جواز ہونا چاہئے لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا روس کے اقدامات کو منصفانہ کہا جا سکتا ہے یا کیا یہ کارروائی قابل فہم ہے؟ اس سوال کا جواب قارئین خود دیں گے۔ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ روس نیٹو کو توسیع پسندانہ عزائم کے حوالے سے گزشتہ ایک دہائی سے خبردار کرتا رہا ہے۔
2007ء میں میونخ سیکورٹی کانفرنس میں روسی صدر نے واضح طور پر وہاں موجود طاقتور ممالک سے سوال کیا تھا کہ روس کی سرحدوں پر عسکری انفرا اسٹرکچر لگانے کی آخر ضرورت کیا ہے، کیا کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟ بعد میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ روسی سرحد پر عسکری اثاثہ جات جمع کرنا کسی بھی طرح سے انفرادی ریاستوں کا جمہوری فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
روسی صدر کی آواز پر کسی نے دھیان نہیں دیا اور نیٹو نے چار ممالک (البانیہ، کروشیا، مونٹی نیگرو اور شمالی مقدونیہ) کو رکنیت دیدی۔ تصور کریں کہ امریکا کو کتنی مرچیں لگتیں جب روس بھی ایسا ہی توسیع پسندانہ اقدام کرتے ہوئے جنوبی امریکی ریاستوں کو اپنا حصہ بنانا شروع کردے۔
روس کیلئے سب سے پریشان کن وقت وہ تھا جب امریکا اور نیٹو نے یوکرین میں جدید ترین اسلحہ جمع کرکے وہاں انبار لگا دیا اور یوکرین کو شہ دی کہ وہ نیٹو کی رکنیت حاصل کرے۔ یہی وہ وقت تھا جب یوکرین سے روس کو اپنی بقاء کا خطرہ لاحق ہوگیا۔
دسمبر 2021ء میں جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو روس نے سیکورٹی کی ضمانت کیلئے ایک معاہدہ امریکا اور نیٹو ممالک کو پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مشرق کی جانب نیٹو کی توسیع روک دی جائے اور یوکرین سمیت دیگر ممالک کو نیٹو کی رکنیت نہ دی جائے۔
اس دستاویز میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ نیٹو یوکرین سمیت مشرق کی جانب دیگر ریاستوں اور وسط ایشیائی ریاستوں میں کوئی فوجی مشقیں یا دیگر سرگرمیاں نہیں کرے گا۔ ایک مرتبہ پھر روس کی تجاویز کو تکبر کی نگاہ سے مسترد کر دیاگیا۔ اگرچہ لوگوں کی نظر میں روس کی کارروائی حیران کن اور ناقابل قبول ہو سکتی ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روس نے خبردار نہیں کیا تھا کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ 24؍ فروری کو صبح کو روس نیند سے جاگا اور اٹھ کر یوکرین پر حملہ کر دیا۔
اگر روس نے غلط کیا تو امریکا اور اس کے اتحادی ممالک گزشتہ دو دہائیوں سے کیا کرتے رہے ہیں؟ مثال کے طور پر عراق جنگ کو ہی دیکھ لیں، عراق پر حملے کے بعد کے نتائج میں مغربی میڈیا خود اعتراف کرتا ہے کہ یہ جنگ انٹیلی جنس اطلاع کی ناکامی کا نتیجہ تھی، امریکا اور اتحادیوں نے بلا اشتعال عراق پر چڑھائی کر دی۔
9/11 کے حملے کے بعد امریکا نے براہِ راست صدام حسین پر الزام عائد کردیا کہ اس کے پاس وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ جس وقت امریکا اور اقوام متحدہ کے ماہرین اس الزام کی تصدیق کیلئے عراقی سرزمین پر موجود تھے ٹھیک اسی وقت امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور پولینڈ نے 19؍ مارچ 2003ء کو عراق پر تباہ کن حملہ شروع کر دیا۔ قلیل عرصہ میں امریکا اور اس کے ساتھیوں نے دس لاکھ معصوم عراقیوں زخمی کیا، بے گھر کیا اور لاکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
کیا یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں تھی؟ سینٹر فار پبلک انٹیگریٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بش انتظامیہ نے عوام میں اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کیلئے 2001ء سے 2003ء کے درمیان میڈیا میں 900؍ جھوٹ بولے اور یہ راگ الاپا کہ عراق سے امریکا اور اس کے شراکت دار ممالک کو خطرہ ہے۔
لیکن وہی مغربی میڈیا جو آج روسی جنگ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے اسے عراقی زمین پر امریکی بوٹ اور عراقیوں کے خون میں کوئی انسانی حقوق نظر نہیں آئے۔ چونکہ فرانس نے عراق جنگ کی مخالفت کی تھی اسلئے امریکی سیاست دانوں نے غرور اور تکبر میں فرانسیسی شراب اور پانی کی بوتلوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
اب اس تمام تر صورتحال کا یوکرین کی موجودہ صورتحال کے ساتھ تقابل کریں جہاں اصولوں کے ترازو میں پلڑا روس کیخلاف ہے اور برسوں سے خدشات کے اظہار کے باوجود روس کے تحفظات دور نہ کیے جانے پر بھی کیا روس کو یہ اقدام کرنے کا جواز نہیں تھا؟ قارئین چاہے کچھ بھی سوچیں لیکن روس کیخلاف اس قدر شدید پابندیاں برسوں سے پابندیاں عائد کرنے کے باوجود عائد کی گئی ہیں تو امریکا اور مغرب کی منافقت پر ان کیخلاف کوئی پابندی کیوں نہیں عائد ہوئی؟
روسی افراد اور روسی معیشت کیخلاف پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ، فرانس کے وزیر معیشت کا بیان بڑا ہی دلچسپ ہے کہ فرانس روس کیخلاف مکمل معاشی اور مالیاتی جنگ کیلئے پر عزم ہے۔ پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ روسی میڈیا اور اصل خبروں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ ان خبروں کے ذریعے مغربی ممالک کو اصل صورتحال کا پتہ چل سکتا ہے۔
 
 
